Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لینا:

سوال:
   بارگین والے بائع اور مشتری دونوں سے پیسے لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ اگر بارگین والے بائع اور مشتری دونوں کو معاملہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، تو ان کے لیے جانبین سے کمیشن لینا جائز ہے، تاہم معاملہ کرنے سے پہلے بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لینے کے بارے میں وضاحت ہونی چاہیے تاکہ بعد میں جھگڑے تک نوبت نہ پہنچے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب البيوع4/ 560 :
   وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
   قال ابن عابدين تحت قوله:…(يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع، أو المشتري، أو عليهما، بحسب العرف جامع الفصولين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:380
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




سود کی رقم مدرسہ یا مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیر میں خرچ کرنا:

سوال:
   کیا سودی رقم مدرسہ یا مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیر میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
   سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ کسی مستحق زکوۃ کو بغیر نیتِ ثواب كے مالک بناکر دی جائے، اس لیے اس کو مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیر میں خرچ کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، فصل في البيع 6/ 385:
   كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا: لو مات الرجل، وكسبه من بيع الباذق، أو الظلم، أو أخذ الرشوة، يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا، وهو أولى بهم، ويردونها على أربابها، إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الكراهية، فصل في البيع8/ 229:

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:379
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




پیسوں کے بدلے ادھار سونا خریدنا:

سوال:
   اگر كوئی شخص سونا ادھار خریدتا ہے اور قیمت ایک ماہ بعد ادا کرتا ہے، تو کیا اس طرح سونا خریدنا جائز ہے؟ اور کیا ادھار کی وجہ سے سود کے زمرہ میں تو نہیں آئے گا؟
جواب:
   موجودہ دور میں کرنسی نوٹ نے عرفی اعتبار سے باقاعدہ ثمنیت کی شکل اختیار كرچکی ہے، جس کو ثمن عرفی کہا جاتا ہے، اور چونکہ اس کی جنس سونا چاندی کی جنس سے مختلف ہے، اس لیے کرنسی کے بدلے سونا وچاندی کی ادھار خرید وفروخت جائز ہے، البتہ ادھار کی صورت میں احد البدلین یعنی کسی ایک عوض پر مجلس بیع میں قبضہ کرنا ضروری ہے، تاکہ دونوں طرف سے معاملہ ادھار کی شکل اختیار نہ کرے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، الفصل الثالث في بيع الفلوس3/ 224:
   إذا اشترى فلوسا بدراهم وليس عند هذا فلوس ولا عند الآخر دراهم، ثم إن أحدهما دفع وتفرقا جاز، وإن لم ينقد واحد منهما حتى تفرقا لم يجز، كذا في المحيط.
2. المحيط البرهاني لابن مازة، كتاب الصرف، الفصل الثاني: في بيع الدين بالدين وبالعين7/ 173 :
   إذا اشترى فلوساً بدراهم، وليس عند هذا فلوس ولا عند هذا دراهم، ثم إن أحدهما دفع، وتفرق جاز؛ لأن كل واحد منهما ثمن فيصير كل واحد منهما مشترياً بثمن ليس عنده وذلك جائز، وإنما اكتفى بنقد أحدهما لما ذكرنا قبل هذا: أن في بيع الفلوس بالدراهم يكتفي بقبض أحد البدلين قبل الافتراق.
3. المبسوط للسرخسي، كتاب الصرف، باب البيع بالفلوس 14/ 24:
   وإذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم ونقد الثمن، ولم تكن الفلوس عند البائع فالبيع جائز؛ لأن الفلوس الرابحة ثمن كالنقود، وقد بينا أن حكم العقد في الثمن وجوبها ووجودها معا، ولا يشترط قيامها في ملك بائعها لصحة العقد كما يشترط ذلك في الدراهم والدنانير.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:378
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




جانوروں کی خرید وفروخت کے لیے کسی کو پیسے دینا:

سوال:
   میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میں کاروبار کرنا چاہتا ہوں، تو میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے پیسے دے دو، میں اس سے گائے خرید لوں گا اور اس کو کچھ دن پالنے کے بعد بیچ دوں گا، جو منافع ملے گا، ہم دونوں اس میں برابر کے شریک ہوں گے، اور باقی پیسے میرے پاس ہوں گے، جس سے میں اور جانور خریدوں گا، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:
   مذکورہ معاملہ شرعا درست ہے، فقہی اصطلاح میں اس کو “عقدِ مضاربت” کہتے ہیں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها 4/ 285:
   أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين، والعمل من الجانب الآخر …(وأما ركنها) فالإيجاب والقبول وذلك بألفاظ تدل عليها من لفظ المضاربة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:377
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




مدرسہ کی زمین میں مدرسہ کے فنڈ سے فصل کاشت کرنا:

سوال:
   مدرسہ کے لیے ایک زمین خریدی ہے اور زمین میں مدرسے کے فنڈ سے کاشت کاری کی جاتی ہے، اس سے جو منافع حاصل ہو، وہ مدرسہ کے فنڈ میں جمع کیا جاتا ہے، کیا اس طرح کرنا شرعاً درست ہے؟
جواب:
   سوال ميں ذکر کردہ طریقۂ کار شرعاً درست ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم5/ 360:
   ولو كانت الارض متصلة ببيوت المصر يرغب الناس في استئجار بيوتها، وتكون غلة ذلك فوق غلة الزرع والنخل كان للقيم أن يبني فيها بيوتا فيؤاجرها؛ لان الاستغلال بهذا الوجه يكون أنفع للفقراء.
2. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي3/ 169 :

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:376
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




قبرستان کے درختوں کا حکم:

سوال:
   ایک قبرستان میں بڑے بڑے درخت ہیں، اگر ان کو فروخت کرکے ان کی قیمت قبرستان میں لگا دی جائے، تو جائز ہے يا نہیں؟
جواب:
   اگر قبرستان کے درخت زمین کو قبرستان بنانے سے پہلے اُگے ہیں، تو اگر وہ زمین پہلے کسی کی مملوکہ تھی اور اس نے اس قبرستان کو وقف کیا تھا، تو یہ درخت اس شخص کی ملکیت ہے جو چاہے کرے کیونکہ درخت اس وقف میں داخل نہیں اور اگر یہ درخت قبرستان بننے کے بعد اُگے ہیں، تو اگر اگانے والا معلوم  ہے، تو وہ اسی کے ہوں گے، اور اگر اگانے والا معلوم نہیں، تو وقف سمجھے جائیں گے اور ان میں قاضی کی رائے کا اعتبار ہوگا، اگر وہ چاہے تو ان کو بیچ کر قبرستان کی ضروریات میں خرچ کرسکتا ہے، اگر قاضی موجود نہ ہو تو علاقہ کے متدین افراد کی صوابدید پر ان کو بیچ کر قبرستان کی ضروریات میں خرچ کیا جاسکتا ہے، مثلا قبرستان کے ارد گرد اگر چاردیواری کی ضرورت ہو تو چاردیواری بنائی جائے، نیز قبروں کے بیچ میں مناسب راستہ بنایا جائے تاکہ لوگ بآسانی قبروں کے پاس آ جا سکیں، ایسے ہی وہاں روشنی کا مناسب انتظام کیا جائے تاکہ رات کے وقت کسی کو دفنانا آسان ہو، تاہم اگر قبرستان میں ضرورت نہ ہو تو ان پیسوں کو کسی دوسرے کارخیر میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر والخانات والحياض 2/ 473:
   مقبرة عليها أشجار عظيمة فهذا على وجهين: إما إن كانت الأشجار نابتة قبل اتخاذ الأرض أو نبتت بعد اتخاذ الأرض مقبرة، ففي الوجه الأول المسألة على قسمين: إما إن كانت الأرض مملوكة لها مالك، أو كانت مواتا، لا مالك لها، واتخذها أهل القرية مقبرة، ففي القسم الأول: الأشجار بأصلها على ملك رب الأرض يصنع بالأشجار وأصلها ما شاء، وفي القسم الثاني: الأشجار بأصلها على حالها القديم، وفي الوجه الثاني، المسألة على قسمين: إما إن علم لها غارس، أو لم يعلم، ففي القسم الأول، كانت للغارس، وفي القسم الثاني، الحكم في ذلك إلى القاضي إن رأى بيعها، وصرف ثمنها إلى عمارة المقبرة فله ذلك.
2. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، فصل في الأشجار3/ 176:
   مقبرة فيها أشجار عظيمة … وإن نبتت الأشجار فيها بعد اتخاذ الأرض مقبرة، فإن علم غارسها، كانت للغارس، وإن لم يعلم الغارس، فالرأي فيها يكون للقاضي، إن رأى أن يبيع الأشجار ويصرف ثمنها إلى عمارة المقبرة فله ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:375
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




“تم کو طلاق ہے”تین دفعہ کہنے کا حکم:

سوال:
   میں نے اپنی بیوی کو فون پر باتوں کے دوران دو دفعہ کہہ دیا کہ تم کو طلاق ہے، طلاق ہے، اس نے پھر کہہ دیا کہ میں نہیں مانتی، میں نے دوبارہ کہہ دیا یعنی تیسری دفعہ کہہ دیا کہ تم کو طلاق ہے، شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں شوہر کے تین دفعہ یہ الفاظ ”تم کو طلاق ہے“ کہنے سے عورت پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، اب یہ عورت شوہر پر حرام ہوئی ہے اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر ان دونوں کا آپس میں نکاح درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة 4/ 177:
   (وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها) والأصل فيه قوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230].
2. الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به 1/ 473:
   وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له، حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية، ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:374
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




میاں بیوی کا ایک دوسرے کو بہن، بھائی یا ماں، باپ کہنا:

سوال:
   شوہر بیوی کو رات بھر ماں، بہن کہتا رہا، اور بیوی شوہر کو باپ، بھائی کہتی رہی، تو کیا اس سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
جواب:
   مذكوره صورت ميں شوہر کا اپنی بیوی کو ماں، بہن کہنا اور بیوی کا اپنے شوہر کو باپ، بھائی کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ مياں بيوی کا ایک دوسرے کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا مکروہ ہے، آئندہ کے لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، باب الظهار 3/ 470:
   وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية، مكروه.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، باب الظهار4/ 107:
   قال: أنت أمي لا يكون مظاهرا، لكنه مكروه؛ لقربه من التشبيه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:373
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




بھائیوں سے بات چیت پر تین طلاق کو معلق کرنا:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے یہ الفاظ کہے کہ ” اگر میں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ بات چیت کی یا میں ان کے جنازے میں شریک ہوا تو میری بیوی کو ایک، دو، تین طلاق ہوں گی “ شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں جب یہ شخص اپنے بھائیوں سے بات چیت کرے گا یا ان کے جنازے میں شریک ہوگا، تو اس کی بیوی پر تین طلاقيں واقع ہو جائیں گی۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط إلخ 1/ 420:
   وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.
2. البناية لبدر الدين العينى، كتاب الطلاق، أضاف الرجل الطلاق إلى شرط 5/ 413:
   (وإذا أضافه): أي أضاف الرجل الطلاق، (إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق)؛ لأن المعلق بالشرط كالمنجز عند وجود الشرط (وهذا بالاتفاق).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:372
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




ملازمت کے لیےروزانہ گھر سےسفرکی مسافت پر نکلنے کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص روزانہ اسی (80) کلو میٹر سے زیادہ مسافت طے کرتا ہو، ملازمت کی جگہ جاتے ہوئے، لیکن رات کو واپس گھر آتا ہو، تو ایسا شخص روزانہ ملازمت کی جگہ قصر کرے گا، یا اتمام؟
جواب:
   اگر شخص مذکور کے شہر کی حدود سے جائے ملازمت کی حدود تک کم ازکم سوا ستتر(77.25) کلومیٹربنتا ہو، اورشخص مذکورنےابھی تک ایک مرتبہ بھی جائے ملازمت میں  پندرہ(15) دن ٹھہر نے کی نیت نہ کی ہو، تو یہ شخص اپنے شہر کی حدود سے نکلنے کے بعد واپس اپنے شہر کی حدود میں داخل ہونے تک مسافر رہےگا، اور نمازِ قصرادا کرے گا۔ 

حوالہ جات:
1. العناية شرح الهداية محمد بن محمد البابرتي، كتاب الصلاة، باب صلاة السفر 2/ 33:
   (وإذا فارق المسافر بيوت المصر صلى ركعتين)؛ لأن الإقامة تتعلق بدخولها، فيتعلق السفر بالخروج عنها.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر2/ 226:
   (من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثة أيام في بر، أو بحر، أو جبل، (قصر الفرض الرباعي) … أما الأول: فهو مجاوزة بيوت المصر لما صح أنه عليه السلام أنه قصر العصر بذي الحليفة. وعن علي أنه خرج من البصرة، فصلى الظهر أربعا، ثم قال إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا الركعتين.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر1/ 139:
ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما، أو أكثر، كذا في الهداية.


واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:371
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-16