رخصتی سے پہلے طلاق دینے سے عدت واجب ہے یا نہیں؟:
سوال:
زید نے فاطمہ کے ساتھ عقدِ نکاح کر لیا، اور رخصتی سے پہلے طلاق دے دی، تو اب فاطمہ پر عدتِ طلاق لازم ہے یا بغیر عدت کے بھی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے؟
جواب:
اگر نکاح کے بعد کسی لڑکی کو رخصتی سے پہلے دی گئی یعنی اس کے ساتھ نہ ہمبستری ہوئی ہو، نہ خلوتِ صحیحہ (ایسی تنہائی جس میں میاں بیوی کے لیے ہمبستری سے کوئی مانع نہ ہو) تو ایسی صورت میں ایک ہی طلاق سے بیوی بائنہ (نکاح سے الگ) ہو جاتی ہے اور اس پر عدت بھی لازم نہیں ہوتی، عدت گزارے بغیر کسی اور جگہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ المُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ، فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا، فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا. (الأحزاب 49/33)
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة 1/ 526:
أربع من النساء لا عدة عليهن: المطلقة قبل الدخول.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب طلاق غير المدخول بها 3/ 286:
(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق، قوله (وكذا أنت طالق ثلاثا متفرقات).
4. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطلاق، فصل في الطلاق قبل الدخول 1/ 233:
وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها … فإن فرق الطلاق بانت بالأولى، ولم تقع الثانية والثالثة “.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:590
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10