Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

دعائےقنوت میں کچھ الفاظ چھوٹ جانے کا حکم:

سوال:
وتر کی نماز میں دعائے قنوت میں مجھ سے کچھ الفاظ رہ گئے اور میں نے سجدۂ سہو بھی نہیں کیا، تو کیا میری وتر کی نماز ہوگئ یا نہیں؟

جواب:
   وتر میں دعائے  قنوت واجب ہے، لیکن یہ وجوب دعائے قنوت کا  کچھ حصہ پڑھنے سے بھی ادا ہو جاتا ہے، البتہ پوری دعائے قنوت پڑھنا مستحب ہے، لہذا ذکر کردہ صورت میں نماز وتر ادا ہو گئی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل 2/ 540:
   (رکع الإمام قبل فراغ المقتدي) من القنوت (قطعه وتابعه)
   قال ابن عابدين تحت قوله: (قطعه، وتابعه)؛ لأن المراد بالقنوت هنا الدعاء الصادق على القليل والكثير، وما أتى به منه كاف في سقوط الواجب، وتكميله مندوب، والمتابعة واجبة، فيترك المندوب للواجب.
3. درر الحكام شرح غرر الأحكام لملا خسرو، كتاب الصلاة، أحوال الوتر 1/ 115:
   (ركع الإمام قبل فراغ المقتدي منه) أي القنوت (تابعه) أي قطع المقتدي القنوت، وتابع الإمام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:483
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31

 




کفارہ کے روزوں میں تسلسل برقرار نہ رہنے کا حکم:

سوال:
   ايک شخص نے كفاره كے روزے دس دن ركهے، گيارہویں دن فجر کی اذان کے وقت سحری کھالی، تو روزہ درست ہوا یا نہیں؟ اور روزہ نہ ہونے کی صورت میں کفارہ کے روزے از سرِنو شروع کرے گا یا نہیں؟
جواب:
   روزہ رکھنے اور کھولنے کا مدار وقت پر ہے، اذان پر نہیں، لہذا اگر مذکورہ شخص نے سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد سحری کھالی ہو، تو اس کا روزہ درست نہیں ہوا، اب کفارہ کے روزے از سرِنو رکھے، اور اگر وقت ابھی ختم نہیں ہوا تھا، تو روزہ درست ہے، از سرِنو رکھنے کے ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
   وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَد مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ. البقرة 2 /106:
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصوم 4 /436:
   (أو تسحر أو أفطر يظن اليوم) أي: الوقت الذي أكل فيه (ليلا و) الحال أن (الفجر طالع، والشمس لم تغرب) لف، ونشر… (قضى) في الصورة كلها، (فقط.)
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصوم، باب مايفسد الصوم وما لا يفسد 2/ 485:
   فلو أفطر  يوما في خلال المدة، بطل ما قبله، ولزمه الاستقبال سواء أفطر لعذر، أو لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:501
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31




دور دراز کے رشتہ داروں کی وجہ سے نماز جنازہ میں تاخیر کرنا:

سوال:
   جنازہ کو دور کے رشتہ داروں کے آنے تک مؤخر کرنا شرعاً کیسا ہے؟ 
جواب:
   احادیثِ مبارکہ میں میت کو جلدی دفنانے کی تاکید آئی ہے، لہذا میت کو غسل دینے اور تجهيز وتکفین کے انتظامات مكمل هونے کے بعد نماز جنازہ میں جلدی کرنا مسنون ہے، شرعی عذر یا قانونی مجبوری کے بغیر نمازِ جنازہ میں تاخیر کرنا خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو مکروہ ہے، لہذا دور دراز کے رشتہ داروں  کی وجہ سے نماز جنازہ میں تاخیر کرنا خلافِ سنت ہے۔

حوالہ جات:
1. صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب السرعة بالجنازة، الرقم: 1315:
   عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبيﷺ قال: أسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة، فخير تقدمونها إليه، وإن تك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم.
2. الدر المختار للحصکفي، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة  3/ 160:
   (ويسرع بها بلا خبب) أي: عدو سريع، ولو به كره، (وکرہ تأخير صلاته، ودفنه ليصلي عليه جمع عظيم بعد صلاة الجمعة) إلا إذا خيف فوتها بسبب دفنه.
3. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الجنائز، فصل: السلطان أحق بصلاته 2/ 335:
   والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت، ولو مشوا به بالخبب كره؛ لأنه  ازدراء بالموت وإضرار بالمتبعين، وفي القنية: ولو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة، يكره تأخير الصلاة ودفنه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة، ولو خافوا فوت الجمعة بسبب دفنه يؤخر الدفن.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:482
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31






مستحق زکوٰۃ فاسق شخص کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟:

سوال:
   جو آدمی فسق وفجور میں مبتلا ہو اور غریب ہو، اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   زكوٰۃ کسی مستحق کو دینا ضروری ہے، چاہے دیندار یا نہ ہو، البتہ دیندار کو دینا بہتر ہے، تاہم جو مستحق زکوٰۃ فسق وفجور میں مبتلا ہو، اور اس کے بارے میں اندیشہ ہو کہ وہ زکوٰۃ کی رقم کسی گناہ کے کام  میں خرچ کرے گا، تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ یہ اس کے ساتھ گناہ کے کام میں تعاون ہے، البتہ اگر وہ اچھی طرح اطمینان دلادے کہ وہ اس کو غلط کاموں میں خرچ نہیں کرے گا، تو دینے میں مضائقہ نہیں، زکوۃ ادا ہوجائے گی۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
    وتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ. المائدة2/5:
2. الجوهرة النيرة لابي بكر بن علي الزبيدي، كتاب الزكاة، باب المصارف1/ 131:
  (ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان) … (ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك، وإن كان صحيحا مكتسبا)؛ لأنه فقير إلا أنه يحرم عليه السؤال.
3. تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب الزكاة 2/ 301:
والتصدق على الفقير العالم، أفضل من التصدق على الجاهل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:500
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31




پگڑی کے بغیر نماز پڑھانا کیساہے؟:

سوال:
   ایک آدمی ہے، وہ مسجد کے امام کے پیچھے نماز اس  لیے نہیں پڑھتا کہ امام صاحب پگڑی نہیں باندھتے، بلکہ ٹوپی میں نماز پڑھاتے ہے، اب سوال یہ ہے کہ امام کے لیے پگڑی باندھنا ضروری ہے، یا ٹوپی میں بھی نماز پڑھانا درست ہے؟
جواب:
   عمامہ باندھنا نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں سنت ہے، امام، مقتدی اور غیر مقتدی سب کے لیے، البتہ عمامہ باندھ کر نماز پڑھنا اور پڑھانا مستحب ہے، لیکن بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی میں بھی نماز پڑھنا اور پڑھانا بلا کراہت درست ہے، البتہ جس جگہ عمامہ کا اتنا رواج  ہو کہ وہ لباس کا حصہ بن چکا ہو اور بغیر عمامہ کے باوقار مجلس میں لوگ نہ جاتے ہوں، تو ایسی جگہ نماز پڑھانے کے لیے امام کو عمامہ باندھنے کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، لیکن پگڑی باندھنے کو امام کے لیے ضروری سمجھنا اور اس کے بغیر اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا درست نہیں، نیز جن احادیث میں عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنے پڑھانے کا زیادہ ثواب مذکور ہے وہ حد درجہ ضعیف ہیں۔

حوالہ جات:
1. شعب لايمان للبيهقي، باب الملابس والزي، فصل في العمائم، الرقم: 5851:
  عن عبادة قال: قال رسول اللهﷺ: عليكم بالعمائم، فإنها سيما الملائكة، وأرخو لها خلف ظهوركم.
2. الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمي، باب الراء، الرقم: 3233:
ركعتان بعمامة أفضل من سبعين ركعة بغير عمامة.
3. فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي، حرف الراء 37/4:
ركعتان بعمامة … ورواه عنه أيضا أبو نعيم ومن طريقه وعنه تلقاه الديلمي فلو عزاه إلى الأصل لكان أولى ثم إن فيه طارق بن عبد الرحمن أورده الذهبي في الضعفاء وقال: قال النسائي: ليس بقوي عن محمد بن عجلان ذكره البخاري في الضعفاء وقال الحاكم: سيء الحفظ ومن ثم قال السخاوي: هذا الحديث لا يثبت.
4. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة 1/ 59:

  والمستحب أن يصلي في ثلاثة أثواب: قميص، وإزار، وعمامة، أما لو صلى في ثوب واحد متوشحا به، تجوز صلاته من غير كراهة.
5. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب: في السنة وتعريفها 1/ 230:
   والسنة نوعان: سنة الهدى، وتركها يوجب إساءة وكراهية، كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها، وسنة الزوائد وتركها لا يوجب ذلك، كسير النبي عليه الصلاة والسلام في لباسه، وقيامه، و قعوده.
6. عمد الرعاية بتحشية شرح الوقاية للعلامة عبد الحي اللكنوي، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 2/ 382:
    وقد ذکروا أن المستحب أن يصلي في قميص و إزار وعمامة، ولا يكره الإكتفاء بالقلنسوة، ولا عبرة لما اشتهر  بين العوام من كراهة ذالك، وكذا ما اشتهر أن المؤتم لو كان معتما العمامة، والإمام مكتفيا على قلنسوة يكره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:481
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31




حالت احرام میں سگریٹ پینے کا حکم:

سوال:
   حالتِ احرام میں سگریٹ پینا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس پر کفارہ لازم ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   سگریٹ پینا احرام اور غیر احرام دونوں حالتوں میں مکروہ ہے کیونکہ اس کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور مضر صحت بھی ہے، تاہم حالتِ احرام میں سگریٹ پینے سے کوئی دم یا کفارہ لازم نہیں آتا۔

حوالہ جات:
1. صحيح ابن خزيمة، كتاب الإمامة في الصلاة، باب ذكر الدليل على أن النهي عن ذلك إلخ، الرقم: 1668:
   عن أبي الزبير، عن جابر، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل البصل والكراث قال: ولم يكن ببلدنا يومئذ الثوم، فقال: «من أكل من هذه الشجرة فلا يقربن مسجدنا؛ فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه الإنسان
2. وفي رد المحتار لابن عابدين، باب فروع أفضل المساجد 1/ 661:
   (قوله وأكل نحو ثوم) أي كبصل ونحوه مما له رائحة كريهة للحديث الصحيح في النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:480
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31

 




بیماری کی وجہ سے روزہ توڑنے کا حکم:

سوال:
   مجھے شدید بیماری کی وجہ سے روزہ توڑنا پڑا اور باقی دس روزے بھی اسی شدید بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکا، آپ براہ مہربانی مجھے یہ بتائیں کہ روزہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟ اور جو روزے نہیں رکھے گئے ان کا کفارہ کیا ہے؟
جواب:
   بیماری کی شدت اگر ناقابل برداشت ہو تو روزہ توڑنے کی گنجائش ہے اور ایسی صورت میں صرف قضاء واجب ہے، کفارہ نہیں، نیز اس عذر کی وجہ سے جتنے روزے نہیں رکھے، ان سب کی صرف قضا کرنا کافی ہے، کفارہ دینے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصوم، الفصل السابع: في الأسباب المبيحة للفطر 3/ 403:
   والمرض الذي يبيح الفطر ما يخاف منه الموت أو زيادة علة، حتى لو خاف أنه لو لم يفطر يزداد عينه وجعا أو حماه شدة حل له أن يفطر … المريض إذا خاف على نفسه التلف، أو ذهاب عضو منه يفطر.
2. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصوم، الفصل السابع في الأسباب المبيحة للفطر 2/ 652:
   إذا ثبت هذا: فنقول المريض إذا خاف على نفسه التلف، أو ذهاب عضو منه يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتداده، فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:479
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31

 




دودھ پلانے والی عورت کے لیےروزہ توڑنے کا حکم:

سوال:
   ایک عورت کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہے، تو کیا یہ عورت دودھ پلانے کی وجہ سے افطار کرسکتی ہے؟ اور بعد میں فدیہ دے گی یا قضا لائے گی؟
جواب:
   اگر روزہ رکھنے سے دودھ میں کمی نہ آتی ہو اور بچہ کی خوارک کا دیگر ذرائع سے بندوبست ہو سکتا ہو، تو ایسی صورت ميں بچے کی وجہ سے روزہ توڑنا جائز نہیں، لیکن اگر روزہ رکھنے کی صورت میں دودھ کی کمی کی وجہ سے بچہ کو مکمل خوراک میسرنہ ہو اور بچہ کے بیمار یا ہلاک ہو نے کا اندیشہ ہو یا خود عورت کے بیمار یا ہلاک ہونے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہے، اور فوت شدہ روزوں کی بعد میں قضا کرنا ضروری ہے، بلاعذر فدیہ دینا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصوم، فصل حكم فساد الصوم 2/ 250:
   وأما حبل المرأة وإرضاعها: إذا خافتا الضرر بولدهما فمرخص، وقد روي عن النبي  صلى الله عليه وسلم  أنه قال: يفطر المريض، والحبلى، إذا خافت أن تضع ولدها، والمرضع إذا خافت الفساد على ولدها … وعليهما القضاء ولا فدية عليهما عندنا.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصوم، فصل حكم فساد الصوم 1/ 206:
   والحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو ولديهما أفطرتا وقضتا؛  دفعا للحرج؛  ولا كفارة عليهما؛  لأنه إفطار بعذر؛  ولا فدية عليهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:370
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-30




نا بالغ بچے کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟:

سوال:
   نابالغ بچے کو زکوٰۃ دینا جائز ہے؟ اور کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
جواب:
   نابالغ بچہ اگر سمجھ دار ہو یعنی زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضہ لینے کی سمجھ بوجھ رکھتا ہوتو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، لیکن اگر بچہ نا سمجھ ہو تو اس کو زکوٰۃ کی رقم براہِ راست دینا درست نہیں ہے، البتہ اس کا ولی اس کی طرف سے وصول کر سکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. المحيط البرهاني لابن مازه الحنفي، كتاب الزكاة، الفصل الثامن من يوضع فيه الزكاة 3/ 215:
   وفي الجامع الأصغر: سئل عبد الكريم عمن دفع زكاة ماله إلى صبي قال: إن كان حراً حقاً يعقل الأخذ يجوز، وإلا فلا يجوز.
3. بدائع الصنائع للكاساني،كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة 2/ 39:
   وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير، وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:448
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29

 




مستحق زکوٰۃ شخص کو کتنی مقدار میں زکوٰۃ دینادرست ہے؟:

سوال:
   ایک مستحق زکوٰۃ شخص کو کتنی مقدار زکوٰۃ دینی چاہیے؟
جواب:
   زکوٰۃ کی رقم نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ ایک فقیر کو دینا مکروہ ہے، البتہ اگر وہ  مقروض ہو یا اہل و عیال والا ہو کہ  قرض کی ادائیگی کے بعد بقدر نصاب مال باقی نہ رہتا ہو یا اہل وعیال میں تقسیم کرنے کے بعد ہر ایک کو بقدر نصاب نہ ملتا ہو، تو پھر بقدر نصاب یا اس سے زیادہ دینا مکروہ نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الزكاة، الفصل الثامن: من توضع فيه الزكاة 3/ 221:
   قال محمد في الأصل: إذا أعطى من زكاته مائتى درهم أو ألف درهم إلى فقير واحد، فإن كان عليه دين مقدار ما دفع عليه، وفي الخانية: أو يبقى دون المائتين، أو كان صاحب عيال يحتاج إلى الإنفاق عليهم فإنه يجوز، ولايكره، وإن لم يكن عليه دين، ولا صاحب عيال فإنه يجوز عند أصحابنا الثلاثة ويكره.
2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الزكاة، مطلب في الحوائج الأصلية 2/ 353:
   قوله ( وكره إعطاء فقير نصابا أو أكثر ) وعن أبي يوسف لا بأس بإعطاء قدر النصاب، وكره الأكثر؛ لأن جزءا من النصاب مستحق لحاجته للحال، والباقي دونه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:447
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-30