Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

محلہ کی ہرمسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے ؟:

سوال:
   ایک گاؤں میں اگر دو چار مسجدیں ہوں، تو ہر مسجد میں اعتکاف کے لیے ایک ایک آدمی بیٹھے گا، یا صرف ایک مسجد میں بیٹھنا کافی ہوگا ؟
جواب:
   جس طرح تراویح باجماعت محلہ کی ہر مسجد میں پڑھنا سنت موکدہ علی الکفایہ ہے، اسی طرح محلہ میں جتنی مساجد ہوں، ہر مسجد میں اعتکاف کرنا سنت موکدہ علی الکفایہ ہے، لہذا پورے محلہ میں سے ایک آدمی بھی اگر اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے تو باقیوں کا ذمہ ساقط ہوگا، ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين،كتاب الصوم،باب الاعتكاف2/ 442:
   (قوله أي سنة كفاية) نظيرها إقامة التراويح بالجماعة فإذا قام بها البعض سقط الطلب عن الباقين فلم يأثموا بالمواظبة على ترك بلا عذر، ولو كان سنة عين لأثموا بترك السنة المؤكدة إثما دون إثم ترك الواجب.
2. أيضا :
   ( والجماعة فيها سنة على الكفاية الخ ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين فلو تركها واحد كره بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية فلو تركها الكل أساؤوا… وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة، أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول، واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا، اھ. وظاهر كلامهم هنا أن المسنون كفاية إقامتها بالجماعة في المسجد، حتى لو أقاموها جماعة في بيوتهم ولم تقم في المسجد أثم الكل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:798
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28




مکان کی دیوار وغیرہ پر الفاظ مقدسہ لکھنا:

سوال:
   نئے مکان پر ”ما شاء اللہ” یا ”ھذا من فضل ربی” لکھنا یا کسی تختہ پر لکھ کر لٹکانا جا ئز ہے یا نہیں؟
جواب:
   سوال میں ذکرکردہ الفاظ مکان کی دیوار پر لکھنا یا تختہ وغیرہ پر لکھ کر لٹکانا جائز ہے بشرطیکہ بے ادبی کا اندیشہ نہ ہو، اگر بے ادبی کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوی الهندية للجنة العلماء،كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف، وما كتب فيه شيء من القرآن3/ 260:
   لو كتب القرآن على الحيطان والجدران بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز ذلك، وبعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس.
2. البحر الرائق لابن نجيم،كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل2/ 40:
   وليس بمستحسن كتابة القرآن على المحاريب والجدران لما يخاف من سقوط الكتابة وأن توطأ، وفي جامع النسفي مصلى أو بساط فيه أسماء الله تعالى يكره بسطه واستعماله في شيء.
3. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، باب المياه1/ 179:
   أقول: في فتح القدير: وتكره كتابة القرآن وأسماء الله تعالى على الدرهم والمحاريب والجدران وما يفرش. والله تعالى أعلم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:797
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28




غیر مسلموں کے ساتھ کھانا کھانا:

سوال:
    کافر کے ساتھ کھانا کھانا يا اس کی ہاتھ کی پکی ہوئی چیز کھانا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   غیر مسلموں کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھار کھانا کھانا درست ہے، لیکن اس کی عادت بنانا مکروہ ہے،  اور ان کے ہاتھ  کی پکی ہوئی چیز كهانا جائز ہے بشرطیکہ وہ حرام نہ ہو۔

حوالہ جات:

1. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل السادس عشر في معاملة أهل الذمة5/ 362:
   قال عليه السلام: «سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير ناكحي نسائهم، ولا آكلي ذبائحهم» ولم يذكر محمد رحمه الله الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا؟ وحكي عن الحاكم عبد الرحمن الكاتب: أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به، فأما الدوام عليه يكره؛ لأنا نهينا عن مخالطتهم وموالاتهم وتكثير سوادهم، وذلك لا يتحقق في الأكل مرة أو مرتين، إنما يتحقق بالدوام عليه.




مردوں کے لیے کڑا پہننا کیسا ہے؟:

سوال:
   عورتوں کے لیے ہاتھوں میں چوڑیاں پہننا درست ہے یا نہیں؟ نیز اگر کوئی مرد ہاتھ میں کڑا پہنے تو جائز ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ خواتین کے لیے سونا، چاندی یا دیگر دھاتوں سے بنے ہوئے زیورات کا استعمال درست ہے، جبکہ مردوں کے لیے ساڑھے چار ماشے چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ دیگر زیورات یا کڑا وغیرہ کا استعمال درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس 6/ 352:
   ولا بأس لهن بلبس الديباج والحرير والذهب والفضة واللؤلؤ.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الكراهية، فصل في اللبس، لبس ما سداه حرير ولحمته قطن أو خز8/ 216:
   (ولا يتحلى الرجل بالذهب والفضة إلا بالخاتم والمنطقة، وحلية السيف من الفضة) لما روينا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:795
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28




کھانے سے پہلے ہاتھ دھوکر تولیہ سے پونچھنا:

سوال:
   کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور کلی کرنے کا کیا حکم ہے، نیز ہاتھ دھوکر تولیہ سے پونچھنا جائز ہے؟
جواب:
   كهانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنت ہے، لیکن رومال یا تولیہ سے نہیں پونچھنا چاہیے، البتہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھوکر تولیہ یا کپڑے سے پونچھے میں مضائقہ نہیں، اور کھانا کھانے سے پہلے کلی کرنا جائز ہے، لیکن مسنون نہیں۔

حوالہ جات:
1. رد المختار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة6/ 340:
   وسنة الأكل البسملة أوله والحمد له آخره، وغسل اليدين قبله وبعده، ويبدأ بالشباب قبله وبالشيوخ… قال ابن عابدين تحت قو له: (قوله وغسل اليدين قبله) لنفي الفقر ولا يمسح يده بالمنديل ليبقى أثر الغسل وبعده لنفي اللمم ويمسحها ليزول أثر الطعام، وجاء أنه بركة الطعام، ولا بأس به بدقيق، وهل غسل فمه للأكل سنة كغسل يده، الجواب لا لكن يكره للجنب قبله.
2. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارات، الفصل الرابع في المياه التي يجوز التوضؤ بها إلخ 1/ 123:
   فإن من سنة الطعام غسل اليدين قبله وبعده كما جاء به الحديث.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الكراهية، غسل اليدين قبل الطعام8/ 208:
   ويستحب غسل اليدين قبل الطعام فإن فيه بركة، وفي البرهانية: والسنة أن يغسل الأيدي قبل الطعام وبعده… وإذا غسل لا يمسح بالمنديل لكن يترك ليجف ليكون أثر الغسل باقيا وقت الأكل، والأدب في الغسل بعد الطعام أن يبدأ بالشيوخ ويمسح بالمنديل ليكون أثر الطعام زائلا بالكلية وفي التتمة سئل والدي عن غسل الفم للأكل؛ هل هو سنة كغسل اليد؟ فقال لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:794
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28




ڈو(DOVE)صابن استعمال کرناکیساہے؟:

سوال:
   ڈو(DOVE) صابن کے بارے میں یہ بات مشہور ہوچکی ہے کہ اس کا استعمال کرنا درست نہیں، اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں خنزیر کی چربی استعمال کی جاتی ہے تو اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہوجائے کہ اس میں خنزیر یا کسی حرام جانور کی چربی استعمال ہوئی ہے اس وقت تک اس چیز کو حرام نہیں سمجھنا چاہیے، البتہ یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ فلاں چیز میں خنزیر وغیرہ کی چربی استعمال ہوئی ہے تو اس کے استعمال سے بچنا ضروری ہے، لیکن صابن کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر بالفرض اس میں اس قسم کی کوئی حرام چیز یقینی طور پر ملائی گئی ہے تو چونکہ صابن کو بناتے وقت کیمیاوی عمل سے گزارا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی ماہیت  بدل جاتی ہے، اور ماہیت بدلنے سے وہ صابن پاک ہوجاتا ہے، لہذا  ڈو (DOVE) صابون کا استعمال کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب نواقض الوضوء 1/ 148:
   فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الطهارة، باب الأنجاس 1/ 239:
   وفي المجتبى جعل الدهن النجس في صابون يفتى بطهارته؛ لأنه تغير والتغيير يطهر عند محمد ويفتى به للبلوى

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:793
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28

 




وراثت میں کسی چیز پر ناحق قبضہ کرنا:

سوال:
   ایک شخص نے ٹیکسی گاڑی خرید کر اس شرط پر بیٹے کودے دی، کہ وہ اس سے کما کربیوی  بچوں کا خرچہ برداشت کرے، اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ گاڑی میری ہوگی، اس معاہدے پر گواہ بھی موجودہیں، پھر دینے والے شخص کا انتقال ہوگیا، بیٹے نے گاڑی پر قبضہ کرلیا اورملکیت کا دعویدار بن گیا، اب وہ اس کو ترکہ میں شامل کرنے کو تیار نہیں، تواس کا کیا حل ہوگا؟ 
جواب:
   مذکورہ صورت میں بیٹے کا اپنی ملکیت کا دعوی کرنا بے بنیاد ہے، اس لیے کہ والد کی ملکیت پر باقاعدہ گواہ موجود ہیں، چنانچہ یہ ٹیکسی ترکہ میں شامل ہوگی اور تمام ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کی جائےگی۔
یاد رہے کہ کسی کے حق پر ناجائز قبضہ کرنابڑا گناہ ہے، مختلف احادیث میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

حوالہ جات: 
1. صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيرها، الرقم: 1610:
عن سعيد بن زيد، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»
2. السنن الكبرى، كتاب قتال أهل البغي، باب أهل البغي إلخ، الرقم: 16756:

   عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال رجل مسلم لأخيه , إلا ما أعطاه بطيب نفسه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:792
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28




غیر مسلم کا مسجد میں داخل ہونا:

سوال:
   غیر مسلم عورت کا مسجد کے اندر داخل ہونا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   غیر مسلم چاہے مرد ہو یا عورت اگر اس کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست  لگی ہوئی نہ ہو تو کسی اہم مقصد کے لیے اس کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے، عہد رسالت میں مختلف کفار ومشرکین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا ثابت ہے۔

حوالہ جات:

1. المصنف لابن أبي شيبة، كتاب صلاة التطوع والإمامة، في الكفار يدخلون المسجد، الرقم: 8775:
عن الحسن، أن وفد ثقيف قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم، وهو في المسجد في قبة له، فقيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، إنهم مشركون، فقال: «إن الأرض لا ينجسها شيء».
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف، كان إلى المسجد مدخل من دار موقوفة 5/ 271:
   ولا بأس أن يدخل الكافر وأهل الذمة المسجد الحرام، وبيت المقدس، وسائر المساجد لمصالح المسجد، وغيرها من المهمات.
3. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الوقف، مطلب في جعل شيء من المسجد طريقا4/ 378:
   ولا بأس أن يدخل الكافر وأهل الذمة المسجد الحرام، وبيت المقدس، وسائر المساجد لمصالح المسجد، وغيرها من المهمات، ومفهومه أن في دخوله لغير مهمة بأسا، وبه يتجه ما هنا فافهم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:791
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27




قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص قرآن پر ہاتھ رکھ  کر قسم کھائے کہ میں فلاں کام نہیں کروں گا، پھر وہ کام کرے، تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:
   قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے قسم منعقد ہو جاتی ہے، اور کفارہ بھی لازم ہوگا، البتہ اگر قرآن کریم پر صرف ہاتھ رکھا ہو، لیکن قسم نہ کھائی ہو تو اس سے قسم منعقد نہیں ہوتی۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الأيمان 713/3:
   قال الكمال: ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف، فيكون يمينا، وأما الحلف بكلام الله فيدور مع العرف، وقال العيني: وعندي أن المصحف يمين لا سيما في زماننا، وعند الثلاثة المصحف والقرآن وكلام الله يمين.
2. النهر الفائق لابن نجيم، كتاب الإيمان 3/ 55:
   ولا يخفى أن الحلف به متعارف فيكون يمينا كما هو قول الأئمة الثلاثة، قال العيني: وعندي أنه لو حلف بالمصحف أو وضع يده عليه وقال: (وحق) هذا فهو يمين، ولا سيما في زماننا الذي كثرت فيه الأيمان الفاجرة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:790
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27




میک اپ صاف کیے بغیر فرض وضو یا غسل کرنا:

سوال:
   آج کل عورتیں ایسا میک اپ (make up)لگاتی ہیں، جو چہرہ پر صرف پانی ڈالنے سے ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کو ختم کرنے کے لیے صابن سے اچھی طرح چہرہ کو دھونا ضروری ہوتا ہے، تو کیا اس قسم کے میک اپ کے ساتھ وضو اور غسل کرنا جائز ہے؟
جواب:
   اگر میک اپ میں استعمال ہونے والی اشیاء ایسی ہوں، جن کی تہہ بنتی ہو اور چمڑے تک پانی پہنچنے سے رکاوٹ ہو، تو اس قسم کے میک اپ کے ساتھ وضو اور غسل کرنا درست نہیں ہو گا، لیکن اگر چمڑے تک پانی بآسانی پہنچتا ہو تو وضو اور غسل دونوں درست ہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، فرض الغسل1/ 154:
   (و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف، به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح.
2. الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الطهارة، الفصل الأول في فرائض الغسل1/ 13:
   والعجين في الظفر يمنع تمام الاغتسال والوسخ والدرن لا يمنع، والقروي والمدني سواء والتراب، والطين في الظفر لا يمنع والصرام والصباغ ما في ظفرهما يمنع تمام الاغتسال.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:789
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27