Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

نماز میں” عین“ کی جگہ”غین“ پڑھنا

سوال:
   امام نے مغرب کی نماز میں سورۂ بقرہ کی آیت ”سمعنا واطعنا “ کی جگہ ”سمعنا واطغنا“ پڑھا،یعنی عین غین پڑھا تو کیا اس کی نماز فاسد ہوگئ یا نہیں؟
جواب:
   نماز میں قراءت کرتے ہوئے اگر ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف ادا کرلیا، جس سے معنی میں تبدیلی آجائے، تو اگر ان حرفوں میں کسی مشقت کے بغیر آسانی سے فرق کیا جاسکتا ہو، اور امام نے فرق نہیں کیا، تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر ان حرفوں میں فرق کرنا دشوار ہو، جسےسین اور صآد، ظاء اور ضآد، طا اور تا، عین اور غین، تو نماز فاسد نہیں ہوگی، لہذا ذکرکردہ صورت میں عین کی جگہ غین پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی، تاہم امام مذکور کو چاہیے کہ کسی ماہر قاری کی خدمات حاصل کرکے اپنی قراءت درست کرالے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، مطلب مسائل زلة القارىء1/631:
   وإن كان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمكن الفصل بينهما بلا كلفة، كالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مكان الصالحات، فاتفقوا على أنه مفسد، وإن لم يمكن إلا بمشقة، كالظاء مع الضاد والصاد مع السين، فأكثرهم على عدم الفساد لعموم البلوى.
2. الموسوعة الفقهية لهيئة كبار العلماء، كتاب الصلاة، اللحن بمعنى التغريد والتطريب 35/216.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:437
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26

 




@123گناہ کا کام کرنےپرطلاق کومعلق کرنا

سوال:
گل زرین کی منگنی میں نکاح بھی ہوا، اور یہ صاحب سعودی عرب چلا گیا، بعد میں فون پر اپنی بیوی کو کہا کہ “اگر میں نے شب زفاف کے رات آپ کے ساتھ وطی فی الدبر نہیں کی تو تو مجھ پر طلاق ہے” اور اس نے شب زفاف میں بیوی کے ساتھ دبر میں وطی نہیں کیا، تو اس صاحب کی بیوی پر طلاق واقع ہوئی ہے، یا نہیں؟
جواب:
مذكوره صورت میں گل زرین کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے، اور طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر اندر اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطلاق، فصل في المشيئة 1/ 251:
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق وهذا بالاتفاق.
وفي الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط 1/ 420:
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.
وفي اللباب في شرح الكتاب، لعبد الغني الميداني، كتاب الطلاق 3/ 46:
وإن أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:429
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123طلاق دینےکےبعداسی طلاق کو تحریر میں لانےسےدوسری طلاق کاحکم

سوال:
ایک شخص نے چند سال قبل اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی تھی رجوع بھی کیا تھا، اور پھر اسی طلاق کو سٹامپ پیپر پر لکھ کر اس کی توثیق کی تھی، اس کے بعد آج تک دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، طلاقِ رجعی دینے کے بعد اسی طلاق کو کاغذ پر تحریر کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
سابقہ دی ہوئی طلاق کوسٹامپ پیپر پردرج کرنے سے دوسری طلاق نہیں پڑتی، لہذا مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق رجعی ہی واقع ہوئی ہے۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية 3/ 102:
ولو قال لامرأته: أنت طالق فقال له رجل: ما قلت؟ فقال: طلقتها أو قال قلت: هي طالق، فهي واحدة في القضاء؛ لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار.
وفي الفتاوى الهندية لجنة علماء، كتاب الطلاق، الفصل الأول في الطلاق الصريح 1/ 355:
ولو قال لامرأته أنت طالق، فقال: له رجل ما قلت، فقال طلقتها، أو قال قلت هي طالق، فهي واحدة في القضاء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:428
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123ولدالزنا کےنسب اورمیراث کامسئلہ

سوال:
ایک شخص نے ناجائز طریقہ سے ایک عورت سے بدفعلی کی اور حمل ٹھر گیا پھر اس عورت سے نکاح کرلیا، اس صورت میں یہ بچہ حلالی ہوگا یا حرامی، اور شخص مذکور کی جائیداد میں اس کو حصہ ملے گا یا نہیں؟
جواب:
اگر یہ بچہ چھ ماہ یا اس سے زائد مدت کے بعد پیدا ہوا ہو، تو اس بچے کا نسب اس شخص سے ثابت ہوگا، اور شخص مذکورکے جائیداد میں اس کو حصہ بھی ملے گا، لیکن اگر نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا ہو، تو اس صورت میں بچے کا نسب اس شخص سے ثابت نہیں ہوگا، اور شخص مذکور کی جائیداد میں اس کو حصہ بھی نہیں ملےگا، البتہ اگر یہ شخص خود یہ دعوی کرے کہ یہ بچہ میرا ہی ہے، تو اس صورت میں بچے کا نسب اس سے ثابت ہو جائے گا، اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ مجھ سے بطور زنا پیدا ہوا ہے، تو ایسی صورت میں اس بچہ کا نسب اس سے ثابت ہوگا، اور وراثت میں حصہ بھی ملے گا۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية لجنة علماء، كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب 1/ 540:
ولو زنى بامرأة فحملت، ثم تزوجها فولدت إن جاءت به لستة أشهر، فصاعدا، ثبت نسبه، وإن جاءت به لأقل من ستة أشهر، لم يثبت نسبه، إلا أن يدعيه، ولم يقل: إنه من الزنا، أما إن قال: إنه مني من الزنا، فلا يثبت نسبه، ولا يرث منه.
وفي الجوهرة النيرة لأبو بكر بن علي الحدادي،كتاب العدد، العدة في النكاح الفاسد 2/ 82:
ولو زنى بامرأة، فحبلت، ثم تزوجها، فولدت، إن جاءت به لستة أشهر، فصاعدا ثبت نسبه، وإن جاءت به لأقل، لم يثبت إلا أن يدعيه، ولم يقل إنه من الزنا، أما إذا قال هو ابني من الزنا، لا يثبت نسبه، ولا يرث منه.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب النكاح، الفصل السابع عشر في ثبوت النسب /125:
رجل زنى بامرأة، فحملت منه، فلما استبان حملها، تزوجها الذي زنى بها، فالنكاح جائز، فإن جاءت بالولد بعد النكاح لستة أشهر، فصاعداً يثبت النسب منه، وترث منه، لأنها جاءت به في مدة حمل، بأنه عقيب نكاح صحيح، فإن جاءت به لأقل من ستة أشهر، لا يثبت النسب، ولا ترث منه، إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولم يقل من الزنى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:427
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123دو طلاق صریح کےبعدرجوع کا حکم

سوال:
ایک شخص نے بیوی کو دو طلاقیں صریح دی، اب عدت کے دوران کیا اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے یا نہیں، اور رجوع کا کیا طریقہ ہوگا؟
جواب:
مذکورہ صورت میں عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے، تاہم رجوع کےبعد شوہر صرف ایک طلاق کا مالک ہوگا، اور رجوع کا طریقہ یہ ہے، کہ شوہر زبان سے کہہ دے، کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، ایسا ہی میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنے سے بھی رجوع ہوجاتا ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ دو مردوں کو گواہ کو بناکر ان کے روبرو زبان سے رجوع کرلے۔

حوالہ جات:
لما في اللباب في شرح الكتاب لعبد الغني الميداني، كتاب الرجعة 3/ 54:
إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية، أو تطليقتين، فله أن يراجعها في عدتها، رضيت بذلك، أو لم ترض، والرجعة أن يقول: راجعتك، أو راجعت امرأتي، أو يطأها، أو يقبلها، أو يلمسها بشهوة، أو أن ينظر إلى فرجها بشهوة، ويستحب أن يشهد على الرجعة شاهدين، فإن لم يشهد صحت الرجعة.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب النكاح، باب الرجعة 2/ 6:
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية، أو تطليقتين، فله أن يراجعها في عدتها، رضيت بذلك، أو لم ترض،والرجعة أن يقول: راجعتك، أو راجعت امرأتي، وهذا صريح في الرجعة، ولا خلاف فيه بين الأئمة.قال: أو يطأها، أو يقبلها، أو يلمسها بشهوة، أو ينظر إلى فرجها بشهوة، وهذا عندنا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:426
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123جانوروں کے گلے میں باندھنے کے لیے گھنٹی خریدنا

سوال:
بعض لوگ جانوروں کے گلے میں گھنٹی ڈالتے ہیں، اس گھنٹی کی بیع جائز ہے؟
جواب:
گھنٹی چونکہ جانوروں کے گلے میں جائز امور کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے، اس لیے اس کی خرید وفروخت جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في سنن أبي داؤد، كتاب أول الجهاد، باب في تعليق الأجراس الرقم: 2556:
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا تصحب الملائكة رفقة فيها كلب أو جرس”.
قال مفتی تقی العثمانی، في تكملة فتح الملهم، كتاب اللباس والزينة، باب كراهة الكلب و الجرس في السفر 4/ 179:
قال: شيخ مشايخنا السهارنفوري في بذل المجهود … وهذا (أي: كراهة الكلب والجرس) إذا خليا عن المنفعة، وأما ما احتيج إليه منهما فمرخص فيه. والذي يظهرلهذا العبد الضعيف عفا الله عنها أن الكراهة المذكورة في الحديث إنما تنصرف إلى كلب وجرس قصد منهما اللهو والغناء، كما كان يعتاده بعض أهل القوافل، ويدل عليه قوله عليه الصلوة والسلام في الرواية الأتية: ( الجرس مزاميرالشيطان) أما الكلب إذا كان للحراسة والتحرز من اللصوص فهو مرخص فيه ككلب زرع وماشية، وكذلك الجرس إذا كان لمقصود مباح، فلا بأس به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:425
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123اپنی بیٹی کانکاح جس جگہ چاہوکردو،سےطلاق پڑنےکاحکم

سوال:
زید نے اپنی بیوی کے والد کو کہا کہ میری طرف سے اجازت ہے اپنی بیٹی کا نکاح جس جگہ چاہو کردو، ان الفاظ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
جواب:
سوال میں ذکر کردہ الفاظ کنائی ہیں، جن میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، اگر شوہر نے مذکورہ الفاظ سے طلاق کی نیت کی ہو، تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے، اور اگر طلاق کی نیت نہ کی ہو، تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم،كتاب الطلاق، باب الكنايات في الطلاق 3/ 326:
وحاصل ما في الخانية أن من الكنايات ثلاثة عشر: لا يعتبر فيها دلالة الحال، ولا تقع إلا بالنية: حبلك على غاربك، تقنعي، تخمري، استتري، قومي، اخرجي، اذهبي، انتقلي، انطلقي، تزوجي، اعزبي، لا نكاح لي عليك، وهبتك لأهلك، وفيما عداها تعتبر الدلالة.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطلاق، الفصل الخامس: في الكنايات 3/ 460:
ولو قال لها: اذهبي فتزوجي لا يقع الطلاق، إلا بالنية، وإن نوى، فهي واحدة بالله.
وفي المبسوط للسرخسي، كتاب الطلاق، باب من الطلاق 6/ 143:
ولو قال لامرأته: اذهبي فتزوجي، فإن كان نوى طلاقا، فهو طلاق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:424
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123 طلاق بائن کےبعددوطلاق رجعی دینے کا حکم

سوال:
زيد نے اپنی بیوی کو دو طلاق بائن دے دی، پھرعقد نکاح کرلیا، چند دنوں بعد پھر دو طلاق دے دی، تو اس صورت میں دوبارہ رجوع کرنے کا کیا طریقہ ہے۔
جواب:
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دے، تو تجدید نکاح کے بعد اسے صرف دو طلاق کا اختیار حاصل ہوتا ہے، یعنی نکاح کرنے کے بعد اگر اس کو مزید دو طلاق دے دے تو بیوی اس پر مکمل حرام ہوجائے گی، لہذا مذکورہ صورت میں زید کی بیوی پراب طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے، زید کے لیے یہ عورت بغیر حلالہ کے حلال نہیں، اور حلالہ کا شرعی طریقہ یہ ہے، کہ یہ عورت عدت پوری کرکے کسی دوسری شخص سےنکاح کرے اور اس کے ساتھ صحبت بھی کرے، اس کے بعد اگر وہ شخص بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے طلاق دے دے، توعدت گزرنے کے بعد زید اس عورت کی مرضی سے دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرکے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، باب الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة 2/ 257:
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث، فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها ؛ لأن حل المحلية باق ؛لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله.
وفي الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به 1/ 473:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، وثنتين في الأمة، لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها، أو يموت عنها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:423
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123نکاح میں شرط فاسد لگانا

سوال:
زید نے اپنی بیٹی کا نکاح خالد سے اس شرط پر کرلیا، کہ خالد اس کو اپنے گھر میں رکھے گا، تو نکاح باقی، ورنہ نہیں، اب خالد اپنی بیوی کو دوسری جگہ لے جائے، تو نکاح باقی رہے گا، یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ نکاح شرط فاسد کی وجہ سے فاسد نہیں ہوتا، بلکہ خود وہ شرط فاسد ہوتی ہے، لہذا خالد اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جاسکتا ہے، اس کی وجہ سے اس کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل أن لا يكون مجهولا جهالة تزيد على جهالة مهر المثل 2/ 285:
ولو تزوج امرأة على ألف إن لم يكن له امرأة، وعلى ألفين إن كانت له امرأة، أو تزوجها على ألف إن لم يخرجها من بلدها، وعلى ألفين إن أخرجها من بلدها، أو تزوجها على ألف إن كانت مولاة، وعلى ألفين إن كانت عربية، وما أشبه ذلك، فلا شك أن النكاح جائز؛ لأن النكاح المؤبد الذي لا توقيت فيه، لا تبطله الشروط الفاسدة.
وفي البحرالرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب البيع، فروع متعلقة بالتصرف في مال الغائب 6/ 203:
قوله: (والنكاح) بأن قال تزوجتك على أن لا يكون لك مهر، يصح النكاح، ويفسد الشرط، ويجب مهر المثل، كما عرف في موضعه، ومن هذا القبيل، لو قال تزوجتك على أني بالخيار ويجوز النكاح ولا يصح الخيار؛ لأنه ما علق النكاح بالشرط فيبطل الخيار، كذا في الخانية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:422
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123حالتِ احرام میں خطمی سےسردھونا

سوال:
اگر حالتِ احرام میں خطمی سر دھویا جائے، تو امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک دم لازم ہوتا ہے، اور صاحبین رحمھما اللہ کے نزدیک دم لازم نہیں ہوتا، تومفتی بہ قول کونسا ہے؟
جواب:
اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ ؒ  کا قول مفتی بہ ہے، لہذا حالتِ احرام میں خطمی (جو کہ ایک گھاس کا نام ہے) سے سر دھونے والے پر دم لازم ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في  فتح القدير لابن الهمام، كتاب الحج، باب الإحرام 2/ 490:
وفي المحيط: أبيح له التحلل فغسل رأسه بالخطمي، أو قلم ظفره، قبل الحلق، عليه دم ؛ لأن الإحرام باق ؛ لأنه لا تحلل إلا بالحلق، فقد جنى عليه بالطيب.
وفي الفتاوي الهندية لجنة العلماء، كتاب المناسك، الباب الثامن في الجنايات، الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن 1/ 241:
ولا يغسل رأسه ولحيته بالخطمي، فإن غسل فعليه دم.
وفي غنية الناسك لمحمد حسن بن مكرم شاه المهاجر المكي،باب الجنايات، ص:389:
ولو غسل رأسه بالخطمي فعليه دم عند أبي حنيفة ؒوقالا:صدقة. قيل: جواب أبي حنيفة في خطمي العراقي وله رائحة طيبة وإن لم تكن زكية،لوجبه دم، وجوابهما في خطمي الشامي ولا رائحة له فلا خلاف في خطمي العراقي، ويجب الدم فيه بالاتفاق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:421
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-25