Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

نکاح میں خطبہ نکاح اور گواہوں کی شرعی حیثیت:

سوال:
   لڑکی کا والد لڑکی کے ہوتے ہوئے لڑکے کے والد کو بغیر خطبۂ نکاح کے یہ الفاظ کہے ”میں نے اپنی بیٹی آپ کے بیٹے کو دے دی“ لڑکی کی رضامندی کے ساتھ، اور لڑکے کا والد لڑکے کی رضامندی کے ساتھ اس کا وکیل بن کر اس لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے قبول کرتا ہے، تو شریعت کی رو سے یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟ اور اب لڑکی کا دوسرے لڑکے کے ساتھ قانوناً ورواجاً نکاح ہو چکا ہے، پہلے نکاح کے بعد، تو یہ دوسرا نکاح درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   عقد نکاح میں ایجاب وقبول سے پہلے عربی میں خطبہ پڑھنا سنت ہے، فرض نہیں ہے، لہٰذا اگر دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے الفاظ صحیح طور پر ادا کیے گئے ہوں، اور گواہوں نے سن لیے ہوں، تو یہ نکاح درست ہے، اور دوسرا نکاح باطل ہے، البتہ اگر پہلے نکاح میں دو گواہ موجود نہیں تھے اور دوسرے میں موجود تھے، تو پہلا نکاح معتبر نہیں،  دوسرا نکاح معتبر ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح 8/3:
ويندب إعلانه وتقديم خطبة،  وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول.
2. بدائع والصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل في نكاح المسلم؟ المسلمة 2/ 254:
   وروي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا نكاح إلا بشهود» وروي «لا نكاح إلا بشاهدين».
3. البحر الرائق لابن نجيم 3/ 144:
   (وينعقد بإيجاب وقبول وضعا للمضي أو أحدهما)أي: ينعقد النكاح أي: ذلك العقد الخاص، ينعقد بالايجاب والقبول، حتى يتم حقيقة في الوجود.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:341
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




“طلاق دیتا ہوں” کے الفاظ سے طلاق واقع ہونے کا حکم:

سوال:
   ایک شخص نے اپنی بیوی کو گھریلو مسائل کی بنا پر پانچ مرتبہ کہا کہ میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، پشتو میں الفاظ یہ تھے”طلاق درکوم“ تو کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے؟
جواب:
   شخص مذکورکی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اور یہ عورت شوہر پر حرام ہوچکی ہے، اب ان دونوں کے لیے میاں بیوی کی طرح رہنا جائز نہیں ہے، چنانچہ مذکورہ عورت عدت طلاق گزرنے کے بعد اگر کسی اور مرد سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
   فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه(البقرة: 2/ 230).
2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطلاق، باب صریح الطلاق3/ 248:
   (قوله وما بمعناها من الصريح)… وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق 3/ 271 :
   وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير.
4. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الطلاق، باب إيقاع الطلاق 4/ 7:
   ولا يقع بأطلقك إلا إذا غلب في الحال.
وفي الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به1/ 473:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، وثنتين في الأمة، لم تحل له، حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها ثم يطلقها، أو يموت عنها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:340
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




سترہ کے مسئلہ میں مسجدِ صغیر اور کبیر کا فرق:

سوال:
   ایک مسجد ہے جو شمالاً جنوباً تقریبا ساٹھ (60) سے ستر (70) فٹ ہے اور شرقاً غرباً چالیس(40) یا بیالیس (42) فٹ ہے، تو کیا یہ مسجدِ صغیر ہے یا کبیر؟ اور اس میں سترہ کا کیا حکم ہے؟ کیا دو صف چھوڑ کر نمازی کے آگے گزرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ مسجدِ کبیر وہ ہوتی ہے جس کی لمبائی، چوڑائی کم از کم چالیس (40) شرعی گز ہوں اور ایک شرعی گز(1.5) فٹ ہوتا ہے، جس کے لحاظ سے چالیس شرعی گز ساٹھ (60) فٹ بن گئے، پھر ساٹھ  مربع فٹ کو ساٹھ میں ضرب دینے سے چھتیس سو (3600) مربع فٹ بن گئے، جبکہ مسجد صغیر وہ ہے جس کی لمبائی، چوڑائی ملا کر چھتیس سو(3600) مربع فٹ سے کم بنتی ہو، اور مسجد کبیر میں نمازی کے سامنے بغیر سترہ کے سجدہ کی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزرنا جائز ہوتا ہے، لیکن مسجد صغیر میں جائز نہیں ہوتا، اور سوال میں جس مسجد کا ذکر ہے، اس کی لمبائی، چوڑائی چونکہ مطلوبہ مقدار سے کم ہے، اس لیے یہ مسجدِ صغیر ہے، جس میں سترہ کے بغیر نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته 1/ 634:
   (ومرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقا).
   قال ابن عابدين تحت قوله: (إلى حائط القبلة) أي: من موضع قدميه إلى الحائط، إن لم يكن له سترة، فلو كانت لايضر المرور وراءها على ما يأتي بيانه… (قوله: ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعا، وقيل من أربعين، وهو المختار، كما أشار إليه في الجواهر،” قهستاني“ (قوله: فإنه كبقعة واحدة) أي: من حيث إنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الاقتداء، تنزيلا له منزلة مكان واحد، بخلاف المسجد الكبير؛ فإنه جعل فيه مانعا، فكذا هنا يجعل جميع ما بين يدي المصلي إلى حائط القبلة مكانا واحدا، بخلاف المسجد الكبير،والصحراء فإنه لو جعل كذلك لزم الحرج على المارة، فاقتصر على موضع السجود، هذا ما ظهر لي في تقرير هذا المحل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:339
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




دورانِ عدت مطلقہ کا نان نفقہ کس کے ذمہ ہے؟:

سوال:
   جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں،  دورانِ عدت اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہے یا نہیں؟
جواب:
   جس عورت کو ایک یا دو یا تین طلاقیں دی گئی ہوں، دورانِ عدت اس کا نان نفقہ یعنی کپڑے، کھانا اور رہائش شوہر کے ذمے واجب ہے، چاہے عورت حاملہ ہو یا غیرحاملہ۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الطلاق، الفصل الثالث في نفقة المعتدة 1/ 557:
   المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى، كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا، حاملا كانت المرأة أو لم تكن.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، باب النفقة4/ 216:
   (قوله: ولمعتدة الطلاق) أي: تجب النفقة، والكسوة، والسكنى لمعتدة الطلاق، هذا هو ظاهر المختصر، وذكر الزيلعي النفقة، والسكنى، ولم يذكر الكسوة.
3. الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي الزبيدي، كتاب النفقات 2/ 85 :
   (قوله: وإذا طلق الرجل امرأته فلها النفقة، والسكنى في عدتها، رجعيا كان الطلاق، أو بائنا) وكذا الكسوة أيضا.
4. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، فصل في نفقة العدة1/ 215:
   المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا أو ثالثا حاملا كانت أو لم تكن.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:338
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




شادی نہ کرنے کی قسم کھاکر کسی ضرورت سے توڑنا کیسا ہے؟:

سوال:
   زید نے قسم کھائی تھی کہ میں دوسری شادی نہیں کروں گا، اب اولادِ نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے، تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں زيد کے لیے دوسری شادی کرنا شرعاً جائز ہےاور قسم توڑنے پر وہ گنہگاربھی نہیں ہوگا، لیکن جوں ہی وہ دوسری شادی کرے گا، اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوجائے گا، اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلائے، یا متوسط کپڑوں کا ایک ایک جوڑا دس مساکین کو دے دے، اور اگران دونوں کی طاقت نہ ہو، تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ، المائدة 89/5.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الأيمان 3/ 725 :
   (وكفارته) … (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) … (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط، وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و(يستر عامة البدن)… (وإن عجز عنها) كلها (وقت الأداء) عندنا… (صام ثلاثة أيام ولاء).
3. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الأيمان، الباب الأول في تفسير الأيمان شرعا وركنها وشرطها وحكمها2/ 52:
   ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث… ونوع لا يجوز حفظها، وهو أن يحلف على ترك طاعة، أو فعل معصية، ونوع يتخير فيه بين البر والحنث، والحنث خير من البر، فيندب فيه إلى الحنث، ونوع يستوي فيه البر والحنث في الإباحة، فيتخير بينهما، وحفظ اليمين أولى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:337
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




مطلقہ بیوی کی عدت کے دوران سالی سے نکاح کرنا:

سوال:
   مطلقہ بیوی کی عدت کے اندر اندر اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے يا نہیں؟ اگر کوئی کرے تو نکاح منعقد ہوگا یا عدت کے بعد دوبارہ کرنا پڑے گا؟
جواب:
   جس طرح بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں، اسی طرح دورانِ عدت بھی جمع کرنا درست نہیں، لہٰذا مذکورہ صورت میں عدت ختم ہونے سے پہلے اپنی سالی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اگر نکاح کر چکا ہے تو فورا جدا ہونا اور عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالىٰ:
   وَأَن تجمعُوا بَين الْأُخْتَيْنِ، النساء: 23.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام منه جمع في النكاح 2/ 263:
   وكما لا يجوز للرجل أن يتزوج امرأة  في نكاح أختها لا يجوز له أن يتزوجها في عدة أختها.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 3/ 38 :
   (و) حرم (الجمع) بين المحارم (نكاحا) أي عقدا صحيحا (وعدة ولو من طلاق بائن).
   قال ابن عابدین تحت قوله: (ولو من طلاق بائن) شمل العدة من الرجعي، أو من إعتاق أم ولد خلافا لهما أو من تفريق بعد نكاح فاسد، وأشار إلى أن من طلق الأربع لا يجوز له أن يتزوج امرأة قبل انقضاء عدتهن، فإن انقضت عدة الكل معا، جاز له تزوج أربع، وإن واحدة فواحدة بحر.
4. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 2/ 103:
   (والجمع بين الأختين نكاحا ووطئا بملك اليمين) لقوله تعالى {وأن تجمعوا بين الأختين} [النساء: 23] ولقوله – عليه الصلاة والسلام – «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجمعن ماءه في رحم أختين» ولأن الجمع بينهما يفضي إلى القطيعة فيحرم، وقد انعقد الإجماع على تحريم الجمع بينهما نكاحا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:336
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




مجلس نکاح میں لڑکی کے وکیل سے ایجاب کرائے بغیر لڑکے سے قبول کروانا:

سوال:
   ایک لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہو رہا تھا، مولوی صاحب نے گواہوں اور اس لڑکی کے بھائی کو لڑکی سے اجازت لینے کے لیے بھیجا، جب لڑکی سے اجازت لے کر واپس آئے، تو مولوی صاحب نے صرف لڑکے سے قبول کرالیا اور وکیل یعنی لڑکی کے بھائی سے کچھ بھی نہیں پوچھا اور نہ ایجاب کرایا، تو یہ نکاح منعقد ہوا ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ ایجاب وقبول نکاح کا رکن ہے، ان کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا، چنانچہ اگر لڑکا لڑکی مجلس میں خود موجود ہوں تو ان سے ایجاب وقبول کرانا چاہیے اور اگر لڑکی کی طرف سے کوئی وکیل مقرر ہو تو اس سے ایجاب کرانا چاہیے یا خطیب اس سے اختیار لے کر خود ایجاب کرے اور لڑکے سے قبول کروائے، لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر مولوی صاحب نے لڑکی کے وکیل سے نہ ایجاب کرایا تھا اور نہ اس سے اختیار لیا تھا بلکہ صرف لڑکے سے قبول کروایا تھا، تو اس طریقہ سے کیا ہوا نکاح درست نہیں، دوبارہ باندھنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح 3/ 9 :
   (وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي)؛ لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك (و) يقول الآخر (تزوجت).
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، شروط النكاح وأركانه 2/ 96 :
   (وينعقد بإيجاب وقبول وضعا للماضي أو أحدهما) أي ينعقد النكاح بالإيجاب والقبول بلفظين وضعا للماضي، أو وضع أحدهما للماضي، والآخر للمستقبل؛ لأن النكاح عقد، فينعقد بهما كسائر العقود.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:335
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




روزہ کی حالت میں سر پر گیلا کپڑا رکھنا کیسا ہے؟:

سوال:
   بحالتِ روزہ قصداً عمداً بڑا رومال پانی میں بھگو کر سر پر ڈالنے سے کراہت آئے گی یا نہیں؟
جواب:
   مذكوره صورت شرعا بلا كراہت جائز ہے.

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم، وما لا يفسده 3/ 458 :
   وکذا لا تكره حجامة وتلفف بثوب مبتل.
2. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الصوم، فصل فيما يكره للصائم، وما لا يكره، وما يستحب 1/ 256:
   وتسعة أشياء لا تكره للصائم … والتلفف بثوب متبل للتبرد على المفتى به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:334
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




اپنی مسجد چھوڑ کر دوسرےمحلہ کی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا :

سوال:
   کوئی آدمی دوسرے گاؤں میں اعتکاف کے لیے بیٹھے، تو اعتکاف کی سنتِ کفایہ کون سے گاؤں والوں کی طرف سے ادا ہوگی؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں معتکف جس گاؤں کی مسجد میں اعتکاف کرے گا، اسی گاؤں کی مسجد والوں کا سنت اعتکاف ادا ہوجائے گا، البتہ اس شخص کا اپنے محلہ کی مسجد کو چھوڑ کر دوسرے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا جبکہ اپنے محلہ کی مسجد میں کوئی بھی اعتکاف کرنے والا نہ ہو درست نہیں، کیونکہ ہرمحلہ کی مسجد میں کسی ایک  شخص کا اعتکاف کے لیے بیٹھنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے، جس کی خلاف ورزی کی وجہ سے دیگر اہل محلہ کی طرح یہ شخص بھی گنہگار ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصوم، باب الاعتكاف 3/ 495:
   (وسنة مؤكدة في العشر الأخير من رمضان) أي: سنة كفاية، كما في البرهان وغيره؛ لاقترانها بعدم الإنكار على من لم يفعله من الصحابة.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (أي سنة كفاية) نظيرها إقامة التراويح بالجماعة، فإذا قام بها البعض سقط الطلب عن الباقين، فلم يأثموا بالمواظبة على الترك بلا عذر.
2. مجمع الأنهر لداماد أفندي، باب الاعتكاف 1/ 255:
   (ھو)… (سنة مؤكدة) مطلقا، وقيل في العشر الأخير من رمضان؛ لمواظبته عليه الصلاة والسلام على ذلك منذ قدم إلى المدينة، حتى قبض، وقضائه في شوال حين ترك، وقيل: مستحب، وقيل: سنة على الكفاية حتى لو ترك أهل بلدة بأسرهم يلحقهم الإساء، وإلا فلا، كالتأذين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:333
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13




روزہ کی حالت میں احتلام کی وجہ سے غسل کرنا:

سوال:
   روزہ کی حالت میں کسی کو احتلام ہو جائے، تو اس کے لیے بحالتِ روزہ غسل کرتے ہوئے کلی کرنا یا ناک میں ڈالنا کیسا ہے؟
جواب:
   حالتِ روزہ میں اگر اختلام ہو جائے تو غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ کلی کرتے ہوئے اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے اس میں مبالغہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، سنن الوضوء1/ 115،116 :
   (وغسل الفم) أي استيعابه، ولذا عبر بالغسل أو للاختصار (بمياه) ثلاثة (والأنف) ببلوغ الماء المارن (بمياه) وهما سنتان مؤكدتان مشتملتان على سنن خمس: الترتيب، والتثليث، وتجديد الماء، وفعلهما باليمنى (والمبالغة فيهما) بالغرغرة، ومجاوزة المارن (لغير الصائم) لاحتمال الفساد.
2. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الطهارة، فصل يسن في الوضوء ثمانية عشر 1/ 28،29 :
والمبالغة في المضمضة والاستنشاق لغير الصائم.(و) يسن (المبالغة في المضمضة) وهي إيصال الماء لرأس الحلق (و) المبالغة في (الاستنشاق) وهي إيصاله ما فوق المارن لغير الصائم، والصائم لا يبالغ فيهما خشية إفساد الصوم لقوله عليه الصلاة والسلام: بالغ في المضمضة والاستنشاق إلا أن تكون صائما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:332
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13