Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

@123 دیوبندی لڑکے کا بریلوی لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہے

سوال:
دیوبندی لڑکے کا نکاح بریلوی لڑکی سے جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:
دیوبندی لڑکے کا بریلوی لڑکی سے نکاح کرنا اگرچہ جائز ہے، لیکن نکاح کے رشتہ کو دائمی طورپر خوش گوار بنانے کے لیے میاں بیوی کے درمیان مذہبی و ذہنی ہم آہنگی ہونا ضروری ہے اور مسلکی اختلاف کی صورت  میں نکاح کے رشتہ میں دوام مشکل ہوتا ہے، لہذا اگر ہم مسلک مناسب لڑکی مل جائے تو اس کو ترجیح دینا چاہیے تاکہ ازدواجی زندگی اختلاف کا شکار نہ ہو۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما 2/ 270:
ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما، فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن}.
وفي الدر المختارللحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات ص: 181:
تجوز مناكحة المعتزلة، لانا لا نكفر أحدا من أهل القبلة إن وقع إلزاما في المباحث.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:570
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08

 




بیماری میں قضا شدہ کن نمازوں کا کتنا فدیہ دینا ضروری ہے؟

سوال:
   ایک آدمی فوت ہوچکا ہے جو کہ چار ماہ بیمار تھا، پہلے ایک ماہ میں تو وہ بالکل بے ہوش رہا اور باقی تین ماہ میں ایسا تھا کہ بات بھی نہ کرسکتا تھا، خوراک پائپ کے ذریعے دیا جاتا تھا، اور بول وبراز کا بھی اس کو کچھ پتہ نہ چلتا تھا، لیکن بغور دیکھنے سے لوگوں کو پہچان سکتا تھا، تو کیا اس دوران اس پر نماز فرض تھی یا نہیں؟ اگر فرض تھی تو فدیہ کس طرح ادا کیا جائے؟
کیا یہ فدیہ مدرسہ یا مسجد میں دے سکتا ہے یا نہیں؟ کیا فقیر یا غنی کو فدیہ دینے میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟اور فدیہ کی رقم سے کوئی رفاہی کام کیا جاسکتا ہے، یا کسی کو مالک بنانا اس میں شرط ہے؟
جواب:
   مذکورہ شخص کو ایک ماہ کی نمازیں بوجہ مکمل بے ہوش  ہونے کے معاف ہے، البتہ باقی تین مہینوں میں اگر اس شخص کی حالت ایسی تھی کہ سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا، تو ان مہینوں کے نمازیں اس کے ذمہ لازم نہیں تھیں، لہذا ان کا فدیہ ادا کرنا بھی اس کے ذمہ لازم نہیں ہے، اور اگر اس کی حالت ایسی تھی کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھنے کی قدرت رکھتا تھا تو پھر ان مہینوں کی نمازوں کی قضا اور مرتے وقت وصیت کرنا اس کے ذمہ واجب ہے، لہذا اگر مرحوم نے اپنی نمازوں کے فدیہ دینے کی وصیت کی ہو، تو  اس کے مال کی تین تہائی حصہ سے فدیہ دینا واجب ہے، اور فدیہ ہر دن کے چھ نمازوں میں سے ہر ایک نماز کا ادا کرنا ضروری ہے (یعنی پانچ فرض نمازیں اور ایک وتر کی نماز)
فدیہ کی مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے اور جو، کجھور اور کشمش کے اعتبار سے ساڑھے تین کلو یا اس کی قیمت ہے، لیکن اگر مرنے سے پہلےاس نے وصیت نہ کی ہو تو ورثاء کی ذمے فدیہ دینا واجب نہیں، البتہ اگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور اپنی خوشی سے دے دیں، تو امید ہے کہ مرحوم کا ذمہ فارغ ہو جائے گا، اور فدیہ کسی مستحق زکوۃ کو دینا ضروری ہے، مدرسہ یا مسجد یا کسی رفاہی کام میں خرچ کرنے سے پہلے کسی کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے، مالک بنائے بغیر براہ راست ان کاموں میں خرچ کرنے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار،كتاب الصلاة، باب صلاة المريض 2/687:
   (وإن تعذر الإيماء) برأسه (وكثرت الفوائت) بأن زادت على يوم وليلة (سقط القضاء عنه) وإن كان يفهم في ظاهر الرواية (وعليه الفتوى).
قال ابن عابدين تحت قوله(قوله بأن زادت على يوم وليلة) أما لو كانت يوما وليلة أو أقل وهو يعقل، فلا تسقط بل تقضى اتفاقا، وهذا إذا صح، فلو مات، ولم يقدر على الصلاة، لم يلزمه القضاء، حتى لا يلزمه الإيصاء بها كالمسافر إذا أفطر، ومات قبل الإقامة كما في الزيلعي. قال في البحر: وينبغي أن يقال محمله ما إذا لم يقدر في مرضه على الإيماء بالرأس، أما إن قدر عليه بعد عجزه فإنه يلزمه القضاء.
2.البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت 2/160:
   إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة،  وأوصى بأن يعطى كفارة صلاته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر، وللوتر نصف صاع.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الحادي عشر في قضاء الفوائت 1/125:
   إذا مات الرجل عليه صلوات فائتة،  وأوصى بأن تعطى كفارة صلاته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر، وللوتر نصف صاع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:562
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123بالغ لڑکی کابوقت اجازت نکاح خاموشی کا حکم

سوال:
کسی بالغ لڑکی سے اس کا والد اجازت نکاح طلب کرے اور وہ خاموش رہے، تو یہ اجازت سمجھی جائے گی یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے اگر کنواری لڑکی سے اجازتِ  نکاح طلب کرنے پر اگر وہ خاموشی اختیار کرے، تو یہ شرعا اجازت سمجھی جائے گی، لہذا مذکورہ صورت میں  نکاح منعقد ہوا ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم،كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء في النكاح 3/ 121:
لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن، قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال أن تسكت فهو لبيان، السنة للاتفاق على أنها لو صرحت بالرضا بعد العقد نطقا فإنه يجوز وأراد ببلوغها الخبر: علمها بالنكاح فدخل فيه ما لو زوجها الولي وهي حاضرة فسكتت فإنه إجازة على الصحيح.
وفي تبيين الحقائق لزيلعي، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء 2/ 118:
(ولا تجبر بكر بالغة على النكاح) … وقال ابن المنذر ثبت أنه عليه الصلاة والسلام قال: «لا تنكح الثيب حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن، قالوا وكيف إذنها يا رسول الله؟ قال: تسكت.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:571
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08

 




@123میت کے پاس قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا

سوال:
بعض علاقوں میں جب کسی کا انتقال ہو جائے، تو کچھ لوگ میت کے پاس جمع ہو کر قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں، شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے قریب تلاوت کرنے میں یہ تفصیل ہے، کہ میت کو غسل دینے پہلے اس کے قریب بیٹھ کر اونچی آواز سے تلاوت کرنا مکروہ ہے، البتہ دور بیٹھ کر یا قریب بیٹھ کر آہستہ آواز سے تلاوت کرنا مکروہ نہیں، نیز غسل دینے کے بعد بھی مکروہ نہیں، تلاوت چاہے بلند آواز سے کرے یا آہستہ، میت کے قریب بیٹھ کر کرے یا دور۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع ردالمحتار، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مطلب في القرأة عند الميت 3/ 99،98:
(كره قراءة القرآن عنده إلى تمام غسله) عبارة الزيلعي: حتى يغسل، وعبارة النهر: قبل غسله. قال ابن عابدين: وذكر ط : أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة، قلت: والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه؛…وكذا ينبغي تقيد الكراهة بما إذا قرأ جهرا.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الجنائز 2/ 301:
وتكره قراءة القرآن عنده إلى أن يغسل.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الجنائز، الباب الحادي والعشرون في الجنائز 1/ 157:
ويكره قراءة القرآن عنده حتى يغسل، كذا في التبيين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:561
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123 حقیقی بھانجے کی بیٹی سے نکاح کا حکم

سوال:
حقیقی ماموں کا اپنے حقیقی بھانجے کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے؟
جواب:
حقیقی ماموں کا اپنے حقیقی بھانجے کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 2/ 101 :
قوله: (وفروع أبويه وإن نزلوا) أي فتحرم بنات الإخوة والأخوات وبنات أولاد الإخوة والأخوات وإن نزلن.
وفي عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية لمحمد عبد الحي اللكنوي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 4 / 33:
وحرم على المرء أصله، وفرعه، وأخته، وبنتها، وبنت أخيه، وعمته، وخالته، وبنت زوجته إن وطئت، وأم زوجته، وإن لم توطأ، وزوجة أصله وفرعه لفظ (المختصر) وحرم أصله، وفرعه، وفرع أصله القريب، وصلبية أصله البعيد، فالأصل القريب: الأب، والأم، وفرعهما: الإخوة، والأخوات، وبنات الإخوة، والأخوات، وإن سفلت، فيحرم جميع هؤلاء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:560
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123 رضاعی بہن کے بھائی سے نکاح کرنےکا حکم

سوال:
میری بیٹی مسلمہ بنت گل پنوشہ نے پاسمینہ کا دودھ پیا ہے، اب میں اپنے بیٹے ریاض کے لیے پاسمینہ کی بیٹی ثناء کا رشتہ مانگنا چاہتا ہو، تو کیا میرے بیٹے ریاض کا پاسمینہ کی بیٹی ثناء کے ساتھ نکاح جائز ہے؟
جواب:
ذکر کردہ صورت میں مسلمہ نے پاسمینہ کا دودھ پیا ہے، تو مسلمہ پاسمینہ کی رضاعی بیٹی بن گئی اور مسلمہ پاسمینہ کے تمام  بیٹوں پر حرام ہو گئی ہے، لیکن مسلمہ کا بھائی ریاض کا پاسمینہ اور اس کے بیٹیوں کے ساتھ کوئی رضاعی رشتہ نہیں ہے، اس لیے ریاض کا پاسمینہ کی بیٹی ثناء کے ساتھ  نکاح  کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في  تبيين الحقائق لزيلعي، كتاب الرضیع 2/ 184:
(وتحل أخت أخيه رضاعا ونسبا) مثاله في النسب أن يكون له أخ من أب له أخت من أمه جاز له أن يتزوج بها ومثاله في الرضاع ظاهر قال – رحمه الله – (ولا حل بين رضيعي ثدي)؛ لأنهما أخوان من الرضاع قال رحمه اللہ (وبين مرضعة وولد مرضعتها)؛ لأنهما أخوان من الرضاع أيضا ولا يشترط الاجتماع على ثديها هنا ولهذا ساغ ذكرها وإلا كانت المسألة مكررة.
وفي درر الحكام شرح غرر الأحكام لملا خسرو، كتاب الرضاع، باب ما يحرم بالرضاع 1/ 356:
(وتحل أخت أخيه مطلقا) أي يجوز أن يتزوج الرجل بأخت أخيه من الرضاع كما يجوز أن يتزوج بأخت أخيه من النسب كالأخ من الأب إذا كانت له أخت من أمه جاز لأخيه من أبيه أن يتزوجها.
وفي المبسوط لمحمد بن أحمد شمس الأئمة السرخسي،كتاب الرضاع، باب تفسير لبن الفحل 30/ 301:
ولو أن امرأتين لإحداهما بنون وللأخرى بنات فأرضعت التي لها البنات ابنا من بني الأخرى، فإنما تحرم بناتها على ذلك الابن بعينه؛ لأنه صار أخا لهن من الرضاعة، ولا يحرم أحد من بناتها على سائر بني المرأة الأخرى؛ لأنه لم يوجد بينهم الأخوة من الرضاعة حيث لم يجتمعوا على ثدي واحد، ولو كانت المرأة التي لها البنون أرضعت إحدى بنات الأخرى حرمت تلك الابنة على بني المرضعة وغيرها من بناتها يحل على المرضعة، ولو كانت أم البنات أرضعت أحد البنين وأم البنين أرضعت إحدى البنات لم يكن للابن المرتضع من أم البنات أن يتزوج واحدة منهن وكان لإخوته أن يتزوجوا بنات الأخرى إلا الابنة التي أرضعتها أمهم وحدها؛ لأنها أختهم من الرضاعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:559
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08

 




وتروں میں دعائے قنوت کی جگہ سورۂ اخلاص پڑھنا:

سوال:
   جس کو دعائے قنوت یاد نہ ہو، اس کے لیے دعائے قنوت کی جگہ سورۂ اخلاص پڑھنا جائز ہے یا نہیں، اور سورۂ اخلاص کے پڑھنے سے اس کی نماز ادا ہوگی یا نہیں؟
جواب:
   وتر میں  قنوت کے لیے کوئی مخصوص دعا پڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی دعا پڑھی جاسکتی ہے، البتہ دعائے قنوت (اللهم انا نستعينك الخ) پڑهنا بہتر ہے، اگر کسی کو یہ دعا یاد نہ ہو، تو وہ اس کو یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے، اور جب تک یاد نہ ہو اس کی جگہ (اللهم ربنا اتنا في الدنيا حسنة إلخ) یا تین مرتبہ (اللهم  اغفرلي) پڑھتا رہے، نیز اگر کسی نے تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ لی تو بھی درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب الثامن في الصلاة الوتر 1/ 111:
   وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين، والأولى أن يقرأ (اللهم إنا نستعينك) ويقرأ بعده (اللهم اهدنا فيمن هديت) ومن لم يحسن القنوت يقول، (ربنا أتنا في الدنيا حسنة، و في الآخرة حسنة، و قنا عذاب النار) كذا في المحيط، أو يقول (اللهم اغفرلنا) ويكرر ذلك ثلاثا، وهوا اختيار أبي الليث، كذا في السراجية.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل 2/ 74:
   ومن لا يحسن القنوت بالعربية، أو لا يحفظه،  ففيه ثلاثة أقوال مختارة: قيل: يقول: (يا رب) ثلاث مرات، ثم يركع، وقيل (اللهم اغفرلي) ثلاث مرات، وقيل (ربنا أتنا في الدنيا حسنة، و في الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار).
3. الدر المختار للحصكفي مع ردالمحتار، كتاب الصلاة، مطلب في منكر الوتر السنن أو الإجماع 2/ 533،534:
(وقنت فيه) ويسن الدعاء المشهور، ويصلي على النبيﷺ، به يفتى. وقال ابن عابدين تحت قوله: (ويسن الدعاء المشهور)قدمنا في بحث الواجبات التصريح بذلك عن النهر، وذكر في البحر عن الكرخي أن القنوت ليس فيه دعاء مؤقت؛ لأنه روي عن الصحابة أدعية مختلفة، ولأن المؤقت من الدعاء يذهب برقة القلب.
4. السعاية في كشف ما في شرح الوقاية لعبد الحي اللكنوي، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة 2/ 139:
   في المقدمة الغزنوية: إن كان لا يحسن القنوت يقرأ ثلاث مرات (قل هو الله أحد إلخ) أو ثلاث مرات (اللهم اغفرلنا).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:558
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا

سوال:
   ایک مرتبہ فرض نماز کے بعد دعا ہوجائے، تو پھر امام کا نماز کے اختتام پر سنتوں کے بعد دوبارہ اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے؟
جواب:
   فرض نماز کے اگر امام اور مقتدی دعا کے لیے ہاتھ اٹھالے، جس سے ایک اجتماعی ہیئت بن جائے تو اس کی گنجائش ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ سے فرضوں کے بعد جہرا دعا مانگنا ثابت ہے، لیکن سنتوں کے بعد اجتماعی ہیئت پر دعا کا اہتمام والتزام کرنا خلافِ سنت بلکہ بدعت ہے، کیونکہ فرض نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد سنت اور نوافل انفرادی طور پر پڑھی جاتی ہے، تو اس کی دعا بھی انفرادی ہونی چاہیے، اسی وجہ سے سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مانگنا نبی کریم ﷺ یا آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں، تاہم سنت اور لازم نہ سمجھے بغیر اگر کبھی کبھار کسی نے سنتوں کے بعد دعا مانگ لی، تو اس کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
1. السنن الكبرى للنسائي، كتاب عمل اليوم والليلة، ما يستحب من الدعاء دبر الصلوات المكتوبات، الرقم: 9856: 
    أخبرنا محمد بن يحيى بن أيوب قال: حدثنا حفص بن غياث قال: حدثنا ابن جريج، عن ابن سابط، عن أبي أمامة قال: قلت: يا رسول الله، أي الدعاء أسمع؟ قال: «جوف الل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات».
2. المعجم الکبیر للطبراني الرقم: 14907:

   قال: رأيت عبدالله بن الزبير ورأى رجلا رافعا يديه يدعو قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته.
3. إعلاء السنن لظفر أحمد العثماني، كتاب الصلاة، بيان ما يقرأ إذا فرغ من الصلاة 3/ 205:
   ورحم الله طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حيث واظبوا على أن الإمام، ومن معه يقومون بعد المكتوبة بعد قرائتهم: (أللهم أنت السلام ومنك السلام إلخ)، ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل يدعو الإمام عقب الفاتحة جهرا بدعاء مرة ثانية، والمقتدون يؤمنون على ذلك، وقد جرى العمل منهم بذلك على سبيل الالتزام والدوام حتى أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومين ضروري واجب…ومن لم يرض بذلك يعزلونه عن الإمامة، ويطعنونه، ولا يصلون خلف من لا يصنع بمثل صنيعهم، وأيم الله! إن هذا أمر محدث في الدين.
4. سنن أبي داود، باب ركعتي المغرب، أين تصليان، الرقم: 1301، 2/ 472:
   عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يطيل القراءة في الركعتين بعد المغرب حتى يتفرق أهل المسجد.
5. معارف السنن، بيان الأحاديث الواردة في الدعاء بعد الصلاة وحكمها 3/ 124:
   ثم إن ما راج في كثير من بلاد الهند الجنوبية الدعاء بكيفية مخصوصة بعد الرواتب: يستقبل الإمام المقتدين،  ويدعون رافعي أيديهم، ثم ينادي الإمام بصوت حال: الفاتحة، فيقرأ هو والمقتديون الفاتحة،  ثم يصلون على النبي ﷺ وبعضهم يتفنن فيه،  فيقول: إلى روح النبي الكريم ﷺ الفاتحة، ويواظبون على هذا طول أعمارهم في جميع صلواتهم، ويلتزمونه التزام واجب، وينكرون على الإمام وماموم لا يفعل ذلك، وربما يفضى بهم الإنكار إلى خصام شديد وجدال قبيح، بل يؤدي إلى قبائح وفظائع من الجهالات الفاحشة، ففي مثل هذه يقال: إنه بدعة تضمنت بدعات كثيرة، لا أرى لمثل هذا وجهة من السنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:557
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-07




@123 خطبۂ جمعہ کے دوران خطیب کاہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

سوال:
خطبۂ جمعہ میں خطیب کا دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ خطبہ کے دوران خطیب کے لیے دعا مانگنا مستحب ہے، لیکن دعا کے لیے خطیب کا دونوں ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے، کیونکہ بعض احادیث میں نبی کریمﷺ کی طرف سے اس پر وعید آئی ہے۔

حوالہ جات:
لما في سنن الترمذي، كتاب الصلاة، أبواب الجمعة، الرقم: 515:
بشر بن مروان يخطب، فرفع يديه في الدعاء، فقال عمارة: قبح الله هاتين اليديتين القصيرتين! لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما يزيد على أن يقول هكذا: وأشار هشيم بالسبابة.
وفي فيض الباري للكشميري، كتاب المغازي 5/ 180، تحت الرقم: 4449:
وعند الترمذي في باب ما جاء في كراهية رفع الأيدي على المنبر في الدعاء: (أن بشر بن مروان خطب، فرفع يديه في الدعاء، فقال عمارة: قبح الله هاتين اليدين القصيرتين، لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يزيد على أن يقول هكذا: وأشار هشيم بالسبابة) وحمله بعضهم على أن الرفع كان للتفهيم على ما عرفوه عادة الخطباء، وذلك لعدم علمهم بكون صورة من صور الدعاء أيضا، لفقدان العمل وانقطاع التعامل، والصواب عندي أنه كان للدعاء، كما بوب به الترمذي، وكذلك عند البيهقي كيف! وفي الحديث تصريح بأن الرفع كان للدعاء، وليحفظ لفظ الترمذي، فإن فيه تصريحا بذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:556
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-07




معذور شرعی کو امام بنانا کیسا ہے؟

سوال:
   جو شخص خروجِ ریح یا سلسل البول کا مریض ہو، یعنی اس کی ہوا مستقل طورپر خارج ہوتی ہو، یا پیشاب کے قطرے نکلتے ہوں، تو اس کو امام بنانا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   جو شخص شرعا معذور ہو  اس کے لیے غیر معذورین کی امامت درست نہیں، اور جو شرعا معذور نہ اس کے لیےدرست ہے، اور شرعی معذور سے مراد وہ شخص ہے کہ اس کے پیشاب یا ہوا خارج ہونے کا عذر اتنے وقت کے لیے بھی ختم نہ ہو کہ اس میں وضو کر کے فرض نماز ادا کر سکے۔  

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب في أحكام المعذور 1/ 554،553:
   (وصاحب عذر من به سلسل بول) لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح) … (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ، ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الإمامة 1/ 230:
   قوله: (وطاهر بمعذور) أي: وفسد اقتداء طاهر بصاحب العذر المفوت للطهارة؛ لأن الصحيح أقوى حالا من المعذور، والشيئ لا يتضمن ما هو فوقه، والإمام ضامن بمعنى تضمن صلاته صلاة المقتدي.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره 1/ 84:
   ولا يصلي الطاهر خلف من به سلس البول، ولا الطاهرات خلف المستحاضة، وهذا إذا قارن الوضوء الحدث، أو طرأ عليه، هكذا في الزاهدي.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:555
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-07