Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

شوہر کی رضا مندی کے بغیر عدالتی خلع کی شرعی حیثیت:

سوال:
   اگرعدالت بیوی کو شوہر کی اجازت ورضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری دے دے، تو کیا بیوی کسی دوسری جگہ اپنا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
   خلع معتبر ہونے کے لیےزوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر عدالت بیوی کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے تو شرعا ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اور نہ اس سے نکاح ختم ہوتا ہے، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ صورت میں اگر واقعی یہ خلع شوہر کی رضامندی کے بغیر ہوا ہو تو اس خلع کا اعتبار نہیں اور اس خاتون کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست نہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ بالا حکم اس وقت ہے کہ شوہر باقاعدہ عدالت حاضر ہوا ہو اور اس نے خلع پر ناراضگی کا اظہار کیا ہو، لیکن اگر عدالت کے بلانے کے باوجود شوہر سرے سے عدالت حاضر ہی نہ ہوا ہو اور عدالت نے معقول وجوہات کی بناء پر تنسیخِ نکاح کیا ہو تو وہ تنسیخِ نکاح معتبر مانی جائے گی، اور ایسی صورت میں اس خاتون کی عدت کے بعد کسی اور جگہ نکاح کرنا درست ہوگا۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطلاق، فصل فيما يرجع إلى المرأة في الطلاق 4/ 315:
   وأما ركنه: فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
2. رد المحتار لابن عابدين،كتاب الطلاق، باب الخلع  3/ 440 ، 441:
   ففي ظاهر الرواية، لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده … وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:664
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




قضائےعمری کی شرعی حیثیت:

سوال:
   رمضان کے آخری جمعہ  میں قضائےعمری کرنا درست ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ قضائےعمری کے نام سے جو نماز مشہور ہے کہ رمضان المبارک کے آخر میں ایک نماز باجماعت یا علیحدہ عليحده قضائے عمری کے نام سے پڑھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہ نماز عمر بھر کی قضاء نمازوں کے لیے کافی ہوجاتی ہے، تو یہ بدعت اور بے اصل ہے۔
اس کے بارے میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ بھی بے اصل اور من گھڑت ہے، لہٰذا اس طرح  کرنے سے قضاء نمازوں کی ذمہ داری ختم نہیں ہوئی، بلکہ تمام قضا نمازوں کی یکے بعد دیگرے قضاء کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. صحيح البخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب قضاء الصلوات الأولى فالأولى، الرقم: 320:
عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم  قال: من نسي صلاة، فليصل إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك، {وأقم الصلاة لذكري}.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت 2/ 86:
   فالأصل فيه أن كل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبها فيه فإنه يلزم قضاؤها سواء تركها عمدا أو سهوا أو بسبب نوم وسواء كانت الفوائت كثيرة أو قليلة.
3. الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لملا على قارئ،  الرقم: 519 :
   من قضى صلاة من الفرائض في آخر جمعة من شهر رمضان، كان ذلك جابرا لكل صلاة، فائتة في عمره إلى سبعين سنة باطل قطعا، لأنه مناقض للإجماع على أن شيئا من العبادات، لا يقوم مقام فائتة سنوات.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:665
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




روزے کے دوران بے ہوش ہونے کا حکم:

سوال:
   ہمارے پڑوس میں ایک باباجی رہتے ہیں، پچھلے جمعہ کو رمضان کا پہلا جمعہ تھا، وہ مسجد میں نماز فجر کے بعد بے ہوش ہوگئے اور عصر کی نماز تک بے ہوش ہی رہے، ہوش میں آنے پر بھی انہوں نے روزہ افطار نہیں کیا، بلکہ مغرب کے وقت تھوڑا سا پانی لیا، کیا ان کا روزہ برقرار تھا، اور اتنی دیر بے ہوشی سے روزہ نہیں ٹوٹتا؟
جواب:
    روزہ کی حالت میں صرف بے ہوشی کا آنا مفطرِ صوم (روزہ کو توڑنے والا) نہیں ہے، لہذا مذکورہ باباجی کے اس دن کا روزہ بالک درست تھا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، 2/ 432:
   (وقضى أيام إغمائه، ولو) كان الإغماء (مستغرقا للشهر) لندرة امتداده (سوى يوم حدث الإغماء فيه، أو في ليلته) فلا يقضيه إلا إذا علم أنه لم ينوه.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصوم 2/ 449:
   ولم يجعلوا العقل، والاقامة شرطين للصحة؛ لان من نوي الصوم من الليل، ثم جن في النهار أو أغمي عليه، يصح صومه في ذلك اليوم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:663
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




دورانِ وضو گھنی داڑھی کو دھونے کا طریقہ:

سوال:
   دوران وضو گھنی داڑھی کے بالوں کا دھونا فرض ہے یا مستحب؟ اور جڑوں میں پانی پہنچانا ضروری ہے یا صرف بالوں کا مسح کرنا کافی ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ جب داڑھی اتنی گھنی ہو جس کے نیچے کھال كی رنگت نظر نہ آتی ہو، تو داڑھی کے ان بالوں کا دھونا ضروری ہے، جو چہرے کے حدود کے اندر ہوں، یعنی نچھلے جبڑے کے اوپر سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک، باقی داڑھی کے نیچے کھال تک یا بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے، اور نہ داڑھی کے ان بالوں کا دھونا ضروری ہے، جو چہرے کے حدود سے باہر ہیں، تاہم گھنی داڑھی کے بالوں کے اندر انگلیوں سے خلال کرنا مسنون ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الأول في فرائض الوضوء 1/ 4:
   ويغسل شعر الشارب والحاجبين، وما كان من شعر اللحية على أصل الذقن، ولا يجب إيصال الماء إلى منابت الشعر، إلا أن يكون الشعر قليلا تبدوا منه المنابت، كذا في فتاوى قاضي خان …   وروي عن أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، أنه يجب إمرار الماء على ظاهر اللحية، هو الأصح، كذا في التبيين، وهو الصحيح، كذا في الزاهدي، والشعر المسترسل من الذقن لا يجب غسله، كذا في المحيطين.
2.  تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/ 33:
   وروي عن أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، أنه يجب إمرار الماء على ظاهر اللحية، وهو الأصح؛ لأنه لما تعسر غسل ما تحت الشعر، انتقل الواجب إليه من غير تغيير كالحاجبين وأهداب العينين، وأقرب منه مسح الرأس؛ لأنه لما تعسر انتقل الوظيفه إلى الشعر من غير تغيير، وهذا كله في غير المسترسل، وأما المسترسل عن الذقن، فلا يجب إيصال الماء إليه؛ لأنه ليس من الوجه.
3. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الطهارة 1/ 225:
   (وغسل جمیع اللحية فرض) يعني عمليا (أيضا) على المذهب الصحيح المفتى به المرجوع إليه، وما عدا هذه الرواية مرجوع عنه، كما في البدائع، ثم لا خلاف أن المسترسل لا يجب غسله ولا مسحه، بل يسن، وأن الخفيفة التي ترى بشرتها، يجب غسل ما تحتها، كذا في النهر، وفي البرهان: يجب غسل بشرة لم يسترها الشعر كحاجب وشارب وعنفقة في المختار. قال ابن عابدين تحت قوله: (أن المسترسل) أي: الخارج عن دائرة الوجه … ولذا قال في البدائع: الصحیح أنه يجب غسل الشعر الذي يلاقي الخدين وظاهر الذقن، لا ما استرسل من اللحية عندنا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:662
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




زلزلہ کی وجہ سےنماز کو توڑنا:

سوال:
   کوئی شخص باجماعت یا انفرادی طور پر نماز پڑھ رہا ہو اور اچانک زلزلہ شروع ہوجائے تو نماز توڑسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   بوقتِ زلزلہ اگر نماز نہ توڑنے کی صورت میں اپنی یا کسی اور کی جان یا مال کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو نماز توڑنا جائز ہے۔

حوالہ جات:

1. قال الله تعالى:
ولا تلقوا بأيدکم إلې التهلكة.البقرة: ۱۹۵.
2. رد المحتار، باب ما يفسد فيها، وما يكره ۸۹/۱:
   ويباح قطعها لنحو قتل حية، وند دابة، وفور قدر، وضياع ما قيمته درهم، له أو لغيره.


واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:661
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




دوکاروباری شریکوں کے درمیان منافع کس حساب سے تقسیم ہوگا؟:

سوال:
   ہم دو دوستوں نے مشترکہ طور پر ائی، ایس، ایم مارٹ گروپ ( ISMMART  GROUP ) کو دو لاکھ پچاس ہزار روپے مضاربت کے لیے دی ہیں، جس میں ایک لاکھ پچیس ہزار ایک کا ہے اور ایک لاکھ پچیس ہزار دوسرے کا ہے، وہاں سے ہمیں مجموعی نفع کے تناسب سے فیصدی میں نفع ملتا ہے، مثال کے طور پر کسی مہینے میں ہمیں ستره پرسينٹ ( ٪17) كے حساب سے بیالیس  ہزار پانچسو (42500) روپے ملے، اب ان پیسوں کو ہم دو دوست آپس میں کیسے تقسیم کرسکتے ہیں؟ بینوا تؤجروا.
جواب:
   اگر مذکورہ کاروبار شرعی اصولوں کے مطابق ہو اور اہل فتوی کی طرف باقاعدہ اس کے درست ہونے کا فتوی صادر ہوا ہو تو اس سے حاصل شدہ منافع آپس میں طے شدہ اگریمنٹ کے مطابق تقیسم کیا جائےگا، اگر ایگریمنٹ نہ کیا ہو تو ان کو چاہیے کہ فوری طور پر آپس میں ایگریمنٹ کرلیں کہ ہمارا آپس میں منافع کس حساب سے تقسیم کیا جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الهداية للمرغيناني، كتاب المضاربة 3/ 263:
   ومن شرطھا أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح … لفساده، فلعله لا يربح إلا هذا القدر.
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب المضاربة 7/ 421:
   ویشترط أيضا في المضاربة أن يكون نصيب كل منهما من الربح معلوما عند العقد؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد .
3. بدائع الصنائع للكاساني، کتاب لمضاربة 6/ 59:
    ومنها أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد … ومنها أن يكون الربح جزء مشاعا في الجملة لامعينا، فإن عينا عشرة أو مائة كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضى تحقق الشركة في الربح، والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما … الخ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:660
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




حالتِ احرام میں چند بال کاٹنےیا گرنےکا حکم:

سوال:
   کسی نے حالتِ احرام میں دو تین بال کاٹے یا وضو کے دوران گرگئے، تو اس پر دم آئے گا یا نہیں؟
جواب:
   اگر سر، داڑھی یا ناک وغیرہ کے بالوں میں سے دو تین بال اکھیڑ لیے تو ہر بال کے بدلے ایک مٹھی گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرے گا، البتہ وضو کرتے ہوئے اعضائے وضو سے بال گرگئے تو ایک دو بال گرنا تو معاف ہے، البتہ اگر تین  بال گرجائیں تو ایک مٹھی گندم یا اس کی قیمت صدقہ کردے، اور تین سے زیادہ میں صدقۂ فطر کے بقدر گندم یا اس کی قیمت صدقہ کردے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب المناسك، الباب الثامن في الجنايات، الفصل الثالث في حلق الشعر إلخ 1/ 244،243:
   وإن نتف من رأسه أو من أنفه أو لحيته شعرات، ففي كل شعرة كف من الطعام، كذا في فتاوى قاضيخان.
2. غنية الناسك في بغية المناسك للعلامة حسن بن مكرم شاه، باب الجنايات، الفصل الرابع في الحلق وإزالة الشعر 399:
   وينبغي أن يراد بقولهم: (وفي أقل من الربع صدقة) أي: بعد أن يكون خصلة ؛ لما في الخانية: وإن نتف من رأسه أو أنفه أو لحيته ثلاث شعرات ففي كل شعر كف من طعام، وفي خصلة نصف صاع، فتبين أن نصف الصاع إنما هو في الزائد على الشعرات الثلاث، أما إذا لم يزد تصدق لكل شعرة بكف من طعام، هذا إذا سقط بفعل محظور الإحرام كالنتف، أما إذا سقط بفعل المأمور به كالوضوء، ففي ثلاث شعرات كف واحدة من طعام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:659
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




شیر خوار بچے کے پیشاب کی چھینٹوں کا حکم:

سوال:
   عام استعمال کے برتنوں میں بچوں کے پیشاب کی چھینٹیں پڑجائیں، تو ان کو کس طرح پاک کیا جائے؟
جواب:
   شیر خوار بچہ/ بچی کا پیشاب اسی طرح نجس ہے جس طرح بڑوں کا پیشاب نجس ہے، لہذا اگر اس  کی چھینٹیں کسی برتن  پر پڑجائیں تو اس کو تین مرتبہ دھوکر پاک کرلینا چاہیے۔ 

حوالہ جات:
1. ملتقى الأبحر، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ص: 93:
   والبول ولو من صغير لم يأكل، وكل ما يخرج من بدن الآدمي موجبا للتطهير.
2. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، 1/ 46:
   كل ما يخرج من بدن الإنسان مما يوجب خروجه الوضوء أو الغسل، فهو مغلظ كالغائط والبول والمني والمذي والودي والقيح والصديد والقيء إذا ملأ الفم، وكذلك بول الصغير والصغيرة أكلا أو لا، كذا في الاختيار شرح المختار.
3. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة 1/ 42:
   وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات، والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة، وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر، ولا يشترط فيه اليبس، هكذا في التبيين، هذا إذا تشربت النجاسة كثيرا، وإن لم تتشرب فيه أو تشربت قليلا، يطهر بالغسل ثلاثا، هكذا في محيط السرخسي.
4. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، باب الأنجاس 1/ 322:
  أن المتنجس إما أن لا یتشرب فیه أجزاء النجاسة أصلا کالأوانی المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتیق، أو یتشرب فی قلیلا کالبدن والخف والنعل، أو یتشرب کثیرا، ففي الأول طھارته بزوال عین النجاسة المرئیة أو بالعدد، وفي الثانی کذلك؛ لأن الماء یستخرج ذلك القلیل، فیحکم بطھارته، وأما في الثالث فإن کان مما یمکن عصرہ کالثیاب، فطھارته بالغسل والعصر إلی زوال المرئیة، وفي غیرھا بتثلیثھا … وإن كان مما لا ينعصر كالحصير المتخذ من البردي ونحوه إن علم أنه لم يتشرب فيه، بل أصاب ظاهره، یطھر بإزالة العین بالغسل ثلاثا بلا عصر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:658
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




بیٹی کو میراث میں حصہ نہ دینے کا حکم:

سوال:
   زید وفات پاگیا، زید کی وفات کے وقت دو بیٹے اور ایک بیٹی موجود تھی، جب زید کا میراث تقسیم ہورہا تھا، تو بیٹی زینب خاموش تھی، زید کی میراث ان کے دو بیٹوں عمرو اور بکر کے درمیان تقسیم ہوئی، کچھ عرصہ بعد عمرو وفات پاگیا، عمرو کی میراث ان کی اولاد کے مابین تقسیم ہوئی، لیکن عمرو کی وفات کے بعد اب ان کی بہن زینب عمرو کے بیٹوں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ بکر نے مجھے اپنا حصہ دیا تھا، اب مسئلہ یہ ہے کہ عمرو کی وفات کے بعد اس نے جو ترکہ چھوڑا ہے کیا زینب اس میں اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ اور یہ جو کہتی ہے کہ بکر نے مجھے اپنا حصہ دیا تھا تو اس صورت میں زینب کو گواہ پیش کرنے ہوں گے یا نہیں؟ اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں زید کا مال اس کی وفات کے بعد ورثا میں اس طریقہ سے تقسیم کرلینا چاہیے تھا کہ اس کی ملکیت میں جتنی مالیت ہے سب کچھ کو پانچ برابر حصوں میں تقسیم کرکے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو، دو حصے اور بہن کو ایک حصہ دیا جاتا، لیکن جب بھائیوں نے بہن  کو محروم کیا اور کچھ نہیں دیا، تو بہن کا حصہ نہ لینے سے وہ معاف نہیں ہوتا، اس لیے زینب کا اپنے بھتیجوں یعنی عمرو کے بیٹوں سے اپنا حصہ مانگنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع أرضين، الرقم: 1385:
   عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أنه خاصمته أروى في حق زعمت أنه انتقصه لها إلى مروان، فقال سعيد: أنا أنتقص من حقها شيئا؟ أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من أخذ شبرا من الأرض ظلما؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين.
2. سنن ابن ماجه، أبواب الوصايا، باب الحيف في الوصية، الرقم : 2703:
   عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة.
وفي تکملة رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الدعوی 7/ 505:
الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط.
3. الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبله، ص: 309:
   لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:657
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




معافی مانگنے کے باوجود قطع رحمی کرنے والے کا حکم:

سوال:
   ہمارے ایک بہت قریبی رشتہ دار ہیں، معمولی بات چیت پر ناراضگی بڑھ گئی، ہم نے معافی بھی مانگ لی، لیکن وہ نہ سلام کا جواب دیتے ہیں اور نہ بلانے پر گھر آتے ہیں، اور بار بار کہتے ہیں کہ زندگی میں کبھی تمہاری دہلیز پر قدم نہ رکھوں گا، اُن کے بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟ جب کہ وہ رشتہ ناطہ بالکل ختم کرنے پر لگے ہوئے ہیں، خود آتے ہیں نہ اپنے بچوں اور بچیوں کو آنے دیتے ہیں.
جواب:
   رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرنے کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بڑی تاکید آئی ہے، اور قطع رحمی پر بہت وعیدیں آئی ہیں، اس لیے حتی الامکان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اس کے باوجود بھی کوئی رشتہ دار اپنی طرف سے قطع رحمی کرے، تو اس گناہ کا وبال اسی پر ہوگا۔

حوالہ جات:
1. صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب من وصل وصله الله، الرقم: 5989:
   عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم؛ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الرحم شجنة، فمن وصلها وصلته، ومن قطعها قطعته».
2. المعجم الكبير للطبراني، الرقم: :343:
   عن كعب بن عجرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا أدلكم على خير أخلاق أهل الدنيا والأخرة، من وصل من قطعه، وعفا عمن ظلمه، وأعطى من حرمه» .
3. مسند الإمام أحمد بن حنبل، الرقم: 11107:
   عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يدخل الجنة صاحب خمس، مدمن خمر، ولامؤمن بسحر، ولا قاطع رحم، ولا كاهن، ولا منان.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:656
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-15