Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

میت کو دوبارہ غسل دینا یا میت کے ناخن وغیرہ کاٹنا:

سوال:
   میت کو رات کے وقت ایک مرتبہ غسل دیا گیا، صبح نماز جنازہ سے پہلے دوبارہ غسل دیا گیا، تو کیا شرعا مردے کو دوسری مرتبہ غسل دینا درست ہے؟ نیز مردے کے ناخن اور زائد بال کاٹنا درست ہے؟
جواب:
   میت کو ایک مرتبہ غسل دینے سے حکم شرعی پورا ہو جاتا ہے، دوبارہ غسل دینا سنت سے ثابت  نہیں ہے، اس لیے میت کو ایک بار غسل دینے کے بعد دوبارہ غسل دینا پانی کا ضیاع اور اسراف ہے۔
چونکہ انسان کو مرنے کے بعد زیب وزینت کی حاجت اور ضرورت نہیں رہتی، اس لیے ميت کے ناخن اور جسم کے کسی بھی حصہ کے بال کاٹنا درست نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. الهنديه للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الثاني في الغسل1/ 157:
   غسل الميت حق واجب على الأحياء بالسنة وإجماع الأمة … فإن خرج منه شيئ غسله ولا يعيد غسله ولا وضوءه … ولا يسرح شعر الميت ولا لحيته، ولا يقص ظفره ولا شعره  كذا في الهداية ولا يقص شاربه ولا ينتف أبطه ولا يحلق شعرعانته ويدفن بجميع ما كان عليه.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة 2/ 197:
   (ولايعاد غسله ولا وضوءه بالخارج منه) لأن غسله ما وجب لرفع الحدث … (ولا يقص ظفره) إلا المكسور … (ولا شعره) ولا يختن.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:696
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




تہجد پڑھنے کا افضل وقت:

سوال:
   کیا وتر کے بعد تہجد کی نماز ادا ہوجاتی ہے؟ تہجد کا بہتر وقت کون سا ہے؟
جواب:
   وتر پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا جائز ہے، تاہم اگر تہجد کے لیے اٹھنے کا معمول ہو، تو ایسی صورت میں نماز وتر تہجد کی نماز کے بعد ادا کرنا افضل ہے اور نماز تہجد کا بہتر وقت یہ ہےکہ غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک کا وقت چھ (6) برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے، پہلے تین حصوں میں آرام کرے، چوتھے اور پانچویں حصہ میں تہجد پڑھے اور چھٹے حصہ میں پھر آرام کرے۔

حوالہ جات:
1. مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب صلاة الليل، الفصل الأول 1/ 105:
   عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في ما بين أن يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر أحدى عشر ركعة إلى آخره.
2.  تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، الأوقات التي يستحب فيها الصلاة 1/ 84:
   (والوتر إلى آخر الليل لمن يثق بالانتباه) أي ندب تأخير الوتر إلى آخر الليل إذا كان يثق من نفسه أنه ينتبه ليصلي ليكون الوتر ختما لقيام الليل كله لقوله – عليه الصلاة والسلام – «اجعلوا آخر صلاتكم من الليل وترا».
3. رد المحتار، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل  25/2:
(قوله ولو جعله أثلاثا إلخ) أي لو أراد أن يقوم ثلثه وينام ثلثيه فالثلث الأوسط أفضل من طرفيه لأن الغفلة فيه أتم والعبادة فيه أثقل ولو أراد أن يقوم نصفه وينام نصفه فقيام نصفه الأخير أفضل لقلة المعاصي فيه غالبا وللحديث الصحيح «ينزل ربنا إلى سماء الدنيا في كل ليلة حين يبقى ثلث الليل الأخير، فيقول: من يدعوني فأستجيب له؟ من يسألني فأعطيه من يستغفرني فأغفر له» ومعنى ينزل ربنا ينزل أمره كما أوله به الخلف وبعض أكابر السلف، وتمامه في تحفة ابن حجر، وذكر أن الأفضل من الثلث الأوسط السدس الرابع والخامس للخبر المتفق عليه «أحب الصلاة إلى الله تعالى صلاة داود، كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه» . اهـ. وبه جزم في الحلية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:695
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




مسجد کی زائد اشیاء دوسری مسجد یا ذاتی استعمال میں لانا کیسا ہے؟:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد کی  زائد از ضرورت الماری مدرسہ یا ذاتی ضرورت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟  
جواب:
   مسجد کی وہ اشیاء جو ضرورت سے زائد ہوں اور مسجد کے کام نہ آتے ہوں، ان چیزوں کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں، بلکہ مسجد کی کمیٹی یا متولی مسجد کو چاہیے کہ ان اشیاء کو فروخت کرکے ان کی قیمت مسجد کی دوسری ضروریات میں استعمال کرے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف 5/ 272:
   وأما الحصیر، والقناديل، فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود إلى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر، أو يبيعه قيم المسجد للمسجد.
2. الميحط البرهاني ابن ماجه،كتاب الوقف، فصل في المساجد وهو أنواع 6/ 99:
   والصحيح من مذهب أبي يوسف في فصل الحصير، أنه لا يعود إلى ملك صاحبه بخراب المسجد، بل يحول إلى آخر، ويبيعه قيم المسجد للمسجد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:694
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16

 




مسجد کا وقف شدہ  سامان دوسری جگہ استعمال کرنا:

سوال:
   مسجد کا ساز وسامان شادی، غمی میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   مسجد کے لیے وقف شدہ سامان مسجد سے نکال کر شادی بیاہ اور فوتگی وغیرہ میں استعمال کرنا کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختارللحصكفي، كتاب الوقف، مطلب في وقف المرتد والكافر4/ 351:
   (فإذا تم، ولزم لا يملك، ولا يملك، ولا يعار، ولا يرهن).
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف 5/ 270:
   وليس لمتولي المسجد أن يحمل سراج المسجد إلى بيته.
3. المحيط البرهاني في الفقه النعماني برھان الدین، كتاب الوقف، الفصل الحادي والعشرون: في المساجد وهو أنواع 5/ 318:
   وليس للمتولي أن يصرف عليها إلى غير الدهن؛ لأن الواقف وقفها على دهن المسجد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:693
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مرنے کے بعد میاں بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا یا چہرے کو دیکھنا:

سوال:
   مرنے کے بعد میاں بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا یا ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
    واضح رہے کہ شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیوی کے لیے اس کا چہرہ دیکھنا ، نہلانا اور کفن پہنانا جائز ہے، لیکن اگر  بیوی کا انتقال ہوجائے تو شوہر کے لیے اس کو نہلانا، اس کا بدن چھونا درست نہیں، البتہ اس کا چہرہ دیکھنا اور جنازہ اٹھانا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار مع رد المحتار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة 2/ 198:
   (ويمنع زوجها من غسلها ومسها، لا من النظر إليها على الأصح) … (وهي لا تمنع من ذلك).
   قال: ابن عابدين: ولعل وجهه أن النظر أخف من المس، فجاز لشبهة الاختلاف.
2. الأصل لمحمد بن الحسن لشيباني، كتاب الاستحسان 3/ 57:
   ولا بأس بأن ينظر إلى وجهها، وإلى كفها، ولا ينظر إلى شيء غير ذلك منها، وهذا قول أبي حنيفة.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، فصل بيان الكلام فيمن يغسل 1/ 304:
   والنكاح بعد الموت باق إلى وقت انقطاع العدة، بخلاف ما إذا ماتت المرأة حيث لا يغسلها الزوج؛ لأن هناك انتهى ملك النكاح لانعدام المحل، فصار الزوج أجنبيا فلا يحل له غسلها، واعتبر بملك اليمين حيث لا ينتفي عن المحل بموت المالك، ويبطل بموت المحل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:692
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16

 




مردوں کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ اٹھانے کی مقدار :

سوال:
   مردوں کے لیے نماز میں تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ  کہاں تک  اٹھانے چاہیے؟ 
جواب:
   مردوں کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے اس طرح کہ انگوٹھے کے سرے کان کی لو کے برابر ہو جائیں، کانوں کی لو کو ہاتھ لگانا ضروری نہیں، البتہ انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو کو لگانا بہتر ہے، اس سے کانوں کے محاذات میں یعنی برابر میں ہاتھوں کے آنے کا یقین ہو جاتا ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها 1/ 73:
   (وكيفيتها) إذا أراد الدخول في الصلاة كبر، ورفع يديه حذاء أذنيه، حتى يحاذى بإبهاميه شحمتي أذنيه، وبرؤس الأصابع فروع أذنيه.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة 1/ 531:
   (وإذا اراد الدخول في الصلاة كبر) أي: تكبير الافتتاح قائما … قوله: (ورفع يديه حذاء أذنيه) لما رويناه، ولما رواه الحاكم، وصححه عن أنس قال: رأيت النبيﷺ كبر فحاذى بإبهاميه أذنيه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:691
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16

 




مدرسہ کے فنڈ پر زکوٰۃ:

سوال:
   مدرسہ کے فنڈ کی رقم نصاب کے بقدر ہو اور اس پر سال گزر جائے تو شرعا اس پر زکوٰۃ  آئے گی؟
جواب:
   مدرسہ کا فنڈ چونکہ مالِ وقف ہے، اور مال وقف کسی کی ملکیت میں نہیں ہوتا، اور زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے مال زکوٰۃ کا کسی کی ملکیت میں ہونا ضروری ہے، اس لیے مدرسہ کے فنڈ پر زکوٰۃ نہیں آئے گی ۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي ،كتاب الزكاة 3/ 208:
   فلا زكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة؛ لعدم الملك.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الزكاة 2/ 19:
   قوله: (وملك نصاب) أي فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف، والخيل المسبلة؛ لعدم الملك، وهذا لأن في الزكاة تمليكا، والتمليك في غير الملك لا يتصور.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال 2ْ/ 88:
   فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف، والخيل المسبلة؛ لعدم الملك، وهذا لأن في الزكاة تمليكا، والتمليك في غير الملك لا يتصور.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:690
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




مال حرام کسی کو رشوت میں دینا:

سوال:
   سود کی رقم کسی کو رشوت کے طور پر دینا جائز ہے؟ جبکہ وہ ناجائز طریقہ سے رشوت مانگنا ہوں؟
جواب:
   سودی رقم وصول کرنا گناہ ہے، اگر غلطی سے وصول کرلی، تو اب اس کو بطورِ رشوت استعمال کرکے دوسرے گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حتی الامکان اپنے مالک تک پہنچانا چاہیے، ورنہ بلا نیتِ ثواب فقراء پر تقسیم کرنی چاہیے۔

حوالہ جات:
 1. تبيين الحقائق لزيلعي، كتاب الكراهية، فصل في البيع 6/ 27:
   ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.
 2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الكراهية، فصل في البيع 6/ 385.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:689
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




گھر کے استعمال کے  لیے بوئی ہوئی سبزیوں میں عشر کا حکم:

سوال:
   ہم نے اپنے کھیت میں کچھ سبزی کاشت کی ہے، جو ہم صرف اپنے گھر میں استعمال کرتے ہیں تو اس میں بھی عشر دینا ہوگا؟ 

جواب:
   واضح رہے کہ کھیت میں اگائی گئی سبزیاں خواہ تھوڑی مقدار میں ہوں یا زیادہ،  ان پر عشر یا نصف عشر واجب ہوتا ہے، البتہ گھر کی چار دیواری کے اندر اگائی گئی سبزیوں میں عشر واجب نہیں۔

حوالہ جات:
1. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب العشر، الفصل الثاني في بيان اعتبار النصاب لوجوب العشر 2/ 327:
   لو كان في دار رجل شجرة لا يجب في ذلك عشر، وإن كانت تلك البلدة عشرية.
2. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الزكاة، باب زكاة الزروع والثمار 4/ 107:
   قال أبو حنيفة رحمه الله: في قليل ما أخرجته الأرض، وكثيره العشر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:688
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16




زیادہ گرم چیز کھانا یا پینا:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ زیادہ گرم کھانا یا مشروب پینے کا  کیا حکم ہے؟ اگر مکروہ ہے تو گرم چائے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   اگر کھانے یا پینے  کی چیز اتنی گرم ہے کہ جس سے منہ اور ہونٹ جلتے ہوں، تو ان چیزوں کا کھانا یا پینا مکروہ ہے، زیادہ گرم چائے کا بھی یہی حکم ہے۔

حوالہ جات:
1. سنن الدارمي، كتاب الأطعمة، باب النهي عن أكل الطعام الحار،الرقم: 2047:
   عن أسماء بنت أبي بكر: انها كانت إذا أتيت بثريد أمرت به، فغطي حتى يذهب فوره ودخانه، وتقول اني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: هو أعظم للبركة.
2. المعجم الأوسط، باب الميم، الرقم: 6209:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أبردوا بالطعام، فإن الطعام الحار غير ذي بركة».
3. النتف في الفتاوى لابي الحسن علي بن الحسين، كتاب الاشربة 1/ 245:
   وأما الكراهية فأولها النفخ في الطعام، والثاني الشم كما تشم البهام، والثالث أكل الحار، والرابع الاكل فوق الشبع، وأما التخويف فأولها ان يخاف ان يكون ذلك الطعام حظه من الاخرة، والثاني ان يخاف ان لا يقوم بشكره، والثالث ان يخاف ان يعصى الله بقوة ذلك الطعام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:687
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16