Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

@123روزے کی حالت میں کوئی چیز کا چکھنا

سوال:
میں نے اپنے گھر میں دیکھا ہے کہ والدہ یا بڑی بہن وغیرہ افطاری بناتے وقت کبھی نمک وغیرہ چکھتی ہے اور فورا تھوک دیتی ہے، تو کیا روزے کی حالت میں چکھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ روزہ کی حالت میں کسی چیز کو بلاعذر چکھنا مکروہ ہے، البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلا کسی عورت کا شوہر ایسا بد مزاج ہو کہ نمک وغیرہ کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے غصہ ہوگا، تو ایسی عورت کے لیے کھانے کا نمک زبان پر رکھ کر چکھنا درست ہے، اس سے روزہ مکروہ نہ ہوگا، تاہم اس صورت میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ چکھنے میں سالن کے ذرات حلق سے نیچے نہ اترے، ورنہ روزہ فاسد ہو جائے گا۔

حوالہ جات:
لما في فتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصوم، الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره 1/ 199:
وكره ذوق شيء، ومضغه بلا عذر كذا في الكنز، ومن العذر في الأول ما لو كان زوج المرأة وسيدها سيئ الخلق فذاقت المرقة، ومن العذر في الثاني أن لا تجد من يمضغ الطعام لصبيها من حائض أو نفساء أو غيرهما ممن لا يصوم، ولم تجد طبيخا، ولا لبنا حليبا كذا في النهر الفائق.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 2/ 416:
(وكره) له (ذوق شيء و) كذا (مضغه بلا عذر) قيد فيهما قاله العيني ككون زوجها أو سيدها سيئ الخلق فذاقت.
وفي كنز الدقائق لامام النصفي، كتاب الزكاة، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 1/ 221
(وكره ذوق شيء ومضغه بلا عذر ومضغ العلك).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:581
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-09




@123بحالتِ روزہ کان میں دوا ڈالنے کا حکم

سوال:
بحالتِ روزہ کان میں دوا ڈالنا مفسد صوم ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ جمہور فقہاء کرام کے نزدیک روزے کی حالت میں کان میں دوا یا تیل ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور روزے کی فاسد ہونے کی بنیاد یہ بتلائی ہے، کہ کان میں دوا ڈالنے سے دماغ یا حلق تک دواپہنچ جاتی ہے، لہذا روزہ فاسد ہو جاتا ہے، جبکہ جدید تحقیق کے مطابق ماہر اطباء کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ کان میں ایک باریک مضبوط پردہ ہے جو دوا کے دماغ یا حلق تک پہنچنے میں مانع ہے، البتہ اگر وہ پردہ پھٹ جائے یا اس میں سوراخ ہوجائے، تو ایسی صورت میں دوا براہ راست حلق تک پہنچ جاتی ہے، لہذا اگر کان کا پردہ صحیح سالم ہو تو روزے کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہ ہوگا، تاہم کوئی شخص قدیم  جمہور فقہاء کرام کے قول پر عمل کرتے ہوئے روزے کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے سے احتراز کرے تو یہ بات شبہات سے دور ہونے کی وجہ سے زیادہ بہتر ہے۔

حوالہ جات:
لما في فتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد 1/ 204:
ومن احتقن أو استعط أو أقطر في أذنه دهنا أفطر، ولا كفارة عليه هكذا في الهداية.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصوم، فصل فصاد الصوم 2ْ243:
وما وصل إلى الجوف أو إلى الدماغ عن المخارق الأصلية كالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلى الجوف أو إلى الدماغ فسد صومه.
وفي تبيين الحقائق عثمان بن على الزيلعي، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 2/ 181:
(وإن احتقن أو استعط أو أقطر في أذنه أو داوى جائفة أو آمة بدواء ووصل إلى جوفه أو دماغه أفطر).
وفي فتح القدير للكمال ابن الهمام، كتاب الصوم، باب ما يوجب القضاء والكفارة 2/ 348:
(قوله: ولو أقطر في إحليله لم يفطر عند أبي حنيفة، وقال أبو يوسف: يفطر، وقول محمد مضطرب فيه) والإفطار في أقبال النساء، قالوا أيضا هو على هذا الخلاف، وقال بعضهم: يفسد بلا خلاف لأنه شبيه بالحقنة قال في المبسوط: وهو الأصح (قوله: فكأنه وقع إلخ) يفيد أنه لا خلاف لو اتفقوا على تشريح هذا العضو فإن قول أبي يوسف بالإفساد إنما هو بناء على قيام المنفذ بين المثانة والجوف، فيصل إلى الجوف ما يقطر فيها، وقوله بعدمه بناء على عدمه، والبول يترشح من الجوف إلى المثانة فيجتمع فيها، أو الخلاف مبني على أن هناك منفذا مستقيما أو شبه الحاء فيتصور الخروج ولا يتصور الدخول لعدم الدافع الموجب له، بخلاف الخروج، وهذا اتفاق منهم على إناطة الفساد بالوصول إلى الجوف. ويفيد أنه إذا علم أنه لم يصل بعد بل هو في قصبة الذكر لا يفسد، وبه صرح غير واحد.
لما في المقالات الفقهيه لمفتي محمد رفيع العثماني، مفطرات الصوم في المذاهب الاربعه 110/ 143:
وأما الأذن: فلأن الدواء أو الماء أو الدهن ونحوها لا تصل بالإقطار فيها إلى الحلق إذا كانت طبلة الأذن سليمة غىر مخروقة، لأن فتحة الأذن ليست بنافذة إلى الحلق لا مباشرة، ولابواسط قناة أو جوف اخر إلا إذا كانت الطلبة فخروقة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:580
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-09




@123 کیا کافر مسلمان عورت کا ولی بن سکتا ہے؟

سوال:
ایک عورت مسلمان ہوئی، اور مسلمان کے ساتھ نکاح کا ارادہ ہے، اور اس عورت کا والد اور بھائی  کافر ہیں، کیا اس کے نکاح میں والد یا بھائی ولی بن سکتا ہے؟
جواب:
کافر کو چونکہ  مسلمان پر ولایت حاصل  نہیں ہے، اس لیے ذکر کردہ صورت میں یہ عورت عاقلہ بالغہ ہو، تو اس کا کسی مسلمان مرد سے نکاح  کرنے لیے کافر والد یا کافر بھائی نہ اس کا ولی بن سکتا ہے اور نہ ان سے اجازت کی ضرورت ہے، صرف عورت کی رضامندی کافی ہے، اگر یہ عورت مسلمان کے ملک میں رہائش پزیر ہے تو حاکم وقت یا اس کا نائب قاضی اس کا ولی بنے گا اور اس کا نکاح کرائے گا اور اگر غیر مسلموں کے ملک  میں رہائش پزیر ہے تو وہا ں پر کوئی اسلامک سنٹر ہو تو اس کا  مدیر یا امام مسجد اور خطیب اس کا ولی ہوگا اور اس کا نکاح کرے گا۔

حوالہ جات:
لما في  سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب في الولي، الرقم:  2083:
عن عائشة قالت: قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم  “أيما امرأة نكحت بغير إذن مواليها فنكاحها باطل – ثلاث مرات – فإن دخل بها فالمهر لهابما أصاب منها، فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له.
و في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح 1/ 284:
ولا ولاية لصغير ولا مجنون ولا لكافر على مسلم ومسلمة، كذا في الحاوي. ولا لمسلم على كافر وكافرة، كذا في المضمرات.
وفي التاتار خانية لعالم بن علا الهندي، كتاب النكاح، الفصل معرفة الأولياء 4/ 86:
يجب أن يعلم بأن الولي من كان من اھل للمیراث وهو عاقل بالغ حتى لا يثبت الولاء للصبي والمجنون، ولا يثبت الولاء للكافر على المسلم، ولا للمسلم على الكافر، ولا تثبت الولاية للعبد.
وفي تبيين الحقائق لزيلعي،كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء 2/ 125:
قال  رحمه الله  (ولا ولاية لصغير وعبد ومجنون) … (ولا لكافر على مسلمة) لقوله تعالى {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا} ولهذا لا تقبل شهادته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:572
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08

 




@123نصاب سے کم سونے اور کچھ نقدی پر زکوۃ کا حکم

سوال:
اگر کسی کے پاس ساڑے سات تولہ سے کم مقدار میں سونا ہو، مثلا: تین تولہ سونا موجود ہو، اس کے علاوہ اس کے پاس سال کے اول اور اسی طرح سال کے آخر میں کچھ نقدی بھی ہو، اور درمیان سال میں نقدی نہ ہو صرف سونا ہو، تو آیا ایسے شخص پر زکوۃ دینا فرض ہے یا نہیں؟ اور کیا اس نقدی پر بھی سال گزرنا لازم ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ زکوۃ واجب ہونے میں سال کے شروع اور آخر کا اعتبار ہوتا ہے، سال کے درمیان کا اعتبار نہیں ہوتا، لہذا کسی کی ملکیت میں تین تولہ سونا کے ساتھ بنیادی اخراجات (مثلا قرض، بلز، راشن، بچوں کے سکول کے فیس) کے علاوہ بچت میں کچھ نقد رقم موجود رہی تو اسی وقت سے نصاب کا سال شروع ہوگیا، پھر چاند کے اعتبار سے سال مکمل ہونے پر اسی تاریخ میں تین تولہ سونا کے ساتھ واجب الاداء اخراجات کے علاوہ بچت میں کچھ نقد رقم موجود ہو تو زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا، سال کے درمیان میں نقد رقم کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما وفي الهداية للمرغيناني، كتاب الزكاة، باب زكاة المال، 2/ 221،220:
(وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة) لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه أو ما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد وتحققالغنى وفي انتهائه للوجوب، ولا كذلك فيما بين ذلك لأنه حالة البقاء.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها 1/ 75:
وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب الزكاة المال 2/ 302:
(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الفصل الثاني في العروض 1/ 179:
وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز… ولو ضم أحد النصابين إلى الأخرى حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:569
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123یتیم خانہ میں زکوۃ دینے کا طریقہ

سوال:
یتیم خانہ میں جہاں بالغ ونابالغ دونوں قسم کے بچے ہوں، زکوۃ دینا کیسا ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ زکوۃ میں تملیک ضروری ہے اور تملیک کا مطلب یہ ہے، کہ زکوۃ کی رقم خود مستحق شخص کو یا اس کے وکیل کو مالک بنا کر دی جائے، اس کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا یتیم خانہ میں زکوۃ دینے کا درست طریقہ یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم یتیم خانہ کے بچوں کو دے کر باقاعدہ ان کو مالک بنایا جائے، پھر ان یتیم بچوں پر ادارہ کی طرف سے ماہانہ جتنا خرچہ آتا ہوں اس ماہانہ خرچہ کے مد میں ان سے یہ رقم جمع کرائی جائے، تاہم اگر اس طرح کرنے میں مشکلات ہوں، تو یہ بھی جائز ہے کہ یتیم خانہ کے منتظمین بالغ مستحق زکوۃ بچوں سے براہِ راست اور نابالغ مستحق زکوۃ بچوں کے سرپرستوں سے تحریری اجازت نامہ لے لیں، کہ ہم آپ لوگوں کی طرف سے زکوۃ وصول کریں گے، اور وہ زکوۃ کی پیسے اپ کے بچوں کے اوپر خرچ کریں گے، تو اس صورت میں یتیم خانہ کو زکوۃ دینا درست ہے، یعنی منتظمین کو وکیل بالقبض والتصرف بنا لیں، پھر منتظمین اپنی صوابدید کے مطابق ان کی ضروریات میں اس کو خرچ کردیا کریں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب المصرف 3/ 203:
(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم، كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم. قال ابن عابدين تحت قوله:(بشرط أن يعقل القبض… فإن لم يكن عاقلا، فقبض عنه أبوه أو وصيه أو من يعوله قريبا أو أجنبيا، أو ملتقطه صح كما البحر والنهر.
وفي البحر الرائق لابن نجيم،  كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة 2/ 424:
وأشار المصنف إلى أنه لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه؛ لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة إذا كان يعقل القبض، وإلا فلا، ولو دفع الصغير إلى وليه، كذا في الخانية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:568
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123غیر مستحق کا کسی سے زکوۃ لے کر بعد میں فقراء میں تقسیم کرنا

سوال:
اگر کوئی مستحقِ زکوۃ نہ ہو، لیکن پھر بھی زکوۃ وصول کرے، لیکن اس کو اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لاتا، بلکہ آگے کسی مستحقِ زکوۃ کو یہ رقم دیتا ہے، گویا یہ وصول کرنے والا بغیر کہے اپنے آپ کو وکیل بناتا ہے، تو کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ مذکورہ شخص چونکہ مالدار ہے اس لیے اس شخص کا مذکورہ طریقے سے زکوۃ لے کر فقیروں میں تقسیم کرنا درست نہیں، البتہ اگر یہ شخص مالک کو بتا دے کہ یہ میں کسی اور کے لیے لے رہا ہوں، اور وہ بخوشی اس کو قبول کرکے اس کو وکیل بنا دے تو ایسی صورت اس کے لیے زکوۃ وصول کرکے فقراء میں تقسیم کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 189:
وكذا لو كان عنده من المصاحف وهو يحتاج إليه وإن كان لا يحتاج إليه وهو يساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه ولا يجوز له أخذها.
وفي الجوهرة النيرة أبو بكر بن علي اليمني الحنفي، كتاب الزكاة، باب شروط وجوب الزكاة 1/ 115:
لا يجوز صرف الزكاة إليه إذا كانت تساوي مائتي درهم وسواء كانت الكتب فقها أو حديثا أو نحوا وفي الخجندي إذا كان له مصحف قيمته مائتا درهم لا تجوز له الزكاة لأنه قد يجد مصحفا يقرأ فيه.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب شروط وجوب الزكاة 2/ 222:
وإنما يفيد ذكر الأهل في حق مصرف الزكاة فإذا كانت له كتب تساوي مائتي درهم، وهو محتاج إليها للتدريس وغيره يجوز صرف الزكاة إليه، وأما إذا كان لا يحتاج إليها، وهي تساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه اهـ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:567
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123غیر مسلم کو زکوٰۃ یا صدقہ دینا

سوال:
کسی ہندو فقیر کو صدقہ یا زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
جواب:
کسی بھی غیر مسلم کو صدقہ وخیرات دینا جائز ہے، لیکن زکوۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدرالمختار للحصكفي، كتاب الزكاة، مطلب في الحوائج الأصلية 3/ 353:
(ولا) تدفع (إلى ذمي) لحديث معاذ (وجاز) دفع (غيرها وغير العشر) والخراج (إليه) أي: الذمي، ولو واجبا كنذر وكفارة وفطرة.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 188:
وأما أهل الذمة فلا يجوز صرف الزكاة إليهم بالإتفاق، ويجوز صرف الصدقة التطوع إليهم بالإتفاق.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، بشرائط ما يرجع إلى مؤدي إليه 2/ 161:
ومنها: أن يكون مسلما فلا يجوز صرف الزكاة إلى الكافر بلا خلاف؛ لحديث معاذ رضي الله عنه، (خذها من أغنيائهم، وردها في فقرائهم) أمر بوضع الزكاة في فقراء من يؤخذ من أغنيائهم، وهم المسلمون فلا يجوز وضعها في غيرهم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:566
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123فرضیتِ زکوۃ کے لیے مالِ زکوۃ سے کاروبار کرنا شرط نہیں

سوال:
زید نے اپنے مال سے زکوۃ ادا کی، اس پر دوسرا سال گزرنے کے بعد دوبارہ زکوۃ دینی چاہیے یا نہیں، جبکہ اس مال سے کوئی تجارت نہ کی ہو اور نہ کوئی منافع حاصل کیا ہو؟
جواب:
واضح رہے کہ مال زکوۃ ميں مال کا بقدر نصاب ہونا شرط ہے، اس سے کاروبار کرنا یا نہ کرنا شرط نہیں، لہذا مذکورہ مال پر دوبارہ سال گزرنے کے بعد زکوۃ دینا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة 2/ 356:
والمراد بكونه حوليا أن يتم الحول عليه، وهو في ملكه؛ لقوله عليه الصلاة والسلام (لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول)
وفي الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة، مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء 3/ 221:
(وشرطه) أي: شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه. قال ابن عابدين تحت قوله: (وهو في ملكه) أي: والحال أن نصاب المال في ملكه التام كما مر، والشرط تمام النصاب في طرفي الحول.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، ما يستفاد بعد الحول 2/ 96:
فنقول: لا خلاف في أن أصل النصاب، وهو النصاب الموجود في أول الحول يشترط له الحول؛ لقول النبيﷺ: (لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:565
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123حرام مال کو ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا

سوال:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس شخص کے پاس حرام مال ہو، اور اس کو یقین بھی ہو کہ یہ مال حرام ہے، اور پھر اس کو بنیتِ ثواب صدقہ کر دے تو اس سے وہ شخص کفر تک پہنچ جاتا ہے، کیا یہ درست ہے؟
جواب:
حرام مال کو حلال جانتے ہوئے صدقہ کرے اور اس پر ثواب کی امید رکھے تو اس سے انسان کافر ہوجاتا ہے، البتہ حرام مال کو حرام جانتے ہوئے بنیتِ ثواب صدقہ کرنا اگرچہ سخت گناہ ہے، لیکن اس سے انسان کافر نہیں ہوتا، اس لیے حرام مال بلا نیتِ ثواب کسی مستحق زکوۃ فقیر کو صدقہ کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، مطلب في التصدق من المال الحرام 3/ 261:
وفي شرح الوهبانية عن البزازية: إنما يكفر إذا تصدق بالحرام القطعي. قال ابن عابدين تحت قوله: (وفي شرح الوهبانية إلخ)…رجل دفع إلى فقير من المال الحرام شيئا يرجو به الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمن المعطي كفرا جميعا… (إذا تصدق بالحرام القطعي) أي: مع رجاء الثواب الناشئ عن استحلاله كما مر، فافهم…استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصية بدليل قطعي، وعلى هذا تفرع…من أنة إذا اعتقد الحرام حلالا، فإن كان حرمته لعينه وقد ثبت بدليل قطعي يكفر.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء،كتاب الزكاة، مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق 2/ 272:
ولو تصدق على فقير بشيء من مال الحرام يرجو الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له، وأمن المعطي فقد كفرا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:564
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08




@123زکوۃ کی رقم سے خریدی گئی کتابیں صرف استعمال کے لیے دینا

سوال:
زکوۃ کی رقم سے اہلِ مدرسہ کتابیں خرید کر طلباء کو صرف استعمال کے لیے دیتے ہیں اور سال ختم ہونے پر اہلِ مدرسہ ان سے واپس لیتے ہیں تو اس سے زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں؟
جواب:
واضح  رہے کہ زکوۃ کے روپیہ کے لیے تملیک یعنی مستحقِ زکوۃ کو مالک بنانا شرط ہے، اور کتب خرید کر طلباء کو صرف استعمال کے لیے دینے سے تملیک نہیں پائی جاتی اس لیے مذکورہ صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی، زکوۃ کی درست ادائیگی کے لیے ان کو باقاعدہ  بااختیار مالک بنانا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المختار، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 345،344:
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).
وفيه ايضا، كتاب الزكاة، باب المصرف 2 /271:
وحيلة التكفين بها التصدق على فقير، ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما، وكذا في تعمير المسجد.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 188:
ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:563
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08