Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

کرایہ کی گاڑی کی مرمت کس کے ذمہ ہوگی؟:

سوال:
   ایک آدمی نے رکشہ خریدا اور دوسرے آدمی کے حوالہ کیا کہ روزانہ مجھے 500 روپیاں دیا کرو، باقی جتنا بچے گا وہ آپ کا ہوگا اور تیل کا خرچہ بھی آپ کے ذمہ ہوگا، تو شرعاً یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ نیز اگر اس رکشہ میں خرابی آگئی تو اس کی مرمت کس کے ذمہ ہوگی؟
جواب:
   مذکورہ طریقہ سے یہ معاملہ کرنا شرعا درست نہیں، البتہ اس کی درست صورت یہ ہے کہ رکشہ کا مالک اس کو اپنا رکشہ کرایہ پر دے اور اس سے یہ طے کرے کہ مجھے روزانہ پانچ سو(500) روپے دینے ہوں گے، چاہے تمہیں مزدوری کم ہو یا زیادہ اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں، باقی گاڑی میں اگر کوئی بڑی خرابی آئے جیسے انجن وغیرہ خراب ہو جائے تو اس کا خرچہ مالک پر ہوگا، اس کو فقہی اصطلاح میں ”الصیانية الأساسية “ کہا جاتا ہے اور اگر کوئی معمولی خرابی آئے جیسے کہ ٹائر پنکچر ہوگیا وغیرہ تو اس کا خرچہ ڈرائیور پر ڈالا جاسکتا ہے، اس کو فقہی اصطلاح میں ”الصیانية العادية “ کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الإجارة 6/ 47:
   في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز، وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة، قال الحموي: أي فيصح اشتراطه، … وفي البزازية: ولو امتلأ مسيل الحمام فعلى المستأجر تفريغه ظاهرا كان أو باطنا، وتسييل ماء الحمام وتفريغه على المستأجر، وإن شرط نقل الرماد والسرقين رب الحمام على المستأجر لا يفسد العقد، وإن شرط على رب الحمام فسد اهـ فتأمل، ولعله مفرع على القياس أو مبني على العرف ففي البزازية: وفي استئجار الطاحونة في كرى نهرها يعتبر العرف.
2. مجمع الأنهر، كتاب الإجارة 2/ 391:
   (والمتاع في يده) أي في يد الأجير (أمانة لا يضمن إن هلك) المتاع من غير فعله عند الإمام(وإن) وصلية (شرط) عليه (ضمانه)؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد (به) أي بعدم الضمان (يفتى).
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الإجارة 4/ 182:
   ولو قال: أجرتك هذه الدار سنة كل شهر بدرهم جاز بالإجماع؛ لأن المدة معلومة والأجرة معلومة فلا يجوز ولايملك أحدهما الفسخ قبل تمام السنة من غير عذر، ولو لم يذكر السنة فقال: أجرتك هذه الدار كل شهر بدرهم جاز في شهر واحد عند أبي حنيفة، … وإذا جاز في الشهر الأول لا غير عند أبي حنيفة، فلكل واحد منهما أن يترك الإجارة عند تمام الشهر الأول، فإذا دخل الشهر الثاني.
4. خلاصة الفتاوى لطاهر بن عبد الرشيد، كتاب الإجارة3/ 147 :
   وعمارة الدار وتطییینھا واصلاح میزابھا على الآجر … قال في المحيط: فإن شرط رب الحمام على المستاجر نقل الرماد والسرقين لا يفسد العقد، قال الفقيه ابو الليث: المعتبر في ذلك عادات الناس في تلك البلدة، ولو طلب من المكاري أن يدخل بيته فالمعتبر هو العرف.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:399
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




انسانی اعضاء کی پیوند کاری کرنا:

سوال:
   انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے بارے میں کیا حکم ہے؟ یعنی ایک زندہ انسان اپنا کوئی عضو دوسرے انسان کو دے سکتا ہے يانہیں؟
جواب:
   كسی انسانی عضو کا خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا دوسرے انسان کے جسم میں لگانا چاہے معاوضہ کے ساتھ ہو یا بلا معاوضہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر جائز نہیں:
1)  اس میں انسانی جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔
2) جب کسی انسان کے جسم سے کوئی جزو الگ کر دیا جائے تو وہ ناپاک اور مردار کے حکم میں ہوجاتا ہے۔
3) انسانی اعضاء اور جوارح انسان کے پاس امانت ہیں اور انسان اس کا نگران اور محافظ ہے۔
4) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے الگ کرکے دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به5/ 338:
   مضطر لم يجد ميتة، وخاف الهلاك فقال له رجل اقطع يدي وكلها أو قال اقطع مني قطعة وكلها لا يسعه أن يفعل ذلك، ولا يصح أمره به كما لا يسع للمضطر أن يقطع قطعة من نفسه فيأكل.
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 6/ 425 :
   (ولا يجوز بيع شعور الإنسان ولا الانتفاع بها) لأن الآدمي مكرم لا مبتذل فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا ومبتذلا.
3. المحيط البرهاني لابن مازة، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل التاسع عشر في التداوي والمعالجات إلخ5/ 373 :
   وإنما لم يجز الانتفاع بعظم الخنزير والآدمي، أما الخنزير؛ فلأنه نجس العين بجميع أجزائه، والانتفاع بالنجس حرام، وأما الآدمي فقد قال بعض مشايخنا: إنه لم يجز الانتفاع بأجزائه لنجاسته، وقال بعضهم: لم يجز الانتفاع به لكرامته، وهو الصحيح، فإن الله تعالى كرم بني آدم وفضلهم على سائر الأشياء، وفي الانتفاع بأجزائه نوع إهانة به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:398
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




بلا وجہ والدین کے گھر رہنے والی بیوی کے نفقہ کا حکم:

سوال:
   اگر ایک شخص کی بیوی بلا وجہ شوہر کے گھر میں نہ رہتی ہو بلکہ والدین کے گھر رہتی ہو، تو کیا اس صورت میں بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہے یا نہیں؟
جواب:
   شرعاً شوہر پر بیوی کا نفقہ تب واجب ہوتا ہے جب بیوی شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں رہائش پذیر ہو، لیکن اگر بلا عذر شرعی وہ کسی اور جگہ رہائش پذیر ہو تو شوہر پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہوتا، اور مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کا گھر چھوڑ کر والدین کے گھر گئی ہے، اس لیے اس کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب النفقة 3/ 575 :
   (لا) نفقة لأحد عشر:… و(خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات وفيه ستة فصول، الفصل الأول في نفقة الزوجة1/ 545 :
   فإن كان الزوج قد طالبها بالنقلة، فإن لم تمتنع عن الانتقال إلى بيت الزوج فلها النفقة، فأما إذا امتنعت عن الانتقال، فإن كان الامتناع بحق بأن امتنعت لتستوفي مهرها فلها النفقة، وأما إذا كان الامتناع بغير الحق، بأن كان أوفاها المهر، أو كان المهر مؤجلا، أو وهبته منه، فلا نفقة لها، كذا في المحيط، وإن نشزت، فلا نفقة لها، حتى تعود إلى منزله، والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه.


واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:397
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




ویران موقوفہ زمین کو بیچ کر اس کی قیمت دوسری مسجد میں خرچ کرنا:

سوال:
   ایک شخص نے زمین مسجد کے لیے وقف کر دی ہے جو ابھی تک ویران پڑی ہے، اس زمین کو دوسری جامع مسجد کی توسیع کے لیے فروخت کیا جاسکتا ہے یا نہیں، جبکہ واقف بھی اس پر راضی ہو؟
جواب:
   مالکِ زمین نے جب یہ زمین مسجد کے لیے وقف کر دی، تو یہ زمین مالک کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی گئی، اب اس کو فروخت کرنا یا اس میں کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ زمین ایسی ویران جگہ پر ہو کہ فی الحال یا آئندہ اس پر مسجد بنانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے دوسری جگہ زمین خریدی جائے اور اس پر مسجد بنائی جائے۔ 

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الوقف، الباب الأول في تعريفه وركنه وسببه وحكمه وشرائطه إلخ 2/ 454 :
   وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم، ولا يباع، ولا يوهب، ولا يورث، كذا في الهداية، وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما.
2. وفي رد المحتار، کتاب الوقف مطلب في استبدال الوقف وشروطه 386/4:
   لو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها، والمعتمد أنه بلا شرط يجوز للقاضي (استبداله)بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية، وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به، وأن لا يكون البيع بغبن فاحش، وشرط في الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل؛ لئلا يحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا.

 

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:396
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




کیا راستے میں بوس وکنارکرنا خلوتِ صحیحہ کے قائم مقام ہے؟:

سوال:
   ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ رخصتی سے پہلے عام راستہ میں بوس وکنار کرے، تو کیا اس سے خلوتِ صحیحہ ثابت ہوجائے گی؟
جواب:
   خلوتِ صحیحہ کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی کو كسی کمرہ وغیرہ میں ایسی تنہائی حاصل ہوجائے، جہاں کسی اور کا آنا ممنوع ہو اور مباشرت کرنے سے کوئی بھی رکاوٹ نہ ہو، لہٰذا مذکورہ صورت میں راستہ میں بوس وکنار کرنے سے خلوتِ صحیحہ ثابت نہیں ہوگی۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة1/ 304:
   والخلوة الصحيحة أن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء، حسا أو شرعا، أو طبعا، كذا في فتاوى قاضي خان.
2. وفيه أيضا: 1/ 305 :
   لا تصح الخلوة في الصحراء ليس بقربهما أحد إذا لم يأمنا مرور إنسان، وكذا لو خلا على سطح ليس على جوانبه ستر أو كان الستر رقيقا أو قصيرا بحيث لو قام إنسان يقع بصره عليهما لا تصح الخلوة إذا خافا هجوم الغير فإن أمنا صحت الخلوة.
3. المحيط البرهاني لابن مازة، كتاب النكاح، الفصل السادس عشر في المهور3 / 110 :
   لا تصح الخلوة في المسجد، والطريق الأعظم، والحمام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:395
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




رضاعی بھانجی سے نکاح کرنا:

سوال:
   ایک شخص نے مدتِ رضاعت میں اپنی نانی کا دودھ پیا، تو آیا خالہ کی لڑکی سے اس شخص کا نکاح جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں یہ شخص اپني خالہ کا رضاعی بھائی بن گیا، اور خالہ کی بیٹی رضاعی بھانجی بن گئی، تو جس طرح حقیقی ماموں کا اپنی بھانجی سے نکاح كرنا جائز نہیں، اسی طرح رضاعی ماموں کا بھی اپنی رضاعی بھانجی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. سنن ابن ماجه، باب: يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب، الرقم: 1937 :
   عن عائشة، قالت: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب”.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 2/ 103:
   (والكل رضاعا) أي يحرم عليه جميع من تقدم ذكره من الرضاع، وهن أمه وبنته وأخته وبنات إخوته وعمته وخالته وأم امرأته وبنتها وامرأة أبيه وامرأة ابنه كل ذلك يحرم من الرضاع كما يحرم من النسب؛ لقوله تعالى {وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ} [النساء: 23] ولقوله عليه الصلاة والسلام «يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب».

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:394
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




شہر کے قریب گاؤں میں نمازِ جمعہ ادا کرنا:

سوال:
ہمارا گاؤں شہر سے تقریبا ایک كلو ميٹر دور ہے، اور ہمارے گاؤں کی آبادی تقریبا (55) گھروں پر مشتمل ہے، اور ہمارے گاؤں کی کچھ ضروریات زندگی گاؤں کی دکانوں سے پوری ہوتی ہے، تو کیا ہمارے گاؤں کی مسجد میں نماز جمعہ درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   شرعی لحاظ سے نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے اس جگہ کا شہر یا فنائے شہر، یا بڑا گاؤں ہونا ضروری ہے، فنائے شہر سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں سے شہر کی ضروریات مثلا ہسپتال، چھاؤنی، قبرستان وغیرہ وابستہ ہوں، اور بڑے گاؤں سے مراد وہ جگہ ہے، جس کی آبادی ڈھائی تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہو، اور وہاں ضروریات زندگی بآسانی مل جاتی ہوں، لہذا ذکر کردہ صورت میں اس گاؤں پر چونکہ بڑے گاؤں کا اطلاق نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی شہر کی ضروریات اس کے ساتھ وابستہ ہیں، اس لیے اس میں نمازِ جمعہ پڑھنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الجمعة 6/2:
   (ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأول، (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى؛ لظهور التواني في الأحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير، وقاض يقدر على إقامة الحدود … (أو فناؤه) بكسر الفاء، (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا، كما حرره ابن الكمال وغيره، ( لأجل مصالحه) كدفن الموتى، وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بالفرسخ ، ذكره الولوالجي.
قال ابن عابدين تحت قوله: (قوله وظاهر المذهب إلخ) … عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق، ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح.
 2. البحرالرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة باب الجمعة 2/ 246:
   ویجوز في جميع أفنية المصر، لأنها بمنزلة المصر في حوائج أهله … فاختار في الخلاصة والخانية، أنه الموضع المعد لمصالح المصر، متصل به، ومن كان مقيما في عمران المصر وأطرافه، وليس بين ذلك الموضع وبين عمران المصر فرجة، فعليه الجمعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:353
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




اقامت کرتے وقت یا نومولود کے کان میں اذان دیتے وقت حیعلتین پر منہ پھیرنا:

سوال:
   اذان میں ”حی علی الصلاة“ اور ”حی علی الفلاح“ پر جس طرح دائیں بائیں التفات مسنون ہے، اس طرح اقامت میں بھی مسنون ہے یا نہیں؟ نیز نو مولود بچے کے کان میں اذان واقامت میں بھی مسنون ہے یا نہیں؟
جواب:
   اذان کی طرح اقامت میں اور ایسے ہی نومولود بچے کےکان میں اذان دیتے ہوئے ان دونوں مواقع پر دائیں بائیں منہ پھیرنا مسنون ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الأذان1/ 387 :
   (ويلتفت فيه) وكذا فيها مطلقا، وقيل إن المحل متسعا (يمينا ويسارا) فقط؛ لئلا يستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (ويلتفت) أي يحول وجهه لا صدره قهستاني، ولا قدميه نهر، (قوله: وكذا فيها مطلقا) أي في الإقامة سواء كان المحل متسعا أو لا… وفي البحر عن السراج أنه من سنن الأذان، فلا يخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود ينبغي أن يحول. (قوله مطلقا) للمنفرد وغيره والمولود وغيره.
3. المحيط البرهاني لابن مازة، كتاب الصلاة، الفصل السادس عشر في التغني والألحان1/ 340 :
   والصحيح: أنه يحول على كل حال؛ لأنه صار سنّة الأذان، فيؤتى به على كل حال، قال: حتى قالوا في الذي يؤذن لمولود: ينبغي أن يحول وجهه يمنةً ويسرةً عند هاتين الكلمتين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:393
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




شرکیہ عقیدہ کا باعث بننے والے درخت کو کاٹنا کیسا ہے؟

سوال:
   قبرستان میں کسی پیر صاحب کی قبر کے پاس کوئی درخت ہو، اور اس درخت سے متعلق لوگوں کا عقیدہ ہو کہ جو شخص اس درخت کو ہاتھ لگائے گا یا اس کے کاٹنے کا ارادہ کرے گا، تو اس پر کوئی آفت آئے گی تو آیا لوگوں کے شرکیہ عقیدہ کو ختم کرنے کے لیے اس درخت کا کاٹنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   اگر مذکورہ درخت کے بارے میں واقعی لوگوں کا اس قسم کا شرکیہ عقیدہ بن چکا ہو، تو اس درخت کو کاٹنا ضروری ہے، جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیعتِ رضوان والے درخت کے بارے میں کچھ لوگوں کا غلط عقیدہ بن گیا تھا، تو انہوں نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا تھا۔

حوالہ جات:
   مصنف ابن ابي شيبة كتاب صلاة التطوع والإمامة وأبواب متفرقة، في الصلاة عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم وإتيانه، الرقم : 7545:
   عن نافع، قال: بلغ عمر بن الخطاب أن ناسا يأتون الشجرة التي بويع تحتها، قال: فأمر بها فقطعت.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:392
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19




غیرمسلم کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا:

سوال:
   کوئی کافر مسلمان کے ذریعے دوسرے مسلمان کو سلام بھیجے، تو اس کے جواب میں کیا کہنا چاہیے؟
جواب:
   غیر مسلموں کو مسلمانوں جیسا سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے، لہٰذا غیر مسلم کے سلام کے جواب میں ”هداك الله“ يا صرف ”وعليك“ کہنا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع 6/ 412 :
   فلا يسلم ابتداء على كافر؛ لحديث «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام، فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه» رواه البخاري … ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم، فلا بأس بالرد (و) لكن (لا يزيد على قوله، وعليك) كما في الخانية.
2. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي 3/ 260 :
   أما إذا ابتدأ الكافر، فلا بأس بأن يرد عليه، ولكن لا يزيد على قوله وعليك.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الاستحسان 5/ 128 :
   ويكره الابتداء بالتسليم على اليهودي والنصراني؛ لأن السلام اسم لكل بر وخير، ولا يجوز مثل هذا الدعاء للكافر، إلا أنه إذا سلم لا بأس بالرد عليه مجازاة له ولكن لا يزيد على قوله: وعليك؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن اليهود إذا سلم عليكم أحدهم فإنما يقول: السام عليكم فقولوا وعليك».

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:391
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18