Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

@123تانبے اور پیتل کے برتنوں میں کھانا کھانا

سوال:
تانبے اور پیتل  کے برتنوں میں کھانا کھانا کیسا ہے؟
جواب:
سونا اور چاندی کے علاوہ پیتل، تانبے وغیرہ کے برتن کھانے کے لیے استعمال کرنا جائز ہے

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدین، كتاب الحضر الإباحة  6/ 343:
وفي الجوهرة: وأما الآنية من غير الفضة والذهب فلا بأس بالأكل والشرب فيها، والانتفاع بها كالحديد، والصفر، والنحاس، والرصاص، والخشب، والطين.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر الرغيناني، كتاب الحضر الإباحة، فصل في الأكل والشرب 4/ 363:
لابأس باستعمال آنية الرصاص، والزجاج، والبلور، والعقيق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:369
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-30

 




@123نذر کاکام پورا ہونے سے پہلے منت مانی ہوئی رقم کسی کو دینا

سوال:
ایک آدمی نے کہا یعنی نذر مان لی کہ اگر فلان کام ہوجائے تو میں ایک ہزار(1000) روپے اللہ کے نام پر دوں گا، اور اب ان کا کام نہیں ہوا، اور وہ ایک ہزار (1000) روپے اللہ  تعالیٰ کے نام پر دینا چاہتا ہے، تو کیا کام ہونے سے پہلے ان کا یہ ذمہ فارغ ہو جائے گا، اور ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ نذر کو اگرکسی شرط کے ساتھ معلق کرے، تو جب تک وہ شرط پوری نہ ہو، تو اس پر نذر پورا کرنا لازم نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں کام پورا ہونے سے پہلے اگر یہ رقم کسی کو منت پورا کرنے کے لیے دے دے، تو یہ اس کی طرف سے نفلی صدقہ  شمار ہوگا، اور جب کام پورا ہوجائے گا، تو اس پر دوبارہ یہ رقم ادا کرنا واجب ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني،  كتاب النذر، فصل في حكم النذر 5/ 93:
وإن كان معلقا بشرط نحو أن يقول: إن شفى الله مريضي …  أتصدق بدرهم، ونحو ذلك فوقته وقت الشرط … ولو فعل ذلك قبل وجود الشرط يكون نفلا؛ لأن المعلق بالشرط عدم قبل وجود الشرط، وهذا لأن تعليق النذر بالشرط هو إثبات النذر بعد وجود الشرط كتعليق الحرية بالشرط، إثبات الحرية بعد وجود الشرط، فلا يجب قبل وجود الشرط؛ لانعدام السبب قبله، وهو النذر، فلا يجوز تقديمه على الشرط؛ لأنه يكون أداء قبل الوجوب، وقبل وجود سبب الوجوب، فلا يجوز كما لا يجوز التكفير قبل الحنث؛ لأنه شرط أن يؤديه بعد وجود الشرط، فيلزمه مراعاة شرطه.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي،  فصل في النذر 2/ 400:
إذا علق النذر بالصوم بالشرط، وأداه قبل وجود الشرط، لا يجوز إجماعا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:368
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




ناراض مقتدیوں کی امامت کا حکم:

سوال:
   ایک آدمی مسجد کا امام ہے، مگر لوگ اس کو پسند نہیں کرتے ہیں، اور اس کو نکالنا چاہتے ہیں، مگر وہ زبردستی سے امامت کرتا ہے، تو ایسی صورت میں ان کی امامت کرنا کیسا ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ اگر مقتدیوں کا امام سے ناراضگی کسی دینی وجہ سے ہو، مثلاً: امام فاسق فاجر ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا اس سے زیادہ اہل مقتدیوں میں موجود ہو تو ایسی ناراضگی معتبر ہے، اور ایسے امام کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اور اگر ناراضگی ذاتی دشمنی وعناد کی وجہ سے ہو، تو ایسی ناراضگی معتبر نہیں، اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں ان بے جا تنگ کرنے والے مقتدیوں کی نماز اس امام کے پیچھے مکروہ ہوگی۔ 

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الإمامة 2/ 354:
   (ولو أم قوما، وهم له كارهون) إن الكراهة (لفساد فيه، أو لأنهم أحق بالإمامة منه، كره) له ذلك تحريما؛ لحديث أبي داود: ”لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما، وهم له كارهون“ (وإن هو أحق، لا) والكراهة عليهم.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم،  كتاب الصلاة، باب الإمامة1/ 609:
   وفي الخلاصة وغيرها: رجل أم قوما وهم له كارهون، إن الكراهية لفساد فيه، أو لأنهم أحق با لإمامة، يكره له ذلك، وإن كان هو أحق با لإمامة، لا يكره له ذلك.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصلاة، الفصل السادس أحكام الإمامة والإقتداء 2/ 180:
ومن أم قوما، وهم له كارهون، إن كانت الكراهة لفساد فيه،كره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لم يكره: لأن الفاسق والجاهل يكره العالم والصالح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:474
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




@123نابالغ کی قبرپرسورۂ بقرہ کی آیتیں پڑھنا

سوال:
اگر كوئی نابالغ بچہ فوت ہوجائے، تو کیا بڑوں کی قبرکی طرح اس کی قبر پر بھی سورت بقرہ کی ابتدائی اورانتہائی حصہ تلاوت کرنا مستحب ہے؟
جواب:
اس بارے میں احاديث میں چونکہ بڑے چھوٹے کی کوئی تصریح موجود نہیں، اس لیے نابالغ بچوں کی قبروں پر بھی مذکورہ آیتوں کی تلاوت کرنا مستحب ہے۔

حوالہ جات:
لما في شعب الإيمان، باب الصلاة على من مات من أهل القبلة، الرقم: 8854:
قال سمعت عطاء بن أبي رباح سمعت عبد الله بن عمر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ” إذا مات أحدكم فلا تحبسوه، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه فاتحة الكتاب، وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره “.
و في البناية شرح الهداية لبدر الدين العينى، باب الجنائز، كيفية الدفن 3/ 252:
وروى الطبراني أيضا من «حديث عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن أبيه قال: قال لي أبو اللجلاج بن خالد يا بني إذا أنا مت فألحد لي، فإذا وضعتني في اللحد، فقل بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن على التراب سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمها، فإني سمعت رسول الله عليه السلام يقول ذلك.
و في الفتاوي الهندية للجنة العلماء، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن الخ 1/ 166:
والأفضل الدفن في المقبرة التي فيها قبور الصالحين، ويستحب إذا دفن الميت أن يجلسوا ساعة عند القبر بعد الفراغ، بقدر ما ينحر جزور ويقسم لحمها، يتلون القرآن، ويدعون للميت، كذا في الجوهرة النيرة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:473
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




123@رشتہ داروں کے لیے دوسرے شہر میں زکوٰۃ بھیجنا

سوال:
اپنے آس  پاس کے غریب لوگوں کے بجائے کسی دوسرے شہر میں رشتہ دار کے لیے زکوۃ کی رقم بھیجنا کیسا ہے جبکہ وہ  مستحق زکوٰۃ بھی ہوں۔
جواب:
بلا وجہ ایک شہر کی زکوٰۃ دوسرے شہر میں منتقل کرنا اگرچہ مکروہ ہے، لیکن اگر کسی کے رشتہ دار دوسرے شہر میں ہوں اور مستحق زکوٰۃ ہوں تو ان کو زکوٰۃ دینا بہتر ہے بنسبت اپنے علاقے کے غرباء کے؛ کیونکہ اس میں دو اجر ہیں ایک زکوٰۃ کی ادائیگی کا اور دوسرا رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحمی کا۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، باب مصارف الزكاة 1/ 209:
و يكره نقل الزكاة من بلد إلى بلد إلا أن ينقلها الإنسان إلى قرابة أو إلى قوم هم أحوج إليها من أهل بلده، ولو نقل إلى غير هم أجزأه وإن كان مكروها.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الزكاة، الفصل الثامن:  من يوضع فيه الزكاة 3/ 221:
وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى في بعض روايات النوادر أنه إنما يكره الإخراج إلى بلدة أخرى إذا كان الإخراج في حينها، بأن أخرجها بعد حولان الحول، فأما إن كان الإخراج قبل حينها فلابأس به، هذا إذا لم يكن فقراء بلدة أخرى ذوي قرابة منه.
وفي تبيين الحقائق لزيلعي،كتاب الزكاة، باب المصرف 1/ 305:
(وكره نقلها إلى بلد آخر لغير قريب وأحوج) أي كره نقل الزكاة إلى بلد آخر لغير قريب ولغير كونهم أحوج فإن نقلها إلى قرابته أو إلى قوم هم إليها أحوج من أهل بلده لا يكره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:446
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29

 




نومولود بچےکےکان میں اذان واقامت کہنے کا طریقہ:

سوال:
   نو مولود بچے كے كان میں اذان دیتے وقت قبلہ رو ہونا ضروری ہے یا مستحب؟
جواب:
   بچے کے کان میں اذان دیتے وقت قبلہ رو ہونا مستحب ہے، اس طور پر کہ بچے کو دونوں ہاتھوں میں اٹھاکر قبلہ رو کھڑا ہوجائے اور دائیں کان میں اذان اور بائیں میں کان اقامت كہے۔

حوالہ جات:
   تقريرات الرافعي علي رد المحتار، كتاب الصلاة، مطلب في الكلام علي حديث 2/ 66:
   قال الرافعي: قوله: (حتی قالوا في الذي يؤذن للمولود ينبغي أن يحول) قال السندي: فيرفع المولود عند الولادة علي يديه مستقبل القبلة، ويؤذن في أذنه اليمني، ويقيم في اليسری، ويلتفت فيهما بالصلاة لجهة اليمين، و بالفلاح لجهة اليسار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:471
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




پیداوار میں عشر اور نصف عشر واجب ہونے کے اصول:

سوال:
   کونسی زمین میں عشر ہے، اور کون سی میں نصف عشر واجب ہے؟
جواب:
   جو زمین جو عشری ہو اور بارش کے پانی سے سراب ہوتی ہو اس میں عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے اور وہ زمین جو عشری ہو اور نہر یا ٹیوب ویل یا رہٹ کے پانی سے سیراب ہو تی ہو اور اس نہر کا باقاعدہ آبیانہ مقرر ہو تو اس میں نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہوگا۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الزكاة، باب العشر 2/ 416:
   ما سقته السماء ففيه العشر، وما سقي بغرب أو دالية ففيه نصف العشر (ونصفه في مسقي غرب و دالية) أي: يجب نصف العشر فيما سقى بآلة للحديث … وإن سقى بعض السنة بآلة والبعض بغيرها فالمعتبر أكثرها، كما مر في السائمة والعلوفة، وإن استويا يجب نصف العشر.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، باب الزرع و الثمار 1/ 205:
   وما سقى بالدولاب والدالية ففيه نصف العشر، وإن سقى سيحا وبدالية يعتبر أكثر السنة فإن استويا يجب نصف العشر، كذا في خزانة المفتين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:445
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29

 




ساس زنا کا دعوی کرےاور داماد منکر ہو:

سوال:
   ساس کہتی ہے کہ داماد نے میرے ساتھ زنا کیا ہے اور داماد منکر ہے، تو کیا ساس کے اس دعوی سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں اگر ساس کے پاس اپنے دعوی پر گواہ موجود نہ ہوں، تو داماد کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، اور حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

حوالہ جات:
   الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 3/ 37:
   (وإن ادعت الشهوة) في تقبيله، أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل، فهو مصدق) لا هي.
قال ابن عابدين تحت قوله:
(فهو مصدق)؛ لأنه ينكر ثبوت الحرمة، والقول للمنكر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:472
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




دورانِ طواف جماعت کھڑی ہونےکی صورت میں کیا کرناچاہیے؟:

سوال:
    اگر کوئی شخص نفلی طواف کر رہا ہو اور طواف کے دوران جماعت کھڑی ہو جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
   دورانِ طواف اگر جماعت کھڑی ہوجائے، تو طواف چھوڑ کر نماز میں شریک ہونا چاہیے، پھر نماز کے بعد دیکھے اگر طواف کے اکثر چکر لگا چکا ہے، تو جہاں طواف چھوڑا تھا وہیں سے شروع کرے، لیکن اگر چار سے کم چکر لگائے تھے تو مستحب یہ ہے کہ از سرِنو طواف شروع کرے، تاہم اگر رش کی وجہ سے از سرنو طواف کرنے میں مشکلات ہوں تو جہاں تک طواف کیا تھا وہیں سے شروع کرنے میں بھی مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. غنية الناسك لمحمد حسن بن مكرم شاه المهاجر المكي، كتاب الحج، فصل في ماهية الطواف وأنواعه إلخ، ص: 205:
   ولو خرج من الطواف أو من السعي إلى جنازة أو مكتوبة أو تجديد وضوء ثم عاد بنى لو كان ذلك بعد إتيان أكثره، ولو استأنف لا شيء عليه، فلا يلزم عليه إتمام الأول ؛لأن هذا الإستيناف للإكمال با لموالاة بين الأشواط، ويستحب الإستيناف في الطواف إذا كان قبل إتيان أكثره.
2. النهر الفائق  لسراج الدين ابن نجيم الحنفي، كتاب الحج، باب الإحرام 2/ 81:
   ولو أقيمت وهو يطوف، أو يسعى، ترك ذلك، وصلى، ثم بنى.
3. شرح مختصر الطحاوي للجصاص، كتاب المناسك، باب ذكر ما يعمل عند الميقات 529/2:
   وإذا أقيمت الصلاة, وهو يطوف، أو يسعى، صلى، وبنى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:470
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




@123جدہ میں رہنےوالے ملازم کےلیےطوافِ وداع کاحکم

سوال:
ايک شخص جده میں ملازم ہے، بیس سال سے جدہ میں رہتا ہے، تو یہ شخص حج سے فارغ ہونے کے بعد جدہ واپس جارہا ہے، تو اس پر طوافِ وداع واجب ہے یا نہیں؟
جواب:
جو لوگ کسی میقات کے باہر سے آتے ہیں ان کے لیے تو طوافِ وداع واجب ہے لیکن جو لوگ میقاتوں کے اندر رہتے ہیں ان کے لیے طوافِ وداع مستحب ہے، لہذا مذکورہ صورت میں جدہ میں رہائش پذیر شخص کے لیے طوافِ وداع کرنا مستحب ہے۔

حوالہ جات:
لما في غنية الناسك لمحمد حسن بن مكرم شاه المهاجر المكي، باب طواف الصدر
هو واجب على كل حاج آفاقي مفرد أو قارن أو متمتع بشرط كونه مدركا مكلفا غير معذور، فلا يجب على معتمر، ولا على أهل مكة، ومن أقام بها قبل حل النفر الأول وأهل الحرم والحل والمواقيت … إلا أنه يندب لأهل مكة، ومن في حكمهم، كما في الدرر والنهر وغيرهما، ومعنى قولهم: ومن أقام بها أي: نوى الإقامة الأبدية بها، واتخذها دارا … ولا يسقط عنه هذا الطواف بنية الإقامة ولو سنين، ويسقط بنية الاستيطان بمكة، أو بما حولها، قبل حل النفرا الأول.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:469
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29