Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

کرایہ پر دیے ہوئےگھرمیں زکوٰۃ کا حکم:

سوال:
   ایک شخص ایک گھر میں رہتا تھا، پھر اس نے دوسرا گھر بنایا اور اس میں منتقل ہوگیا، پہلا والا گھر اب حوائج اصلیہ سے فارغ ہے، اور اس کو کرایہ پر دیا ہے، اب مالک کبھی کہتا ہے، اس پر مارکیٹ بناؤں گا اور کبھی کہتا ہے کہ اس کو بیچوں گا، اب اس گھر کی قیمت تقریبا ایک کروڑ روپے ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس گھر پر زکوٰۃ آئے گی  یا نہیں؟
جواب:
   چونکہ اس گھرکو خریدتے وقت اس میں تجارت کی نیت نہیں تھی، اس لیے اس کی مالیت پر زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ اس کا کرایہ جمع ہو کر یا دیگر اموال زکوٰۃ کے ساتھ ملکر اگر بقدر نصاب بنتا ہو تو اس میں زکوٰۃ فرض ہوگی۔  

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة 2/ 364:
   ولو آجر عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة، لا تجب ما لم يحل الحول بعد القبض.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزکاة 3/ 214:
   (فلا زكاة على مكاتب)… (ولافي ثياب البدن) … (وأثاث المنزل و دور السكنى ونحوها) وكذا الكتب و إن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.
   قال: ابن عابدين تحت قوله: ­(ونحوها) أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها وكالحوانيت والعقارات.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:686
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی کھجور کی گٹھلی زمین پر پھینکنا کیسا ہے؟:

سوال:
   مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی کھجور کھا کر اس کی گٹھلی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
   مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کی کھجور کی گٹھلی سے متعلق اگرچہ كتب احادیث میں كسی خاص ادب کا تذکرہ ہمیں نہ مل سکا، تاہم شہر رسول اللہﷺ سے نسبت ہونے کے ناطے اگر اس کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ کیا جائے تو بہتر ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
{ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب} الحج: 32
3. سنن أبي داود، كتاب الأشربة، باب في النفخ في الشراب والتنفس فيه، الرقم: 3729:
  عن عبد الله بن بسر، من بني سليم قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أبي، فنزل عليه، فقدم إليه طعاما، فذكر حيسا أتاه به، ثم أتاه بشراب، فشرب، فناول من على يمينه، وأكل تمرا، فجعل يلقي النوى على ظهر أصبعيه السبابة والوسطى، فلما قام، قام أبي، فأخذ بلجام دابته، فقال: ادع الله لي، فقال: «اللهم بارك لهم فيما رزقتهم، واغفر لهم، وارحمهم».

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:685
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16

 




قضا روزے اور نماز کی ادائیگی کا حکم:

سوال:
   ایک شخص کافی عرصہ سے بیمار تھا، بیماری کی وجہ سے جو نمازیں اور  روزے فوت ہوئے تھے، ان سب کا  فدیہ دے دیا، اُس کے بعد یہ شخص صحت یاب ہوگیا تو کیا اس پر قضا نمازوں اور روزوں کی ادائیگی لازم ہوگی یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ مریض جب اپنی بیماری سے صحت یاب ہو جائے، اور اس کو اتنا وقت مل جائے کہ اس میں وہ قضا نمازوں اور روزوں کی ادائیگی کر سکتا ہو، تو اس پر قضاء نمازوں اور روزوں کی ادائیگی لازم ہوگی، اور جو فدیہ دیا ہے، وہ نفلی صدقہ شمار ہوگا، تاہم اگر اس شخص کا انتقال ہو جائے، تو روزوں کے لیے جو فدیہ دیا  گیا ہے، وہی کافی ہے، لیکن نمازوں کے لیے جو فدیہ دیا گیا ہے، وہ کافی نہیں ہے، وہ دوبارہ دیا جائے گا کیونکہ زندگی میں نمازوں کا فدیہ دینا درست نہیں۔ 

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت 2/ 646:
   وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة، بخلاف الصوم.
2. الهندية للجنة العلماء، كتاب الصوم، الباب  الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار 1/ 207:
   ولو قدر على الصيام بعد ما فدى، بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصوم، فصل في العوارض 2/ 502:
   ولو قدر على الصوم يبطل حكم الفداء؛ لأن شرط الخلفية استمرار العجز في الصوم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:684
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




قرض پر سود لینے کاحکم:

سوال:
   عمرو نے بینک میں رقم جمع کرائی ہے، زید اس کو  کہتا ہے کہ یہ رقم مجھے دے دو، میں تم کو بینک سے ڈبل منافع دوں گا ، اور زید اس رقم سے اپنے لیے ویزہ خریدنا چاہتا ہے ،تو یہ معاملہ شرعا درست ہے؟
جواب:
   اگر ڈبل  منافع دینے سے مراد یہ ہو کہ اس رقم پر بینک کی طرف سے ماہانہ جتنا سود ملتا ہے،  میں اس کا دوگنا تمہیں دوں گا، تو جس طرح بینک سے سود لینا جائز نہیں ہے،  اسی طرح کسی دوسرے فرد سے بھی سود لینا ناجائز ہے، اور اگر اس کی مراد یہ ہو کہ میں اس رقم کو تجارت میں لگا کر سود کی بنسبت ڈبل منافع تمہیں دوں گا تو یہ جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب البيوع، باب الرابحة والتولية 5/ 166:
   (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب البيوع 6/ 29:
   وكل قرض جر منفعة لا يجوز، مثل أن يقرض دراهم غلة على أن يعطيه صحاحا، أو يقرض قرضا على أن يبيع به بيعا؛ لأنه روي أن كل قرض جر منفعة فهو ربا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:683
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16

 




غاصب پر غصب شدہ مکان کا کرایہ کب لازم ہوگا؟:

سوال:
    زید نے بکر کے مکان پر قبضہ کرلیا اور دو ماہ اس میں رہا، پھر مکان اس آدمی سے چھڑالیا گیا تو اب زید غاصب پر دو ماہ کا کرایہ دینا لازم ہے یا نہیں؟ 
جواب:
   غصب شد ہ چیز کے منافغ عام حالات میں مضمون نہیں ہوتے، یعنی اس کا تاوان غاصب سےنہیں لیا جاتا، البتہ اگر یتیم کا مال ہو یا وقف کا مال ہو یا اس چیز کو ذریعہ آمدنی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو، جیسے گھر کرایہ پر دے کر ماہانہ کرایہ وصول کرنا، تو ان تینوں صورتوں میں مارکیٹ کے عرف کے مطابق اس کا ماہانہ کرایہ غاصب کے ذمہ لازم ہوگا، لہذا ذکر کردہ صورت میں زید نے یہ مکان  کرایہ پر دینے کے لیے بنایا یا خریدا ہو تو بکر کے ذمے دو ماہ کا کرایہ مارکیٹ کے عرف کے مطابق لازم ہوگا، اور اگر زید نے یہ مکان اپنی ذاتی رہائش کے لیے بنایا  یا خریدا ہو تو بکر کے ذمہ کرایہ دینا لازم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. درر الحكام لعلي حيدر أفندي،الكتاب الثاني الإجارة، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة 1/ 460:
   الثالث: فيما إذا كان التجاوز غصبا؛ فلا تلزم الأجرة إلا إذا كان في مال معد للاستغلال، أو مال يتيم، أو وقف، أو مال بيت المال فإذا كان المال لواحد من هؤلاء، لزم أجر المثل.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، مطلب في أخذ المرأة كفيلا بالنفقة 3/ 583:
   ومفهومه أنها لو سكنت بغير إجارة في وقف أو مال يتيم أو معد للاستغلال فالأجرة عليه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:682
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




صدقۂ فطر کی قیمت میں کس شہر کا اعتبار ہوگا؟

سوال:
   صدقۂ فطر میں اپنے شہر کی گندم کی قیمت چھوڑ کر دوسرے شہر کی قیمت معتبر ہوگی یا نہیں؟
جواب:
   صدقۂ فطر کی قیمت میں اس شہر کا اعتبار ہوتا ہے، جہاں صدقۂ فطر ادا کرنے والا موجود ہو، چنانچہ اگر صدقۂ فطر  کسی اور کی طرف سے ادا کیا جارہا ہو، تو قیمت میں اس شخص کے علاقے کا اعتبار ہوگا، جس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا  کیا جارہا ہے۔

حوالہ جات:
1. حاشية الطحطاوي علي المراقي ، كتاب الزكاة، باب المصرف، ص: 722:
   المعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 2 /436:
   والمعتبر في الزكاة مكان المال في الروايات كلها، وفي صدقة الفطر مكان الرأس المخرج عنه في الصحيح.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة،باب المصرف 3/ 359:
   والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح قوله: (مكان المؤدي) أي لامكان الرأس الذي يؤدي عنه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:680
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




میوزک اور گانے بجانے والے پروگرام میں شرکت کرنا:

سوال:
   اگر كسی شادی میں میوزک یا  گانے بجانے ہوں، تو ایسی شادی میں شرکت کرنا یا کھانا پینا جائز ہے؟
جواب:
   جس شادی میں گانے بجانے ہوں، تو اگر میوزک وغیرہ کھانے ہی کی جگہ پر موجود ہو، اور سب کو پہلے سے معلوم ہو، تو اس صورت میں عوام اور خواص سب کو جانے سے احتراز کرنا چاہیے،  البتہ اگر پہلے سے معلوم نہ ہو، تو عوام کو کھانے کی گنجائش ہے، البتہ اگر کوئی با اثر مقتدیٰ  شخصیت ہو، اور اسے یقین ہو، کہ اس کی شرکت سے یہ لوگ میوزک وغیرہ بند کریں گے،  تو  گناہ کے سد باب کے لیے جانے اور ٹھرنے کی گنجائش ہے۔
تاہم اگر یہ میوزک وغیرہ کھانا کھانے کی جگہ میں نہ ہو، یا ولیمہ سے پہلے ہوئی ہو، اور اب عین ولیمہ  کے موقع  پر نہ ہو، تو ایسی صورت میں  دعوت میں شرکت کی جا سکتی ہے۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن أبي بكر، كتاب الكراهية، فصل في الأكل والشرب 4/ 365:
   ومن دعي إلى وليمة أو طعام فوجد ثمة لعبا أو غناء فلا بأس بأن يقعد، ويأكل … وهذا إذا لم يكن مقتدى به، فإن كان مقتدى، ولم يقدر على منعهم يخرج، ولا يقعد؛ لأن في ذلك شين الدين، وفتح باب المعصية على المسلمين، والمحكي عن أبي حنيفة رحمه الله في الكتاب كان قبل أن يصير مقتدى به، ولو كان ذلك على المائدة لا ينبغي أن يقعد، وإن لم يكن مقتدى … وهذا كله بعد الحضور، ولو علم قبل الحضور لايحضر.
2. الدر المختار، کتاب الحظر والإباحة 347/6:
وثمة لعب أو غناء قعد وأكل) لو المنكر في المنزل، فلو على المائدة لا ينبغي أن يقعد بل يخرج معرضا لقوله تعالى: – {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} [الأنعام: 68]- (فإن قدر على المنع فعل وإلا) يقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به (وإن علم أولا) باللعب (لا يحضر أصلا) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:679
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




نیندکی حالت میں نماز کا کوئی رکن ادا کرنا:

سوال:
   ایک شخص نماز کے دوران سوگیا اور ایک دو رکن اس نے سونے کی حالت میں ادا کیے یا یہ کہ اسے بالکل  شعور نہ رہا، مثلا سوتے ہوئے سجدہ، یا رکوع، یا قرأت کی اور ان ارکان کی ادائیگی کے وقت اس میں بالکل بیداری نہ رہی ہو، تو ایسے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟ 
جواب:
   دوران نماز سونے کی حالت میں اگر اس شخص نے ہیئتِ مسنونہ پر رہتے ہوئے ارکان اداء کر لیے تھے تو اس کی نماز ہوگئی، اور اگر ہیئت ِمسنونہ بر قرار نہ رہی تھی، خاص طور سے سجدہ میں تو اس كا وضو ٹوٹ گيا اور وضو ٹوٹنے کی وجہ سے اس کی نماز بھی ٹوٹ گئی، جس كا اعادہ كرنا ضروری ہوگا۔
ہیئتِ مسنونہ کا مطلب یہ ہے کہ مثلا مرد نے اس طرح سجدہ کیا ہو کہ پیٹ ران سے اور بازو پہلو سے جدا ہوں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الخامس في نواقض الوضوء 1/ 12:
ولا ينقض نوم القائم والقاعد ولو في السرج أو المحمل ولا الراكع ولا الساجد مطلقا إن كان في الصلاة وإن كان خارجها فكذلك إلا في السجود فإنه يشترط أن يكون على الهيئة المسنونة له بأن يكون رافعا بطنه عن فخذيه مجافيا عضديه عن جنبيه وإن سجد على غير هذه الهيئة انتقض وضوءه. كذا في البحر الرائق ثم في ظاهر الرواية لا فرق بين غلبته وتعمده وعن أبي يوسف النقض في الثاني والصحيح ما ذكر في ظاهر الرواية. هكذا في المحيط.
2. رد المحتار لابن عابدين، سنن الوضوء 141/1:
(قوله: وساجدا) وكذا قائما وراكعا بالأولى، والهيئة المسنونة بأن يكون رافعا بطنه عن فخذيه مجافيا عضديه عن جنبيه كما في البحر. قال ط: وظاهره أن المراد الهيئة المسنونة في حق الرجل لا المرأة

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:678
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16

 




بچیوں کے لیے تیار کردہ زیورات کی زکوۃکس پر ہے؟:

سوال:
   والد اگراپنے نابالغ بچیوں کے نام زیورات بنائے، تو ان زیورات کی زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
جواب:
   والد نے اگر اپنے نابالغ بچیوں کو زیورات کا مالک بنایا ہو، تو ان بچیوں کے بالغ ہونے تک زیورات میں زکوۃ واجب نہیں ہے، اور بچیوں کے بالغ ہونے کے بعد سال گزرنے پر زکوۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ یہ بچیاں زکوۃ کے نصاب کے مالک ہوں، اور اگر ان کو مالک نہ بنایا ہو، بلکہ ایسے ہی عاریتا دیے ہوں، تو ان زیورات کی زکوۃ والد پر فرض ہوگی۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، فصل شرائط فرضية الزكاة، الشرائط التي ترجع على من عليه المال 2/ 4:
   وأما سبب فرضيتها فالمال؛ لأنها وجبت شكرا لنعمة المال، وأما شرائط الفرضية … منها البلوغ عندنا، فلا تجب على الصبي.
2. الفتاوى الهنديه للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها 1/ 172:
   (وأما شروط وجوبها) … (ومنها العقل والبلوغ) فليس الزكاة على صبي ومجنون.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:677
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




“اگر میں سعود ی عرب سے تین ماہ بعد واپس نہ آیا تو تجھے طلاق “کہنے کاحکم:

سوال:
   ایک عورت  نے اپنے شوہر سے کہا کہ تم سعودی عرب نہیں جاؤ گے، شوہر نے کہا کہ  میں جاتا ہو اور تین ماہ بعد  واپس آتا ہو، اور تاکید کے لیے یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر تین ماہ بعد واپس نہیں آیا، تو تمہیں  طلاق ہے، اب کسی مجبوری کی وجہ سے وہ تین  ماہ بعد واپس نہیں آیا، تو کیا اس صورت میں عورت کو طلاق  ہوئی یا نہیں؟
جواب:
   چونکہ شوہر اپنی شرط کی خلف ورزی کی ہے، اس لیے اس عورت پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر بلا تجدید نکاح صرف رجوع کرنے سے نکاح بدستور باقی رہےگا، لیکن اگر عدت کے اندر اندر رجوع نہیں کیا تو پھر تجدید نکاح کرنی پڑے گی اور رجوع کا مطلب یہ ہے یا تو زبان سے کہہ دے کہ میں نے تجھے اپنی بیوی بنالیا یا عملی  طور پر بیوی کے ساتھ جماع یا بوس وکنار کرلے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما 240/1:
  وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك والإضافة إلى سبب الملك كالتزوج كالإضافة إلى الملك فإن قال لأجنبية: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم نكحها فدخلت الدار لم تطلق كذا في الكافي.
2. الهداية، فصل في المشيئة 251/1:
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق وهذا بالاتفاق لأن الملك قائم في الحال والظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط فيصح يمينا أو إيقاعا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:676
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16