Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

کرایہ دار سے ایڈوانس یا پگڑی کے طور پر رقم لینا:

سوال:
   ہمارے مردان بازار میں جب کوئی شخص کوئی دکان، کرایہ پر لینا چاہتاہے، تو دکان کا کرایہ 30 ہزار یا 40 ہزار ہوتا ہے اور مالک دکان ایڈوانس، پیشگی 10 لاکھ مانگتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ مالک دکان یہ دس 10 لاکھ  پیشگی استعمال کرے گا، لہذا پوچھنا یہ ہے کہ یہ ایڈوانس دینا کیسا ہے، اور اس کا استعمال مالک دکان کے لیے کیسا ہے؟
جواب:
   پیشگی رقم اگر پگڑی کے طور پر مانگی گئی ہے، تو چونکہ مروجہ پگڑی کی رقم قبضہ کے بدلہ میں لی جاتی ہے، اس لیے یہ رشوت کے حکم میں ہونے کی وجہ سے حرام ہے، تاہم اگر یہ رقم سیکورٹی کے طور پرمانگی گئی ہے، كہ کرایہ دار کے ذمہ ماہانہ کرایہ یا بجلی کے بلز جمع ہونے یا کرایہ دار کا دکان کو نقصان پہنچانے کی صورت میں اس پیشگی رقم سے اس کا تدارک ہوسکے، تو یہ رقم (ایڈوانس ) لینا درست ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے کرایہ میں کمی نہ کی جائے اور یہ رقم مالک دکان کے پاس بطور امانت ہوگی، اور اس کا اصل مالک کرایہ دار ہی ہوگا اور آخر میں اجارہ داری ختم ہونے پر اس کو واپس کرنا ہوگا، البتہ اگر مالک دکان نے اس رقم کو استعمال کرلیا، جس کی عرفا اجازت بھی ہوتی ہے، تو یہ رقم اس کے ذمہ قرض ہو جائے گی، جو کہ بعد میں اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى التا تارخانية، 56/16:
   المودع إذا خلط الوديعة بماله أو بوديعة أخرى بحيث لا يتميز ضمن.
2. رد المحتار لابن عابدين الشامي، كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية 4/ 518:
      (قوله: لا يجوز الاعتياض إلخ) لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن.
3. البحوث في قضايا فقهية معاصرة لمحمد تقي عثماني، البحث الثالث، بيع حق المجردة 1/ 108 :
   تحقق مما ذكرنا أن بدل الخلو المتعارف الذي يأخذه المؤجر من مستأجره لا يجوز، ولا ينطبق هذا المبلغ المأخوذ على قاعدة من القواعد الشرعىة، وليس ذلك إلارشوة حراما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:720
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




والدہ اور بھائی میں سے ولایتِ نکاح کس کو حاصل ہے اور لڑکی کی بلوغت کی عمر کیا ہے؟:

سوال:
1)   ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ برس ہے اور اس کے دو بالغ بھائی موجود ہیں، اس کا نکاح بھائیوں کی رضامندی کے بغیر والدہ نے کردیا ہے ، یہ نکاح جائز ہے ؟ 
2)   تیرہ برس کی لڑکی  بالغہ ہے یا نا بالغہ؟
جواب:
1)   بھائی کی موجودگی میں والدہ کو ولایتِ نکاح حاصل نہیں، لہذا والدہ نے بھائی کی اجازت کے بغیر جو نکاح کرایا ہے، وہ لڑکی کے بھائی کی اجازت پر موقوف ہے، اگر اس نے اجازت دے دی تو نکاح درست ہے ورنہ درست نہیں۔
2)   بلوغت كا معیار عمر کے لحاظ  سے کم از کم  پندرہ (15) سال ہے، اگر لڑکی کی عمر پندرہ سال سے کم ہو، تو اس کی بلوغت کا معیار حیض یا احتلام یا حمل کا  ٹھہرنا ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک ظاہر ہوا ہے تو بالغ ہے ورنہ نابالغ ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي 3/ 81:
   فلو زوج الأبعد حال قيام الأقرب توقف على إجازته، ولو تحولت الولاية إليه لم يجز إلا بإجازته.
2. الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب النكاح وفيه أحد عشر بابا، الباب الرابع في الأولياء في النكاح 1/ 285:
   وإن زوج الصغير أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب المأذون، فصل بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال 5/ 203:
   فصل بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال … والجارية بالحيض والاحتلام والحبل وإلا فحتى يتم لها سبع عشرة سنة ويفتى بالبلوغ فيهما بخمس عشرة سنة) وهذا عند أبي يوسف ومحمد رحمهما الله وهو قول الشافعي ورواية عن أبي حنيفة والأول قول أبي حنيفة رحمه الله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:717
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




فرشتوں کو گواہ بنا کرنکاح کرنا:

سوال:
   زید اور زینب نے فرشتوں کو گواہ بنا کر نکاح کیا، تو کیا یہ نکاح درست ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بوقت ایجاب و قبول  بطور گواہ موجود ہوں، لہذا فرشتوں کو گواہ بنانے سے نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

حوالہ جات:
1. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، شروط النكاح وأركانه 2/ 98:
   (عند حرين أو حر وحرتين عاقلين بالغين مسلمين، ولو فاسقين أو محدودين أو أعميين أو ابني العاقدين) يعني ينعقد بتلك الألفاظ التي تقدم ذكرها إذا وجدت عند رجلين حرين أو رجل حر وامرأتين حرتين يعني به حضور الشهود ولا ينعقد إلا بحضورهم.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح 3/ 94:
   وفي الخانية والخلاصة: لو تزوج بشهادة الله ورسوله لا ينعقد.
3. الفتاوى السراجيه لسراج الدين الأوشي، كتاب النكاح، باب انعقاد النكاح 1/ 192:
   النکاح لا ینعقد بشهادة العبيد والسكران الذي لا يعقل وبشهادة الملائكة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:714
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




@123 جن مرد یا جنیہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا

سوال:
انسان کا جنیہ عورت کے ساتھ نکاح شرعا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
چونکہ انسان اور جنات دونوں الگ الگ جنس ہیں، اور نکاح کے لیے میاں بیوی کا ایک ہی جنس سے ہونا ضروری ہے، لہذا کسی مرد کا جنیہ عورت کے ساتھ اور جن مرد کا کسی انسان عورت  کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح 3/ 5:
لا تجوز المناكحة بين بني آدم والجن، وإنسان الماء؛ لاختلاف الجنس،  اهـ ، وفاد المفاعلة أنه لا يجوز للجني أن يتزوج إنسية أيضا.
و في الفتاوى السراجية لسراج الدين الأوشي، كتاب النكاح، باب نكاح المحارم 1/ 193:
لا یجوز المناكحة بين بني آدم والجن، والإنسان المائي لاختلاف الجنس.
و في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح 3/ 138:
والاولى أن يقال: إن محلية الانثى المحققة من بنات آدم … والجنية للانسى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:713
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




@123میت کو دفن کرنے کے بعد قبر میں اذان دینا

سوال:
قبر میں میت دفن کرنے کے بعد اذان دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
قبر میں میت کو دفن کرنے کے بعد اذان دینا نبی کریمﷺ یا ان کے صحابہ سے ثابت نہیں، اس لیے قبر میں دفنانے سے پہلے یا بعد میں  اذان دینا بدعت ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز 3/ 166:
في الاقتصار على ما ذكر من الوارد إشارة إلى أنه لا يسن الأذان عند إدخال الميت في قبره، كما هو المعتاد الآن، وقد صرح ابن حجر في فتاويه بأنه بدعة، وقال: ومن ظن أنه سنة قياسا على ندبهما للمولود إلحاقا لخاتمة الأمر بابتدائه، فلم يصب.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب  الصلاة، باب الأذان 1/ 445:
ورأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود والمهموم والمفزوع والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر، شرح العباب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:716
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




بیوی کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنا:

سوال:
   میاں بیوی کا آپس میں با جماعت نفل نماز پڑھنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   میاں بیوی کا آپس میں باجماعت نفل نماز پڑھنا جائز ہے، تاہم ان کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نہ ہوں، بلکہ بیوی شوہر سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو۔  

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الإمامة 1/ 601:
   حتى لو صلى في بيته بزوجته أو جاريته أو ولده فقد أتى بفضيلة الجماعة.
2. رد المحتار لابن عابدين،كتاب الصلاة، باب الإمامة 1/ 379:
   المرأة إذا صلت مع زوجها في البيت، إن كان قدمها بحذاء قدم الزوج لا تجوز صلاتهما بالجماعة، وإن كان قدماها خلف قدم الزوج إلا أنها طويلة تقع رأس المرأة في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتهما؛ لأن العبرة للقدم.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، صلاة الجماعة 1/ 385:
   وذكر القدوري: أنه إذا فاتته الجماعة، جمع بأهله في منزله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:715
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




@123عدت میں نکاح کرنا کیسا ہے؟

سوال:
میں نے ایک شخص کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ عورت تو عدت طلاق میں ہے، تو کیا یہ نکاح جائز ہے؟
جواب:
عدت میں کیا ہوا نکاح شرعا باطل اور ناجائز ہے، لہذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ہے، میاں بیوی کو چاہیے کہ فورا ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں اور عدت گزرنے کے بعد اگر وہ آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح وفيه أحد عشر بابا، الباب الثالث في بيان المحرمات وهي تسعة أقسام، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير 1/ 280:
لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره، وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج، سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، باب العدة، عدة زوجة الصغير الحامل 4/ 156:
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير؛ لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة، لكونه زنا كما في القنية.
وفي الدر المختار للحصکفی، كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد 3/ 132:
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير، لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة؛ لأنه زنى كما في القنية وغيرها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:711
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




@123 مکرہ کی طلاق کا حکم

سوال:
ایک شخص نے اپنے بھائی کو مارا کہ تو اپنے اپنی بیوی کو طلاق دے،اس نے جان  کے خوف سے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، تو یہ طلاق ہوتی ہے، یا نہیں؟
جواب:
زبان سے الفاظ طلاق ادا کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، چاہے زبردستی سے ہو یا رضامندی سے، اس لیے مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوچکی ہے۔

حوالہ جات:
لما في  الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، 3/ 235:
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق.
و في المبسوط شمس الأئمة السرخسي، كتاب الإكراه 24/ 40:
طلاق المكره، واقع سواء كان المكره سلطانا، أو غيره أكرهه بوعيد متلف، أو غير متلف.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطلاق، باب طلاق السنة 1/ 224:
ويقع طلاق كل زوج إذا كان عاقلا بالغا، ولا يقع طلاق الصبي والمجنون والنائم، لقوله عليه الصلاة والسلام؛ كل طلاق جائز إلا طلاق الصبي والمجنون، ولأن الأهلية بالعقل المميز، وهما عديما العقل والنائم عديم الاختيار، وطلاق المكره واقع؛ خلافا للشافعي رحمه الله هو يقول إن الإكراه لا يجامع الاختيار، وبه يعتبر التصرف الشرعي بخلاف الهازل لأنه مختار في التكلم بالطلاق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:705
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




@123وقوف عرفہ کے بعد جماع کرنے کا حکم

سوال:
وقوف عرفات کے بعد طواف زیارت اور حلق سے پہلے اگر کسی نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا،  تو اس پر ایک بدنہ یعنی اونٹ کا دم لازم ہوتا ہے، اور طواف زیارت سے پہلے اور حلق کے بعد بھی جماع کرنے سے بعض حضرات کے نزدیک اونٹ کا دم لازم ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک بکری لازم آتی ہے، تو مفتی بہ قول کون سا ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں چونکہ اکثریت کا قول بکری ذبح کرنے کا ہے اس لیے یہی ہے کہ بکری ذبح کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الحج، باب الجنايات في الحج 2/ 560:
وطؤه (بعد وقوفه لم يفسد حجه، وتجب بدنة، وبعد الحلق) قبل الطواف (شاة) لخفة الجناية.
و في الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الحج، فصل فإن نظر إلى فرج امرأته بشهوة 1/ 161:
ومن جامع بعد الوقوف بعرفة لم يفسد حجه، وعليه بدنة … وإن جامع بعد الحلق فعليه شاة؛ لبقاء إحرامه في حق النساء دون لبس المخيط.
وفي الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب المناسك وفيه سبعة عشر بابا، الباب الثامن في الجنايات، الفصل الخامس في الطواف والسعي والرمل ورمي الجمار1/ 245:
ولو جامع امرأته بعد الوقوف بعرفة لا يفسد حجه، جامع ناسيا أو عامدا كذا في فتاوى قاضي خان، ويجب على كل واحد منهما بدنة … وإن جامع بعد الحلق فعليه شاة، كذا في الكافي.
و في غنية المناسك لمحمد حسن المهاجر المكي، باب الجنايات، مطلب في الجماع بعد الوقوف 1/ 419:
وأما لو جامع بعد وقوفه بعرفة ولو حال الوقوف أو بعده قبل الحلق، وقبل طواف الزيارة كله أو أكثره فلم يفسد حجه سواء جامع قبل الرمي أوبعده وقالت الثلاثة: يفسد إذا جامع  قبل الرمي عليه وعليه بدنة سواء جامع ناسيا أو عامدا … وبعد الحلق قبل طواف الزيارة كله أو أكثره شاة وعليه المتون، وقيل بدنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:710
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




مسجد میں نماز کےلیے جگہ مختص کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   ایک مسجد میں دو بوڑھے حضرات نے اپنےلیے امام کے پیچھے جگہ مخصوص کی ہے، اس جگہ میں ان کے علاوہ کوئی اور کھڑا نہیں ہوسکتا ،تو ان کا یہ عمل جائز ہے؟
جواب:

   مسجد میں نماز کے لیے کسی جگہ کو اس طور پر خاص کرنا کہ کسی اور کو وہاں بیٹھنے ہی نہ دیا جائے ممنوع ہے، تاہم اگر کوئی شخص کسی جگہ نماز کے لیے بیٹھ گیا، اور کسی عذر سے وہاں سے چلا گیا، تو واپس آنے تک وہ اس جگہ کا حقدار ہے، کسی اور کے لیے وہاں اس کی اجازت کے بغیر بیٹھنا درست نہیں ۔

حوالہ جات:
1. سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب صلاة من لا يقيم صلبه في الركوع والسجود، الرقم: 862:
عن عبد الرحمن بن شبل، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نقرة الغراب وافتراش السبع، وأن يوطن الرجل المكان في المسجد، كما يوطن البعير».
2. بذل المجهود للشيخ خليل أحمد السهارنفوري، كتاب الصلاة، باب صلاة من لا يقيم صلبه في الركوع والسجود 4/ 330:
وعندي في النهي عن توطين الرجل مكانا معينا في المسجد وجه آخر، وهو أنه إذا وطن المكان المعين في المسجد يلازمه، فإذا سبق إليه غيره يزاحمه، ويدفعه عنه، وهو لا يجوز؛ لقوله عليه السلام: لا، مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ، فكما هو حكم مِنًى، فهو حكم المسجد، فمن سبق إلى موضع منه، فهو أحق به، فعلى هذا لو لازم أحد، أن يقوم خلف الإمام قريبا منه لأجل حصول الفضل، وسبق إليه من القوم أحد، لا يزاحمه، ولا يدافعه، فلا يدخل في هذا النهي.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها 2/ 523:
   ويحرم فيه السؤال، ويكره الإعطاء مطلقا، وقيل: إن تخطى، وإنشاد ضالة، أو شعر…وتخصيص مكان لنفسه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:709
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22