نکاح میں خطبہ نکاح اور گواہوں کی شرعی حیثیت:
سوال:
لڑکی کا والد لڑکی کے ہوتے ہوئے لڑکے کے والد کو بغیر خطبۂ نکاح کے یہ الفاظ کہے ”میں نے اپنی بیٹی آپ کے بیٹے کو دے دی“ لڑکی کی رضامندی کے ساتھ، اور لڑکے کا والد لڑکے کی رضامندی کے ساتھ اس کا وکیل بن کر اس لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے قبول کرتا ہے، تو شریعت کی رو سے یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟ اور اب لڑکی کا دوسرے لڑکے کے ساتھ قانوناً ورواجاً نکاح ہو چکا ہے، پہلے نکاح کے بعد، تو یہ دوسرا نکاح درست ہے یا نہیں؟
جواب:
عقد نکاح میں ایجاب وقبول سے پہلے عربی میں خطبہ پڑھنا سنت ہے، فرض نہیں ہے، لہٰذا اگر دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے الفاظ صحیح طور پر ادا کیے گئے ہوں، اور گواہوں نے سن لیے ہوں، تو یہ نکاح درست ہے، اور دوسرا نکاح باطل ہے، البتہ اگر پہلے نکاح میں دو گواہ موجود نہیں تھے اور دوسرے میں موجود تھے، تو پہلا نکاح معتبر نہیں، دوسرا نکاح معتبر ہے۔
حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح 8/3:
ويندب إعلانه وتقديم خطبة، وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول.
2. بدائع والصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل في نكاح المسلم؟ المسلمة 2/ 254:
وروي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا نكاح إلا بشهود» وروي «لا نكاح إلا بشاهدين».
3. البحر الرائق لابن نجيم 3/ 144:
(وينعقد بإيجاب وقبول وضعا للمضي أو أحدهما)أي: ينعقد النكاح أي: ذلك العقد الخاص، ينعقد بالايجاب والقبول، حتى يتم حقيقة في الوجود.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:341
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-13