Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

مستحقین زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کرانا:

سوال:
   زکوٰۃ کی رقم سے غرباء کو افطاری کرانا کیسا ہے؟
جواب:
   زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے کسی مستحق کو مالک بنانا ضروری ہے، اس لیے افطاری کرانےاور کھانا کھلانے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ اگر ہرمستحق کو کھانا وغیرہ کا مالک بنا کر دیا جائے کہ وہ اس کے ساتھ جو چاہے کرے، تو اس طرح کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة 3/ 203، 204:
   (هي)… (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم، كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (إلا إذا دفع إليه المطعوم)؛ لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة،  فصل ركن الزكاة 2/ 39 :
   وکذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء، ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز؛ لعدم التمليك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:331
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




پیش امام کو صدقۂ فطر دینا کیسا ہے؟:

سوال:
   مسجد کے پیش امام کو صدقۂ فطر دینا کیسا ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ صدقۂ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، لہٰذا اگر پیش امام مستحق زکوٰۃ ہو تو اس کو صدقۂ فطر دینا جائز بلکہ بہتر ہے، اور اگر مستحق زکوٰۃ نہ ہو، تو جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، مطلب في مقدار الفطرة 2/ 369 :
   (وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.
2. الفتاوى الهندية للجنه العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف1/ 187:
   (منها الفقير) وهو من له أدنى شيء، وهو ما دون النصاب، أو قدر نصاب غير نام، وهو مستغرق في الحاجة… التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل، كذا في الزاهدي.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الزكاة، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع الزكاة فيه 2/ 285:
   قال محمد رحمه الله: ولا تحل الزكاة لمن له مائتا درهم فصاعداً، ولا بأس بأن يأخذها من له أقل من مائتي درهم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:330
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




دودھ کے لیے پالی جانے والی بھینسوں پر زکوٰۃ:

سوال:
   ایک شخص دودھ بیچنے کے لیے فارم میں بھینس پالتا ہے اور اس کے لیے پیسوں سے چارہ خریدتا ہے، تو کیا ایسی بھینسوں میں زکوۃ ہے یا نہیں؟
جواب:
   فارم میں پالی ہوئیں بھینسوں سے مقصود اگر دودھ حاصل کرنا ہے لیکن ان کو پیسوں سے خریدا ہوا چارہ کھلایا جاتا ہے، تو ان بھینسوں کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں، البتہ دودھ سے حاصل شدہ آمدنی اگر نصاب تک پہنچ جائے یا پہلے سے موجود قابل زكوٰۃ اموال کے ساتھ ملا کر نصاب تک  پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب السائمة 3/ 232،235:
   باب السائمة (هي) الراعية، وشرعا (المكتفية بالرعي) المباح، ذكره الشمني (في أكثر العام لقصد الدر والنسل) …(فلو علفها نصفه لا تكون سائمة)، فلا زكاة فيها للشك في الموجب.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الزكاة، باب صدقة السوائم 1/ 259 :
   (باب صدقة السوائم) … والسوائم جمع سائمة، يقال سامت الماشية سوما أي: رعت، وأسامها صاحبها، والمراد التي تسام للدر والنسل، فإن أسامها للحمل والركوب، فلا زكاة فيها، وإن أسامها للبيع والتجارة، ففيها زكاة التجارة، لا زكاة السائمة؛ لأنهما مختلفان قدرا وسببا، فلا يجعل أحدهما من الآخر، ولا يبنى حول أحدهما على حول الآخر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:329
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




متعین لوگوں کے لیے مانی ہوئی نذر کسی دوسری جگہ خرچ کرنا:

سوال:
   ایک شخص نے کہا کہ اگر میرا فلاں کام ہوا تو میں محلہ کی مسجد میں مصلیوں میں پانچ سیر بتاسے  تقسیم کروں گا، اب اس کا کام پورا ہوا ہے، تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:
   اگر کسی مخصوص جگہ کے افراد پر کوئی چیز تقسیم کرنے کی منت مانی جائے تو اس مخصوص جگہ میں اس کو تقسیم کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ کسی اور جگہ بھی اس کو تقسیم کرنا درست ہوتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں نذر ماننے والے پر پانچ سیر بتاسے تقسیم کرنا واجب ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ محلے کی مسجد کے نمازیوں میں تقسیم کرے، بلکہ جہاں چاہے تقسیم کر سکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصکفی، كتاب الأيمان 3/ 735:
   (ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط، وكان من جنسه واجب) أي: فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء، وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث من نذر وسمى، فعليه الوفاء بما سمى.
2. وفيه ايضا:
   (نذر أن يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره، جاز إن ساوى العشرة) كتصدقه بثمنه.
3. العناية لمحمد بن محمد البابرتي، كتاب الأيمان، أدنى الكسوة في كفارة اليمين 5/ 92:
   وإن علق النذر بشرط سواء كان شرطا أراد كونه، أو لم يرد، فوجد الشرط، فعليه الوفاء بنفس النذر.
4. الفتاوى الهندية للجنه العلماء، كتاب الأيمان، الفصل الثاني في الكفارة 2/ 66:
رجل قال: مالي صدقة على فقراء مكة إن فعلت كذا فحنث، وتصدق على فقراء بلخ، أو بلدة أخرى جاز، ويخرج عن النذر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:327
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




بیع تام ہونےسے پہلے مشتری کے پاس مبیع ضائع ہونے کی صورت میں تاوان کا حکم:

سوال:
   ایک شخص دوکاندار سے کپڑے کا تھان اپنے گھر والوں کو دکھانے کے لیے لے گیا اور اگلے دن آکر کہا کہ وہ تھان رات کو چوری ہوگیا، تو تاوان کس پر آئے گا؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں اگر تھان لے جاتے وقت دوکاندار کے ساتھ اس کی قیمت طے ہوئی تھی، اور یہ بھی طے ہوا تھا کہ اگر تھان مجھے پسند آیا تو اتنے پیسوں میں میرا ہو جائے گا تو لے جانے والے پر تاوان آئے گا، اور اگر قیمت طے نہیں ہوئی تھی، اور اس کی کوتاہی کے بغیر چوری ہوئی ہو، تو اس پر تاوان نہیں آئے گا، کیونکہ یہ اس کے ہاتھ میں امانت ہے، اور امانت اگر بغیر تعدی کے ہلاک ہوجائے، تو اس کا ضمان نہیں ہوتا، لیکن اگر تھان اس کی کوتاہی کی وجہ سے چوری ہوا ہو، تو مشتری پر تاوان آئے گا۔

حوالہ جات:
1. البناية لبدر الدين العيني، كتاب البيوع، خيار البائع يمنع خروج المبيع عن ملكه 8/ 56:
   أن المقبوض على سوم المشتري إنما يكون مضمونا إذا كان الثمن مسمى، حتى إنه إذا قال: قد أذهب بهذا الثوب، فإن رضيته اشتريته، فذهب فهلك لا يضمن، ولو قال: إن رضيته اشتريته بعشرة، فذهب به فهلك ضمن قيمته، وعليه الفتوى.
2. النهر الفائق لابن نجيم الحنفي، كتاب البيوع، باب خيار الشرط 3/ 370:
   أخذ رجل ثوبًا وقال: أذهب به، فإن رضيته اشتريته، فذهب وضاع الثوب، فلا شيء عليه، ولو قال: إن رضيته أخذته بعشرة فضاع، فهو ضمان من قيمته، وفي النصاب: وعليه الفتوى، وهذا إيماء على أن المقبوض على سوم الشراء إنما يكون مضمونًا إذا كان الثمن مسمى.
3. مجلة الأحكام للجنة العلماء، فصل الثاني في بيان أحكام العارية وضمانها 1/ 155:
   العارية أمانة في يد المستعير، فإذا هلكت، أو ضاعت، أو نقصت قيمتها بلا تعد ولا تقصير، لا يلزم الضمان.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:344
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




دوران سفر پانی میسر نہ ہونے کی صورت میں ٹرین میں تیمم کرنا:

سوال:
   ریل میں سفر کے دوران اتنا پانی نہ مل رہا ہو کہ وضو کے لیے کافی ہو جائے، تو تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ 
جواب:
   اگر ٹرین میں وضو کی ضرورت پیش آجائے تو اولا پانی کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے کہ کسی بھی ڈبے میں پانی میسر آجائے، لیکن اگر ٹرین کے کسی بھی ڈبے میں پانی میسر نہ آئے، تو اگر یہ یقین ہو کہ نماز کے آخری وقت تک کسی سٹیشن پر پانی مل جائے گا، تو نماز کو آخری وقت تک مؤخر کرنا مستحب ہے، لیکن اگرمؤخر نہیں کیا اور پہلے وقت میں نماز پڑھ لی تو بھی درست ہے، اور اگر پانی نہ ملنے کا یقین ہو، تو اول وقت میں تیمم کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، باب التيمم1/ 466:
   (وندب لراجيه) رجاء قويا، (آخر الوقت) المستحب، ولو لم يؤخر، وتيمم، وصلى جاز، إن كان بينه وبين الماء ميل، وإلا لا.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، فصل في التيمم إلخ 1/ 183:
   قال أصحابنا: إن كان على طمع من وجود الماء في آخر الوقت، يؤخر التيمم إلى آخر الوقت، وإن لم يكن على طمع من وجود الماء في آخر الوقت لا يؤخر.
3. الأصل لمحمد بن الحسن الشيباني، باب الصلاة، باب التيمم بالصعيد 1/ 83:
   أرأيت المسافر الذي لا يجد الماء متى يتمم؟ وكيف يتيمم؟ قال: ينتظر إلى آخر وقت الصلاة التي حضرت، فإن وجد الماء تؤضأ، وصلى، وإن لم يجد الماء تيمم صعيدا طيبا۔

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:326
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13

 




” فلاں کام کروں، تو ایمان سے خارج ہوجاؤں” کہنے کا حکم:

سوال:
   ایک شخص نے قسم کھائی کہ اگر وہ دس ذی الحجہ تک اپنی بیوی سے جماع کرے، تو وہ دین وایمان سے خارج ہو جائے گا، اب اس نے دس ذی الحجہ سے پہلے جماع کر لیا، تو وہ مسلمان رہا یا کافر ہوگیا، اور کفارہ لازم ہے یا نہیں؟
جواب:
   ذکر کردہ صورت میں اگر اس شخص کا اعتقاد یہ نہیں تھا کہ ان الفاظ  کے کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا، تو وہ شخص اس سے کافر نہیں ہوگا، البتہ یہ الفاظ چونکہ قسم کے ہیں، اس لیے اس قسم کو توڑنے کی وجہ سے اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا، تاہم اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ واقعی ایسا کام کرنے سے وہ دین سے خارج ہوجائے گا، پھر بھی  اس کام کو قصدا کر لیا، تو ایسا کرنا موجبِ کفر ہے، جس کی وجہ سے تجدیدِ ایمان وتجدید نکاح ضروری ہوگا۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الأيمان، فصل في ركن اليمين بالله تعالى 3/ 8:
   ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء عن الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا، فهو يمين استحسانا، والقياس أنه لا يكون يمينا، وهو قول الشافعي.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الأيمان 3/ 717:
   والقسم أيضا بقوله: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني،، أو فأشهدوا علي بالنصرانية، أو شريك للكفار، أو كافر، فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس، واختلف في كفره، و الأصح أن الحالف لم يكفر، سواء علقه بماض، أو آت إن كان عنده في اعتقاده أنه يمين، وإن كان جاهلا، وعنده أنه يكفر في الحلف بالغموس وبمباشرة الشرط في المستقبل، يكفر فيهما؛ لرضاه بالكفر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:325
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




@123کھانے سے پہلے یا بعد میں نمک چکنا یا میٹھا کھانا

سوال:
عوام میں مشہور ہے کہ کھانے کے شروع اور آخر میں نمک استعمال کرنا چاہیے، بعض کا خیال ہے کہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے؟
جواب:
کھانے کے شروع اورآخر میں نمک کھانے والی حدیث موضوع ہے، نیز آپﷺ کو اگرچہ میٹھی چیز کھانا پسند تھا، لیکن کھانے کے بعد میٹھی چیز کھانے کو سنت سمجھنا احادیث سے ثابت نہیں، لہٰذا اس وجہ سے سوال میں ذکر کردہ دونوں باتوں کو سنت سمجھنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
لما في صحيح البخاري، كتاب الطلاق،  باب لم تحرم ما أحل الله لك، الرقم :2105:
عن عائشة رضى الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب العسل ويحب الحلواء.
وفي اللآلىء المصنوعة لجلال الدين السيوطي، كتاب الأطعمة 2/ 179:
يا علي عليك بالملح؛ فإنه شفاء من سبعين داء، الجذام، والبرص، والجنون، لا يصح والمتهم به عبد الله بن أحمد بن عامر، أو أبوه؛ فإنهما يرويان نسخة عن أهل البيت، كلها باطلة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:324
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




@123زنا کے ثبوت کے لیے کتنے گواہ ضروری ہے؟

سوال:
زانیہ کے والدین اگر یہ کہہ دیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کو خود آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو اس طرح زنا کا ثبوت ہو جائے گا؟
جواب:
واضح رہے کہ زنا کے ثبوت کے لیے چار مردوں کی گواہی یا زانی ومزنیہ کا خود اقرار کرنا ضروری ہے، اور مذکوہ صورت میں گواہ صرف والدین ہیں، اس لیے ان کے کہنے سے زنا ثابت نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى: النور 13/ 24.
لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ.
وفي المصنف لأبي بكر عبد الرزاق الصنعاني، باب قوله ولا تقبلوا لهم شهادة أبدا 7/ 387، تحت الرقم13571:
عن عمرو بن شعيب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قضى الله ورسوله أن لا تقبل شهادة ثلاث، ولا اثنين، ولا واحد على الزنا.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الحدود، الباب الخامس في الشهادة على الزنا والرجوع عنها 2/ 151:
ولا تقبل الشهادة على الزنا إلا شهادة أربعة أحرار مسلمين، كذا في شرح الطحاوي. إن شهد على الزنا أقل من أربعة بأن شهد واحد، أو اثنان، أو ثلاثة، لا تقبل الشهادة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:323
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




@123چوری کے الزام پر کسی کو قسم دینا

سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے بکر کا کچھ مال چرا لیا، بکر زید کو قسم دیتا ہے اور زید قسم کھاتا ہے کہ میں نے اگر چوری کی ہو تو مجھ پر ہزار (1000) روپے واجب ہوں، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اگر زید نے چوری نہیں کی تھی تو اس کا قسم کھانا درست ہے، لیکن اگر واقعی زید چوری کرچکا تھا اور اس پر جھوٹی قسم کھائی ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ مال بکر کو واپس کردے، اور اپنی چوری کے عمل پر اللہ کے سامنے توبہ واستغفار کرے، کیونکہ کسی جھوٹی بات پر قسم کھانا گناہِ کبیرہ ہے، البتہ اس کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ وغیرہ واجب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى: المائدة 89/5:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ.
لما في الترمذي، باب ما جاء في أن البينة على المدعي إلخ 3/ 618، تحت الرقم 1341:
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته، البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الأيمان، في أنواع اليمين 3/3:
أما يمين الغموس فهي الكاذبة قصدا في الماضي والحال على النفي، أو على الإثبات، وهي الخبر عن الماضي، أو الحال فعلا أو تركا متعمدا للكذب في ذلك مقرونا بذكر اسم الله تعالى.
وفي المبسوط للسرخسي، كتاب الأيمان 8/ 127:
والتي لا تكفر اليمين الغموس، وهي المعقودة على أمر في الماضي، أو الحال كاذبة يتعمد صاحبها ذلك، وهذه ليست بيمين حقيقة؛ لأن اليمين عقد مشروع، وهذه كبيرة محضة، والكبيرة ضد المشروع، ولكن سماه يمينا مجازا؛ لأن ارتكاب هذه الكبيرة لاستعمال صورة اليمين كما سمى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيع الحر بيعا مجازا؛ لأن ارتكاب تلك الكبيرة لاستعمال صورة البيع، ثم لا ينعقد هذا اليمين فيما هو حكمه في الدنيا عندنا، ولكنها توجب التوبة والاستغفار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:322
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13