Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

@123کالےرنگ کے کپڑے پہننے کا حکم

سوال:
مردوں کے لیے کالے رنگ کا لباس استعمال کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
مردوں کے لیے کالے رنگ کا لباس استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ چونکہ محرم کے مہینے میں شیعہ لوگ سوگ منانے کے طور پر کالے رنگ کا کپڑے پہنتے ہیں، اس لیے محرم میں کالا لباس پہننے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ شیعوں کے ساتھ مشابہت نہ آئے۔

حوالہ جات:
لما في مشكوة المصابيح، كتاب اللباس، الرقم: 4347:
قال: قال رسول اللہ صلی علیه وسلم : من تشبه بقوم فهو منهم. رواه أحمد وأبو داود.
قال القارئ تحت قوله: (من تشبه بقوم) أي: من شبه نفسه بالكفار، مثلا في اللباس وغيره، أو با لفساق، أو الفجار، أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل العاشر في اللبس إلخ 5/ 340:
ذکر محمد رحمه الله في “السير” في باب العمائم حديثا، يدل على أن لبس السواد مستحب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:311
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123مقدس نام والی انگو ٹھی پہن کر بیت الخلاء جانا

سوال:
اگر انگوٹھی پر نام لکھا گیا ہو، تو کیا اسی انگوٹھی کے ساتھ بیت الخلاء جانا جائز ہے یا نہیں؟جواب:
ایسی انگوٹھی جس پر لفظِ اللہ تعالی يا قرآنی آیت یا کوئی اور قابلِ احترام لفظ لکھا گیا ہو، تو اس کو پہن کر بیت الخلاء جانا مکروہ ہے، البتہ اگر کوئی عام سا لفظ لکھا ہوا ہو، تو اس انگوٹھی کو پہن کر بیت الخلاء جانا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، کتاب الطھارة، باب الأنجاس 1/ 256:
ويكره أن يدخل الخلاء ومعه خاتم مكتوب عليه اسم الله تعالى أو شيء من القرآن.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الإستنجاء 1/ 50:
ويكره أن يدخل في الخلاء ومعه خاتم عليه اسم الله تعالى أو شيء من القرآن، كذا في السراج الوهاج.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:310
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123عورتوں کا اسٹیڈیم میں کرکٹ دیکھنےکے لیے جانا

سوال:
 لڑکیاں نقاب پہن کر اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھ سکتی ہے؟
جواب:
عام طور پر اسٹیڈیم میں بے شمار قسم کے مفاسد پائے جاتے ہیں، مثلا نامحرم مرد اور عورت کا اختلاط، بے پردگی، وقت اور پیسوں کا ضیاع، نمازوں کا چھوڑنا، موسیقی وغیرہ کا سننا، لہذا ان مفاسد اور قباحتوں کی بناء پر اسٹیڈیم جاکر میچ دیکھنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کسی جگہ ان کے لیے با پردہ اور محفوظ انتظام کیا گیا ہو، تو گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى: (الأحزاب 33/33).
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى الآية.
وفي سنن ابن ماجه، باب كف اللسان في الفتنة، الرقم: 3976:
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه.
وفي صحيح المسلم، باب الرخصة في اللعب إلخ، الرقم:892:
قالت عائشة: والله لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم على باب حجرتي، والحبشة يلعبون بحرابهم، في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، يسترني بردائه، لكي أنظر إلى لعبهم، ثم يقوم من أجلي، حتى أكون أنا التي أنصرف، فاقدروا قدر الجارية الحديثة السن، حريصة على اللهو.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:309
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123وکیل کو تحفہ میں ملنے والی چیز کس کی ہوگی؟

سوال:
میں دبئی میں ملازم ہوں، کمپنی کے لیے یا اپنے مالکوں کے لیے جب بازار سے سودا لیتا ہو، تو وہ دکاندار خصوصی طور پر اپنی طرف سے کبھی مجھے تیس(30) ریال یا کبھی کبھی موبائل کارڈ دیتا ہے، تو کیا یہ کارڈ اور پیسے میرے لیے لینا درست ہے یا نہیں؟ اور یہ پیسے اسی وجہ سے دکاندار دیتا ہے کہ میں اسی دکاندار سے سامان خریدتا ہوں۔
جواب:
واضح رہے کہ ملازم کمپنی کی طرف سے خرید وفروخت کا وکیل ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی دکاندار اس کو زیادہ خریداری پر یا کمپنی کی پہچان کی وجہ سے کوئی رقم یا کارڈ وغیرہ دیتا ہے، تو وہ اس کمپنی کا ہوگا اس کو خود رکھنا درست نہیں، البتہ اگر کمپنی نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ دکاندار کی طرف سے ملنے والی رقم یا تحفہ اس ملازم کے لیے ہے، تو ایسی صورت میں اس ملازم کے لیے وہ رقم یا تحفہ لینا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، باب الرجوع عن الشهادة 7/ 155:
ولو أمر رجلا أن يشتري له جارية بألف فاشتراها ثم إن البائع وهب الألف من الوكيل فللوكيل أن يرجع على الآمر، ولو وهب منه خمسمائة لم يكن له أن يرجع على الآمر إلا بخمسمائة، ولو وهب منه خمسمائة، ثم وهب منه أيضا الخمسمائة الباقية، لم يرجع الوكيل على الآمر إلا بالخمسمائة الأخرى؛ لأن الأول حط، والثاني هبة، ولو وهب منه تسعمائة، ثم وهب منه المائة الباقية، لا يرجع على الآمر إلا بالمائة الأخرى، وهذا كله قياس قول أبي حنيفة وأبي يوسف والحسن.
وفي رد المحتار لابن عابدين،  كتاب الوكالة،  مطلب الجهالة ثلاثة أنواع 7/ 304:
لو وهب له نصفه ثم وهب له النصف الآخر، لا يرجع الوكيل على الآمر إلا بالخمسمائة الأخرى؛ لأن الأول حط، والثاني هبة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:308
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123بیعانہ کی رقم ضبط کرنا کیسا ہے؟

سوال:
بعض اوقات بیعانہ کی رقم مالک کو واپس نہیں کیا جاتا ہے، مثلا زید مکان خریدنے کے معاملے کو مستحکم کرنے کی غرض سے مالک مکان کو کچھ رقم ایڈوانس دیتا ہے، پھر زید مکان نہیں خریدتا، تو مالکِ مکان اس رقم کو واپس نہیں کرتا، تو یہ جائز ہے؟
جواب:
بیعانہ کی رقم عموما اصل قیمت کا حصہ ہوتی ہے، جو ایڈوانس وصول کی جاتی ہے، اور بقیہ قیمت معاملہ ختم ہونے پر وصول کی جاتی ہے، لیکن اگر معاملہ طے نہ ہو سکے بلکہ ختم ہوجائے، تو ایسی صورت میں بیعانہ ضبط کرنا جائز نہیں بلکہ مشتری کو واپس کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى: (النساء 4/ 29).
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ الٓاية.
وفي بذل المجهود لخليل أحمد السهارنفوري، كتاب البيوع، باب في العربان 11/ 220، تحت الرقم 3502:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان.
قال السهارنفوري تحت هذا الحديث:أن يشتري الرجل العبد أو الوليدة، أو يتكارى الدابة، ثم يقول للذي اشترى منه، أو تكارى منه: أعطيك دينارا، أو درهما، أو أكثر من ذلك، أو أقل على أني إن أخذت السلعة، أو ركبت ما تكاريت منك، فالذي أعطيتك هو من ثمن السلعة، أو من كراء الدابة، وإن تركت ابتياع السلعة أو كراء الدابة فما أعطيتك، لك بغير شيء. قلت: ويرد العربان إذا ترك العقد على كل حال بالاتفاق.
وفي الموسوعة الفقهية لهيئة العلماء، بيع العربون9/ 93:
والعربان بالضم لغة ثالثة … وفي الاصطلاح الفقهي: أن يشتري السلعة، ويدفع إلى البائع درهما أو أكثر، على أنه إن أخذ السلعة، احتسب به من الثمن، وإن لم يأخذها فهو للبائع … فجمهورهم، من الحنفية والمالكية والشافعية، وأبو الخطاب من الحنابلة، يرون أنه لا يصح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:307
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123 ادھار کوئی چیزمہنگی قیمت پر بیچنا

سوال:
زید موٹر کار خریدنا چاہتا ہے مگر اس کے پاس ایک لاکھ (100000) روپے ہیں، اور وہ خالد سے ایک لاکھ (100000) روپے قرض لے کرکے بکر سے موٹر کار خرید لیتا ہے، اور پھر اسی کار کو خالد کے ہاتھ اُدھار دو لاکھ بیس ہزار(220000) روپے کے عوض فروخت کرتا ہے، تو یہ معاملہ جائز ہے؟
جواب:
نقد خرید کر ادھار قیمت پر بیچنا جائز ہے، لہٰذا ذکر کردہ صورت میں دو لاکھ نقد پر گاڑی خرید کر دو لاکھ بیس ہزار (220000) ادھار پر بیچنا جائز ہے بشرطیکہ رقم دینے کا وقت متعین ہو۔ 

حوالہ جات:
لما في الفقه البيوع لمحمد تقي عثماني، الباب الأول في البيع الحال والمؤجل1/ 542:
فقد أجازو البيع المؤجل بأكثر من سعر النقد، بشرط أن يبيت العاقدان على أنه بيع مؤجل بأجل معلوم.
وفي بداية المبتدي لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب البيوع 3/ 58:
ومن اشترى غلاما بألف درهم نسيئة فباعه بربح مائة ولم يبين فعلم المشتري، فإن شاء رده، وإن شاء قبل؛ لأن للأجل شبها بالمبيع، ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية 5/ 142:
لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:306
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123 کافر شوہر کے مرنے کے بعد نو مسلمہ بیوہ کے لیے عدت کا حکم

سوال:
دار الاسلام کی ایک کافرہ عورت مسلمان ہوئی، اور اس کا شوہر حالتِ کفر میں اس کے مسلمان ہونے سے تین ماہ پہلے مر گیا ہے، تو اس عورت پر مسلمان ہونے کے بعد عدت ضروری ہے یا بغیر عدت کے بھی کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں یہ عورت عدت گزارے بغیر بھی کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے، بشرطیکہ حاملہ نہ ہو، ورنہ بچہ پیدا ہونے تک انتظار کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصکفي، باب العدة، مطلب في وطء المعتدة بشبهة 3/ 526:
(ذمية غير حامل طلقها ذمي، أو مات عنها لم تعتد) عند أبي حنيفة … (ولو) كانت الذمية (حاملا تعتد بوضعه) اتفاقا.
وفي البناية لبدر الدين العيني، باب العدة، تزوج الذمية المطلقة من الذمي بلا عدة 5/ 614:
وإذا طلق الذمي الذمية، فلا عدة عليها، وكذا إذا خرجت الحربية إلينا مسلمة، فإن تزوجت جاز، إلا أن تكون حاملا، وهذا كله عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا: عليها وعلى الذمية العدة.
وفي فتح القدير لابن همام، كتاب الطلاق، باب العدة 4/ 333:
(وإذا طلق الذمي الذمية، فلا عدة عليها، وكذا إذا خرجت الحربية إلينا مسلمة، فإن تزوجت جاز إلا أن تكون حاملا، وهذا كله عند أبي حنيفة، وقالا: عليها وعلى الذمية العدة).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:305
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123 کیا دوسری شادی کے لیےپہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟

سوال:
 بیوی کی اجازت کے بغیر شوہر دوسرا نکاح کرسکتا ہے؟
جواب:
     واضح رہے کہ ہر شخص کو چار عورتوں سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہے، اس لیے بیوی کی اجازت کے بغیر بھی دوسرا نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ ان کے ساتھ عدل وانصاف قائم رکھ سکتا ہو، اور نان نفقہ پر قادر ہو، تاہم اگر آپس کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے پہلیٍ بیوی سے اجازت لی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فروع طلق امرأته تطليقتين إلخ3/ 48:
(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر.
وفی المبسوط للسرخسی، كتاب النكاح، باب نكاح الإماء والعبيد 5/ 110:
يجوز للحر أن يتزوج أربعا من الإماء كما يجوز له أن يتزوج أربعا من الحرائر.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب النكاح، فصل فِي بيان المحرمات 1/ 59:
وللحر أن يتزوج أربعا من الحرائر والإماء وليس له أن يتزوج أكثر من ذلك.
وفي بدائع الصنائع لكاساني، كتاب النكاح، فصل وجوب العدل بين النساء في حقوقهن 2/ 332:
فإن كان له أكثر من امرأة، فعليه العدل بينهن في حقوقهن من القسم، والنفقة، والكسوة، وهو التسوية بينهن في ذلك، حتى لو كانت تحته امرأتان حرتان، أو أمتان، يجب عليه أن يعدل بينهما في المأكول، والمشروب، والملبوس، والسكنى، والبيتوتة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:304
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11




@123آج کل سید کو زکوۃ دینا کیسا ہے؟

سوال:
موجودہ دور میں کوئی سید تنگ دست غریب ہو، تو اس کو زکوۃ دینا درست ہے یا نہیں آج کل سرکاری خزانہ سے ان کو کوئی وظیفہ نہیں ملتا؟
جواب:
سادات کو نفلی صدقہ دیاجا سکتا ہے، لیکن راجح قول کے مطابق ان کو زکوٰۃ دینا موجودہ دور میں بھی درست نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكوة، باب مصرف الزكاة والعشر 2/ 350:
(و) لا إلى (بني هاشم) … ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع.
قال ابن عابدين تحت قوله: (إطلاق المنع إلخ) يعني سواء في ذلك كل الأزمان، وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الزكاة، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع الزكاة فيه 2/ 284:
ولا يجوز أن يعطى من الزكاة فقراء بني هاشم، ولا مواليهم، قال عليه السلام «الصدقة محرمة على بني هاشم» ومولى القوم من أنفسهم، وقال عليه السلام: «يا بني هاشم إن الله تعالى كره لكم غسالة الناس، وعوضكم منها بخمس الخمس من الغنيمة».
وفي الجوهرة النيرة  أبو بكر بن علي بن محمدالحنفي، كتاب الزكاة، باب مصارف الزكاة 1/ 130:
(قوله ولا يدفع إلى بني هاشم) يعني الأجنبي لا يدفع إليهم بالإجماع وهل يجوز أن يدفع بعضهم إلى بعض عندهما لا يجوز.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:303
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10

 




@123نکاح سے پہلے عورت کو دیا ہوا سامان کس کا ہے؟

سوال:
زید کی ہندہ کے ساتھ منگنی ہوئی تھی، لیکن نکاح نہیں ہوا، پھر بعد میں آپس میں اختلاف پیدا ہوا، تو اب ہندہ کو جو اشیاء زید نے دی ہے، وہ واپس لے سکتا ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ نکاح سے پہلے جو چیز لڑکی کو بطور ہبہ دی گئی ہو اگر وہ چیز موجود نہ ہو، بلکہ استعمال ہوکر ختم ہوگئی ہو، تو وہ واپس نہیں لیا جاسکتا، اور نہ اس کی قیمت واپس لی جاسکتی ہے، اور اگر وہ چیز موجود ہو تو اس کو واپس لیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 7/ 294:
(قوله فلو وهب ثم نكح رجع وبالعكس لا) أي لو نكح ثم وهب لا يرجع لأن المعتبر حالة الهبة وفي الأول لم تكن منكوحة بخلاف الثاني.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهب 5/ 100:
(فلو وهب، ثم نكح رجع وبالعكس لا) أي لو وهب لأجنبية، ثم تزوجها يجوز له الرجوع في الهبة وبالعكس، وهو ما إذا وهب لزوجته، ثم أبانها ليس له الرجوع في الهبة.
وفي البناية لبدر الدين العيني، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 10/ 196:
(وكذلك ما وهب أحد الزوجين للآخر؛ لأن المقصود فيها الصلة كما في القرابة) يعني أن ما يهبها من الزوجين للآخر نظير القرابة بدليل التوارث من الجانبين من غير حجب وعدم قبول الشهادة (وإنما ينظر إلى هذا المقصود وقت العقد حتى لو تزوجها بعدما وهب لها فله الرجوع فيها) لوقوع الهبة لأجنبية، وكان مقصوده الغرض ولم يحصل.
وفي الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر 3/ 153:
(خطب بنت رجل وبعث إليها أشياء ولم يزوجها أبوها فما بعث للمهر يسترد عينه قائما) فقط وإن تغير بالاستعمال (أو قيمته هالكا) لأنه معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد (وكذا) يسترد (ما بعث هدية وهو قائم دون الهالك والمستهلك) لأنه في معنى الهبةقوله لأنه في معنى الهبة) أي والهلاك والاستهلاك مانع من الرجوع بها، وعبارة البزازية لأنه هبة اهـ ومقتضاه أنه يشترط في استرداد القائم القضاء أو الرضا، وكذا يشترط عدم ما يمنع من الرجوع، كما لو كان ثوبا فصبغته أو خالطته، ولم أر من صرح بشيء من غير ذلك فليرجع.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الهبة 7/ 290:
قوله صح الرجوع فيها) يعني صح الرجوع في الهبة بعد القبض إذا لم يمنع مانع من الموانع الآتية … وأشار بذكر الصحة دون الجواز إلى أنه يكره الرجوع فيها وظاهر كلام المبسوط وتبعه في النهاية أنها كراهة تنزيه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:302
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10