Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

لیٹ کر قرآن کی تلاوت کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   تندرست آدمی قرآن کی تلاوت لیٹ کر کرسکتا ہےیا نہیں؟
جواب:
   لیٹ کر زبانی قرآن پاک کی تلاوت کرنا جائز ہے، خواہ عذر سے ہو یا بغیر عذر کے، البتہ اگر قرآنِ پاک ہاتھ میں ہو اور دیکھ کر پڑھ رہا ہوتو بلا عذر لیٹ کر پڑھنا بے ادبی ہے۔

حوالہ جات:
  الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الرابع في الصلاة والتسبيح ورفع الصوت عند قراءة القرآن 5/ 316 :
   رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله، يلبس صالح ثيابه، ويتعمم، ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان … لا بأس بقراءة القرآن إذا وضع جنبه على الأرض، ولكن ينبغي أن يضم رجليه عند القراءة، كذا في المحيط، لا بأس بالقراءة مضطجعا إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه يكون كاللبس، وإلا فلا، كذا في القنية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:390
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




اونٹ کی منت مان کر اس کی جگہ اونٹ کی قیمت یا سات بکریاں دینا:

سوال:
   ایک شخص نے کہا کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو ایک اونٹ ذبح کروں گا، اب اس کا کام ہوگیا اور اونٹ کہیں نہیں مل رہا تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں اونٹ کے بجائے سات (7) بکریاں ذبح کرے یا متوسط درجہ کے اونٹ کی قیمت مساکین پر تقسیم کردے تو بھی نذرپوری کرنے کے لیےکافی ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الأيمان 3/ 740 :
   (ولو قال لله علي أن أذبح جزورا وأتصدق بلحمه، فذبح مكانه سبع شياه جاز) كذا في مجموع النوازل، ووجهه لا يخفى.
   قال ابن عابدین تحت قوله: (ووجهه لا يخفى) هو أن السبع تقوم مقامه في الضحايا والهدايا.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الأيمان 4/ 321 :
   ولو قال: لله علي أن أذبح جزورا وأتصدق بلحمه، فذبح مكانه سبع شياه جاز، وهو يدل على أن مرادهم بالواجب الفرض من قولهم وأن يكون من جنسه واجب؛ لأن الأضحية واجبة، وهو الذبح لا التصدق مع أنه صريح بأنه لا يصح النذر بالذبح من غير تصريح بالتصدق بلحمه.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الزكاة، زكاة الخيل 1/ 271 :
   نذر أن يتصدق بشاتين وسطين فتصدق بشاة تعدلهما جاز؛ لأن المقصود إغناء الفقير، وبه تحصل القربة، وهو يحصل بالقيمة.
4. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف، شروط الواقفين 5/ 267 :
   ولو نذر أن يتصدق بعبده على الفقراء أو شاته أو ثوبه جاز التصدق بعينه أو بقيمته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:389
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




کسی کو کاروبار کے لیے رقم دیکر اپنے لیے سارے منافع کی شرط لگانا:

سوال:
   زید کے پاس رقم ہے اور خالد اس کو کہتا ہے کہ مجھے رقم دے دو، میں اس سے کاروبار کروں گا اور سارا منافع آپ کو دوں گا، کیا یہ معاملہ جائز ہے؟ اور اس کو فقہی اصطلاح میں کون سا معاملہ کہا جاتا ہے؟
جواب:
   سوال میں ذکر کردہ معاملہ شرعاً جائز ہے اور اس قسم کے معاملہ میں نفع ونقصان سارا کا سارا صاحبِ مال کا ہوتا ہے، فقہی اصطلاح میں اس کو عقدِ بضاعت کہتے ہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب المضاربة 5/ 647 :
   (ودفع المال إلى آخر مع شرط الربح) كله (للمالك بضاعة) فيكون وكيلا متبرعا (ومع شرطه للعامل قرض) لقلة ضرره.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب المضاربة 7/ 449:
   ومستقرض عند اشتراط كل الربح له، ومستبضع عند اشتراطه لرب المال فلا ربح له ولا أجر، ولا ضمان عليه بالهلاك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:388
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




شراب والی بوتلوں کو دھو کراستعمال کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   شراب والی بوتل دھونے کے بعد استعمال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   شراب کی بوتل میں فی نفسہٖ کوئی خرابی نہیں ہے، بلکہ خرابی اس کے غلط استعمال میں ہے، اس لیے اگر شراب کی خالی بوتل کو اچھی طرح دھوئے كہ اس سےشراب کی بوختم ہو جائے تو اس کو استعمال کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الأول في تطهير الأنجاس 1/ 43 :
   دن الخمر إذا غسل ثلاثا وكان عتيقا مستعملا يطهر، كذا في فتاوى قاضي خان، هذا إذا لم يبق رائحة الخمر.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة، باب الأنجاس 1/ 76 :
   إذا غسلت خابية الخمر ثلاث مرات تطهر إذا لم تبق رائحة الخمر.
3. المبسوط للسرخسي، كتاب الأشربة 24 / 21 :
   وإن غسل الظرف الذي كان فيه الخمر، فلا بأس بالانتفاع به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:387
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




بلی کا جوٹھا دودھ استعمال کرنا:

سوال:
    اگر دودھ میں بلی منہ ڈالے، تو اس دودھ کو استعمال کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   بلی کا جوٹھا مکروہ ہے، اس لیے اگر اس جوٹھے والے دودھ کے علاوہ مزید دودھ موجود ہو تو اس کو استعمال نہ کیا جائے، بلکہ جانوروں کو پلا دیا جائے اور اگر اضافی دودھ موجود نہ ہو، تو اس کے استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، باب المياه، فصل في البئر1/ 224 :
   (و) سؤرهرة(ودجاجة مخلاة) وإبل وبقر جلالة، فالأحسن ترك دجاجة ليعم الإبل والبقر والغنم قهستاني (وسباع طير) لم يعلم ربها طهارة منقارها (وسواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيها في الأصح إن وجد غيره وإلا لم يكره أصلا.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، فصل في الطهارة الحقيقية1/ 64 :
   (وأما) السؤر المكروه فهو سؤر سباع الطير، كالبازي … (وكذا) سؤر الهرة في رواية الجامع الصغير.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:386
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




سحر کے بدلے کسی پر سحر کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   دو آدمیوں نے ایک شخص پر سحر کرا دیا، وہ شخص فوت ہوگیا، لیکن عامل کہتا ہے کہ ان سحر کرنے والوں پر سحر کرنا خلافِ شرع ہے تو کیا عامل کا یہ کہنا درست ہے؟
جواب:
   کسی پر سحر وجادو کرنا یا کرانا شرعاً حرام اور ناجائز ہے، اس لیے عامل کی مذکورہ بات درست ہے، البتہ اگر مضبوط قرائن سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ فلاں جادو گر کے جادو کی وجہ سے فلاں شخص مرچکا ہے تو حکومت وقت اس کی تحقیق کرکے اس پر کوئی بھی مناسب سزا تجویز کرسکتی ہے۔ 

حوالہ جات:
1. صحیح البخاري، كتاب الطب، باب الشرك والسحر من الموبقات، الرقم: 5764:
   عن أبي هريرة، رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اجتنبوا الموبقات: الشرك بالله والسحر.
2. الدرالمختار، باب المرتد، مطلب في الساحروالزنديق 6/382:
   ساحر يسحر وهو جاحد لا يستتاب منه، ويقتل إذا ثبت سحره دفعا للضرر عن الناس، وساحر يسحر تجربة ولا يعتقد به لا يكفر. قال أبوحنيفة: الساحر إذا أقر بسحره أو ثبت بالبينة يقتل، ولا يستتاب منه والمسلم والذمي والحر  والعبد فيه سواء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:385
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




عورت کا جہاز میں بلا محرم سفر کرنا:

سوال:
   کوئی عورت عمرہ کے لیے جارہی ہے اور پشاور ائیر پورٹ تک اس کے ساتھ محرم ہوتا ہے، اور جدہ ائیر پورٹ پر بھی محرم کھڑا ہوتا ہے، تو جہاز میں بغیر محرم کے پشاور ائیر پورٹ سے جدہ ایئر پورٹ تک سفر کر سکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ شریعت نے عورت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ بلا محرم مسافتِ شرعی یعنی سوا ستتر (77.24) کلو میٹر سے زیادہ سفر نہ کرے، چاہے یہ سفر پیدل ہو یا سواری میں ہو یا جہاز میں، اس لیے مذکورہ صورت میں اس عورت کا پشاور ائیر پورٹ سے جدہ تک کا سفر بلامحرم کرنا شرعا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الحج2/ 464 :
   (و) مع (زوج أو محرم)…(بالغ) …(عاقل والمراهق كبالغ)…(غير مجوسي ولا فاسق)لعدم حفظهما (مع) وجوب النفقة لمحرمها (عليها) لأنه محبوس (عليها) لامرأة حرة ولو عجوزا في سفر.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (في سفر) هو ثلاثة أيام ولياليها فيباح لها الخروج إلى ما دونه لحاجة بغير محرم ”بحر“، وروي عن أبي حنيفة وأبي يوسف كراهة خروجها وحدها مسيرة يوم واحد، وينبغي أن يكون الفتوى عليه لفساد الزمان ”شرح اللباب“ ويؤيده حديث الصحيحين «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم عليها» وفي لفظ لمسلم «مسيرة ليلة» وفي لفظ «يوم».
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه1/ 218 :
   (ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا، إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام، هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك، حجت بغير محرم، كذا في البدائع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:384
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




شوہر تین طلاق سے مُکر جائے تو کس کا قول معتبر ہوگا؟:

سوال:
   زید اور اس کی بیوی کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ زید کہتا ہے کہ میں نے ایک طلاق دی ہے اور بیوی کہتی ہے کہ تین طلاقیں دی ہیں، تو کس کے قول کا اعتبار ہوگا؟
جواب:
   مذکورہ صورت بیوی کو چاہیے کہ اپنی بات پر گواہ پیش کرے، اگر بیوی کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو بیوی کے مطالبہ پر شوہر پر قسم آئے گی، اگر شوہر جرگہ کے سامنے اس طرح قسم اٹھا لیتا ہے کہ ”میں اللہ کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق نہیں دی ہے بلکہ ایک طلاق دی ہے“ تو شوہر کی بات کو مانا جائے گا اور مزید دو طلاق واقع نہ ہوں گی، تاہم ایسی صورت میں بھی اگر بیوی نے طلاق کے الفاظ خود اپنے کانوں سے سنے ہوں تو بیوی کے لیے شوہر کو اپنے قریب آنے دینا جائز نہ ہوگا، بلکہ یہ ضروری ہوگا کہ کسی طرح شوہر کو مال کی لالچ دے کر زبانی طلاق یا تحریری طلاق لے کر یا خلع کا معاملہ کرکے شوہر سے اپنے آپ کو آزاد کرالے، لیکن اگر بیوی کے لیے اس طرح کرنا مشکل ہو اور مجبورا شوہر کے ساتھ رہنا پڑے تو بیوی کو چاہیے کہ خاوند کو اپنے اوپر قدرت نہ دے، اگر شوہر زبردستی تعلقات قائم کرتا ہے تو اس کا گناہ شوہر پر ہوگا، بیوی گنہگار نہ ہوگی۔

حوالہ جات:
1. سنن الترمذي، أبواب الأحكام، باب ما جاء في أن البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه، الرقم: 1314 :
   عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه.
2. رد المحتار لابن عابدین، كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق3/ 251 :
   والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه، وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
3. الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الكراهية، الباب الثاني في العمل بغالب الرأي5/ 313 :
   وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا، وجحد الزوج ذلك، وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه.
4. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الأول في العمل بخبر الواحد5/ 301:
   وكذلك إن سمعته أنه طلقها، وجحد الزوج ذلك وحلف، فردها القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:383
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




چوہے کو زہر دے کر مارنا:

سوال:
   چوہے کو زہر دے کر مارنا یا کسی لکڑی وغیرہ سے مارنا کیسا ہے؟
جواب:
   اسلام میں چونکہ چوہے اور دیگر موذی جانوروں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے چوہے کو زہر دے کر یا کسی اور ایسے مناسب طریقہ  سے مارنا جائز ہے جس میں اس کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔

حوالہ جات:
1. صحيح مسلم، كتاب الحج، باب ما يندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، رقم الحديث: 1200:
   حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا زيد بن جبير، أن رجلا سأل ابن عمر، ما يقتل المحرم من الدواب؟ فقال: أخبرتني إحدى نسوة رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أمر أو «أمر أن يقتل الفأرة، والعقرب، والحدأة، والكلب العقور، والغراب».
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الخنثى، مسائل شتى6/ 752 :
   وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور، وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحا) ولا يضر بها؛ لأنه لا يفيد، ولايحرقها.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الخنثى، مسائل شتى6/ 227 :
   وجاز قتل ما يضر من البهائم، كالكلب، العقور، والهرة، إذا كانت تأكل الحمام، والدجاج؛ لإزالة الضرر، ويذبحها ذبحا، ولا يضر بها؛ لأنه لا يفيد فيكون تعذيبا لها بلا فائدة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:382
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18




یومیہ آدھی کمائی پر گاڑی اجرت پر دینا:

سوال:
  گاڑیوں کے مالکان کے پاس ایک مستقل ڈرائیور ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی وہ ڈرائیور کسی عذر کی وجہ سے چھٹی پر ہوتا ہے تو مالک کسی دوسرے ڈرائیور کو ایک دِن کے لیے گاڑی دیتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی مستقل اجرت مقرر نہیں کرتا، بلکہ جو کماتا ہے وہ آدھا آدھا یا کچھ کم یا زیاد ہ آپس میں تقسیم کرتے رہتے ہیں، تو ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب:
   ذکر کردہ معاملہ شرعا درست نہیں، کیونکہ اس میں اجرت مجہول ہے، اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ درائیور کے لیے یومیہ متعین اجرت مقرر کی جائےاور باقی جتنی کمائی ہوگی وہ مالک کی ہوگی۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الإجارة، شروط الإجارة5/ 6 :
   وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الإجارة5/ 106 :
   أن الإجارة بيع منفعة معلومة واقتضى هذا أن الإجارة لا تصح حتى تكون المنافع معلومة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:381
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18