@123جانور کو آدھے حصے پر پالنے کے لیے دینا
سوال:
ميرے والد صاحب چند دن پہلے وفات پاگئے، اور میرے والد صاحب نے ایک آدمی کے لیے دو (2) جانور پچاس (50) ہزار روپے پر پالنے کے لیے خرید لیے تھے، جن میں ایک جانور کی ہمیں ضرورت پڑگئی، تو جب ہم نے لینا چاہا، تو اس آدمی نے کہا کہ ایک جانور تمہارا ہے اور دوسرا میرا، جبکہ ایک جانور کی قیمت چالیس ہزار(40000) ہزار روپے بنتے ہیں، تو کیا اس طرح پالنے پرجانور دینا جائز ہے یا نہیں؟ نیز ہمارا دس ہزار(10000) ہزار روپے جو ہمارے والد صاحب نے پچاس ہزار(50000) کے خرید لیےتھے، اور اب ہمارے حصہ میں چالیس ہزار(40000) آئے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ جانور کو آدھے حصے پر پالنے کے لیے دینا شرعا جائز نہیں ہے، یہ اجارۂ فاسدہ ہے، چنانچہ یہ دونوں جانور بدستور آپ کے والد کی ملکیت ہیں، اور پالنے والے نے جتنا عرصہ اب تک ان جانوروں کو پالا ہے، عرفِ عام میں اس کی جتنی مزدوری بنتی ہو اتنی مزدوری اس کو ادا کی جائے گی۔
حوالہ جات:
لما فی مجمع الضمانات لأبي بكر محمد غانم البغدادي، الباب الخامس باب مسائل الإجارة 1/ 116:
وفي الخلاصة رجل دفع بقرة إلى رجل بالعلف مناصفة، وهي التي تسمى بالفارسية كاونيم سوو بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن، والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة، ولو أكل اللبن مع هذا، والبعض قائم فما كان قائما يرد على مالك البقرة، ويرد مثل ما أكل من اللبن والمصل للذي فعل، وله على المالك قيمة علفها وأجر المثل في قيامه عليها، فلو أن المدفوع إليه دفع إلى آخر بالنصف، فهلك فالمدفوع إليه الأول ضامن، ولو بعث المدفوع إليه البقرة إلى السرح، فلا ضمان عليه.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الإجارة، الفصل الرابع في فساد الإجارة إلخ 4/ 445:
دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن، والسمن بينهما أنصافا، فالإجارة فاسدة، وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى، ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها؛ لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا، فهو للمتخذ، ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:321
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13