Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

وقف زمین میں تبدیلی کرنا:

سوال:
   ہم نے بنات کے مدرسہ کے لیے زمین وقف کی ہے، جو کہ سڑک سے بہت دور ہے، اب ہم چاہتے ہیں  کہ اس کو  اس زمین کے بدلے تبدیل کرے جو کہ سڑک کے بہت قریب ہے، تو کیا  اس موقوفہ زمین کو سڑک کے قریب والی زمین سے تبدیل کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:
   اس سلسلے میں اگر چہ امام ابو حنیفہ ؒ، امام محمؒد اور امام ابو یوسفؒ   کا اختلاف  پايا جاتاہے،  طرفین کے نزدیک وقف تام ہونے سے پہلے وقف شدہ زمین میں تبدیلی کی گنجائش ہے، اوروقف اس وقت تام ہوتا ہے کہ جب وہ زمین اس مقصد میں استعمال ہوجائے، جس مقصد کے لیے وقف کیا گیا ہے،  جیسے مسجد میں نماز اور مدرسہ کی تعمیر   وغیرہ۔ 
اورامام ابو یوسف ؒ کے نزدیک  صرف   وقف کرنے سے بھی  وقف تام ہوجاتاہے، اگر چہ اس میں نماز، درس وتدریس وغیرہ  کا سلسلہ شروع نہ ہو ا ہو،    اس لیے  ان کے نزدیک  وقف شدہ زمین میں تبدیلی کی  گنجائش نہیں، اور وقف کے مسائل میں امام ابو یوسفؒ کے قول  کو ترجیح دی جاتی ہے، اس  وجہ سے جمہور علمائے کرام نے اس سلسلے میں  امام ابو یوسفؒ کے قول  كواختیار کیا ہے،  لہذا مذکورہ صورت میں اس  وقف شده زمین  کو  دوسری  زمین کے ساتھ بدلنا درست نہیں۔ 
 بہتر یہ ہے کہ اس زمین پر بھی حفظ ِ قرآن کا مدرسہ بنایا جائے اور  اگر ضرورت ہو تو دوسری جگہ خرید کر وہاں مدرسہ بنایا جائے ۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن حاجب، كتاب الوقف، فصل لما اختص المسجد بأحكام5/ 267:
   (ومن بنى مسجدا لم يزل ملكه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه، ويأذن بالصلاة فيه، وإذا صلى فيه واحد زال ملكه) أما الإفراز فإنه لا يخلص لله تعالى إلا به، وأما الصلاة فيه فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد، فيشترط تسليم نوعه، وذلك في المسجد بالصلاة فيه أو لأنه لما تعذر القبض يقام تحقق المقصود مقامه، ثم يكتفى بصلاة الواحد؛ لأن فعل الجنس يتعذر، فيشترط أدناه، وعن محمد تشترط الصلاة بالجماعة؛ لأن المسجد مبني لذلك في الغالب، وصححها الزيلعي تبعا لما في الخانية؛ لأن قبض كل شيء، وتسليمه يكون بحسب ما يليق به، وذلك في المسجد بأداء الصلاة بالجماعة، أما الواحد يصلي في كل مكان.
وقال أبو يوسف يزول ملكه بقوله جعلته مسجدا ؛لأن التسليم عنده ليس بشرط لأنه إسقاط لملك العبد، فيصير خالصا لله تعالى بسقوط حق العبد.
2. رد المحتار لابن عابدين،كتاب الوقف، في أحكام المساجد 4/ 356:
   ولقائل أن يقول إذا قال جعلته مسجدا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لا يتردد فيه نهر، قلت: يلزم على هذا أن يكتفى فيه بالقول عنده، وهو خلاف صريح كلامهم تأمل، وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف، وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء.
3. وفيه أيضا، كتاب الوقف، مطلب للمفروغ له الرجوع بمال الفراغ 4/ 384:
(قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح، وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت، لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح، إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا، ولكن فيه نفع في الجملة، وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار.
4. الدر المختار للحصكفي، كتاب الوقف 4/352:
فإذا تم، ولزم لا يملك، ولا يملك، ولا يعار ،ولا يرهن.
وقال ابن عابدين تحت قوله: (لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه، ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع، ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.

  والله أعلم بالصواب
ابوبكر احسان كاكا خيل
 دار الإفتاء أنوار الحرمين، مردان

 

فتوی نمبر:831
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2025-05-23




قرآن مجید پر سر رکھ کر سونا کیساہے؟:

سوال:
   حرم شریف میں بعض لوگ قرآن کو سر کے نیچے رکھ کر سوجا تے ہیں، کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟
جواب:
   قرآن کریم کو اللہ تعالی نے سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے بھیجا ہے، اور اس کی تعظیم کا ہمیں حکم دیا ہے، لہذا قرآن کریم کو سر کے نیچے رکھ  کر سونا خلا ف ادب ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ. الحج 32/22.
2. رد المختار لابن عابدين، كتاب الطهارةكتاب الطهارة، سنن الغسل1/ 177:
   ويكره وضع المصحف تحت رأسه إلا للحفظ والمقلمة على الكتاب إلا للكتابة.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد إلخ5/ 322:
   وضع المصحف تحت رأسه في السفر للحفظ لا بأس به، وبغير الحفظ يكره، كذا في خزانة الفتاوى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:808
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




نا خن اوربال کاٹنے کے بعدان کا کیا کرناچاہیے؟:

سوال:
   ناخن اور بدن كے زائد بال يا سر كے بالوں كو كاٹنے كے بعد دفنانا ضروری ہے یا کسی جگہ پھینکنا بھی درست ہے؟
جواب:
   چونکہ انسان اور اس کے تمام اجزاء قابل احترام ہیں، اس لیے انسانی بال اور ناخن کاٹنے کے بعد  کسی قبرستان وغیرہ میں دفن کردينا چاہیے، اگر اس طرح کرنے میں دشواری ہو تو کسی پاک صاف جگہ میں پھینکنے میں بھی مضائقہ نہیں۔ 

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع6/ 405:
   فإذا قلم أظفاره أو جز شعره ينبغي أن يدفنه، فإن رمى به فلا بأس، وإن ألقاه في الكنيف أو في المغتسل كره؛ لأنه يورث داء، ”خانية“.
2۔ الفتاوى الهندية للجنة العلماء، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها 5/ 358:
   فإذا قلم أطفاره أو جز شعره ينبغي أن يدفن ذلك الظفر والشعر المجزوز، فإن رمى به فلا بأس، وإن ألقاه في الكنيف أو في المغتسل يكره ذلك؛ لأن ذلك يورث داء. كذا في فتاوى قاضي خان.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:807
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




راستے کے آداب:

سوال:
   راستے کے کیا آداب ہیں؟
جواب:
   راستے کے چند  آداب احادیث مبارکہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں:
(1) جب راستے میں چلیں تو تواضع کے ساتھ جھک کر قدرے تیزی کے ساتھ قدم اٹھاکر چلیں۔
(2) چال میں اکڑ اور تکبر کا اظہار نہ ہو۔
(3) راستے کے ایک طرف ہوکرچلیں۔
(4) بار بار پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔
(5) راستہ چلنے والوں کو سلام کریں۔
(6) لوگوں کے سلام کا جواب دیں۔
(7) غیر محرم عورتوں سے نظر کی حفاظت کریں۔
(8) اچھی باتوں کا حکم کریں، بری باتوں سے منع کریں۔
(9) راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹائیں۔
(10)  کسی کی اذیت کا سبب نہ بنیں۔
(11) راستہ میں قضائے حاجت کرنے سے پرہیز کریں۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:

   (وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍفَخُورٍ).
2. صحيح البخاري، باب إماطة الأذى 2/ 151:
   عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي  صلى الله عليه وسلم قال:إياكم والجلوس على الطرقات. فقالوا: ما لنا بد، إنما هي مجالسنا نتحدث فيها. قال:فإذا أبيتم إلا المجالس فأعطوا الطريق حقها، قالوا: وما حق الطريق؟ قال:غض البصر، وكف الأذى، ورد السلام، وأمر بالمعروف، ونهي عن المنكر.
3. صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب النهي عن التخلي في الطرق والظلال1/ 155:رقم الحديث: 539:
   عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتقوا اللعانين قالوا: وما اللعانان يا رسول الله ؟ قال: الذي يتخلى في طريق الناس، أو في ظلهم.
4۔ سنن الترمذي5/ 604: رقم الحدیث: 3648:
   عن أبي هريرة، قال: «ما رأيت شيئا أحسن من رسول الله صلى الله عليه وسلم كأن الشمس تجري في وجهه، وما رأيت أحدا أسرع في مشيه من رسول الله صلى الله عليه وسلم كأنما الأرض تطوى له، إنا لنجهد أنفسنا، وإنه لغير مكترث»: «هذا حديث غريب».

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:806
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




نسوار استعمال کرنے کا حکم:

سوال:
   نسوار کا کیا حکم ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس لیے نسوار کا استعمال کرتے ہیں کہ بڑے نشے سے بچ جائیں، اس نیت سے نسوار کا استعمال کرنا شرعا جائز ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ نسوار تمباکو اور چونا وغیرہ سے بنتی ہے، اور تمباکو کا استعمال شرعا مباح ہے، تو نسوار کا استعمال بھی مباح ہے، تاہم نسوار کی بدبو سے لوگوں کو چونکہ تکلیف ہوتی ہے اس لیے مسجد یا کسی مجلس میں جانے سے پہلے منہ کو اچھی طرح صاف کرلینا چاہئے، نیز نسوار کے استعمال کے بعد اسے مناسب جگہ پھینک دینا چاہیے، تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔

حوالہ جات:
   الدر المختار للحصكفي،كتاب الأشربة 6/ 460:
   فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه، وقد كرهه شيخنا العمادي في هديته إلحاقا له بالثوم والبصل بالأولى.
قال ابن عابدين تحت قوله: (قوله فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف، وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا      لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:805
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




طواف قدوم کو جنابت کی حالت میں یا بغیر وضو ء کے ادا کرنا:

سوال:
   اگر کسی نے طواف قدوم کو جنابت کی حالت میں یا بغیر وضوء کے ادا کیا تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ طواف كے لیے با وضو ہونا اور جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے، لہٰذا اگر کسی نے بغیر وضو کے طواف قدوم كرليا تو اس پر صدقہ لازم ہوگا، اور اگر حالتِ جنابت میں کرلیا تو اس پر دم لازم ہوگا، البتہ اگر بعد میں پاکی کی حالت میں اس طواف کا اعادہ کرلیا تو دم وغیرہ ساقط ہوگا۔

حوالہ جات:
1. غنية الناسك ، باب الجنايات، المطلب الثالث في ترك الواجب في طواف القدوم ص: 428:
   فلو طاف للقدوم كله أو أكثره جنبًا فعليه دم، ولو محدثا فصدقة لكل شوط نصف صاع من بر إلا أن يبلغ ذلك دما فينقص منه ما شاء … فإن أعاده سقط عنه الجزاء.
2.
 البحر الرائق لابن نجيم 3/ 34:
   فتجب صدقة لو طاف محدثا، ودم لو جنبا، فقد سووا بين طواف القدوم وبين طواف الصدر مع أن الأول سنة والثانية واجب.
3. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي1/ 147:
   لو طاف محدثا كان عليه شاة وإن طاف جنبا كان عليه بدنة.
4. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الحج، باب الإحرام2/ 15:
   عن عائشة رضي الله عنها  أن «أول شيء بدأ به رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم مكة أن توضأ ثم طاف بالبيت».

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:804
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




مسجد میں سیاسی جلسہ کرنا شرعا کیسا ہے؟:

سوال:
  مسجد میں سیاسی جلسہ کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
  واضح رہے کہ آج کل سیاسی جلسوں میں مخالف پارٹیوں کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں، اور اکثر جلسوں میں غیبت، دھوکہ دہی اور وعدۂ خلافی کی باتیں کی جاتی ہیں، جبکہ یہ تمام باتیں ویسے بھی ناجائز ہیں چہ جائے کہ کسی مسجد میں کی جائیں، لہٰذا مساجد میں اس قسم کے جلسے کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. المستدرك للحاکم، كتاب الرقاق، الرقم:7916:
   عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يأتي على الناس زمان يتحلقون في مساجدهم، وليس همتهم إلا الدنيا، ليس لله فيهم حاجة فلا تجالسوهم» هذا حديث صحيح الإسناد.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة5/ 321:
   الجلوس في المسجد للحديث لا يباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بني لأمور الدنيا، وفي خزانة الفقه ما يدل على أن الكلام المباح من حديث الدنيا في المسجد حرام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:803
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




کیا مردہ پیدا ہونے والا بچہ والدین کی سفارش کرےگا ؟:

سوال:
   بعض لوگ کا کہنا ہےکہ جب بچہ مردہ پیدا ہو جائے تو وہ قیامت کے دن اپنے والدین کے لیے سفارش کرے گا، یہ بات کیسی ہے؟
جواب:
   کردہ بات درست ہے، پوری حدیث اس طرح ہے کہ جب کسی کا مردہ بچہ پیدا ہوجائے تو وہ آخرت میں اپنے ان والدین کے لیے اللہ تعالی کے ہاں سفارش کرے گا جو (کسی بھی وجہ سے) جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے، تو  کہا جائے گا:
اے ناتمام بچے! اپنے والدین کو جنت لے جاؤ، چنانچہ وہ اپنے ناف والے حصہ کے ذریعے سے والدین کو کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔

حوالہ جات:
   سنن ابن ماجة، باب ما جاء فيمن أصيب بسقط،الرقم: 1608:
   عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن السقط ليراغم ربه إذا أدخل أبويه النار، فيقال: أيها السقط المراغم ربه أدخل أبويك الجنة، فيجرهما بسرره حتى يدخلهما الجنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:802
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-29




کسی کی امانت اس کی اجازت کے بغیر کسی اورکو استعمال کے لیے دینا:

سوال:
   ايک شخص نے ميرے پاس اپنا واسكٹ رکھ دیا تھا میں نے واسکٹ اپنے ساتھی کودیا کہ تم استعمال کرو جب وہ مانگے تو واپس کردینا، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کرنا میرے لیے جائز تھا؟  
جواب:
   امانت کی چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا یا مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو دینا، امانت میں خیانت ہے، لہٰذا ذکر کردہ صورت میں اس پر دل سے توبہ اوستغفار کرنا چاہیے اور فوری طور پر وہ واسکٹ اپنے ساتھی سے لے کر مالک تک پہنچانا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها 4/ 338:
   الوديعة لا تودع، ولا تعار، ولا تؤاجر، ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الوديعة، للمودع أن يحفظ الوديعة بنفسه وبعياله 7/ 275:
   وفي الخلاصة: الوديعة لا تودع، ولا تعار، ولا تؤجر، ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:801
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28

 




بیوی کا پستان منہ میں لینےاور دود ھ پینےکا حکم:

سوال:
   اپنی بیوی کا پستان چوس کر اس کا دودھ پینا کیسا ہے؟
جواب:
   بیوی کا پستان منہ میں لینا اگرچہ جائز ہے لیکن اس کا دودھ پینا جائز نہیں، البتہ اگر منہ میں چلا جائے اور فورا تھوک دے تو مضائقہ نہیں، تاہم بیوی کا دودھ اگر حلق سے نیچے چلا جائے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار لابن عابدين، كتاب النكاح، باب الرضاع 3/ 225:
   مص رجل ثدي زوجته لم تحرم.
2. أيضا: كتاب النكاح، باب الرضاع 3/ 211:
(ولم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح.
3. بدائع الصنائع لابن مازه الحنفي، كتاب الرضاع، فصل في صفة الرضاع المحرم 4/ 5:
   وروي أن رجلا من أهل البادية ولدت امرأته ولدا فمات ولدها، فورم ثدي المرأة، فجعل الرجل يمصه، ويمجه، فدخلت جرعة منه حلقه، فسأل عنه أبا موسى الأشعري  رضي الله عنه، قال: قد حرمت عليك، ثم جاء إلى عبد الله بن مسعود رضي الله عنه فسأله، فقال: هل سألت أحدا؟ فقال: نعم، سألت أبا موسى الأشعري، فقال: حرمت عليك فجاء ابن مسعود أبا موسى الأشعري رضي الله عنهما،فقال له: أما علمت أنه إنما يحرم من الرضاع ما أنبت اللحم؟.
4. أيضا: كتاب الرضاع، فصل في صفة الرضاع المحرم 4/ 6:
   وإذا ثبت أن رضاع الكبير لا يحرم ورضاع الصغير محرم فلا بد من بيان الحد الفاصل بين الصغير، والكبير في حكم الرضاع، وهو بيان مدة الرضاع المحرم، وقد اختلف فيه، قال أبو حنيفة: ثلاثون شهرا، ولا يحرم بعد ذلك سواء فطم، أو لم يفطم، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى: حولان لا يحرم بعد ذلك فطم، أو لم يفطم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:800
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28