Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

نماز کے دونوں سجدوں کا حکم:

سوال:
   نماز میں دونوں سجدے فرض ہیں، یا دونوں واجب ہیں، یا ایک فرض ہے اور ایک واجب، نیز اگر کسی آدمی نے دوسرا سجدہ یا پہلا سجدہ ترک کردیا، تو کیا سجدۂ سہو سے اس کی نماز درست ہوجائے گی یا نماز کا اعادۂ کرنا پڑے گا؟
جواب:
   نماز کے دونوں سجدے فرض ہیں، اگر کسی آدمی نے سہوا ایک سجدہ چھوڑدیا تو نماز ختم ہونے سے قبل جب بھی یاد آئے وہ سجده ادا کرلے، اور دونوں سجدوں کے درمیان ترتیب ساقط ہونے پر سجدۂ سہو بھی کرلے، تو نماز ہوجائے گی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، البتہ اگر سلام پھیرنے کے بعد یاد آگیا اور سینہ قبلہ سے نہ پھیرا ہو تو فورا سجدہ کرے اور پھر تشہد پڑھ کر سجدۂ سہو کرے، اس کے بعد تشہد، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، اور اگر سینہ قبلہ سے پھر چکا ہو تو نماز فاسد ہوگئي از سرِ نو نماز کا اعادہ کرے۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، فصل في أركان الصلاة 1/ 105:
   وأما أركانها فستة … (ومنها) الركوع (ومنها) السجود .
2.  تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب الإمامة والحدث في الصلاة، الإستخلاف في الصلوة 1/ 152:
   أنه لو ترك سجدة من الركعة الأولى إلى آخر صلاته، لم تفسد صلاته، ولو كان الترتيب في أفعال صلاة واحدة فرضا لفسدت.
3. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 516:
   إذا سلم وانصرف، ثم ذكر أن عليه سجدة صلبية أو سجدة تلاوة، فإن كان في المسجد ولم يتكلم وجب عليه أن يأتي به.
4. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 3/ 91:
   ولو نسي السهو أو سجدة صلبية أو تلاوية يلزمه ذلك ما دام في المسجد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:675
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




کیا نابالغ بچے کو عورت اور نابالغہ بچی کو مرد غسل دے سکتا ہے؟:

سوال:
   نابالغ بچہ اور بچی کو مرد اورعورت دونوں غسل دے سکتے ہیں، یا بچہ کو مرد اور بچی کوعورت ہی غسل دے گی؟
جواب:
   نابالغ لڑکا اور لڑکی کو مرد اور عورت دونوں غسل دے سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ حدِ شہوت کو نہ پہنچے ہوں کہ جس کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہو، اور فقہائے کرام نے اس کی حد یہ بتلائی ہے کہ بچہ یا بچی بولنا شروع کردے، تاہم بہتر یہ ہے کہ بچہ کو مرد اور بچی کو عورت غسل دے۔ 

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز 5/ 224:
   قال في الفتح (الصغير والصغيرة إذا لم يبلغا حد الشهوة، يغسلهما الرجال والنساء) وقدره في الأصل: بأن يكون قبل أن يتكلم.
2. الفتاوى التاتارخانيه لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصلاة، الفصل: الثاني والثلاثون، الجنائز، غسل الميت 3/ 16:
   وتغسل المرأة الصبي الذي لم يتكلم، ويغسل الرجل الصبية التي لم تتكلم، وفی الخانیة: إذا لم يبلغا حد الشهوة؛ لأنه ليس لأعضائهما حكم العورة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:674
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مصنوعی بالوں کے ساتھ وضو اور غسل کا حکم:

سوال:
   گنجا آدمی سر پر مصنوعی بال لگائے جس کی وجہ سے  وضو اور غسل میں پانی اس کے سر کے اصل چمڑے تک نہیں پہنچتا ہو، اور ان بالوں کو نکالنے سے جسم کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، تو اب یہ شخص وضو اور غسل میں کیا کرے گا؟
جواب:
   اگر شخص مذکور کے سر پر لگوائے جانے والے بال اس کے بدن کے کسی دوسرے حصہ کے ہوں، یا خنزیر کےعلاوہ کسی اورجانور کے ہوں، یا مصنوعی ہوں اور ان کو سر پر سرجری کے ذریعے سر پر لگایا گیا ہو، تو ایسی صورت میں یہ بال جسم کا جزء بن جاتے ہیں، جن پر مسح کرنا اور غسل میں ان کا دھونا درست ہوگا، اور اگر یہ بال ایسے ہوں، جسے بآسانی لگایا اور اتارا جاسکتا ہو، تو یہ ٹوپی کے حکم میں ہیں، وضو اور غسل میں ان کا اتارنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات:
1. صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة 905:
   عن ابن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لعن الواصلة والممستوصلة والواشمة والمستوشمة.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة 9 / 614 :
   وفي الاختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها، لقوله  عليه السلام: لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة … الحديث.
3. بدائع الصنائع للکاسانی، كتاب الطهارة، أحكام الغسل 1 / 142:
   وقد مر تفسير الغسل في ما تقدم، إنه الإسالة حتى لا يجوز بدونها، وأما ركنه، فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة.
4. فيه أيضا: 5/ 125
   ولا بأس بذلك من شعر البهيمة وصوفها؛ لأنه انتفاع بطريق التزيين بما يحتمل ذلك.
5. وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب في أبحاث الغسل 1 / 311:
   أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه، أو يتعسر، كما في (البحر) … ويدل عليه أنه في (البدائع) ذكر ركن الغسل، وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج .

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:673
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




گرمی میں فصل کاٹنے کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا:

سوال:
   زمین دار فصل پکنے کے زمانے میں سخت گرمی کی وجہ سے روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا کرلےتو شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   موجودہ دور میں فصل کی  کٹائی کے لیے چونکہ جدید ترین مشینیں موجود ہیں، مثلا: ہارویسٹر مشین (Harvester  Machine) وغیرہ اس لیے کٹائی کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا جائز نہیں، تاہم اگر فصل مکمل پک چکی ہو، اور تاخیر کرنے سے فصل خراب ہونے کا اندیشہ ہو، اور فصل کاٹنے کے لیے کوئی اور معقول انتظام نہ ہوسکتا ہو، بلکہ خود ہی کاٹنا مجبوری ہو، تو ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصوم، فصل في الغوارض 2/ 493:
   لا يجوز للخباز أن يخبز خبزا يوصله إلى ضعف مبيح للفطر، بل يخبز نصف النهار ويستريح في النصف، قيل له: لا يكفيه أجرته أو ربحه، فقال: هو كاذب، وهو باطل بأقصر أيام الشتاء.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 3/ 460:
   وقال الرملي: وفي جامع الفتاوى: ولو ضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة، فله أن يفطر، ويطعم لكل يوم نصف صاع اهـ ، أي: إذا لم يدرك عدة من أيام أخر، يمكنه الصوم فيها، وإلا وجب عليه القضاء، وعلى هذا الحصاد إذا لم يقدر عليه مع الصوم، ويهلك الزرع بالتأخير لا شك في جواز الفطر والقضاء، وكذا الخباز … وكذا لو خاف هلاك زرعه، أو سرقته، ولم يجد من يعمل له بأجرة المثل، وهو يقدر عليها؛ لأن له قطع الصلاة لأقل من ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:672
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مسواک کرنے کا سنت طریقہ:

سوال:
   مسواک کرنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟ اور مسواک کس طرح پکڑنی چاہیے؟
جواب:
   مسواک پکڑنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو دائیں ہاتھ میں اس طرح پکڑا جائے کہ چھوٹی انگلی (چھنگلی) اور انگوٹھا مسواک کے نیچے رہیں، اور باقی تین انگلیاں مسواک کے اوپر رہیں۔
   اور مسواک کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے اوپر والے دانتوں کو دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کیا جائے، پھر بائیں طرف والے دانتوں کو تین مرتبہ صاف کیا جائے، اسی طرح پھر نیچے والے دانتوں کو پہلے دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کیا جائے، اس کے بعد بائیں طرف والے دانتوں کو تین مرتبہ صاف کیا جائے، اور ہر مرتبہ مسواک کو دھویا جائے، اس کے بعد زبان اور تالو کو مسواک سے صاف کیا جائے، دانتوں پر مسواک چوڑائی میں کی جائے، اور زبان پر مسواک لمبائی میں کی جائے۔

حوالہ جات:
1. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، ص: 30:
   يستاك عرضا لا طولا، أي: مع عرض الأسنان الذي هو طول الفم، لا العكس؛ خشية إلحاق الضرر باللثة، ويبدأ بالجانب الأيمن من العليا، ثم بالأيسر منها، ثم بالأيمن من السفلى، ثم بالأيسر منها، ويدلك ظاهر الأسنان وباطنها وأطرافها، ويبل السواك إن كان يابسا، و يغسله عند الاستياك وعند الفراغ منه.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/ 42،43:
   قوله: والسواك … وكيفية أن يستاك أعالي الأسنان وأسافلها والحنك، ويبتدئ من الجانب الأيمن، وأقله ثلاث في الأعالي وثلاث في الأسافل بثلاث مياه … ويستاك عرضا لا طولا … ويستحب إمساكه باليد اليمنى، والسنة في كيفية أخذه أن تجعل الخنصر من يمينك أسفل السواك تحته، والبنصر والوسطى والسبابة فوقه، واجعل الإبهام أسفل رأسه تحته، كما رواه ابن مسعود، ولا يقبض القبضة على السواك … ويبدأ بالأسنان العليا من الجانب الأيمن، ثم الأيسر، ثم السفلى كذلك، كذا في شرح منية المصلي.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، الفصل الثاني في سنن الوضوء 1/ 7:
   (ومنها السواك)… ويندب إمساكه بيمينه بأن جعل الخنصر أسفله والإبهام أسفل رأسه وباقي الأصابع فوقه، كذا في النهر الفائق، ثم وقت الاستياك هو وقت المضمضة، كذا في النهاية، ويستاك أعالي الأسنان وأسافلها، ويستاك عرض أسنانه، ويبتدئ من الجانب الأيمن، كذا في الجوهرة النيرة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:669
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




زکوٰۃ کی رقم مسجد میں دینے سے زکوٰۃ کا حکم:

سوال:
   ایک شخص نے چار سال تک زکوٰۃ کی رقم مسجد میں دی ہے، تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی یا نہیں؟
جواب:
   زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے ادا ہونے کے لیے ضروری ہے، کہ کسی انسان کو قابض و مالک بنا کر دیے جائیں، لہٰذا مساجد میں زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، کیو نکہ مساجد میں مالک بننے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، اس لیے شخص مذکورہ پر گزشتہ چار سال کی جملہ زکوٰۃ  کو دوبارہ ادا کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 188:
   ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب المصرف 3/ 341:
   ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد، و) لا إلى (كفن ميت، وقضاء دينه).
قوله: (نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 120:
   (وبناء مسجد) أي: لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد؛ لأن التمليك شرط فيها، ولم يوجد، وكذا لا يبنى بها القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:671
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




کافر سے خریدی ہوئی خراجی زمین میں عشر کاحکم:

سوال:
   خراجی زمین مسلمان نے کسی کافر سے خریدی ہو، تو اس میں عشر ہے یا نہیں؟
جواب:
   خراجی زمین میں خراج لازم ہوتا ہے، عشر نہیں، خواہ مسلمان کے پاس ہو یا کافر کے پاس، لہذا مذکورہ صورت میں کافر سے خریدی ہوئی زمین میں عشر لازم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، باب العشر، فروع في زكاة العشر 2/ 329:
   (وأخذ الخراج من ذمي) غير تغلبي (اشترى) أرضا (عشرية من مسلم) وقبضها منه، للتنافي (و) أخذ (العشر من مسلم أخذها منه) من الذمي (بشفعة) لتحول الصفقة إليه.
قال ابن عابدين تحت قوله: (وأخذ الخراج إلخ) … فالمسلم إذا اشترى العشرية أو الخراجية، بقيت على حالها.
2. الفتاوي الهنديه للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السادس في زكاة الزروع والثمار 1/ 186:
   والنوع الثاني شرط المحلية، وهو أن تكون عشرية، فلا عشر في الخارج من أرض الخراج، ووجود الخارج … ولو كانت الأرض لمسلم، باعها من ذمي غير تغلبي، وقبضها فعليه الخراج عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى .
3. الفتاوي التاتارخانيه لعالم بن علاء الهندي، كتاب الخراج، الفصل الخامس في بيان من يجب عليه الخراج، ومن لايجب عليه 3/ 309:
   کل من ملك أرض الخراج، يؤخذ منه الخراج كافرا كان أو مسلما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:668
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




روزہ کی حالت میں بیوی سے بغل گیر ہونے سے انزال ہو جانا:

سوال:
   کوئی شخص حالت روزہ  میں اپنی بیوی سے بغل گیر ہو، اور اس کے بعد انزال ہو جائے، تو  کیا اس سے روزہ فاسد ہوگا یا نہیں؟ اور اب اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم ہے؟
جواب:
   روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے بغل گیر ہونے کی وجہ سے انزال ہو جائے، تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اس روزے کی صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم،كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم، وما لا يفسده 2/ 293:
   لو قبلها بشهوة فأنزل فسد صومه؛ لوجود معنى الجماع … واللمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة، ولا كفارة عليه.
2. بدائع الصنائع لأبي بكر الكاساني، كتاب الصوم، فصل حكم فساد الصوم 2/ 244:
   ولو جامع امرأته فيما دون الفرج، فأنزل، أو باشرها، أو قبلها، أو لمسها بشهوة فأنزل يفسد صومه، وعليه القضاء، ولا كفارة عليه.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصوم، الفصل الرابع في ما يفسد الصوم، وما لا يفسد صومه 2/ 386:
   وإذا قبل امرأته، وأنزل، فسد صومه من غير كفارة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:670
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مریض کا نمازِفجر کے بعد روزه توڑنے کا حکم:

سوال:
   ایک شخص مریض تھا رمضان میں کسی دن روزہ رکھتا تھا، کسی دن افطار کرتا تھا، ایک دن روزہ کی نیت کی، پھر فجر کے بعد افطار کرلیا، تو اس صورت میں قضاء واجب ہے یا کفارہ؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں اگر مریض کی حالت ناقابل برداشت تھی اور اس کا ظن غالب تھا کہ اگر روزہ نہ توڑے گا تو جان چلی جائےگی یا سخت تکلیف میں پڑجانے گا تو ایسی صورت میں اس کے  لیے روزہ توڑنے کی گنجائش ہے اور روزہ توڑنے کی وجہ سے اس پر صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصوم، فصل في عوارض الفطر في رمضان 2/ 303 :
   (قوله: لمن خاف زيادة المرض الفطر) لقوله تعالى: {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] فإنه أباح الفطر لكل مريض لكن القطع بأن شرعية الفطر فيه إنما هو لدفع الحرج، وتحقق الحرج منوط بزيادة المرض أو إبطاء البرء أو إفساد عضو، ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض، والاجتهاد غير مجرد الوهم، بل هو غلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق.
2. فتح باب العناية بشرح النقاية للقاری، كتاب الصوم، فصل في الكفارة 2/ 250:
   وتسقط الكفارة اتفاقا، لو طرأ في يوم الإفساد حيض، أو نفاس، أو مرض مبيح للفطر؛ لأن الكفارة إنما تجب بالإفطار في صوم مستحق، واستحقاقه في يوم واحد لا يتجزأ ثبوتا وسقوطا، فبعروض المرض والحيض في آخره تمكنت شبهة انتفاء الاستحقاق في أوله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:667
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مارکیٹ سے ملنے والی آمدنی پر زکوۃ کا حکم:

سوال:
   ہماری ایک مارکیٹ ہے، اس سے بطورِ کرایہ جو آمدنی ملتی ہے کیا اس میں زکوۃ ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا طریقہ ہوگا؟
جواب:
   مارکیٹ سے بطورِ کرایہ جو آمدنی آپ کو ملتی ہے، اگر وہ  بقدرِ نصاب ہو، یا دیگر قابلِ زکوۃ اموال کے ساتھ ملا کر نصاب تک پہنچتی ہو، تو سال گزرنے کے بعد ان اموال کے مجموعہ سے چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوٰۃ دینا ضروری ہوگا ورنہ زکواۃ لازم نہیں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، مسائل شتي في الزكاة 1/ 180:
   ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها، لا تجب فيها الزكاة، كما لا تجب في بيوت الغلة.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكوة، باب شروط وجوب الزكوة  2/ 224:
ولو آجر عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة، لا تجب ما لم يحل الحول بعد القبض في قوله، وإن كان للتجارة، كان حكمه كالقوي؛ لأن أجرة مال التجارة كثمن مال التجارة في صحيح الرواية اهـ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:666
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16