Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

بہن سےبات کرنےپر تین طلاق کومعلق کرنا:

سوال:
   زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو نے اپنی بہن سے بات کی، تو تجھے تین طلاق، شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں زید كى بيوی جب بھی اپنی بہن سے باتیں کرے گی، تو اس پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی، اور میاں بیوی ایک دوسرے پر مکمل حرام ہوجائیں گے، البتہ اگر عدت کے بعد یہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے اور ہمبستری کے بعد نیا شوہر اس کو اپنی خوشی سے طلاق دے دے یا وہ فوت ہوجائے تو عدت کے بعد سابقہ شوہر کے ساتھ اس عورت کا نکاح درست ہے۔

حوالہ جات:
1. العناية لمحمد بن محمد البابرتي، كتاب الطلاق 4/ 116:
   (وإذا أضافه إلى شرط، وقع عقيب الشرط، مثل: أن يقول لامرأته، إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق؛ لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط) لأن الأصل بقاء الشيء على ما كان، وهو استصحاب الحال.
2. الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي الزبيدي، كتاب الطلاق، باب طلاق الأخرس2/ 39:
   (وإذا أضاف الطلاق إلى شرط، وقع عقيب الشرط مثل: أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق) هذا بالاتفاق؛ لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط؛ ولأنه إذا علقه بالشرط صار عند وجود الشرط، كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت، فإذا وجد الشرط، والمرأة في ملكه وقع الطلاق؛ كأنه قال: لها في ذلك الوقت أنت طالق.
3. رد الحتار لابن عابدين، كتاب الطلاق، باب في ألفاظ الشرط 3/ 32:
   وفيها تنحل اليمين إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:509
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01




@123مرد کس ہاتھ میں انگوٹھی پہنے ؟

سوال:
مرد کے لیے انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے یا بائیں ہاتھ میں؟
جواب:
مرد کے لیے بائیں ہاتھ کی چُنگلی (چھوٹی انگلی) میں انگوٹھی پہننا بہتر ہے۔

حوالہ جات:
لما في صحيح المسلم، كتاب اللباس والزينة، باب في لبس الخاتم في الخنصر من اليد، الرقم: 2095:
عن أنس، قال: «كان خاتم النبي صلى الله عليه وسلم في هذه، وأشار إلى الخنصر من يده اليسرى».
وفي  الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به 5/ 336:
وينبغي أن يلبس الخاتم في خنصره اليسرى دون سائر أصابعه ودون اليمنى؛ لأن اللبس في اليمنى علامة الرفض، وأما الجواز فثابت في اليمين واليسار جميعا وبكل ذلك ورد الأثر كذا في الذخيرة.
وفي البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الكراهية، فصل في اللبس 8/ 217:
وينبغي أن يلبس الخاتم في خنصره اليسرى دون سائر أصابعه ولا ينبغي أن يخضب يد الصغير أو رجله.
وفي الموسوعة الفقهية للهيئة الكبار العلماء، كتاب تختم، فصل رابعا: موضع التختم  11/ 26:
لم يختلف الفقهاء في موضع التختم بالنسبة للمرأة؛ لأنه تزين في حقها، ولها أن تضع خاتمها في أصابع يديها أو رجليها أو حيث شاءت.ولكن الفقهاء اختلفوا في موضع التختم للرجل، بل إن فقهاء بعض المذاهب اختلفوا فيما بينهم في ذلك: فذهب بعض الحنفية إلى أنه ينبغي أن يكون تختم الرجل في خنصر يده اليسرى، دون سائر أصابعه، ودون اليمنى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:485
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01

 




@123نامرد سےعلیحدگی کے بعد عدت کا حکم

سوال:
ايك عورت نے ايك لڑكے سے شادی كرلی بعد ميں معلوم ہوا کہ لڑکا نامرد ہے، علاج کے باوجود، نا امید ہو کر اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو کیا ایسی صورت میں بھی عورت پر عدت ضروری ہے؟
جواب:
اگر نامرد نے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت ِصحیحہ کی ہو یعنی ایسی تنہائی گزاری ہو کہ جس میں ہمبستری کرنے سے کا کوئی رکاوٹ نہ ہو تو طلاق کے بعد عورت پر عدت لازم ہے ۔

حوالہ جات:
لمافي الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب المهر 4 / 254:
والخلوة كا لوطئ ولو كان الزوج مجبوبا أو عنينا … في تاكيد المهر … والعدة.
وفي البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب النكاح، باب المهر  3/ 155:
والخلوة كا لوطئ ولو كان الزوج مجبوبا أو عنينا أوخصيا في تاكيد المهر، والنفقة والسكنى.
وفي اللباب في شرح الكتاب لعبد الغني بن طالب الدمشقي، كتاب النكاح 3/ 25:
فإن كان عنينا أجله الحاكم حولا، فإن وصل إليها وإلا فرق بينهما إن طلبت المرأة ذلك والفرقة تطليقة بائنة، ولها كمال المهر إن كان قد خلا بها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:484
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01

 




@123اولیاء کی اجازت کے بغیر عدالتی نکاح کا حکم

سوال:
عدالتی نکاح کی شرعی حثیت کیا ہے؟ کیا اس سے نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب:
اولاد کو اپنے والدین کی رضامندی اور ان کی مشورہ سے نکاح کرنا چاہیے، اس میں خیرو برکت ہوتی ہے، اولیاء کی رضامندی اور اجازت کے بغیر نکاح کا اقدام کرنا مناسب نہیں ہے، اس طرح کا کیا ہوا نکاح عموما پائیدار نہیں ہوتا، تاہم اگر کوئی ہم پلہ خاندانی لڑکا اور لڑکی باہمی رضامندی سے مہر مثل کے ساتھ دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں مجلس نکاح میں باقاعدہ ایجاب وقبول کے ساتھ نکاح کریں، تو یہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اور اگر لڑکا لڑکی کا ہم پلہ نہ ہو، تو لڑکی کے اولیاء کو عدالت کے ذریعہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

حوالہ جات:
وأخرجه المسلم في صحيح المسلم، كتاب النكاح، الرقم:1421:
عن ابن عباس رضى الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الأيم أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأذن في نفسها، وإذنها صماتها؟ قال: نعم.
وفي البناية شرح الهداية لبدرالدين العيني، كتاب النكاح، باب الأولياء ولأكفاء5/ 170:
وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها، وإن لم يعقد عليها ولي، سواء كانت بكرا، أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله  في ظاهر الرواية.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي  4/ 150:
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي)، والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا، (وله) أي: للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم، كابن عم في الأصح، خانية، وخرج ذوو الأرحام، والأم، والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي، ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد، وينبغي إلحاق الحبل الظاهر، به (ويفتى) في غير الكفء(بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى؛ (لفساد الزمان) فلا تحل مطلقة ثلاثا، نكحت غير كفء بلا رضا ولي بعد معرفته إياه، فليحفظ … وفیه ايضا (ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:508
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01




@123بیوی کو ملنے والامہر،ہار وغیرہ کس کی ملکیت کہلائے گی؟

سوال:
ایک لڑکا شادی کے (18) دن بعد فوت ہوگیا، اور مہر میں تین تولہ سونا مقرر کیا تھا، اور عورت کو ادا بھی کیا ہے، اس کے علاوہ لڑکی کو شوہر کے گھر والوں نے بطور تحفہ ایک ہار اور ایک انگوٹھی دی تھی، اور لڑکی نے اس پر قبضہ بھی کرلیا تھا، لیکن اب یہ تینوں چیزیں لڑکے کے گھر والوں کے پاس ہیں، اب سوال یہ ہے، کہ یہ ہار، انگوٹھی اور تین تولہ سونا جو لڑکے کے گھر والوں کے پاس ہیں، اس لڑکی کا حق ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں عورت كو پورا مہر دینا شوہر کے ذمہ لازم ہوچکا ہے، مہر میں مقرر کردہ تین تولہ سونا چونکہ عورت کا حق ہے، اس لیے شوہر کے گھر والوں کو چاہیے کہ تین تولہ سونا عورت کو واپس کردے، اور باقی ایک ہار اور انگوٹھی عورت کو سسرال والوں نے دیتے وقت یہ تصریح ہو، کہ یہ بطورِعاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہے، تو پھر یہ زیورات شوہر کے گھر والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگر سسرال والوں نے بطورِ گفٹ مالک بناکر دینے کی تصریح کی ہو، تو پھر ان زیورات کی مالکہ عورت ہوگی، اور اگر دیتے وقت کوئی تصریح نہ کی گئی ہو تو پھر شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف ورواج عاریت کا ہے تو یہ عاریت ہوگی، اور اگر ہبہ کا ہے تو پھر یہ ہبہ شمار ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في سنن ابن ماجه، باب العارية، الرقم: 2399
عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: العارية مؤداة، والمنحة مردودة.
في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر  3/ 102:
ويتأكد (عند وطء، أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة،
وفيه ايضا:
قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد، والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك، أو من دراهم، أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية، لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابه، ونحوها صبيحة العرس أيضا.
وفيه ايضا: والمعتمد البناء على العرف، كما علمت.
وفي الدرالمختار للحصكفي،كتاب الهبة  1/ 561:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب، لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب، منع تمامها، وإن شاغلا لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:507
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01




بیوی کی وفات کے بعد اس کی بھتیجی سے نکاح کرنا:

سوال:
   زید نے ایک عورت سے نکاح کیا، دو بچے بھی پیدا ہوئے، اس کے بعد عورت فوت ہوگئی، اب زید بیوی کی بھتیجی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، شرعا کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   بیک وقت نکاح میں کسی عورت کے ساتھ اس کی محرمات ميں كسی ایسی عورت کو جمع کرنا جائزنہیں ہوتا جن میں سے اگر ایک کو مرد فرض کیا جائے اور دوسری کو عورت تو ان کا آپس میں درست نہ ہو، ان اصول کی رو سے بیوی کی زندگی میں اس کی بھتیجی سے تو نکاح درست نہیں، تاہم بیوی کی فوتگی کے بعد اپنی فوت شدہ بیوی كى بھتیجی سے نکاح کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب النكاح ، فصل في المحرمات  4/ 122:
   ماتت امرأته، له التزوج بأختها بعد يوم من موتها، كما في الخلاصة عن الأصل، وكذا في المبسوط لصدرالإسلام، والمحيط للسرخسي، والبحر، والتتارخانية وغيرها من الكتب المعتمدة.
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب النكاح 1/ 279:
   ويجوز لزوج المرتدة، إذا لحقت بدار الحرب تزوج أختها قبل انقضاء عدتها، كما إذا ماتت.
3. البحر الرائق لابن نجيم المصري، كتاب النكاح  2/ 144:
   حرم الجمع بين امرأتين، إذا كانتا بحيث لو قدرت إحداهما ذكرا، حرم النكاح بينهما، أيتهما كانت المقدرة ذكرا، كالجمع بين المرأة وعمتها، والمرأة وخالتها، والجمع بين الأم والبنت نسبا، أو رضاعا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:506
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01




تین طلاق دینے والےشوہرکےساتھ دوبارہ نکاح کرنا کب جائزہے؟:

سوال:
   سرہم میاں بیوی آپس میں بہت پیار کرتے ہیں، پھر کچھ غلط فہمی ہوئی، اور کچھ سازشوں کے تحت ہمارا رشتہ توڑا گیا، اور ہم میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں، سر ہم ابھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، تو حلالہ کا کوئی طریقہ بتائیں، جس سے ہم پھر سے حلال طریقے سے زندگی گزار سکیں، سر یہ فتوی ہمیں چاہیے، آپ کی بہت مہربانی ہوگی، ہم دونوں کی خوشیاں تباہ ہوگئی ہیں، ہمیں حلالہ کے لیے فتوی چاہیے، بڑی مہربانی ہوگی؟
جواب:
   تین طلاق کے بعد مطلقہ عورت کا کسی شخص کے ساتھ اس شرط پر نکاح کرنا کہ ہمبستری کے بعد وہ اسکو طلاق دے گا، شرعا ناجائز ہے، احادیث میں ایسا کرنے والے پر لعنت آئی ہے، لہذا اس طرح کی اگریمنٹ کرکے نکاح کرنا تو گناہ ہے، البتہ اگر عدت گزرنے کے بعد آپ کا کسی شخص سے بلا کسی شرط کے نکاح ہوجائے اور وہ اپنی خوشی سے ہمبستری کے بعد  طلاق دے دے یا وہ فوت ہوجائے توعدت گزرنے کے بعد آپ دونوں کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
   فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ. البقره: 2/230
2. صحيح البخاري، كتاب الطلاق، باب إذا طلقها ثلاثا ثم تزوجت بعد العدة، الرقم: 5317:
   عن عائشة رضي الله عنها: جاءت امرأة رفاعة القرظي النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: كنت عند رفاعة، فطلقني، فأبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير إنما معه مثل هدبة الثوب، فقال: أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك.
3۔ سنن أبي داؤد، كتاب النكاح، باب المحلل، الرقم:2075
   عن علي رضي الله عنه، قال إسماعيل: وأراه قد رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لعن الله المحلل، والمحلل له.
2۔ العناية شرح الهداية للبابرتي، كتاب الطلاق، باب الرجعة  4/177:
  وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره، نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها، أو يموت عنها، والأصل فيه قوله تعالى: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:505
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01




رضاعی ماں کے دوسرے شوہر سے پیدا ہونے والی بیٹی سے نکاح کرنا:

سوال:
   زید نے اپنی پھوپھی کا دودھ پیا ہے، پھر پھوپھا وفات پاگیا، اور پھوپھی نے دوسری جگہ شادی کرلی، اب دوسرے شوہر سے بیٹی پیدا ہوئی، تو زید کا نکاح اس کے ساتھ جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   زید نے چونکہ اپنی پھوپھی کا دودھ پیا ہے، تو یہ پھوپھی زید کی رضاعی ماں بن گئی ہے، اور اس کی تمام اولاد خواہ ان کی پیدائش زید کے دودھ پینے سے پہلے ہوئی ہو یا بعد میں موجودہ شوہر ہوں یا پہلے شوہر سے، وہ تمام زید کے رضاعی  بہن بھائی بن چکے ہیں، جن کا زید کے ساتھ محرمیت کا رشتہ قائم ہوچکا ہے، لہذا زید کا اپنی رضاعی ماں کی کسی بھی بیٹی کی ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
   وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ. النساء 4/ 23:
2. سنن النسائي،كتاب النكاح، باب مايحرم من الرضاع، الرقم: 5436:
   عن عمرة، قالت سمعت عائشة ر ضى الله عنها تقول: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: يحرم من الرضاع ما يحرم من الولادة.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الرضاع   4/ 398:
   (ولا حل بين رضيعي امرأة) لكونهما أخوين، وإن اختلف الزمن والأب، (ولا) حل (بين الرضيعة، وولد مرضعتها) أي: التي أرضعتها (وولد ولدها)؛ لأنه ولد الأخ.
4. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، باب المحرمات من الرضاع  3  /244:
   (ولا حل بين رضيعي ثدي) أي: بين من اجتمعا على الارتضاع من ثدي واحد في وقت واحد؛ لأنهما أخوان من الرضاع، فإن كان اللبن من زوجين، فهما أخوان لأم أو أختان لأم، وإن كان لرجل فأخوان لأب وأم، أو أختان لهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:504
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01