Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس کی بہن سے نکاح کرنا :

سوال:
   زید نے فاطمہ کے ساتھ  نکاح کرکے اس کو طلاق دے دی، تو اب زید فاطمہ کی چھوٹی  بہن کیساتھ نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   زید کا فاطمہ کی چھوٹی بہن سے نکاح کرنا درست ہے بشرطیکہ اس کی عدت پوری ہوچکی ہو۔ 

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام منه جمع في النكاح 2/ 263:
   وكما لا يجوز للرجل أن يتزوج امرأة في نكاح أختها لا يجوز له أن يتزوجها في عدة أختها.
2. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب النكاح، الفصل الرابع عشر في بيان ما يجوز من الأنكحة وما لا يجوز 3/ 77:
   وكما لا يجوز للزوج أن يتزوج بأخت امرأته في عدة امرأته، فكذا لا يجوز له أن يتزوج أحداً من ذوات محارمها في عدتهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:775
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27




بھانجےکی مطلقہ بیوی سے نکاح کرنا :

سوال:
   زید کے بھانجے نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی ، اب زید بھانجے کی مطلقہ بیوی سے عدت کے بعد نکاح کرنا چاہتا ہے تو زید کا اس  سے نکاح کرنا درست ہے؟
جواب:
   بهانجے کی مطلقہ چونکہ محرمات میں سے نہیں ہے، اس لیے عدت گزرنے کے بعد زید کا اس کے ساتھ نکاح کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالٰى:
   وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم، النساء.( 4 / 25).
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل أن تكون المرأة محللة 2/ 256:
   فالمحرمات بالقرابة سبع فرق: الأمهات والبنات والأخوات والعمات والخالات وبنات الأخ وبنات الأخت.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:774
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27




” والدین کے گھر گئی تو تم میرے نکاح سے خارج ہو” کہنے کاحکم:

سوال:
   زید نے اپنی منکوحہ سے کہا کہ اگر تو اپنے والدین کے  گھر چلی گئی، تو تم میرے  نکاح سے خارج ہو، ابھی تک زید کی منکوحہ اپنے والدین کے گھرنہیں گئی ہے، اب دونوں میاں بیوی چاہتے ہیں کہ بیوی ماں کے گھر چلی جائے، تو اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ 
جواب:
   شخص مذکور کی بیوی کو چاہیے کہ اپنے والدین کے گھر چلی جائے، اس سے اس پر ایک طلاق بائن پڑجائے گی، اس کے بعد دوگواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ آپس میں نکاح کرلیں، اب آئندہ اگر وہ اپنے والدین کے گھر جائے گی تو دوبارہ طلاق نہیں پڑے گی۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب التعليق 3/ 352:
(وفيها) كلها (تنحل) أي: تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما، فإنه ينحل بعد الثلاث) لاقتضائها عموم الأفعال.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما 420/1:
وإذا أضافه إلى الشرط،  وقع عقيب الشرط اتفاقا، مثل: أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا، أو يضيفه إلى ملك.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات 3/ 237:
وفي «فتاوى شمس الإسلام» رحمه الله: إذا قال لها: أنا أبرأتك عن الزوجية، يقع الطلاق من غير نية في حال الغضب وغيره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:783
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27




جنگل میں بغیر گواہوں کے نکاح کرنا کیساہے؟:

سوال:
   زید اور ہندہ دونوں جنگل بیابان میں اکیلے ہوں، جہاں کوئی بھی انسان موجود نہ ہو، اور وہ آپس میں نکاح کرنا چاہتے ہوں، تو گواہوں کے بغیر آپس میں ان کا نکاح کرنا شرعاً درست ہے؟
جواب:
   نکاح کے لیے دو گواہوں کا ہونا شرط ہے، بغیر گواہوں کے نکاح کرنا درست نہیں، اس لیے مذکورہ صورت میں زید اور ہندہ کا آپس میں بغیر گواہوں کے نکاح کرنا درست نہیں، چاہے لڑکا لڑکی جنگل میں ہوں یا آبادی میں۔

حوالہ جات:
1. سنن الترمذي، كتاب النكاح، باب ما جاء لا نكاح إلا ببينة، الرقم: 1103:
عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البغايا: اللاتي ينكحن أنفسهن بغير بينة.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب النكاح 3/ 94:
قوله: عند حرين أو حر وحرتين، عاقلين، بالغين، مسلمين…متعلق بينعقد بيان للشرط الخاص به، وهو الإشهاد، فلم يصح بغير شهود.
3. المبسوط لشمس الأئمة السرخسي، كتاب النكاح، باب النكاح بغير شهود 5/ 35:
قال: ولو تزوج امرأة بغير شهود أو بشاهد واحد، ثم أشهد بعد ذلك لم يجز النكاح؛ لأن الشرط هو الإشهاد على العقد، ولم يوجد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:772
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27




عددی اشیاء میں تبادلے کے وقت تفاضل  اور ادھار کاحکم:

سوال:
   ایک موٹر سائیکل کے بدلے دو موٹر سا یئکل، ایک گھر کے بدلے دو گھر لینا شرعاً جائز ہے؟ اور اس میں ادھار کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   اگر ایک کمپنی کے دو موٹر سائیکل اسی کمپنی کے ایک موٹر سائیکل کے بدلے میں خریدے جارہے ہوں، تو یہ معاملہ درست ہے، البتہ ادھار ناجائز ہے، کیونکہ دونوں کی جنس ایک ہے، لیکن اگر کمپنیاں مختلف ہوں، مثلا ایک طرف ہنڈا موٹر سائیکل ہے اور دوسری طرف دو چائینہ موٹر سائیکليں ہیں، تو ادھار بھی جائز ہوگا، ایسے ہی  گھر آپس میں ہم جنس نہیں ہوتے كیونکہ ان کے بناوٹ وغیرہ میں لامحالہ فرق ہوتا ہے، اس لیے ایک گھر کے بدلے دوگھر ادھار خریدنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. الهداية للمرغيناني، كتاب البيوع، باب الربا3/ 61:
   قال: وإذا عدم الوصفان: الجنس، والمعنى المضموم إليه، حل التفاضل والنساء؛ لعدم  لعلة المحرمة… وإذا وجدا، حرم التفاضل، والنساء؛ لوجود العلة. وإذا وجد أحدهما، وعدم الآخر، حل التفاضل، وحرم النساء.
2. الدر المختار، مطلب في الإبراء عن الربا 172/5:
(وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل، وحرم النساء) ولو مع التساوي، حتى لو باع عبدا بعبد إلى أجل لم يجز لوجود الجنسية.
3. فقه البيوع للمفتي محمد تقي عثماني 2/ 669:
   وعلى هذا: الثياب المنسوجة ببلاد مختلفة أو شركات مختلفة تعتبر أجناس مختلفة إن كان بينهما تفاوت في الصناعة، وكذالك السيارات والدراجات والأجهزة الكهربائية المصنوعة ببلاد مختلفة أو بشركات مختلفة إلخ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:781
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




موبائل اورمیموری کارڈ کی خرید و فروخت:

سوال:
   سمارٹ فون اور میموری کارڈ کی خرید وفروخت کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   میموری کارڈ اور موبائل کا چونکہ جائز استعمال موجود ہے، اس لیے ان کی خرید وفروخت شرعا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الجهاد، باب البغاة4/ 268:
   وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به، كبيع الجارية المغنية، والكبش النطوح، والديك المقاتل، والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا، وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ.
2. النهر الفائق لابن نجيم الحنفي، كتاب الجهاد، باب البغاة3/ 268:
   لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به، كبيع الجارية المغنية، والكبش النطوح، والحمامة الطيارة، والعصير، والخشب الذي يتخذ منه المعازف.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:773
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




باغ میں پھول لگنے سے پہلے اس کی خرید وفروخت:

سوال:
   باغ میں پھول آنے سے پہلے باغ فروخت کرنا کیسا ہے؟ اور اس کی جواز کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟
جواب:
   باغ میں پھول آنے سے پہلے اس کو فروخت کرنا ناجائز ہے، البتہ اگر باغ کو زمین کے ساتھ کرایہ پر لے لے اور جب باغ میں پھول لگ جائیں اور مقصود حاصل ہونے کے بعد زمیں فارغ کرکے مالک کے حوالہ کردے تو جائز ہے۔ 

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب البيوع 4/ 505:
   وشرط المعقود عليه ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم.
2. بدائع الصنائع للكاساني،كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة4/ 189:
   ولو اشترى الرطبة بأصلها ليقلعها ثم استأجر الأرض مدة معلومة لتبقيتها جاز.
3. مجمع الأنهرلإبراهيم الحَلَبي، كتاب البيوع27:
   وإن تركها بإذن البائع بلا اشتراط طاب له الزيادة وإن تركها بغير إذنه تصدق بمازاد في ذاتها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:782
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




تصویر دار برتن کی خرید و فروخت:

سوال:
   تصویر دار برتن فروخت کرنا کیسا ہے؟
جواب:
   تصویر داربرتن خریدتے وقت چونکہ تصویر مقصود نہیں ہوتی، بلکہ مقصود برتن کی خریداری ہوتی ہے اس لیے یہ خریداری جائز ہوگی، تاہم چونکہ یہ چیزیں آگے استعمال بھی ہوتی ہیں اور تصویر دار چیز استعمال کرنا بھی معصیت سے خالی نہیں اس لیے اگر تصویر دار چیز کی خرید وفروخت مجبوری ہو اور اس کا متبادل موجود نہ ہو جیسے کہ بعض دوائیاں، کتابیں وغیرہ تو خریداری میں مضائقہ نہیں لیکن اگر متبادل موجود ہو تو خریداری سے بچنے میں احتیاط ہے۔  

حوالہ جات:
1. شرح السير الصغير لشمس الائمة السرخسي، باب ما يحمل عليه الفيء وما يجوز فعله بالغنائم في دار الحرب، ص:  1051:
   ألا ترى أن المسلمين يتبايعون بدراهم الأعاجم فيها التماثيل بالتيجان، ولا يمتنع أحد عن المعاملة بذلك. وإنما يكره هذا فيما يلبس أو يعبد من دون الله من الصليب ونحوها، وحكم هذه الأشياء كحكم ما لو أصابوا برابط وغيرها من المعازف، فهناك ينبغي له أن يكسرها، ثم يبيعها، أو يقسمها حطبا، قال: إلا أن يبيعها قبل أن يكسرها ممن هو ثقة من المسلمين يعلم أنه يرغب فيها للحطب لا للاستعمال على وجه لا يحل، فحينئذ لا بأس بذلك؛ لأنه مال منتفع به، فيجوز بيعه للانتفاع به بطريق مباح شرعا.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، تغميض عينيه في الصلاة 2/ 30:
ثم التمثال إن كان على وسادة أو بساط لا بأس باستعمالهما.
2. فقه البيوع لمحمد تقي العثماني1/ 321:
   أما إذاكان المبيع شيئا آخر من المباحات، وهو مشتمل على صور، فتدخل في البيع تبعا، فيجوز بيعها. وھذا مثل الجرائد والصحف والکتب التي يقصد منها مضمونها المباح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:769
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




زبر دستی کسی سے طلاق دلوانا:

سوال:
   زيد كو كسی نے طلاق دینے پر مجبور کیا اور اس نے طلاق دے دی تو کیا یہ طلا ق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
جواب:
   بلا وجہ شرعی کسی سے زبردستی طلاق دلوانا اگرچہ گناہ ہے، تاہم زبردستی طلاق دلوانے سے بھی طلاق پڑ جاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں طلاق پڑجائے گی۔

حوالہ جات:
1. في الدر المختار للحصفكي، كتاب الطلاق، ركن الطلاق3/ 235:
   (ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا، بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطلاق 2/ 194:
   ويقع طلاق كل زوج عاقل بالغ، ولو مكرها وسكران وأخرس:
4. الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي، كتاب الطلاق2/ 33:
   ويقع طلاق كل زوج إذا كان بالغا عاقلا) سواء كان حرا أو عبدا طائعا أو مكرها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:768
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




مطلقہ ثلاثہ سے حلالہ شرعیہ کے بغیر نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد کا حکم:

سوال:
   جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے، اور پھر اس عورت سے بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کرے، تو اولاد حلال ہوگی یا حرامی؟   
جواب:
   واضح رہے کہ تین طلاق دینے کے بعد بغیر حلالۂ شرعیہ کے دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں، اگر کسی نے اس طرح کیا تو وہ سخت گناہ گار ہے، ایسے شخص پر لازم ہے کہ دل سے توبہ کرے اور فورا جدائی اختیار کرلے، تاہم اس نکاح سے پیداہونے والی اولاد حلال اور ثابت النسب ہوگی۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب 1/ 540:
   ولو طلقها ثلاثا، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره، فجاءت منه بولد، ولا يعلمان بفساد النكاح، فالنسب ثابت، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى، كذا في التتارخانية ناقلا عن تجنيس الناصري.
2. التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطلاق، الفصل التاسع والعشرون في ثبوت النسب 5/ 262:
   ولو طلقها ثلاثا، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره، فجاءت منه بولد، ولا يعلمان بفساد النكاح فالنسب ثابت، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالٰى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:771
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27