Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2024 - Darul Ifta Mardan Year: 2024 - Darul Ifta Mardan

رمضان میں دن کو حیض سے پاک ہونے کے بعد کھانا پینا کیسا ہے؟:

سوال:
   اگر کوئی حائضہ عورت دن کو پاک ہو جائے، تو غروب آفتاب تک کھا پی سکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
   حائضہ عورت جب دن کو پاک ہو جائے، تو غروب آفتاب تک اس کے لیے کھانا اور پینا جائز نہیں، بلکہ غروب آفتاب تک روزہ داروں کی طرح رہنا ضروری ہے، البتہ یہ دن روزہ میں شمار نہ ہوگا، بلکہ بعد میں اس روزہ کی قضاء کرنی پڑے گی۔ 

حوالہ جات:
1.  بدائع الصنائع، للكاساني الحنفي، كتاب الصوم، فصل حكم الصوم المؤقت إذا فات عن وقته 2/ 102:
   أما وجوب الإمساك تشبها بالصائمين فكل من كان له عذر في صوم رمضان في أول النهار مانع من الوجوب، أو مبيح للفطر، ثم زال عذره، وصار بحال لو كان عليه في أول النهار لوجب عليه الصوم، ولا يباح له الفطر كالصبي إذا بلغ في بعض النهار، وأسلم الكافر،  وأفاق المجنون، وطهرت الحائض، وقدم المسافر مع قيام الأهلية يجب عليه إمساك بقية اليوم.
2. الهداية لعلي بن أبي بكرالمرغيناني، كتاب الصوم، فصل في من كان مريضا في رمضان 1/ 126:
   وإذا قدم المسافر أو طهرت الحائض في بعض النهار أمسكا بقية يومهما.
3. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم من غير كفارة 1/ 255:
   يجب الإمساك بقية اليوم على من فسد صومه، وعلى حائض ونفساء طهرتا بعد طلوع الفجر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:707
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-21




لقطہ کا حکم:

سوال:
   ایک مسجد میں تبلیغ والوں کا ایک بسترہ رہ گیا ہے، اب تقریبا  ایک مہینہ گزر گیا، لیکن نہ وہ خود پوچھتا ہے اور نہ اس کا کوئی پتہ معلوم ہے، تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   گم شدہ چیز کو لقطہ کہا جاتا ہے، اس لیے یہ بسترہ بھی لقطہ کے حکم میں ہے،  چنانچہ اگر اس کا مالک معلوم نہ ہو،اور تلاش کے باوجود نہ مل سکے، تو مالک کی طرف سے اس کو صدقہ کرلینا چاہیے، اگر اٹھانے والا خود غریب ہے، تو وہ خود بھی اس کو استعمال کرسکتا ہے، تاہم اگر صدقہ کرنے کے بعد اس کا مالک مل گیا اور وہ اس صدقہ پر رضامند تھا تواچھی بات ہے، ورنہ اس کو اس بستر کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور وہ صدقہ اس اٹھانے والے کی طرف سے ہوجائےگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب اللقطة 4/ 280:
   (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها، وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار…(فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا، وإلا تصدق بها على فقير، ولو على أصله وفرعه وعرسه … (فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله، ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه).
2. الهداية لعلي بن أبي بكرالمرغيناني، كتاب اللقطة 2/ 420:
   وإن كان الملتقط فقيرا فلا بأس بأن ينتفع بها لما فيه من تحقيق النظر من الجانبين، ولهذا جاز الدفع إلى فقير غيره، وكذا إذا كان الفقير أباه أو ابنه أو زوجته وإن كان هو غنيا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:706
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-21




روزہ کی حالت میں ہمبستری کرنا:

سوال:
   ایک شخص نے روزے کی حالت میں بیوی سے دن میں ہمبستری کرلی، اور انزال نہیں ہوا تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   روزے کی حالت میں ہمبستری کرنے سے میاں بیوی دونوں کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے، چاہے انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور بعد میں اس روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی، تاہم ہمبستری میں اگر بیوی کی رضامندی شامل نہ ہو بلکہ اس کو ہمبستری پر مجبور کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں بیوی پر صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. خلاصة الفتاوى لطاهر ابن عبد الرشيد، كتاب الصوم، الفصل الثالث فيما يفسده وما لا يفسد 1/ 259:
   الصائم إذا جامع إمرأته متعمدا في نهار رمضان، فعليه القضاء، والكفارة إذا توارت الحشفة أنزل، أو لم ينزل.
2. الفتاوى قاضي خان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الصوم1/ 104:
   (وأما ما يوجب القضاء والكفارة) إذا أصبح صائما في رمضان، فجامع امرأته متعمدا، عليه القضاء والكفارة إذا توارت الحشفة، أنزل أو لم ينزل، وعلى المرأة مثل ما على الرجل.
3. المبسوط لمحمد بن الحسن الشیباني، كتاب الصوم 205/2:
إن أكل وشرب في شهر رمضان متعمدا فعليه ما على من جامع من القضاء والكفارة؟ قال: نعم، قلت: وعلى المرأة مثل ذلك إذا هي طاوعته؟ قال: نعم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:704
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




کرایہ پر دیے ہوئے مکان کی مالیت پر زکوٰۃ کا حکم:

سوال:
   ایک شخص نے اپنا مكان کرایہ پر دیا ہے، جبکہ مکان کی قیمت نصاب کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے، اس مکان كي قيمت پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ آئے گی یا نہیں؟
جواب:
   كرايه كے مکان کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں آتی، البتہ کرایہ کی رقم تنہا یا دیگر قابل زکوٰۃ اموال کے ساتھ مل کرنصاب تک پہنچ جائےاور اس پر سال بھی گذر جائے تو زکوٰۃ لازم ہوگی۔

حوالہ جات:
1. البحرالرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة 2/ 364:
   ولو آجر عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة لا تجب ما لم يحل الحول بعد القبض.
2. الدرالمختار مع الرد المحتار للحصكفي، كتاب الزكاة 2/ 263:
   (فلا زکاة على مكاتب) … (ولا في ثياب البدن) … (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب.
وقال ابن عابدين تحت قوله: ونحوها : أي: كثياب البدن الغير المحتاج إليها وكالحوانيت والعقارات.
3. الفتاوى الهندية، كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسيرها 1/ 172:
   فلیس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنزل… وسلاح الاستعمال زكاة … إذا لم يكن للتجارة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:703
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




انڈوں کے لیے پالی ہوئی مرغیوں میں زکوۃ کا حکم:

سوال:
   زید نے انڈے حاصل کرنے کے لیےمرغیاں پال رکھی ہیں، زید ان مرغیوں کے انڈے فروخت کرتا ہے، کچھ مدت کے بعد جب مرغیاں انڈے دینا کم کردیتی ہیں، تو زید وہ مرغیاں بیچ دیتا ہے، اور پھر نئی مرغیاں انڈوں کے لئے خرید کر فارم میں رکھ لیتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ ان مرغیوں اور انڈوں میں زکوۃ فرض ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں انڈوں اور مرغیوں کی مالیت پر تو زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ مرغیاں اور انڈے بیچنے کے بعد ان سے حاصل شدہ آمدنی  پر اسی ترتیب سے زکوٰۃ فرض ہوگی جس طرح کہ عام پیسوں پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية، كتاب الزكاة، الفصل الثاني في العروض1/ 179:
   الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا … وتعتبر القيمة عند حولان الحول.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب زكاة المال1/ 128:
   والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة … ولو نوى التجارة بعد العقد أو اشترى شيئا للقنية ناويا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:702
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




ایک شخص کا صدقۂ فطر کئی افراد کو دینا:

سوال:
   ایک شخص کا صدقۂ فطر کئی افراد کو دینا کیسا ہے؟
جواب:
   ایک شخص کا صدقۂ فطر متعدد فقراء اور مساکین کو دینا جائز ہے، تاہم ایک شخص کا صدقۂ فطر ایک ہی مسکین کو دینا افضل اور بہتر ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر 2/ 367:
   (وجاز دفع کل شخص فطرته إلى) مسكين أو (مساكين على) ما عليه الأكثر.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر 1/ 311:
   في باب صدقة الفطر أنه يجب دفع صدقة فطر كل شخص إلى مسكين، حتى لو فرقه على مسكينين أو أكثر لم يجز؛ لأن المنصوص عليه هو الإغناء، ولا يستغنى بما دون ذلك، وجوز الكرخي تفريق صدقة شخص واحد على مساكين لأن الإغناء يحصل بالمجموع.
3. و في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر 2/ 208:
   ویجوز أن يعطي ما يجب في صدقة الفطرعن إنسان واحد جماعة مساكين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:701
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




مقروض کا قرضہ صدقۂ فطر میں معاف کرنا:

سوال:
   زید کا بکر کے ذمہ قرض ہے، اور بکر مفلس ونادار ہے، اگر زید صدقۂ فطر کی رقم کو اس قرض میں حساب کرکے لے لے، تو کیا اس طریقے سے صدقۂ فطر ادا ہو جائے گا؟
جواب:
   صدقۂ فطر صدقات واجبہ میں سے ہے،جس کی ادائیگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی مستحق زکوۃ کو اس کا مالک بنایا جائے، لہذا ذکر کردہ طریقے سے صدقۂ فطر ادا نہیں ہوگا، البتہ مقروض کو باقاعدہ مالک بنا کر صدقۂ فطر دیا جائے اور پھراسے اپنے قرضہ میں وصول کیا جائے، تو یہ طریقہ درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر 2/ 368:
   (وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.
2. أيضا، كتاب الزكاة، باب السائمة 1/ 128:
   وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز وحيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه، ولو امتنع المديون مد يده وأخذها لكونه ظفر بجنس حقه.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (وحيلة الجواز) أي: فيما إذا كان له دين على معسر، وأراد أن يجعله زكاة عن عين عنده…(أن يعطي مديونه إلخ) قال في الأشباه: وهو أفضل من غيره؛ لأنه يصير وسيلة إلى براءة ذمة المديون.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:700
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




خود کاشت گھاس میں عشر کا حکم:

سوال:
   جو گھاس جانوروں کے چارہ کے لیے لگائی جائے، تو اس میں عشر واجب ہوگا؟
جواب:
   جو فصل باقاعدہ طریقے سے کاشت کی جائے، اس پر عشر واجب ہے، چاہے وہ جانوروں کی غذا کے لیے ہو، جیسے گھاس وغیرہ یا انسانوں کی غذا کے لیے ہو، جیسے گندم وغیرہ، لہذا مذکورہ گھاس میں عشر واجب ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهنديه للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السادس في زكاة الزرع والثمار 1/ 186:
   ویجب العشر عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير … وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب العشر 2/ 328:
   (إلا فيما) لا يقصد به استغلال الأرض (نحو حطب وقصب) فارسي (وحشيش) وتبن وسعف وصمغ وقطران وخطمي وأشنان وشجر قطن وباذنجان وبزر بطيخ وقثاء وأدوية كحلبة وشونيز حتى لو أشغل أرضه بها يجب العشر.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، باب العشر الخراج 2/ 178:
   ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض، وتستغل الأرض به عادة، فلا عشر في الحطب، والحشيش.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:699
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




بیوی کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے زیورات کی زکوۃ ادا کرنا:

سوال:
   جس عورت کے جہیز کے زیورات ہوں، وہ خاوند کو اطلاع دیئے بغیر زکاۃ ادا کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
   عورت کو والدین کی طرف سے جہیز میں ملنے والے زیورات عورت ہی کی ملکیت ہوتی ہیں، لہذا ان  کی زکوٰۃ عورت پر لازم ہوگی، شوہر پر نہیں، چنانچہ اگر بیوی اپنے پیسوں سے ان کی زکوٰۃ ادا کر رہی ہے، تو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، اور اگر شوہر کے پیسوں سے ادا کر رہی ہے، تو اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. سنن الترمذي، كتاب الزكاة، باب ما جاء في زكاة الحلي، الرقم 637:
   عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن امرأتين أتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي أيديهما سواران من ذهب، فقال لهما: أتؤديان زكاته؟، قالتا: لا، قال: فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتحبان أن يسوركما الله بسوارين من نار؟، قالتا: لا، قال: فأديا زكاته.
2. الهداية لعلي بن أبي بكر، كتاب الزكاة 1/ 95:
   الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول.
3. بدائع الصنائع، كتاب الزكاة، فصل بيان ما يسقط وجوب النصاب 2/ 53:
   أن الزكاة عبادة عندنا، والعبادة لا تتأدى إلا باختيار من عليه إما بمباشرته بنفسه، أو بأمره، أو إنابته غيره فيقوم النائب مقامه، فيصير مؤديا بيد النائب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:698
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20




سردی یا گرمی سے بچنے کے لیے پہنے ہوئے کپڑوں کے کسی حصہ پر سجدہ کرنا:

سوال:
   نمازی پہنے ہوئے کپڑوں پر سردی یا گرمی کی شدت کی وجہ سے سجدہ کرسکتا ہے؟
جواب:
   گرمی یا سردی کی شدت سے بچنے کے لیے نمازی کا پہنے ہوئے کپڑوں پر سجدہ کرنا بلا کراہت جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكرہ 1/ 108:
   رجل يصلي على الأرض، ويسجد على خرقة وضعوها بين يديه ليقي بها الحر لا بأس به، كذا في الظهيرية.
2. المحيط البرهاني ل بن مازة الحنفي، كتاب الصلاة، الفصل السادس عشر في التغني والألحان 1/ 365:
   وإذا بسط كُمه وسجد عليه أن…. يُبقي التراب عن وجهه يكره ذلك؛ لأن هذا نوع يبقي التراب عن ثيابه، ويسجد عليه لا يكره … رجل يصلي على الأرض ويسجد على حرفها وضعها بين يديه يبقى به الحر لا بأس به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:697
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-20