Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

رخصتی سے پہلے طلاق دینے سے عدت واجب ہے یا نہیں؟:

سوال:
 زید نے فاطمہ کے ساتھ عقدِ نکاح کر لیا، اور رخصتی سے پہلے طلاق دے دی، تو اب فاطمہ پر عدتِ طلاق لازم ہے یا بغیر عدت کے بھی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے؟
جواب:
   اگر نکاح کے بعد کسی لڑکی کو رخصتی سے پہلے دی گئی یعنی اس کے ساتھ نہ ہمبستری ہوئی ہو، نہ خلوتِ صحیحہ (ایسی تنہائی جس میں میاں بیوی کے لیے ہمبستری سے کوئی مانع نہ ہو) تو ایسی صورت میں ایک ہی طلاق سے بیوی بائنہ (نکاح سے الگ) ہو جاتی ہے اور اس پر عدت بھی لازم نہیں ہوتی، عدت گزارے  بغیر کسی اور جگہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالى:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ المُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ، فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا، فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا. (الأحزاب 49/33)
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة 1/ 526:
    أربع من النساء لا عدة عليهن: المطلقة قبل الدخول.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب طلاق غير المدخول بها 3/ 286:
   (وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق، قوله (وكذا أنت طالق ثلاثا متفرقات).
4. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطلاق، فصل في الطلاق قبل الدخول 1/ 233:
وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها … فإن فرق الطلاق بانت بالأولى، ولم تقع الثانية والثالثة “.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:590
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10




سعی کا آغاز مروہ سے کرنا:‌

سوال:
   صفا مروہ کی سعی صفا سے شروع کرنا واجب ہے یا سنت؟ اگر کوئی شخص مروہ سے سعی شروع کرلے تو اس پر دم لازم ہوگا یا نہیں؟
جواب:
    صفا سے سعی کا آغاز کرنا واجب ہے، اگر کسی نے صفا کی جگہ مروہ سے سعی شروع کر لی تو اس پر لازم ہے کہ ایک اورچکر لگا کر سعی کو مکمل کرلے، ورنہ ایک چکر رہ جائے کی وجہ سے صدقہ فطر کے بقدر صدقہ دینا لازم ہوگا۔
واضح رہے آج کل یعنی 2024 میں سعودی عرب میں ایک صدقہ فطر کی مقدار تیس پینتیس ریال ہیں۔


حوالہ جات:
1. الأصل المعروف بالمبسوط لمحمد بن حسن الشيباني، كتاب المناسك، باب السعي بين الصفا والمروة (2/ 407):
   وإن بدأ بالمروة، وختم بالصفا حتى فرغ، أعاد شوطا واحدا؛ لأن الذي بدأ فيه بالمروة، ثم أقبل منها إلى الصفا لا يعتد به.
2. إرشاد الساري على مناسك ملا علي القاري لحسين بن محمد الحنفي، فصل في شرائط صحة السعي 194:
   (الرابع) من شرائط صحة السعي (البداءة بالصفا والختم بالمروة فلو بدأ بالمروة، لم يعتد بذلك الشوط، فإذا عاد من الصفا كان هذا أول سعيه)…حتى لو بدأ بالمروة، وختم بالصفا، يلزمه إعادة شوط واحد، يعني بأن يعود من الصفا إلى المروة ليحصل البداءة بالصفا، والختم بالمروة، ويكون شوطه الأول من المروة إلى الصفا ساقط الاعتبار…فإنه إذا بدأ من المروة، يلزمه إعادة شوط واحد أو جزاؤه إن لم يعد سواء، قلنا بالوجوب أو الاشتراط؛ لأن صاحب البدائع صرح بنفسه بوجوب الجزاء بترك شوط.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:589
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10




@123 ولی اقرب کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نکاح کرانا کیسا ہے؟

سوال:
ہندہ کا باپ فوت ہوگیا، اور ہندہ کا چچا اپنے شہر سے مسافت شرعی سے زیادہ فاصلے پر گیا ہے، اب ہندہ کی والدہ نے ہندہ کا نکاح خود کر دیا، چچا کو اطلاع نہ دی، تو کیا یہ شرعا جائز ہے؟
جواب:
شرعا اگرچہ ولایت میں چچا ماں سے مقدم ہے، لیکن اگر چچا اتنا دور ہو کہ اس کے آنے تک انتظار کرنے میں مناسب رشتہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو والدہ کا کیا ہوا نکاح درست ہے، اور اگر اتنا دور نہ ہو، تو ایسی صورت میں والدہ کا کیا ہوا نکاح چچا کی اجازت پر موقوف ہوگا، اگر اس نے اجازت دے دی تو نکاح درست ہے ورنہ درست  نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي 3/ 78،76:
(الوالي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه) وهو من يتصل بالميت حتى المعتقة (بلا توسطة أنثى) بيان لما قبله (على ترتيب الإرث والحجب)… (فإن لم يكن عصبة فالولاية للأم) ثم لأم الأب وفي القنية عكسه…(وللولي الأبعد التزويج بغيبة الأقرب) فلو زوج الأبعد حال قيام الأقرب توقف على إجازته ولو تحولت الولاية إليه لم يجز إلا بإجازته بعد التحول.
وفي التاتارخانية عالم بن العلاء الهندي، كتاب النكاح، الفصل معرفة الأولياء 4/ 91:
وإن زوج الصغيرة أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:588
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10




@123نکاح سے پہلے اپنی منگیتر سے ملنا اور فون پر باتیں کرنا

سوال:
نکاح سے پہلے اپنی منگیتر سے ملنا، فون پر باتیں کرنا اور گھومنا پھرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ شریعت میں منگنی کی حیثیت ایک وعدہ کی سی ہے، لہذا جب تک باقاعدہ نکاح نہ ہوا ہو، تو اس وقت تک منگیتر اجنبیہ ہوگی، لہذا اس سے ملنا، بیٹھنا اور باتیں کرنا جائز نہیں، بلکہ بعض مرتبہ اس طرح ملنے جلنے اور باتیں کرنے سے ناچاقی پیدا ہو جاتی ہے، اور نکاح ہونے سے پہلے ہی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في صحيح مسلم،  باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره، الرقم: 1341، 2/ 978:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، كلاهما عن سفيان، قال أبو بكر: حدثنا سفيان بن عيينة، حدثنا عمرو بن دينار، عن أبي معبد، قال: سمعت ابن عباس، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يقول: «لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم»، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، إن امرأتي خرجت حاجة، وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: «انطلق فحج مع امرأتك».
و في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في النظر والمس 6/ 369:
الخلوة بالأجنبية حرام…ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:587
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10




@123غیر مسلم عورت کے قبول اسلام کے بعد نکاح کی شرعی حیثیت

سوال:
اگر کوئی کافر عورت مسلمان ہو جائے اور کافر شوہر سے جدا ہو جائے تو کسی مسلمان سے کب شادی کر سکتی ہے؟
جواب:
واضح رہے اگر کوئی عورت مسلمان ہو جائے اور شوہر مسلمان نہ ہوا ہو، تو میاں بیوی اگر دارالاسلام میں ہوں، قاضی شوہر پر اسلام پیش کرے گا اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرے، تو قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا، تفریق کے بعد عورت عدت (تین ماہواریاں) گزارنے کے بعد کسی مسلمان مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور اگر دونوں دارالحرب میں ہوں یا ایسے اسلامی ملک میں ہوں جہاں شرعی قانون کے مطابق فیصلے نہ کیے جاتے ہوں، تو عورت تین ماہواریاں گزار کر اپنے کافر شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی، یعنی اگر شوہر نے تین حیض گزرنے تک اسلام قبول نہیں کیا تو یہ عورت اپنے کافر شوہر کے نکاح سے خود بخود نکل جائے گی، اس کے بعد کسی مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر3/ 191:
(ولو) (أسلم أحدهما) أي أحد المجوسيين أو امرأة الكتابي (ثمة) أي: في دار الحرب وملحق بها كالبحر الملح (لم تبن حتى تحيض ثلاثا) أو تمضي ثلاثة أشهر (قبل إسلام الآخر) إقامة لشرط الفرقة مقام السبب، وليست بعدة لدخول غير المدخول بها.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر 3/ 370:
(ولو أسلم أحدهما ثمة لم تبن حتى تحيض ثلاثا فإذا حاضت ثلاثا بانت) لان الاسلام ليس سببا للفرقة، والعرض على الاسلام متعذر؛ لقصور الولاية ولا بد من الفرقة دفعا للفساد، فأقمنا شرطها، وهو مضي الحيض مقام السبب.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب النكاح، باب نكاح أهل مشرك 3/ 427:
(وإذا خرجت المرأة إلينا مهاجرة جاز لها أن تتزوج ولا عدة عليها) عند أبي حنيفة. وقالا: عليها العدة؛ لأن الفرقة وقعت بعد الدخول في دار الإسلام فيلزمها حكم الإسلام.
وفي تبيين الحقائق عثمان بن علي الزيلعي الحنفي، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر 2/ 174:
(وإذا أسلم أحد الزوجين عرض الإسلام على الآخر فإن أسلم وإلا فرق بينهما) وهذا الكلام على إطلاقه يستقيم في المجوسيين؛ لأنه بإسلام أحدهما أيهما كان يفرق بينهما بعد الآباء، وأما إذا كانا كتابيين فإن أسلمت هي فكذلك وإن أسلم هو فلا يتعرض لها لجواز تزوجها للمسلم ابتداء فلا حاجة إلى العرض … فيؤجل إلى انقضاء ثلاث حيض كما في الطلاق حيث ينقطع قبل الدخول بنفسه وبعده لا ينقطع حتى تنقضي عدتها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:586
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10




@123چچازاد بھائی کی بیٹی سے شادی کرنا

سوال:
چچا زاد بھائی کی لڑکی سے شادی کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
چچا زاد بھائی کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى:
{وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ } [النساء: 24]
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، القسم الأول المحرمات بالنسب 1/ 273:
وهن الأمهات والبنات والأخوات والعمات والخالات وبنات الأخ وبنات الأخت، فهن محرمات نكاحا.
وفي البناية شرح الهداية، كتاب النكاح،فصل في الوكالة بالنكاح وغيرها 5/ 122:
(ويجوز لابن العم أن يزوج بنت عمه من نفسه).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:585
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10




@123حد قذف جاری ہونے کے بعد اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرنا

سوال:
میاں بیوی کے لعان کرنے کے بعد شوہر نے کہا میں نے جھوٹ بولا تھا، بیوی بے قصور تھی، عدالت نے اس پر حد قذف جاری کردی، اب وہ اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو کیا ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں لعان کے بعد اگر شوہر نے بیوی کو طلاق نہ دی ہو اور نہ قاضی نے میاں بیوی کے درمیان جدائی کا فیصلہ کیا ہو، تو حد قذف کے بعد ان کا نکاح برقرار ہے، اگر میاں بیوی آپس میں رہنے پر رضامند ہوں، تو رہ سکتے ہیں، البتہ اگر شوہر نے طلاق دی ہو یا شوہر کا طلاق دینے سے انکار پر قاضی نے تفریق کر دی ہو، اب میاں بیوی کا مذکورہ صورت میں جب شوہر قسم کھانے کے بعد اپنا جھوٹ مان کر سزا پائے تو لعان ختم ہو جائے گا اور میاں بیوی کے درمیان باہمی حرمت بھی ختم ہوجائے گی، لہذا اس کے بعد میاں بیوی کا ایک ساتھ رہنے کے لیے تجدید نکاح ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في البناية شرح الهداية، كتاب الطلاق، باب التفرقة بين المتلا عنين 5/ 573:
(وهو خاطب إذا أكذب نفسه) ش: هذه مسألة مبتدأة، أي هذا الرجل بعد الإكذاب صار خاطبا من الخطاب، أي يجوز له أن يتزوجها كما لغيره يجوز أن يتزوجها فعليه الحد بإكذاب نفسه.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الحادي عشر في اللعان 1/ 516،515:
وكذا لو أكذب الرجل نفسه حل الوطء من غير تجديد النكاح كذا في النهاية… إذا التعنا فرق الحاكم بينهما ولا تقع الفرقة حتى يقضي بالفرقة على الزوج فيفارقها بالطلاق فإن امتنع فرق القاضي بينهما، وقبل أن يفرق الحاكم لا تقع الفرقة والزوجية قائمة يقع طلاق الزوج عليها، وظهاره وإيلاؤه ويجري التوارث بينهما إذا مات أحدهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:584
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-09




تحریری طلاق دینے کا حکم:

سوال:
   زید نے اپنے بیوی کو خط لکھا کہ میں نے اپني  بیوی کو طلاق دی تو اس  صورت  میں کون سی طلاق واقع ہوتی ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ جس طرح زبان سے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوتی ہے، اس طرح خط لکھنے کے ذریعے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، چنانچہ مذکورہ صورت میں ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء،كتاب الطلاق، الفصل السادس في الطلاق بالكتابة 1/ 378:
   (الفصل السادس في الطلاق بالكتابة) … وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد؛ فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق، وتلزمها العدة من وقت الكتابة.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى الزوج 3/ 100:
   وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة، وبالإشارة المفهومة من الأخرس ؛لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ، والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:573
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-09

 




@123نو مسلمہ کے سرپرست کااس سے نکاح کر نا کیسا ہے؟

سوال:
زید نے ایک ہندو بچی کو مسلمان کیا اب وہ بالغ ہوگئی ہے، اور زید اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے، تو زید کا اس کے ساتھ نکاح جائز ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اس لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، 3/ 85:
(قوله: هو عقد يرد على ملك المتعة قصدا) أي النكاح عند الفقهاء والمراد بالعقد مطلقا نكاحا كان أو غيره مجموع إيجاب أحد المتكلمين مع قبول الآخر سواء كان باللفظين المشهورين من زوجت وتزوجت أو غيرهما مما سيذكر أو كلام الواحد القائم مقامهما أعني متولي الطرفين.
وفي تبيين الحقائق عثمان بن علي، كتاب الطلاق، 2/ 94:
(هو عقد يرد على تملك المتعة قصدا) احترز بقوله: قصدا عن عقد تملك به المتعة ضمنا كالبيع والهبة ونحوهما؛ لأن المقصود فيها ملك الرقبة ويدخل ملك المتعة فيها ضمنا إذا لم يوجد ما يمنعه.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي 3/ 55:
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:583
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-09




@123وقوف عرفہ سے پہلے جماع کرنے کا حکم

سوال:
حالت احرام میں کسی نے وقوف عرفہ سے پہلے جماع کرلیا، تو اس کے حج کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ وقوف عرفہ سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنے سے حج فاسد ہوجاتا ہے، تاہم ایسا شخص حج کے تمام ارکان ادا کرے اور حج پورا کرکے دم دے، یعنی (بکری ذبح کرنا)، اور آئندہ سال اس حج کی قضا کرے، اگر بیوی بھی اس کے ساتھ حالتِ احرام میں تھی، تو اس پر بھی یہ سب کچھ کرنا لازم ہے۔

حوالہ جات:
لما في الهداية للمرغيناني، كتاب الحج، باب الجنايات 3/ 44:
وإن جامع في أحد السبيلين قبل الوقوف بعرفة فسد حجه، وعليه شاة.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب المناسك، الفصل الرابع في الجماع في الحج والعمرة1/ 244:
إذا كان مفردا بحجة وجامع امرأته قبل وقوفه بعرفة وهما محرمان فسدت حجتهما إذا التقى الختانان وغابت الحشفة وعليهما المضي والإتمام على الفساد وعلى كل واحد منهما الدم وتجزئ الشاة في ذلك وعليهما قضاء الحجة من قابل ولا تجب عليهما العمرة كذا في شرح الطحاوي.
وفي الفتاوى التاتارخانية عالم بن العلاء الهندي، كتاب الحج، الفصل الثاني في بيان ركن الحج وكيفية وجوبه 3/ 579:
الجماع حرام على المحرم بالنص، فإن جامع فإن كان مفردا بالحج إن كان جامع قبل الوقوف بعرفة فسد حجة، وعليه دم تكفيه الشاة…وعليه المضي في فاسده يفعل جميع ما يفعل في الحج الصحيح، ويجتنب عما يجتنب في الحج الصحيح وعليه الحج من قابل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:582
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-09