Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

گرمی کی وجہ سے مسجد کی چھت پر تراویح ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟:

سوال:
   گرمی کی شدت کی وجہ سے مسجد کی چھت پر نمازِ تراویح ادا کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   عام حالات ميں مسجد کی چھت پر چڑهنا بے ادبی ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے اگرچہ نماز پڑھنے کے لیے کیوں نہ ہو، البتہ اگر مسجد کے اوپر باقاعدہ نماز پڑھنے کے لیے انتظامات کیے گیے ہوں، تو مسجد کی چھت پر جاکر تراویح ووغیرہ پڑھنے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار  للحصكفي  مع رد المحتار، كتاب الصلاة،  باب ما يفسد الصلاة  فيه وما يكره 1/ 656:
   (و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول، والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء.
   وتحته في الشامية: (قوله: الوطء فوقه) ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد، ويلزمه كراهة الصلاة أيضا فوقه، فليتأمل (قوله لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام.
2. الفتاوى الهنديه للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب في آدب المسجد والقبلة  5/ 322:
   الصعود على سطح كل مسجد مكروه، ولهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه إلا إذا ضاق المسجد، فحينئذ لا يكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:542
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123 کیا دوسرے نکاح کے لیے عورت کا اتنا کہنا کافی ہے کہ مجھے طلاق ہوچکی ہے؟

سوال:
کسی عورت کے شوہر کا پتہ نہ ہو، اور یہ عورت یہ ظاہر کرتی ہو کہ میرا شوہر مجھے طلاق دے چکا ہے، اس عورت سے کسی مرد کا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اس عورت سے دوسرے مرد کا نکاح درست ہے جبکہ یہ عورت عدت گزار چکی ہو، اور اس مرد کا عورت کے بارے میں غالب گمان ہو کہ یہ عورت سچ کہہ رہی ہے، تاہم اگر بعد میں پتہ چلا کہ اس عورت کا پہلے سے نکاح موجود ہے، تو یہ دوسرا نکاح کالعدم شمار ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في المبسوط السرخسي، كتاب الطلاق، باب الإحصان 5/ 151:
(قال:) وإذا قالت: طلقني زوجي، أو مات عنى، وانقضت عدتي حل لخاطبها أن يتزوجها ويصدقها؛ لأن الحل والحرمة من حق الشرع، وكل مسلم أمين مقبول القول فيما هو من حق الشرع، إنما لا يقبل قوله في حق الغير إذا أكذبه من له الحق، ولا حق لأحد هنا فيما أخبرت به، فلهذا جاز قبول خبرها في ذلك.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب البيوع  3/ 376:
وكذا لو قالت لرجل طلقني زوجي، وانقضت عدتي فلا بأس أن يتزوجها.
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب البيوع  6/ 26:
وكذا لو قالت لرجل طلقني زوجي، وانقضت عدتي فلا بأس أن يتزوجها … لأن القاطع طار على ما بينا.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، 4/ 164:
فرع في الخلاصة، قال: جاءت امرأة إلى رجل وقالت: طلقني زوجي، وانقضت عدتي ووقع في قلبه أنها صادقة، وهي عدلة أولا، حل له أن يتزوجها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:541
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123 میت کی طرف سے بغیر وصیت کے حج ادا کرنا

سوال:
اگر کسی شخص پر حج فرض ہوگیا، لیکن وہ حج نہ کرسکا اور مرگیا، اور وصیت بھی نہیں کی، تو اس کی طرف سے کوئی حج کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
اگر ميت نے حج بدل کی وصیت نہ کی ہو، تو ورثاء پر میت کی طرف سے حج بدل ادا کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ اگر بالغ ورثاء اپنے خرچہ سے میت کی طرف سے حج بدل کروا دیں تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ میت کا ذمہ فارغ ہوجائے گا۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الحج، باب حكم فوت الحج عن العمرة 2/ 221:
أما الجواز فلما روي :أن رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: يا رسول الله: إن أمي ماتت ولم تحج، أفأحج عنها؟ فقال: نعم، فقد أجاز النبي  صلى الله عليه وسلم، حج الرجل عن أمه، ولم يستفسر أنها ماتت عن وصية، أو لا عن وصية.
وفي حاشية الشبلي علي كنز الدقائق، كتاب الحج،  باب الحج عن الغير 2/ 85:
ثم عندنا إذا مات بعد فرض الحج، ولم يوص فحج رجل عن الميت من غير وصية، أو تبرع الورثة بذلك، فحج عن أبيه، أو أمه حجة الإسلام من غير وصية أوصى بها الميت قال أبو حنيفة: يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى.
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب الحج،  باب الهدي 2/ 89:
وإن أحجوا عنه بغير أمره، أو حج عنه الوارث بغير أمره سقط عنه الحج، إن شاء الله  تعالى ؛ لما روي: أن رجلا سأل رسول الله  صلى الله عليه وسلم، فقال: إن أمي ماتت في الحج أفأحج عنها؟ فقال عليه الصلاة والسلام : نعم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:540
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123میڈیکل ریپ کا تنخواہ کے ساتھ کمیشن لینے کا حکم

سوال:
 ایک دوا ساز کمپنی جو دوائیاں متعارف کروانے کے لیے میڈیکل ریپ کے ذریعے ڈاکٹروں کے پاس پہنچاتے ہیں، یہ میڈیکل ریپ کمپنی سے تنخواہ بھی وصول کرتا ہے، اور کمیشن بھی لیتا ہے تو اس کا کمیشن شرعا درست ہے یا نہیں؟ دوسری طرف ڈاکٹر حضرات بھی کہتے ہیں کہ ہم مریضوں کو اس کمپنی کی دوائیاں لکھیں گے لیکن ہمارے لیے بھی ایک کمیشن ہوگا تو شرعا ڈاکٹر حضرات کے لیے یہ کمیشن یا پیسے لینا کیسا ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ میڈیکل ریپ مارکیٹ میں ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹور والوں کے پاس جاکر کمپنی کی تیار کردہ ادویات سے متعارف کرے اور دیانتداری کے ساتھ دواؤں کی حقیقی خصوصیات وفوائد بیان کرے اور اس پہ جھوٹ بولنے  سے مکمل پرہیز کرے تو اس صورت میں میڈیکل ریپ کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ کمیشن لینا جائز ہوگا اور اگر میڈیکل ریپ دواؤں کی غیر حقیقی خصوصیات بیان کرے اور کمیشن کی لالچ میں آکر کمپنی کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لےتو اس پر کمیشن لینا جائز نہیں ہے  اور دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹروں کو جو کمیشن دیا جاتاہے تو یہ دیانت کے خلاف ہے اور اس کی وجہ  سے ڈاکٹر گناہ گار ہو  گا اور اس کے لیے  اس کے عوض کمپنی سے کمیشن وغیرہ لینا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في  رد المحتار لابن عابدين، كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة 6/ 47:
إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.
وفي  المعجم الأوسط سليمان بن أحمد  الطبراني، الرقم: 6675:
عن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت، النار أولى به».
وفي : شرح السنة لمحيي السنة أبو محمد الحسين  البغوي الشافعي، باب الكسب وطلب الحلال، الرقم: 2030:
لا يدخل الجنة لحم نبت من السحت، النار أولى به، يا كعب بن عجرة، الناس غاديان: غاد مبتاع نفسه ومعتق رقبته، وغاد بائع نفسه وموبق رقبته “، قال الإمام: وفي الحديث كراهية الدخول على أمراء الجور، قال ابن مسعود: إن على أبواب السلطان فتنا كمبارك الإبل، والذي نفسي بيده لا تصيبون من دنياهم شيئا إلا أصابوا من دينكم مثليه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:552
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06

 




@123نفلی عمرے کا ثواب ایک سے زیادہ لوگوں کو بخشنا کیسا ہے؟

سوال:
نفلی عمرے کا ثواب ایک سے زیادہ لوگوں کو بخش سکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
نفلی عمرے کا ثواب ایک سے زیادہ لوگوں کو بخشنا جائز ہے، اور ہر ایک کو پورا ثواب پہنچے گا۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الجنائز، مطلب في زيارة القبور 2/ 243:
وفي البحر: من صام، أو صلى، أو تصدق، وجعل ثوابه لغيره من الأموات، والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة، كذا في البدائع، ثم قال: وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا.
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي،  كتاب الحج، باب الحج عن الغير 2/ 83:
الأصل في هذا الباب، أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله، لغيره عند أهل السنة والجماعة، صلاة كان أو صوما، أو حجا، أو صدقة، أو قراءة قرآن، أو الأذكار إلى غير ذلك من جميع أنواع البر، ويصل ذلك إلى الميت، وينفعه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:539
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123مال صدقہ میں رجوع کرنا

سوال:
مدرسہ والوں نے طلباء پر کسی پروگرام کے لیے پانچ ہزار (5000) روپے فی طالب علم جمع کرنا لازم کیے ہیں، تو ایک طالب علم کا خیال ہے کہ میں پیسے جمع کرلوں گا، اور بعد میں جب مدرسہ کے لیے چندہ کروگا، اس میں سے اپنے پیسے وصول کرلوں گا، تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں چونکہ یہ پیسے مدرسہ کو بطور صدقہ دئیے گئے ہیں، اس وجہ سے بعد میں مدرسہ کے چندہ سے اس کی اصولی کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ.البقرة:  2/264
وفي المبسوط للشياني، كتاب الرجوع عن الشهادات  12/ 16:
وكذلك الصدقة في جميع ذلك غير أن المتصدق لا يرجع في الصدقة أبداً.
وفي فتاوى قاضي خان، كتاب الهبة 3/ 151:
ولا رجوع في الصدقة، ولا في الهبة على المحتاج، وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى لا يرجع في الصدقة على غني أو فقير استحساناً.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:538
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123وقف شدہ زمین میں لگائی گئی فصل پر عشر کا حکم

سوال:
ایک شخص نے مدرسہ کے لیے کچھ زمین وقف کی ہے اور وقف تام بھی ہوگیا ہے، تو کیا اس موقوفہ زمین میں کاشت کاری کی صورت میں عشر دینا لازم ہے یا نہیں؟
جواب:
چونکہ عشر کا تعلق زمین کی ملکیت سے نہیں بلکہ زمین کی پیدوار سے ہے، لہذا وقف زمین کی پیداوار میں بھی عشر واجب ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للکاساني، كتاب الزكاة، فصل شرائط فرضية الزكاة 2/ 6:
وأما على ظاهر الرواية فلأن العشر مؤنة الأرض النامية كالخراج فلا يعتبر فيه غنى المالك، ولهذا لا يعتبر فيه أصل الملك عندنا حتى يجب في الأراضي الموقوفة وأرض المكاتب بخلاف الزكاة فإنه لا بد فيها من غنى المالك، والغنى لا يجامع الدين.
وفي در المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب العاشر في الزكاة 2/ 326:
(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول لأن فيه معنى المؤنة ولذا كان للإمام أخذه جبرا ويؤخذ من التركة ويجب مع الدين وفي أرض صغير ومجنون ومكاتب ومأذون ووقف وتسميته زكاة مجاز.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب العشر، الفصل الثالث فيمن يجب عليه العشر وفيمن لا يجب عليه 2 /330:
ويؤخذ العشر من الأراضي العشرية إذا كان المالك مسلما صغيرا كان، أو كبيرا عاقلا كان، أو مجنونا، وكذلك يجب في أرض المكاتب، وفي أرض الوقف؛ لأن هذا حق مال يجب بسبب أرض نامي، فيجب على هؤلاء كالخراج، وهذا لأن معنى المؤنة في العشر أصل، ومعنى العبادة تبع لأنه تجب بسبب أرض نامية، ونماء الأرض لا يحصل إلا بمؤنة عظيمة تلحق المالك، فعلم أنه أوجب بطريق المؤنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:551
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123عدالت کی ڈگری کے ذریعے خلع لینا

سوال:
ایک شخص (زید) کا نکاح عورت (زینب) کے ساتھ ہوا ہے لیکن رخصتی نہیں ہوئی، اب رخصتی سے پہلے عورت کی والد کہتا ہے کہ میں عدالت کی ذریعہ سے ان دونوں کے درمیان خلع کرنا چاہتا ہو، حالانکہ خلع میں شوہر کے رضامندی نہیں ہیں، کیا شرعا یہ جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ شریعت میں خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر معاملات معتبر ہونے کے لیے عاقدین کی رضامندی ضروری ہے، اس طرح خلع کی معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے، شوہر کے رضامندی کی بغیر عورت یا اس کی والدین عدالت کے ذریعہ یک طرفہ خلع کی ڈگری حاصل  کرے تو شرعا ایسا خلع معتبر نہیں ہوگا، اور میں بیوی کے درمیان نکاح بدستور قائم رہے گا، اس کی مناسب صورت یہ ہے کہ جرگہ کے ذریعے شوہر کو مالی معاوضہ یا مہر کی معاف کی لالچ دے کر کسی طریقہ سے خلع پر رضامند کیا جائے۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق 3/ 144:
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب الخلع  3/ 441:
باب الخلع (هو) لغة الإزالة، واستعمل في إزالة الزوجية بالضم، وفي غيره بالفتح، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح) … وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:537
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-06




@123حالت حمل میں مٹی کھا نا کیسا ہے

سوال:
حاملہ عورت کو مٹی کھانے کی رغبت پیدا ہوئی ہے تو کھا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
مٹی بذات خود کوئی حرام چیز نہیں ہے، لیکن اس کا کھانا انسانی صحت کے لیے عموما نقصان دہ ہوتا ہے، اس لیے فقہاء کرام نے مٹی کھانے کو مکروہ قرار دیا ہے، لہذا حاملہ عورت کے لیے اتنی مقدار کھانے کی اجازت ہوگی، جو صحت کے لیے مضر نہ ہو۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم،كتاب الكراهية، فصل في الأكل والشرب 8/ 210:
وأكل الطين مكروه، وفي فتاوى أبي الليث ذكر شمس الأئمة إذا كان يخاف على نفسه من أكل الطين بأن كان يورث علة لا يباح له أكل الطين وكذا أكل شيء أكله يورث ذلك، وإن كان يتناول منه قليلا ويفعل أحيانا لا بأس به وأكل الطين البحاري لا بأس به ما لم يسرف، وكراهة أكله لا لحرمته بل لأنه يهيج الدم والمرأة إذا اعتادت أكل الطين تمنع من ذلك إذا كان يوجب النقصان في جمالها.
وفي  المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الثاني عشر في الكراهية في الأكل 5/353:
أكل الطين مكروه هكذا في «فتاوى أبي الليث» رحمه الله، وذكر شمس الأئمة الحلواني في شرح أنه إذا كان يخاف على نفسه أنه لو أكله أورثه ذلك علة أو آفة؛ لا يباح له التناول، وكذلك هذا في كل شيء سوى الطين، وإن كان يتناول منه قليلاً، وكان يفعل ذلك أحياناً لا بأس به، والمرأة إذا اعتادت أكل الطين تمنع من ذلك إذا كان ذلك يوجب نقصاناً في جمالها في هذا الموضع أيضاً.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:536
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-05




@123مدعی پر گواہ اور مدعی علیہ پر قسم کی ایک صورت

سوال:
میرا ذاتی کاروبار جس میں، میں نے (3678720) روپے انویسٹ کیے تھے، جبکہ میرے ماموں نے اس کاروبار میں (5193574) روپے انویسٹ کیے تھے، اس دوران مجھ سے ماموں نے (5384119) روپے دورانِ کاروبار واپس لیے ہیں اور میرے گودام میں فریج، اے سی وغیرہ سامان جس کی مالیت تقریبًا (1761640) روپے ہیں اس پر بھی ماموں نے قبضہ کرلیا تھا تو اس طرح ماموں نے کل (7145759) روپے وصول کرلیے ہیں تو اس طرح ماموں نے (1952185) روپے اضافی وصول کرلیے ہیں اور میں نے اس کاروبار سے مبلغ (2100000) روپے وصول کرلیے ہیں اور تاحال (1578720) روپے اصل زر ثمن میں میرا بقایا ہے اور میرے ماموں نے منافع بھی وصول کرلیا ہےاور الٹا میرا ماموں مجھ پر مبلغ (1500000) روپے کا دعویدار ہے اور ہر دونوں فریقین قسم پر حلفِ قرآن اٹھانے کو تیار ہیں شرعی حکم کے لحاظ سے دونوں فریقین کے لیے کیاحکم ہے ؟
جواب:
مذکورہ صورت میں آپ اپنے ماموں پر رقم وصول کرنے کے دعوی دار ہیں، اور آپ کا ماموں اس بات سے انکاری ہے تو آپ کے ذمہ اپنی بات پر دو عاقل بالغ مردوں کو بطور گواہ پیش کرنا لازم ہے، اگر آپ کے پاس گواہ نہ ہوں تو ماموں  کو قسم دی جائے گی، قسم کھانے کی صورت میں فیصلہ اس کے حق میں کیا جائے گا لیکن اگر ماموں قسم کھانے سے انکار کرے تو پھر فیصلہ آپ کے حق میں ہو گا، تاہم اگر ماموں نے جھوٹی قسم کھائی اور اس کے ذریعے اس نے رقم حاصل کرلی تو اس جھوٹے قسم کھانے کی وجہ سے یہ رقم اس کے لیے حلال نہ ہوگی ۔

حوالہ جات:
لما في  السنن الكبرى للبيهقي،  كتاب الدعوى والبينات، باب: البينة على المدعي , واليمين على المدعى عليه، الرقم: 21201:
عن ابن أبي مليكة، قال: كنت قاضيا لابن الزبير على الطائف , فذكر قصة المرأتين , قال: فكتبت إلى ابن عباس , فكتب ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لو يعطى الناس بدعواهم لادعى رجال أموال قوم ودماءهم , ولكن البينة على المدعي , واليمين على من أنكر ” وذكر الحديث.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الدعوى، 5/ 317:
(هي إضافة الشيء إلى نفسه حالة المنازعة) أي الدعوى أن يدعو الشيء إلى نفسه في حالة الخصومة وهذا في الشريعة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام:  البينة على المدعي واليمين على من أنكر لأن كل واحد من البينة واليمين يحتاج إليه عند إضافة الشيء إلى نفسه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:535
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-05