Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

@123ٹال مٹول کرنےوالےقرض دارسےچپکےسےاپنا قرضہ وصول کرنا

سوال:
اگر کسی کا دوسرے پر قرض ہو، اور وہ مقروض اسے وہ قرض کی رقم نہیں دیتا، اور قرض دہندہ اس مقروض کا مال چپکے سے لے کر اور اس مال سے اپنا قرض سے وصول کرتا ہو، جبکہ مقروض کو کوئی خبر نہ ہو، تو قرض دہندہ کا ایسا کرنا شرعا جائز ہے؟
جواب:
اگر مقروض قرض کی ادائیگی کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی قرضہ کی ادائیگی میں تاخیر کر رہا ہو تو اس سے کسی بھی مناسب طریقے سے اپنا قرضہ وصول کرلینا جائز ہے، اگرچہ مقروض اس پر راضی نہ ہو۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق  لابن نجيم، كتاب الدعوى 7/ 192:
رب الدين إذا ظفر من جنس حقه من مال المديون على صفته، فله أخذه بغير رضاه، ولا يأخذ خلاف جنسه، كالدراهم والدنانير.
وفي رد المختار لابن عابدين، كتاب الدعوى، مطلب حادثة الفتوى 7/ 192:
رب الدين إذا ظفر من جنس حقه من مال المديون على صفته، فله أخذه بغير رضاه، ولا يأخذ خلاف جنسه، كالدراهم والدنانير.
وفي مجمع الضمانات  لأبي محمد غانم الحنفي 1/ 459:
رب الدين إذا ظفر بجنس حقه من مال المديون على صفته، فله أخذه بغير رضاه، ولا يأخذ الجيد بالرديء، وله أخذ الرديء بالجيد، ولا يأخذ خلاف جنسه، كالدراهم بالدنانير.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:452
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-27




@123تیرہ چودہ سال کے لڑکےکی طلاق واقع ہوتی ہےیانہیں؟

سوال:
ایک لڑکا جس کی عمر تیرہ، چودہ سال ہے اس کا نکاح ایسی لڑکی کے ساتھ ہوا جس کی عمر بیس (20) سال ہے، تو یہ لڑکا اگر اس بیوی کو طلاق دے تو یہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
جواب:
طلاق دینے کے لیے انسان کا عاقل بالغ ہونا شرط ہے، اس لیے مذکورہ لڑکے میں اگر علامتِ بلوغ مثلا احتلام وغیرہ ظاہر ہوچکی ہو، تو اس کا طلاق دینا درست ہے، اور اگرعلامتِ بلوغ ابھی تک ظاہر نہ ہوئی ہو، تو اس کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

حوالہ جات:
لما في الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي الحدادي، كتاب الطلاق 2/ 33:
قوله: (ويقع طلاق كل زوج إذا كان بالغا عاقلا) ؛ لقوله: عليه الصلاة والسلام «كل الطلاق جائز، إلا طلاق الصبي والمجنون» قوله: (ولا يقع طلاق الصبي والمجنون)  ؛لأنه ليس لهما قول صحيح.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطلاق، فصل ويقع طلاق كل زوج 1/ 224:
ويقع طلاق كل زوج، إذا كان عاقلا بالغا، ولا يقع طلاق الصبي، والمجنون، والنائم ” ؛لقوله عليه الصلاة والسلام ” كل طلاق جائز، إلا طلاق الصبي والمجنون ” ؛ ولأن الأهلية بالعقل المميز، وهما عديما العقل.
وفي الاختيار لتعليل المختار عبد الله بن محمود الموصلي البلدحي، كتاب الطلاق 3/ 124:
قال: (ويقع طلاق كل زوج، عاقل بالغ مستيقظ) ؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «كل طلاق واقع، إلا طلاق الصبي، والمعتوه» ، وفي رواية: «إلا طلاق الصبي والمجنون» ، ولا يقع طلاق الصبي، والمجنون  ؛لما روينا، ؛ ولأنهما عديما العقل، والتمييز والأهلية بهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:451
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-27




@123 مرنے کے بعد حمل کو آپریشن کے ذریعے نکالنا

سوال:
کسی حاملہ عورت کا انتقال ہو جائے، اور اس کی پیٹ میں زندہ بچہ ہو، تو آپریشن وغیرہ کے ذریعہ اس کو نکالا جاسکتا ہے، یا نہیں؟
جواب:
اگر حاملہ عورت مرگئی ،اور یہ معلوم ہو جائے کہ بچہ پیٹ میں زندہ ہے، تو آپریشن وغیرہ کے ذریعہ اس کو نکالنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الجنائز، الصلاة علي الميت في المسجد 2/ 203:
ولما كانت الحركة دليل الحياة، قالوا الحبلى إذا ماتت، وفي بطنها ولد يضطرب، يشق بطنها، ويخرج الولد، لا يسع إلا ذلك.
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، باب أحكام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاته 1/ 597:
وفي الظهيرية ماتت، واضطرب الولد في بطنها، يشق، ويخرج، ولا يسع إلا ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:419
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123مرضِ موت میں اپنی زمین مدرسہ کےلیے وقف کرنا

سوال:
اگر کسی نے سخت مرض کی حالت میں اپنی زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی تو یہ وقف صحیح ہوا یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ اگر اس شخص کی موت اسی مرض میں واقع ہوئی ہو اور مدرسہ کے لیے وقف شدہ زمین اس کے مال کے ایک تہائی کے برابر یا اس سے کم ہو تو اس وصیت پرعمل کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ زمین تہائی مال سے زیادہ ہو تو صرف تہائی مال میں اس کو نافذ کیا جائے گا، البتہ اگر سب ورثہ بالغ ہوں اور وہ اجازت دے دیں، تو پھر پوری زمین مدرسہ کے لیے وقف ہوجائے گی، اور اگر مذکورہ شخص اس مرض سے صحت یاب ہوا ہو، تو وقف شدہ ساری زمین مدرسہ کے لیے وقف ہوجائے گی، اس میں ورثاء کا حق نہیں رہے گا۔

حوالہ جات:
لما في فتح القدير ابن الهمام، كتاب الوقف 6/ 208:
قوله: (ولو وقف في مرض الموت قال الطحاوي: هو كالوصية بعد الموت) حتى يلزم بعد الموت؛ لأن تصرفات المريض مرض الموت في الحكم كالمضاف إلى ما بعد الموت حتى يعتبر من ثلث ماله. والصحيح أنه لا يلزم عند أبي حنيفة إلا أن يحكم به فله بيعه ويورث عنه إذا مات قبل الحكم إلا أن تجيز الورثة. وعندهما: يلزم إلا أنه من الثلث ؛ لتعلق حق الورثة بخلافه في الصحة.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الوقف 1/ 375:
(الوقف في مرض موته، كهبة فيه) من الثلث مع القبض، (فإن خرج) الوقف (من الثلث، أو أجازه الوارث، نفذ في الكل، وإلا بطل في الزائد على الثلث).
وفي  درر الحكام لملا خسرو، كتاب الوقف، الوقف في مرض الموت 2/ 138:
(الوقف في مرض الموت، كالهبة فيه) فيعتبر من الثلث، ويشترط فيه ما يشترط فيها من القبض والإفراز، (فإن خرج من الثلث، أو أجازه الوارث، نفذ) في الكل، (وإلا بطل في الزائد على الثلث).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:418
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123قرض دی ہوئی چیز کی قیمت بڑھنے سے واپسی میں زیادتی کا مطالبہ کرنا

سوال:
زید نے ایک من گندم عمرو سے قرض لی تھی، اس وقت من گندم ایک ہزارروپے کی ہوتی تھی، اب دو سال بعد عمرو کہتا ہے کہ اس وقت گندم پندرہ سو روپے کی من ہے، تو آدھا من گندم تمہیں زیادہ دینا ہوگا، کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
قرض سے متعلق شرعی اصول یہی ہے کہ جتنا قرضہ دیا گیا ہے بوقتِ واپسی اتنا ہی قرضہ واپس کیا جائے گا اگرچہ وقت گزرنے کی وجہ سے اس چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہو، لہذا مذکورہ صورت میں جتنی گندم قرضہ میں دی گئی ہے اتنی ہی گندم واپس کی جائے گی، ورنہ زیادتی سود بن جائے گی، البتہ اگر قرضدار اپنی مرضی سے کچھ زیادہ دے دے، تو جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في السنن الكبرى للبيهقي، جماع أبواب الربا، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، الرقم: 10933:
عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ” كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا “.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب السابع والعشرون في القرض والدين 5/ 366:
والقرض: هو أن يقرض الدراهم والدنانير أو شيئا مثليا يأخذ مثله في ثاني الحال.
وفي الحاوي للفتاوي لجلال الدين السيوطي، تعريف الفئة بأجوبة الأسئلة المائة 2/ 392:
والقرض يوفي بوزن مثلما قبضوا إن زاد أو إن تنقص قيمة العين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:417
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123کتوں کی خریدوفروخت کرناکیساہے؟

سوال:
ہمارا ایک رشتہ دار ہے جو کتوں کی خرید وفروخت کا کام کرتا ہے، تو یہ جائز ہے؟
جواب:
جس كتے كو پالنا جائز ہے اس کی خرید وفرخت بھی جائز ہے، اور جس کو پالنا جائز نہیں ہے اس کی خرید وفروخت بھی جائز نہیں ہے، اور کتے کو پالنے کی اجازت اس صورت میں ہے جبکہ وہ شکار یا گھر وغیرہ کی حفاظت کے لیے ہو، لہذا شکاری یا حفاظتی کتوں کی خرید وفروخت جائز ہے، لیکن جو کتے صرف شوق پورا کرنے کے ہی پالے جاتے ہیں، ان کا کاروبار درست نہیں۔

حوالہ جات:
لما في صحيح مسلم، باب الأمر بقتل الكلاب الخ،  الرقم: 1573:
عن ابن المغفل، قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الكلاب، ثم قال: «ما بالهم وبال الكلاب؟»، ثم رخص في كلب الصيد، وكلب الغنم.
وفي مجمع الأنهر لداماد أفندي، كتاب البيوع، مسائل شتى في البيع 2/ 107:
وذكر في المبسوط أنه لا يجوز بيع الكلب العقور الذي لا يقبل التعليم، وقال هذا هو الصحيح من المذهب، وهكذا يقول في الأسد إذا كان يقبل التعليم ويصاد به: إنه يجوز بيعه، وإن كان لا يقبل التعليم والاصطياد به، لا يجوز.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:416
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123کسی سےزبردستی کوئی چیز خریدنا

سوال:
اگر کوئی شخص کسی سے جبرا کوئی چیز لے لے، اور اس کی قیمت اس کو حوالہ کردے، تو شرعا یہ بیع منعقد ہوئی یا نہیں؟ اور بائع کو معاملہ ختم کرنے کا اختیار ہے؟
جواب:
خريد وفروخت كے معاملہ میں جانبین کی رضامندی ضروری ہے، اورمذکورہ صورت میں چونکہ یہ چیز جبرا وصول کی گئی ہے، اس لیے صرف اس چیز کی قیمت ادا کرنا کافی نہیں ،جب تک قیمت وصول کرنے والا دل سے رضامندی کا اظہار نہ کرے ۔

حوالہ جات:
لما في تبيين الحقائق  عثمان بن علي الزيلعي، كتاب البيوع 4/ 2:
قال رحمه الله: (هو مبادلة المال بالمال بالتراضي)
وفي الهداية  لعلي بن أبي بكر  المرغيناني، كتاب الإكراه 3/ 272:
وإذا أكره الرجل على بيع ماله، أو على شراء سلعة، أو على أن يقر لرجل بألف، أو يؤاجر داره، فأكره على ذلك بالقتل، أو بالضرب الشديد، أو بالحبس، فباع، أو اشترى، فهو بالخيار، إن شاء أمضى البيع، وإن شاء فسخه، ورجع بالمبيع” لأن من شرط صحة هذه العقود التراضي.
وفي اللباب في شرح الكتاب لعبد الغني الميداني، كتاب الإكراه 4/ 108:
(وإذا أكره الرجل على بيع ماله، أو) أكره (على شراء سلعة، أو على أن يقر لرجل بألف) من الدراهم مثلا، (أو يؤاجر داره، وأكره على ذلك بالقتل، أو بالضرب الشديد، أو بالحبس المديد، فباع أو اشترى) خشية من ذلك، (فهو بالخيار: إن شاء أمضى البيع، وإن شاء فسخه) ورجع بالمبيع؛ لأن من شرط صحة هذه العقود التراضي، والإكراه يعدم الرضا، فيفسدها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:415
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123جانوروں کےگلےمیں گھنٹی ڈالنا

سوال:
بعض لوگ جانوروں کے گلے میں گھنٹی ڈالتے ہے کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
جانور كے گلے میں گھنٹی ڈالنے کے چونکہ مختلف فوائد ہیں، مثلا گھنٹی کی آواز سے پیچھے رہ جانے والا آدمی قافلہ تک پہنچ سکتا ہے، رات کے وقت موذی جانور بھاگ جاتے ہوں، جانورں میں چستی اور تیزی پیدا ہوتی ہے، تو ان فوائد کے پیش نظر جانور کے گلے میں گھنٹی باندھنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب السابع عشر في الغناء واللهو 5/ 354:
لا بأس بتعليق الأجراس على عنق الفرس والثور، كذا في القنية … ومنها أن صوت الجرس يزيد في نشاط الدواب، فهو نظير الحداء.
وفي الميحط البرهاني لابن مازه الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الثاني والثلاثون في المتفرقات 5/ 286:
قال: في الجرس منفعة جمة منها؛ إذا ضلّ واحد من القافلة، يلتحق بها بصوت الجرس، ومنها أن صوت الجرس يبعد هوام الليل عن القافلة، كالذئب وغيره، ومنها أن صوت الجرس يزيد في نشاط الدواب، وهو نظير الحدو، فإنه جوّز؛ لأنه يزيد في نشاط الدواب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:414
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123مریض کےلیےخون خریدنا

سوال:
کیا انسانی خون کی خرید وفروخت جائزہے؟ اور اگر کسی مریض کو بغیر پیسوں کے خون نہ مل رہا ہوں، تو کیا اس کے لیے خون خریدنا جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ بوقتِ ضرورت جان بچانے کے لیے انسانی خون دینا جائز ہے، مگر خون کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، اگر کسی مریض کو اشد ضرورت ہو اور اس کو پیسوں کے بغیر خون نہ مل رہا ہو، تو اس کے لیے خریدنے کی گنجائش ہے، لیکن بیچنے والا بہر حال گناہ گار ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في ملتقي الأبحر لإبراهيم الحلبي، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 1/ 77:
بيع ما ليس بمال، والبيع به باطل، كالدم، والميتة، والحر.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 5/ 433:
ولم ينعقد بيع ما ليس بمال متقوم، كبيع الحر، والمدبر المطلق، وأم الولد، والمكاتب … والميتة، والدم.
وفي فتح باب العناية لملا علي القاري، كتاب البيوع، فصل: في البيع الصحيح والباطل، والفاسد، والمكروه 4/ 113:
(بطل بيع ما ليس بمال) سواء كان ثمنا أو مثمنا ؛ لانعدام ركن البيع، وهو مبادلة المال بالمال (كالدم والميتة).
وفي العناية شرح الهداية للبابرتي، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 6/ 425:
ونجس العين لا يجوز بيعه إهانة له، ويجوز الانتفاع به للخرز للضرورة ؛ لأن غيره لا يعمل عمله. فإن قيل: إذا كان كذلك وجب أن يجوز بيعه. أجاب بأنه يوجد مباح الأصل، فلا ضرورة إلى بيعه، وعلى هذا قيل: إذا كان لا يوجد إلا بالبيع، جاز بيعه، لكن الثمن لا يطيب للبائع، وقال أبو الليث: إن كانت الأساكفة لا يجدون شعر الخنزير إلا بالشراء، ينبغي أن يجوز لهم الشراء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:413
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26




@123طلاق مکرہ کا حکم

سوال:
زید کو بعض لوگوں نے پکڑ کراس کو مار پیٹا، اور زبردستی اس پر اپنی بیوی کو طلاق دلوادی، تو یہ طلاق واقع ہوئی ہے؟
جواب:
جبراور زبردستی کی صورت میں زبان سے دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لیے مذکورہ  صورت میں زید نے اگر واقعی زبان سے طلاق کے الفاظ استعمال کرلیے تھے تو اس کی طلاق واقع ہوچکی ہے۔

حوالہ جات:
لما في فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الإكراه 3/ 298:
و كذا لو أكره على الطلاق و العتاق، فطلق أو أعتق، يقع طلاقه، و عتاقه، عندنا.
وفي الأصل لمحمد بن الحسن الشيباني، باب الظهار 5/ 15:
وكذلك لو أكره على الطلاق، والعتاق، ففعل ذلك، كان ذلك لازماً.
وفي عمدة الرعاية لعبد الحي اللكنوي، كتاب الدعوى 8/ 233:
فإن من أكره على الطلاق، والعتاق، ففعل يقع الطلاق، والعتاق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:412
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-26