@123”كلما تزوجت امرأة فهي طالق ”والے الفاظ سے طلاق واقع ہو نے کا حکم
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک طالب ِ علم نے طالبِ علمی کے زمانے میں یہ الفاظ ذہن میں گونج رہے تھے کہ جس کا ایک مرتبہ بلا اختیار منہ سے اظہار ہوگیا ”کلما تزوجت امرأة فهي طالق ” جبکہ قصد وارادہ نہیں تھا تو اس پر کوئی حکمِ شرعی مرتب ہوگا یا نہیں، اگر ہوگا تو چھٹکارہ کیسے ہوگا؟
جواب:
مذکورہ صورت میں جب بھی یہ طالب علم نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو گی، کلما کی طلاق سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک اجنبی شخص اس طالب کے حکم کے بغیر اس کا نکاح کردے اور جب طالب علم کو خبر ہوجائے تو زبان سے کچھ کہے بغیر وہ اپنے عمل سے اس نکاح کو نافذ کردے، مثلا مہر کی ادائیگی کرے اس طرح نکاح درست ہو جائے گا اور طلاق بھی واقع نہ ہو گی۔
حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، ص: 206:
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا … (أو مخطئا) بأن أراد التكلم بغير الطلاق فجرى على لسانه الطلاق أو تلفظ به غير عالم بمعناه أو غافلا أو ساهيا أو بألفاظ مصحفة يقع قضاء فقط، بخلاف الهازل واللاعب فإنه يقع قضاء وديانة، لان الشارع جعل هزله به جدا.
وفي الرد المحتار لابن عابدين، كتاب الأيمان، باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك 3/ 846:
(حلف لا يتزوج فزوجه فضولي فأجاز بالقول حنث وبالفعل) ومنه الكتابة خلافا لابن سماعة (لا) يحنث به يفتى خانية (ولو زوجه فضولي ثم حلف لا يتزوج لا يحنث بالقول أيضا) اتفاقا لاستنادها لوقت العقد (كل امرأة تدخل في نكاحي) أو تصير حلالا لي (فكذا فأجاز نكاح فضولي بالفعل لا يحنث) بخلاف (قوله فأجاز بالقول) كرضيت وقبلت نهر وفي حاوي الزاهدي لو هنأه الناس بنكاح الفضولي فسكت فهو إجازة (قوله حنث) هذا هو المختار كما في التبيين وعليه أكثر المشايخ والفتوى عليه كما في الخانية وبه اندفع ما في جامع الفصولين من أن الأصح عدمه بحر (قوله وبالفعل) كبعث المهر أو بعضه بشرط أن يصل إليها وقيل الوصول ليس بشرط نهر وكتقبيلها بشهوة وجماعها لكن يكره تحريما لقرب نفوذ العقد من المحرم بحر.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:577
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-11