Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

کیا بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر بہن کے گھر جاسکتی ہے؟:

سوال:
   بيوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بہن کے گھر جا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
   عورت كے ليے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں، لہذا اپنی بہن کے گھر بھی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی، شوہر کو چاہیے کہ وقتا فوقتا عرف کے مطابق اپنی بیوی کو والدین اور دیگر محارم رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کی اجازت دے، اگر شوہر اجازت نہیں دیتا تو پھر شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر والدین سے ہفتہ میں اور دیگر محارم رشتہ داروں سے سال میں ایک دفعہ ملاقات کے لیے جا سکتی ہے۔

حوالہ جات:
1. المسند لعبد بن حميد، باب أحاديث ابن عمر  1/ 258:
   عن ابن عمر رضى الله عنهما قال: جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم … قالت: يا رسول الله، ما حق الزوج على الزوجة؟ قال: لا تخرج من بيته إلا بإذنه، فإن فعلت لعنتها ملائكة الله، وملائكة الرحمة، وملائكة الغضب، حتى تفيء، أو ترجع.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر3/ 145:
   فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها، أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة، أو المحارم كل سنة.
   قال ابن عابدين تحت قوله:(فلا تخرج) جواب شرط مقدر أي: فإن قبضته فلا تخرج إلخ، وأفاد به تقييد كلام المتن فإن مقتضاه أنها إن قبضته ليس لها الخروج للحاجة، وزيارة أهلها بلا إذنه.
3. تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب السرقة 3/ 211:
   وللزوج أن يضرب زوجته على أربع خصال وما هو في معنى الأربع: إحداها على ترك الزينة للزوج، والزوج يريدها، والثاني على ترك الإجابة إذا دعاها إلى فراشه، والثالث على ترك الصلاة، وعلى ترك الغسل، والرابع الخروج من المنزل، لأن الأول والثاني يخل بمقصود النكاح، والثالث، والرابع معصية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:524
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




کیا بیوی اپنے فوت شدہ شوہر کا بوسہ لے سکتی ہے؟:

سوال:
   ایک عورت کا خاوند فوت ہوجائے، تو یہ عورت اس میت ( اپنے شوہر) کا بوسہ لے سکتی ہے؟ یا اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ سکتی ہے؟
جواب:
   شوہر کے انتقال کے بعد عدتِ وفات تک بیوی کا نکاح چار (4) ماہ دس دن برقرار رہتا ہے، لہذا عورت کا اپنے فوت شده شوہر  كے ماتهے كو بوسہ دينا یا اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، فصل  في بيان من يغسل 1/ 304:
   والنكاح بعد الموت باق إلى وقت انقطاع العدة، بخلاف ما إذا ماتت المرأة حيث لا يغسلها الزوج؛ لأن هناك انتهى ملك النكاح لانعدام المحل، فصار الزوج أجنبيا، فلا يحل له غسلها.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة  2/ 199:
   وفي البدائع: المرأة تغسل زوجها؛ لأن إباحة الغسل مستفادة بالنكاح، فتبقى ما بقي النكاح، والنكاح بعد الموت باق إلى أن تنقضي العدة بخلاف ما إذا ماتت، فلا يغسلها لانتهاء ملك النكاح لعدم المحل، فصار أجنبيا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:523
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




خلع لینے کی صورت میں عدت کے نفقہ کا حکم:

سوال:
   زید نے اپنی بیوی کو خلع کے ذریعے سے فارغ کردیا ہے، اب عدت کے دوران بیوی کا نفقہ زید کی ذمہ ہے یا نہیں؟
جواب:
   خلع کرتے وقت اگر شوہر کی طرف سے نفقہ سے بری ہونے کی شرط لگائی گئی ہو، تو شوہر پر عدت کے دوران نفقہ لازم نہیں، اور اگر نفقہ سے بری ہونے کی شرط نہ لگائی گئی ہو، تو عدت کا نفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہے۔

حوالہ جات:
1. درر الحكام شرح غرر الأحكام لملا خسرو، كتاب الطلاق، باب الخلع 1/ 392:
   (ويسقط الخلع والمبارأة) … (كل حق لكل منهما على الآخر مما يتعلق بالنكاح)… وأما نفقة العدة فلا تسقط إلا بالذكر، قيد بالنكاح؛ لأنه لا يسقط ما لا يتعلق به كالقرض، وثمن ما اشترت من الزوج، ونحوهما.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب الخلع  452/3:
   (ويسقط الخلع) في نكاح صحيح، ولو بلفظ بيع وشراء كما اعتمده العمادي، وغيره (والمبارأة) أي الإبراء من الجانبين (كل حق) … (لكل منهما عن الآخر مما يتعلق بذلك النكاح) … (إلا نفقة العدة) وسكناها فلا يسقطان (إلا إذا نص عليها) فتسقط النفقة لا السكنى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:522
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




بیعانہ کی رقم ضبط کرنا:

سوال:
   آج کل زمین یا گاڑی خریدتے وقت بیعانہ کے طور پر کچھ رقم جس کو پیشگی کہا جاتا ہے، لیا جاتا ہے، اور معاملہ منعقد نہ ہونے کی صورت میں مالک یہ رقم ضبط کرتا ہے، اور گاہک کو واپس نہیں کرتا تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   بیعانہ کی رقم عموما اصل قیمت کا حصہ ہوتی ہے، جو ایڈوانس وصول کی جاتی ہے، اور بقیہ قیمت معاملہ پختہ ہونے پر وصول کی جاتی ہے، اگر معاملہ طے نہ ہوسکے بلکہ ختم ہوجائے، تو ایسی صورت میں بیعانہ کی رقم مشتری کو واپس کرنا ضروری ہے، بائع کے لیے اس کو روکنا یا ضبط کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ فریق ثانی کی طرف سے اس کی واپسی کا مطالبہ نہ ہو۔

حوالہ جات:
1. قوله تعالى:
   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ، وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُمْ رَحِيماً.النساء 3/ 29:
2. مرقاة المفاتيح لملا علي القارئ،كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، الرقم: 2864:
(قال: نهى رسول الله  صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان) …هو أن يشتري السلعة، ويدفع إلى صاحبها شيئا على أنه إن أمضى البيع حسب، وإن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة، ولم يرتجعه المشتري، وهو بيع باطل عند الفقهاء؛ لما فيه من الشروط والغرر.
3. حجة الله البالغة لشاه ولى الله، كتاب البيوع، باب البيوع المنهى عنه  2/ 167:
   ونهى عن بيع العربان أن يقدم إليه شيء من الثمن، فإن اشترى حسب من الثمن، وإلا فهو له مجانا، وفيه معنى الميسر.
4. فقه البیوع لمحمد تقي العثماني حفظه الله تعالى، كتاب البيوع 1/ 113:
العربون والعربان: بیع فسرہ ابن منظور بقوله: ھو أن یشتری السلعة، ویدفع إلی صاحبھا شیئا یلی أنه إن أمضی البیع حسب من الثمن، وإن یمض البیع، کان لصاحب السلعة، ولم یرتجعه المشتری، واختلف الفقہاء في جواز العربون: فقال الحنفیة والمالکیة والشافعیة أبو الخطاب من الحنابلة: أنه غیر جائز.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:521
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




مجلس میں آتے جاتے وقت سلام کا حکم:

سوال:
     کسی محفل میں آنے پر سلام کرنا واجب ہے یا کسی محفل سے جانے پر؟ 
جواب:
   کسی کو سلام کرنا مسنون ہے، واجب نہیں، البتہ کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہوتا ہے، لہذا کسی محفل میں شرکت کرتے وقت سلام کرنا مسنون ہے، ایسے ہی کسی مجلس سے جاتے وقت بھی سلام کرنا مسنون ہے، البتہ اگر اہل مجلس کسی اجتماعی کام میں مشغول ہوں تو آتے، جاتے وقت ان کو سلام کرنا مکروہ ہے، اس وجہ سے کہ اس سے ان کے اجتماعی عمل میں خلل آئے گا۔

حوالہ جات:
1. در المختار للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع 6/ 413:
   ويسلم على القوم حين يدخل عليهم، وحين يفارقهم فمن فعل ذلك شاركهم في كل خير عملوه بعده، وإن لقيهم، وفارقهم في اليوم مرارا، وحالت بينهم وبينه شجرة أو جدار جدد السلام؛ لأن ذلك يوجب الرحمة، وينوي بالسلام تجديد عهد الإسلام أن لا ينال المؤمن بأذاه في عرضه وماله، فإذا سلم على المؤمن حرم عليه تناول عرضه وماله، وإن دخل مسجدا، وبعض القوم في الصلاة، وبعضهم لم يكونوا فيها يسلم، وإن لم يسلم لم يكن تاركا للسنة.
2. المبسوط للسرخسي، كتاب المبسوط،  الجزء الخامس 30/ 489:
   فإن السلام سنة ورد السلام فريضة، ومع ذلك كانت البداءة بالسلام أفضل من الرد على ما قال صلى الله عليه وسلم: “للبادئ بالسلام عشرون حسنة، وللراد عشر حسنات” وربما يقولون: الآخذ يسعى في إحياء النفس، والمعطي يسعى في تحصين النفس أو في إنماء المال وإحياء النفس أعلى درجة من إنماء المال.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:500
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03

 




@123جس قوالی میں موسیقی اور ڈھول باجےہو ں اس کا سننا کیسا ہے؟

سوال:
آج کل جو قوالی ہوتی ہے، جس میں اللہ جلّ جلالہُ اور رسول ﷺ کی تعریف بالکل نہیں ہوتی اور ڈھول باجے اور آلات موسیقی بھی ہوتے ہیں، تو اس کا سننا جائز ہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ ہر وہ قوالی جس میں ڈھول باجا، بانسری اور سارنگی وغیرہ بجائے جاتے ہوں یا شرکیہ اشعار پڑھے جاتے ہوں یا مرد  وعورتوں کا مخلوط اجتماع ہوتا ہو تو ایسی محفلوں میں شریک ہونا اور اس کا سننا سب ناجائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الثامن عشر في الغناء، واللهو، وسائر المعاصي، والأمر بالمعروف 5/ 369:
استماع صوت الملاهي كالضرب بالقصب، وغير ذلك من الملاهي حرام، وقد قال عليه السلام: «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها من الكفر» وهكذا خرج على وجه التشديد بعظم الذنب؛ قالوا: إلا أن يسمع نفسه فيكون معذوراً، والواجب على كل أحد أن يجتهد حتى لا يسمع.
وفي  الدرالمختار مع الرد المحتار  للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة 6/ 350:
استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية.
قال ابن عابدین تحت قوله: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك.
وفي البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الكراهية، فصل في اللبس 8/ 215:
واستماع صوت الملاهي حرام كالضرب بالقصب وغير قال عليه الصلاة والسلام استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها كفر وهذا خرج على وجه التشديد لا أنه يكفر. وعن الحسن بن زياد: لا بأس بأن يكون في العرس دف يضرب به ليشتهر ويعلن النكاح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:499
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03

 




داڑھی میں سٹائل بنانا:

سوال:
   داڑھی میں سٹائل کرنے والے کو کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ’’یا تو پوری اور صحیح داڑھی رکھو یا ٹھیک طرح حجامت کرو‘‘ تو کیا اس کا یہ کہنا درست ہے؟
جواب:
   داڑھی رکھنا تمام انبیاء کرام کی سنت ہے، اس وجہ سے جمہور علماء امت کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس کو منڈوا کر یا کتروا کر ایک مشت سے کم کرنا ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، نیز اس میں سٹائل اور ڈیزائن بنانا بھی ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، بلکہ اس کی قباحت اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ اس میں ایک طرح سنت کی حقارت بھی پائی جاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں اس شخص کا یہ کہنا کہ ’’یا تو پوری داڑھی رکھو یا ٹھیک حجامت کرو‘‘ اس لحاظ سے درست ہے، کہ وہ ڈیزائن وغیرہ بنا کر دوہرے گناہ سے محفوظ ہوجائے۔

حوالہ جات:
1. صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، الرقم:261:
    عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء” قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة زاد قتيبة، قال وكيع: ” انتقاص الماء: يعني الاستنجاء “.
2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الجهاد، باب المرتد 4/224:
   إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم،  زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر، فلا ينفعه التأويل ح، وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل؛لأن الكفر نهاية في العقوبة،  فيستدعي نهاية في الجناية، ومع الاحتمال لا نهاية اهـ والذي تحرر أنه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف، ولو رواية ضعيفة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:520
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




@123ناخن کاٹنے کی مدت

سوال:
ناخن کب کاٹنے چاہیے؟ اور کتنے دن تک نہ کاٹنے کی وجہ سے گناہ ملتا ہے؟
جواب:
افضل یہ ہے کہ ناخن ایک ہفتہ بعد کاٹا جائے ورنہ دو ہفتہ کے بعد کاٹا جائے، لیکن چالیس دنوں سے تجاوز کرنا گناہ اور برا ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار  لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب الكسوف 2/ 181:
الأفضل أن يقلم أظفاره ويقص شاربه ويحلق عانته وينظف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع، وإلا ففي كل خمسة عشر يوما، ولا عذر في تركه وراء الأربعين ويستحق الوعيد فالأول أفضل والثاني الأوسط والأربعون الأبعد.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها 5/ 358:
وقلم الأظفار سنة إلا في دار الحرب فإن تركها مندوب إليه كذا في محيط السرخسي.
الأفضل أن يقلم أظفاره ويحفي شاربه ويحلق عانته وينظف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة فإن لم يفعل ففي كل خمسة عشر يوما ولا يعذر في تركه وراء الأربعين فالأسبوع هو الأفضل والخمسة عشر الأوسط والأربعون الأبعد ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد كذا في القنية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:498
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03

 




@123کوا حلال ہے یا حرام؟

سوال:
کوا حلال پرندہ ہے یا حرام؟ نیز کوے کی کتنی قسمیں ہیں؟ اور ان کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
کوے کی تین قسمیں ہیں جن میں دو حلال ہیں اور ایک قسم حرام  ہے، پہلی  قسم: وہ کوا جو صرف گندہ گی کھاتا ہے، اس کا کھانا بالاتفاق ناجائز ہے، دوسری قسم: وہ کوا جو صرف کھیتو ں میں غلہ اور اناج وغیرہ کھاتا ہے اور گندہ گی نہیں کھاتا، تو اس کا کھانا بالاتفاق جائز ہے، تیسری قسم: وہ کوا جو پاکیزہ اور گندگی دونوں چیزیں کھاتا ہے تو اس میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کا کھانا بھی جائز ہے ۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الذبائح 6/ 305:
(والغراب الأبقع) الذي يأكل الجيف؛ لأنه ملحق بالخبائث.
قال ابن عابدين تحت قوله: (قوله والغراب الأبقع) أي الذي فيه بياض وسواد قهستاني، قال في العناية: وأما الغراب الأبقع والأسود فهو أنواع ثلاثة: نوع يلتقط الحب ولا يأكل الجيف وليس بمكروه. ونوع لا يأكل إلا الجيف وهو الذي سماه المصنف الأبقع وإنه مكروه. ونوع يخلط يأكل الحب مرة والجيف أخرى ولم يذكره في الكتاب، وهو غير مكروه عنده مكروه عند أبي يوسف، والأخير هو العقعق.
وفي الهداية في شرح بداية المبتدي لأبو الحسن برهان الدين المرغيناني، كتاب الذبائح، فصل: فيما يحل أكله وما لا يحل 4/ 352:
قال: “ولا بأس بغراب الزرع” لأنه يأكل الحب ولا يأكل الجيف وليس من سباع الطيرقال: “ولا يؤكل الأبقع الذي يأكل الجيف، وكذا الغداف” “وقال أبو حنيفة: لا بأس بأكل العقعق” لأنه يخلط فأشبه الدجاجة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:497
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03




@123موبائل کمپنیوں کا قرض بیلنس دیکر اس پر اضافی رقم وصول کرنا

سوال:
بیلنس ختم ہونے پر کمپنی والے قرض کچھ بیلنس دیتے ہیں، اور جب موبائل میں بیلنس ڈالا جاتا ہے، تو کمپنی والے قرض کا بیلنس بمع ٹیکس کاٹتے ہیں، کیا یہ ٹیکس سود کے زمرے میں اتی ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ موبائل کمپنیوں کا کسی کو ایڈوانس قرض دیکر واپسی پر اضافی رقم لینا یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ کمپنیوں کے طرف سے جو ایڈوانس رقم دی جاتی ہے، وہ حقیقت میں گفتگو کا حق ہوتا ہے، اور وہ پیسوں کی شکل میں نہیں دیا جاتا اور بعد میں صارف اس کے بدلے میں پیسے ادا کرتا ہے، اس لیے جانبین میں اتحاد جنس نہ ہونے کی وجہ اس پر سود کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ یہ سہولت حاصل نہ کی جائے۔

حوالہ جات:
لما في الھدایة لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب البيوع، باب الإجارات  3/ 230:
الإجارة عقد على المنافع بعوض، ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلومة وما جاز أن يكون ثمنا في البيع، جاز أن يكون أجرة في الإجارة.
وفي العناية لمحمد بن محمد البابرتي،كتاب البيوع، كتاب الإجارة  9/ 58:
ولا تصح الإجارة حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلومة؛ لما روينا.
وفي الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي الحدادي، كتاب البيوع، باب الربا  1/ 213:
(وإذا عدم الوصفان الجنس والمعنى المضموم إليه، حل التفاضل والنساء) لعدم العلة المحرمة، والمراد بالمعنى المضموم إليه هو الكيل في الحنطة، والوزن في الفضة يعني القدر إما الكيل أو الوزن، وهذا كالهروي بالمروي، والجوز بالبيض؛ لعدم العلتين، والنساء بالمد التأخير.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:519
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-03