Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

@123پھل میں موجود کیڑا کھانے کا حکم

سوال:
اگر پھلوں میں کیڑے پڑجائیں، توان کا کھانا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
پھل میں جاندار کیڑا کھانا جائز نہیں، البتہ اس پھل کو کھانا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الذبائح 6/ 306:
ولا بأس بدود الزنبور قبل أن ينفخ فيه الروح لأن ما لا روح له لا يسمى ميتة خانية وغيرها: قال ويؤخذ منه أن أكل الجبن أو الخل أو الثمار كالنبق بدوده لا يجوز إن نفخ فيه الروح .
وفي مجمع الأنهر لعبد الرحمن بن محمد أفندي، فصل فيما يحل أكله وما لا يحل، فصل فيما يحل أكله وما لا يحل 2/ 513:
وفي الخانية لا بأس بدود الزنبور قبل نفخ الروح فيه؛ لأن ما لا روح له لا يسمى ميتة، واعلم أن الحشرات محرمة عندنا حلال مكروه عند غيرنا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:496
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




@123بینک سے سود وصول کرنا کیسا ہے؟

سوال:
اگر کسی نے بینک کے سیونگ اکاونٹ میں رقم جمع کرالی ہو، تو اس پر منافع کے نام سے جو سود دیا جاتا ہے، شرعا اس کا لینا درست ہے یا نہیں؟ اگر درست نہیں تو اس کو بینک میں چھوڑ دیا جائے یا لے کر صدقہ کیا جائے؟
جواب:
بينك كے سيونگ اكاونٹ ميں جو اضافی رقم ملتی ہے، وہ سود ہے اس کا لینا اور خود استعمال کرنا حرام ہے، لیکن یہ رقم بینک کے پاس نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ وہاں سے نکال کر فقراء پر بلا نیت ثواب تقسیم کرلینا چاہیے، اور آئندہ اگر بینک میں پیسے رکھوانا مجبوری ہو تو سیونگ اکاونٹ سے رقم نکال کر کرنٹ اکاونٹ میں رکھ لینا چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى:
وَأَحَلَّ اللَّه الْبَيْعَ وَحَرَّمَا الرِّبَا. البقرة 2/ 275
وفي سنن أبي داؤد، باب في آكل الربا مؤكله، الرقم:3333:
حدثني عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، وموكله، وشاهده وكاتبه.
وفي الاختیار لتعلیل المختار لعبد اللہ بن محمود الحنفي، کتاب الغصب  3/ 70:
والملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز، ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق.
وفي فتاوى الهندية للجنة العلماء، باب في الكسب 5/ 349:
وإذا مات الرجل، وكسبه خبيث فالأولى لورثته أن يردوا المال إلى أربابه، فإن لم يعرفوا أربابه تصدقوا به، وإن كان كسبه من حيث لا يحل، وابنه يعلم ذلك، ومات الأب ولا يعلم الابن ذلك بعينه، فهو حلال له في الشرع، والورع أن يتصدق به بنية خصماء أبيه، كذا في الينابيع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:518
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




@123رضاعت کے بارے میں ایک عورت کی گواہی کی حیثیت

سوال:
زینب کا حلفیہ بیان ہے کہ میں نے خالد کو دودھ پلایا ہے اور کوئی گواہ نہیں ہے، تو زینب کی شہادت معتبر ہے یا نہیں؟
جواب:
رضاعت کے ثبوت کے لیے دو مرد بالغ یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا ضروری ہے، لہذا مذکورہ صورت میں صرف ایک عورت کی گواہی سے رضاعت ثابت نہ ہو گی۔

حوالہ جات:
لما في اللباب في شرح الكتاب لعبد الغني بن طالب الميداني الحنفي، كتاب الرضاع 3/ 36:
(ولا تقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات) لأن شهادة النساء ضرورية فيما لا إطلاع للرجال عليه، والرضاع ليس كذلك (وإنما يثبت) بما يثبت به المال، وذلك (بشهادة رجلين) عدلين أو مستورين (أو رجل وامرأتين) كذلك، لما فيه من إبطال الملك، وهو لا يثبت إلا بحجة.
وفي  الهداية في شرح بداية المبتدي للمرغيناني، كتاب الرضاع، باب ما يحرم بالرضاع 1/ 220:
ولا تقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات وإنما تثبت بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين ” وقال مالك رحمه الله تثبت بشهادة امرأة واحدة إذا كانت موصوفة بالعدالة لأن الحرمة حق من حقوق الشرع فتثبت بخبر الواحد كمن اشترى لحما فأخبره واحد أنه ذبيحة المجوسي ولنا أن ثبوت الحرمة لا يقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لا يثبت إلا بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين بخلاف اللحم لأن حرمة التناول تنفك عن زوال الملك فاعتبر أمرا دينيا والله أعلم بالصواب.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب النكاح، باب الرضاع 3/ 224:
(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي.
و في مجلة الأحكام العدلية، الباب الأول في حق الشهادة، الفصل الثاني في بيان كيفية أداء الشهادة، ص: 340:
نصاب الشهادة في حقوق العباد رجلان أو رجل وامرأتان لكن تقبل شهادة النساء وحدهن في حق المال فقط في المواضع التي لا يمكن اطلاع الرجال عليها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:495
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03

 




@123بائع کے پاس مبیع میں عیب پیدا ہونے سےبیع کو فسخ کرنا؟

سوال:
امین نے محمد شاہ سے گابھن بھینس خریدی، امین نے محمد شاہ کو بھینس کی پیسے دے کر کہا کہ میں دو دن میں بھینس لے جاؤں گا، مگر بھینس نے محمد شاہ کے ہاں بچہ جنا اور بچہ مرگیا، اب امین کہتا ہے کہ مجھے اپنے پیسے واپس کردو، میں یہ بھینس نہیں خریدنا چاہتا، اور محمد شاہ کہتا ہے کہ تم نے بھینس خریدی ہے، اب یہ تمہاری ہے، لہذا اپنی بھینس لے جاؤ، تو کیا امین کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ بیع تام ہونے کے بعد مبیع میں عیب پیدا ہوجائے اور مشتری نے مبیع پر قبضہ نہ کیا ہو، تو ایسی صورت میں مشتری کو اختیار ہوگا، چاہے مبیع کی پوری قیمت ادا کرکے مبیع کولے لے اور چاہے تو بیع کو ختم کرکے اپنی قیمت واپس لے لے، لہذا مذکورہ صورت میں امین کا بیع ختم کرکے محمد شاہ سے اپنی قیمت واپس کرنے کا مطالبہ درست ہے۔

حوالہ جات:
لما في المبسوط السرخسي،كتاب البيوع، باب زيادة في المبيع ونقصانه 13/ 187:
وإذا اشترى شاة … ولو مات الولد قبل القبض، أخذ الأم بجميع الثمن، ولا خيار له فيها فكذلك إذا فات جزء من الولد، وهذا لأن الزيادة لما فاتت من غير صنع أحد صارت كأن لم تكن، وقبل حدوثها كان العقد لازما له في الأصل، بجميع الثمن، فكذلك بعد فواتها.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كاتب البيوع، 6/ 84:
ولذا قال في المحيط: اشترى شاة حاملا، فولدت عند البائع، ولم تنقصها الولادة لا خيار للمشتري.
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب البيوع، باب التولية 4/ 78:
ولهذا لو حدث بالمبيع عيب قبل القبض، لا يسقط شيء من الثمن غير أن المشتري يتخير بين أخذه بجميع الثمن، أو تركه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:517
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




@123مدرس کا مدرسہ میں تاخیر سے آنا کیساہے

سوال:
  ایک مدرس پندرہ بیس منٹ تاخیر سے مدرسہ آتا ہے، اس کی کیا تلافی ہوگی، تنخواہ کاٹ لیا جائے یا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب:
   اگر کسی عذر کی وجہ سے مدرسہ کے منتظمین کی طرف سے کسی مدرس کو اس کی کسی مجبوری کی وجہ سے اس کی گنجائش دی گئی ہو تو اس کے لیے اتنی تاخیر سے آنے کی گنجائش ہے، ورنہ وقت کی پاپندی کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر اس وقت کے بقدر تنخواہ سے کٹوتی کی جاسکتی ہے ۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الإجارة، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/ 70:
   وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل.
  قال ابن تحت قوله: (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة.
2. اللباب في شرح الكتاب لعبد الغني بن طالب  الميداني الحنفي، كتاب الإجارة 2/ 95:
   ولیس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل.
3.  الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها 4/ 411:
   وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:494
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03

 




@123لے پالک بیٹی سے پردہ کرنے کاحکم

سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری اپنی اولاد نہیں، ایک رشتہ دار نے اپنی بیٹی مجھے دی، اس وقت اس کی  عمر تین سال تھی، میں نے بہت پیار ومحبت سے اس کو پالا ،کبھی اپنی بیٹی سے کم نہیں سمجھا اور وہ بھی مجھے اپنے باپ کی طرح پکارتی ہے، اب وہ جوان ہوئی ہے، تو لوگ کہتے ہے کہ یہ آپ کی بیٹی نہیں ہے؟ آپ کا اس سے پردہ لازم ہے، جب کہ میں نے اس کو اپنی بیٹی سے کم نہیں سمجھا، اب شرعا میرے لیے کیا حکم  ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے، بیٹی کی حقیقی اولاد کی طرح حیثیت نہیں ہے اور کسی کو منہ بولا بیٹا بیٹی سے وہ حقیقی  بیٹا ، بیٹی نہیں بن جاتے ہیں اور نہ ہی ان پر حقیقی اولاد کے احکام جاری ہوتے ہیں، لہذا لے پالک بیٹی سے بالغ ہونے کے بعد پردہ کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في أحكام القرآن للجصاص الحنفي، فصل: في إباء أحد الزوجين اللعان 3/ 472:
قوله تعالى: {فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها لكي لا يكون على المؤمنين حرج في أزواج أدعيائهم} الآية. قد حوت هذه الآية أحكاما: والثاني: أن البنوة من جهة التبني لا تمنع جواز النكاح.
وفي  التيسير في أحاديث التفسير لمحمد المكي الناصري، سورة الاحزاب 5/ 136:
{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ}، إذ بمقتضى هذه الآية أصبح الابن الذي ليس بابن الصلب وهو الذي وصفه كتاب الله بوصف (الدعي) والجمع (أدعياء) شخصا أجنبيا عن متبنيه السابق، وأصبح هذا المتبني – الذي كان يدعى (أبا).
وفي عمد الرعاية لمحمد عبد الحي اللكنوي، كتاب النكاح 4/ 32:
قوله: وفرعه؛ أي الابن الصلبي وإن سفل دون المتبنى، فإن زوجته حلال بنص القرآن، وأما بنت زوجة أبيه، أو ابنه فحلال، وكذا بنت ابنها، وكذا بنت زوج الأم وأمه، وأم زوجة الأب، وأم زوجة الابن، وزوجة الربيب، وزوجة الراب، كذا في ((البحر))، وغيره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:493
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-02




@123مسجد کی تعمیر کے دوران جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہونا

سوال:
مسجد کی تعمیر کے وقت کام کرنے والے جوتیاں پہنے ہوئے مسجد کی مختلف مقامات میں آتے جاتے ہیں، اس طرح کرنا شرعا کیسا ہے ؟
جواب:
اگر جوتیاں نجاست سے پاک ہوں اور مسجد کی تعمیری کام  کی وجہ سے جوتیوں کے بغیر چلنا مشکل ہو تو ایسی صورت میں جوتیاں پہن کر مسجد میں چلنا جائز ہے ۔

حوالہ جات:
لمافي الفتاوى الهندية للجنة العلماءلجنة علماء، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد 5 /321:
ودخول المسجد متنعلا مكروه، كذا في السراجية.لا حرمة لتراب المسجد إذا جمع، وله حرمة إذا بسط. أصابه البرد الشديد في الطريق فدخل مسجدا فيه خشب الغير، ولو لم يوقد نارا يهلك فخشب المسجد في الإيقاد أولى من غيره. يجوز إدخال الحبوب وأثاث البيت في المسجد للخوف في الفتنة العامة، كذا في القنية.
وفي البحرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، فصل استقبال القبلة بالفرج في الخلاء واستدبارهافصل استقبال القبلة بالفرج في الخلاء واستدبارها 2/ 37:ٓ
وينبغي لمن أراد أن يدخل المسجد أن يتعاهد النعل والخف عن النجاسة، ثم يدخل فيه احترازا عن تلويث المسجد، وقد قيل دخول المسجد متنعلا من سوء الأدب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:492
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-02




@123نذر کی ساری رقم ایک شخص کو دینا کیسا ہے؟

سوال:
نذر ماننے والا اگر نذر کی ساری رقم کسی ایک غریب کو دے  دے تو شرعا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
نذر کی ساری رقم ایک شخص کو دینا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الصوم، باب الصدقة الفطر 1/ 113:
ويجوز أن يعطي الواجب عن واحد جماعة أو على العكس.
وفي الفتاوى الولوالجية لظهير الدين الولوالجي، كتاب الصوم، الفصل: الرابع 1/ 247:
ويجوز أن يعطي الواجب جماعة من المساكين، ويعطي مايجب على جماعة مسكينا واحدا؛ لأن الفقراء في حق شخص واحد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:491
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-02




زلزلہ کے دوران آبادی سے نکلنا کیسا ہے؟:

سوال:
   زلزلے کے دوران بعض لوگ آبادی سے نہیں نکلتے کیونکہ وہ اس کو توکل کے خلاف سمجھتے ہیں، کیا لوگوں کا یہ کہنا درست ہے؟
جواب:
   زلزلہ کے وقت آبادی سے نکل کر کلی فضا میں آنا مستحب ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھکی ہوئی دیور سے بچنے کے لیے جلدی گزرنا مروی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ وغیرہ کے موقع پر جان بچانے کےلیے باہر نکلنا یا کوئی بھی تدبیر اختیار کرنا خلافِ توکل نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، مسائل شتى 6/ 756:
   (أخذته الزلزلة في بيته ففر إلى الفضاء لا يكره) بل يستحب لفرار النبي صلى الله عليه وسلم عن الحائط المائل (وإذا خرج من بلدة بها الطاعون فإن علم أن كل شيء بقدر الله تعالى فلا بأس بأن يخرج، ويدخل وإن كان عنده أنه لو خرج نجا، ولو دخل ابتلي به، كره له ذلك)إلخ.
2. الفتاوى الخانية، كتاب العارية 253/3:
الرجل إذا كان في بيت أخذته الزلزلة لا يكره له أن ينتقل إلى الفضاء ويفر خلافا لما قاله بعض الناس * بل يستحب الفرار لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على هدف مائل فأسرع المشي قيل له أتفر من قضاء الله قال عليه الصلاة والسلام فراري من قضاء الله تعالى بقضائه

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:490
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-02

 




@123حالت ِصحت میں ہبہ کی ہوئی چیز ترکہ میں شامل نہیں ہوتی

سوال:
زین العابدین نے اپنی بیٹی کے لیے ایک گھر خرید کر اپنی زندگی میں بیٹی کو دلایا اور مالکانہ حقوق کے ساتھ اس کے نام منتقل کر دیا، اب بعض رشتہ دار کہتے ہیں کہ زین العابدین کے ترکہ میں اس گھر کو بھی شامل کیا جائے تو اس کے بارے میں شرعی حکم کیا؟
جواب:
انسان اپنی زندگی میں اپنے مال کا مالک اور اس میں خود مختار ہوتا ہے، اگر بحالت صحت وہ کسی کو مالک وقابض بنا کر اپنی جائیداد میں سے کچھ دے دے تو اس شخص کے مرنے کے بعد وہ مال اس کا ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ صورت میں یہ بیٹی اس گھر کی مالکہ ہے، یہ گھر وراثت میں داخل نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الهبة، ص: 561:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا.
وفي الجوهرة النيرة لأبو بكر بن علي بن محمد الحدادي، كتاب الهبة 1/ 324:
(الهبة تصح بالإيجاب والقبول) إنما قال تصح وفي البيع ينعقد؛ لأن الهبة تتم بالإيجاب وحده، ولهذا لو حلف لا يهب فوهب، ولم يقبل الموهوب له حنث أما البيع فلا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:489
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-02