@123لے پالک بچی کو باپ کے بجائے اپنی طرف منسوب کرنا
سوال:
ایک بچی کا والد افغان جہاد میں شہید ہو گیاتھا، اور جلد ہی ان کی والدہ فوت ہوگئی، اس بچی کو میری بہن نے گود میں لے لیا، اس بچی کے والد اور والدہ کا نام معلوم نہیں، جس کی وجہ سے میری بہن اور بہنوئی نے اس بچی کو اپنا نام دیا ہے، اس بچی کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کیا اور شناختی کارڈ میں بھی اپنا نام والد کی جگہ درج کروایا، اسلامی نقطہ نظر سے رہنمائی درکار ہے۔
جواب:
چونکہ مذکورہ شخص اس بچی کا حقیقی والد نہیں ہے اس لیے بطور والد اس بچی کے کاغذات میں اپنا نام لکھنا درست نہیں، البتہ اس بچی کا شناختی کارڈ وغیرہ بناتے وقت اپنا نام اس کے کاغذات میں بطور سرپرست لکھوانا درست ہے۔
حوالہ جات:
قال الله تعالى: الأحزاب، سورة نمبر 33، آية نمبر 5:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.
وفي التفسيرالمظهري، الأحزاب، سورة نمبر 33، آية نمبر 5، 7/ 284:
فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آباءَهُمْ حتى تنسبوا اليه فَإِخْوانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوالِيكُمْ اى فهم إخوانكم فى الدين وأولياءكم فقولوا هذا أخي فى الدين.
وفي صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب غزوة الطائف، الرقم: 4326:
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن عاصم، قال: سمعت أبا عثمان، قال: سمعت سعدا، وهو أول من رمى بسهم في سبيل الله، وأبا بكرة، وكان تسور حصن الطائف في أناس فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالا: سمعنا النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم فالجنة عليه حرام».
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:625
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13