Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

@123بالوں پر سیاہ خضاب لگانا

سوال:
آج کل کے لوگ سر اور داڑھی کے بالوں پر بالکل سیاہ خضاب لگاتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ خاص سیاہ رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ مثلا سرخ یا پیلے رنگ کا خضاب لگانا بالاتفاق جائز ہے، اور خالص سیاہ خضاب لگانا مجاھد کے لیے میدان جہاد میں دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے بالاتفاق جائز ہے اور کسی کو دھوکہ دینے کے لیے جیسے مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو دھوکہ دینا اور اپنے اپ کو جوان ظاہر کرنا یا کسی ملازم کا مالک کو دھوکہ دینے کے لیے سیاہ خضاب لگانا یہ بالاتفاق ناجائز ہے اور شوہر کا بیوی کو خوش کرنے لے لیے سیاہ خضاب لگانا مکروہ ہے، تاہم جوانی میں بالوں کا سفید ہو جانا ایک قسم کی بیماری اور عیب ہے اور عیب کا ازالہ کرنا شرعا جائز ہے، اس لیے نوجوان کے لیے سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
لما في سنن أبي داود، باب في الخضاب، الرقم: 4204:
عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة 6/ 422:
قال في الذخيرة أما الخضاب بالسواد للغزو ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق.
وفي المحيط البرهاني لابن ماذه الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الحادي والعشرون في الزينة، واتخاذ الخادم للخدمة 5/ 377:
وأما الخضاب بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:604
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123دسترخوان پر روٹی رکھ کر سالن کا انتظار کرنا

سوال:
ایک شخص کا کہنا ہے کہ جب روٹی لائی جائے، تو سالن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ روٹی کھانا شروع کرے، تو یہ بات کہاں تک درست ہے؟
جواب:
دسترخوان پر بیٹھ کر اگر صرف روٹی لائی جائے اور سالن لانے میں ابھی دیر ہو تو روٹی سے کھانے کا آغاز کر لینا بہتر ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الكراهية، فصل في الأكل والشرب 8/ 208:
وينبغي أن لا ينتظر الإدام إذا حضر الخبز، ويأخذ في الأكل قبل أن يأتي الإدام.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به 5/ 337:
ومن إكرام الخبز أن لا ينتظر الإدام إذا حضر، كذا في الاختيار شرح المختار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:603
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




مال حرام والے کے ہاتھ کوئی چیز بیچنا یا اس کے ساتھ مزدوری کرنا:

سوال:
   ایک آدمی سودی کاروبار کرتا ہے، اس کے ہاتھ کوئی خرید وفروخت کرنا، جبکہ وہ قیمت مالِ حرام سے دے رہا ہو، نیز اس کے ساتھ مزدوری کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   جس شخص کا اکثر یا سارا حرام ہو، اس کے ہاتھ کوئی چیز بیچنا جائز ہے، مگر مال حرام سے قیمت وصول کرنا جائز نہیں، بلکہ خریدار سے حلال مال کا مطالبہ کرنا ضروری ہے، تاہم اگر اس نے مال حرام کے بدلے کوئی چیز خریدی، لیکن بعد میں حلال مال سے ادائیگی کردی یا خریدتے وقت مال حرام اس کے پاس موجود نہیں تھا اورمطلقا اس نے کوئی چیز خرید لی اور بعد میں مال حرام سے ادائیگی کردی یا معاملہ کے وقت بائع کو علم نہیں تھا اور بعد میں مشتری نے مال حرام سے ادائیگی کردی تو تینوں صورتوں میں امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق یہ معاملہ درست ہے اور وصول شدہ پیسوں کا استعمال جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ اس قسم کے مال سے بھی اجتناب کیا جائے۔
ایسے ہی جس شخص کا سارا یا اکثر مال حرام ہو، اس کے ہاں مزدوری کرنا جائز ہے، لیکن اجرت لیتے وقت اگر اس نے صراحتا یہ نہ کہا ہو کہ یہ مال حرام ہے تو اسے لے کر استعمال کی گنجائش ہے، تاہم جس آدمی کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ اس کا اکثر مال حرام ہے تو اس کے ہاں مزدوری کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

حوالہ جات:
1. فقه البیوع للشیخ المفتي تقي العثماني، خلاصة البحث 2/ 1052:
   المال المغصوب وما في حكمه مثل ما قبضه الإنسان رشوة أو سرقة أو بعقد باطل شرعاً، لا يحل له الانتفاع به، ولا بيعه وهبته، ولا يجوز لأحد يعلم ذلك أن يأخذه منه شراء أو هبة أو إرثاً.
2. أيضا 2/ 1054:
إن لم يُعرف في المخلوط من الحلال والحرام أنهما متميزان أو مختلطان، وكم حصة الحلال في المخلوط؟ فالأولى التنزه، ولكن يجوز التعامل بذلك المخلوط إذا غلب على الظن أن المتعامل به لا يتجاوز قدر الحلال.
3. رد المحتار، مطلب: اذا اكتسب حراما إلخ 244/4:
(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ 

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:602
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




بچی کے لیے پردہ کرنے کی عمر:

سوال:
   لڑکی کو کس عمر میں پردہ کرنا چاہیے؟
جواب:
   بچی پر پردہ کی فرضیت تو دیگر احکام کی طرح بالغ ہونے کے ساتھ ہی ہوتی ہے، چاہے وہ جس عمر میں بالغ ہوجائے، تاہم جب نو (9) برس کی ہوجائے تو اس کو بڑی چادر پہنا دینی چاہیے اور جب گیارہ سال کی ہوجائے تو باہر نکلتے وقت اس کو برقع پہنا کرپردہ کرانے کی عادت ڈال دینی چاہیے، اور پندرہ سال کی عمر میں مکمل پردہ کروانا ضروری ہے، اگرچہ ابھی بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں۔

حوالہ جات:
1. قوله تعالى:
   وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إلخ.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له 5/ 329:
   والتي بلغت حد الشهوة فهي كالبالغة لا تعرض في إزار واحد… فإن كانت لا تشتهى لا بأس بمصافحتها ومس يدها، كذا في الذخيرة.
4. فيه أيضا، كتاب الحجر، الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ 5/ 61:
   وأدنى مدة البلوغ بالاحتلام ونحوه في حق الغلام اثنتا عشرة سنة، وفي الجارية تسع سنين.
5. الدر المختار مع رد المحتار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب الحضانة 3/ 567:
   وقدر بتسع وبه يفتى، وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (قوله: مشتهاة اتفاقا) بل في محرمات المنح: بنت تسع فصاعدا مشتهاة اتفاقا، سائحاني.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:600
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123 کیا عورت ڈرائیونگ کر سکتی ہے؟

سوال:
عورت اپنے بال بچوں کو اسکول پہنچانے کے لیے ڈرائیونگ کر سکتی ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ قران و حدیث میں خواتین کو اپنے گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے خواتین کو اپنے گھروں سے نہیں نکلنا چاہیے، خاص طور سے خواتین کا خود گاڑی چلانا اور بھی زیادہ فتنہ کا باعث ہے، اس لیے خواتین کو حتی الامکان خود ڈرائیونگ نہیں کرنی چاہیے تاہم اگر مجبوری ہو اور کوئی مرد موجود نہ ہو، تو چند شرائط کا خیال رکھتے ہوئے خواتین ڈرائیونگ کر سکتی ہیں: (1) با پردہ ہو کر گھر سے نکلیں (2) حتی الامکان اکیلی نہ جائیں (3) بن سنور ہو کر اور خوشبوں لگا کر نہ نکلیں (4) اپنے خاوند یا سرپرست کی اجازت سے نکلیں۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالى، سورة نمبر 33، آية نمبر 33:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الكراهية، فصل في اللبس 8/ 215:
ولا تركب امرأة مسلمة على السرج لقوله – عليه الصلاة والسلام – «لعن الله السروج على الفروج» هذا إذا ركبت متلهية أو متزينة لتعرض نفسها على الرجال.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة، مطلب: فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس 6/ 423:
لا تركب مسلمة على سرج للحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لا بد لها منه فلا بأس به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:600
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123چور سے مالی جرمانہ لینا

سوال:
چور سے چوری کا مال لینے کے بعد بطور جرمانہ کچھ رقم لے کر مدرسہ میں خرچ کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
چور سے صرف وہ مال لینا جائز ہے، جو اس نے چوری کی ہے، اس کے علاوہ اس سے مالی جرمانہ لینا اور اس کو مدرسہ میں خرچ کرنا دونوں باتیں ناجائز ہیں۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحدود، باب التعزير 4/ 61:
أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر، ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة، إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الحدود، فصل في التعزير 5/ 44:
التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ اهـ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:599
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123تعویزیا جھاڑ پھونک پر معاوضہ لینا

سوال:
جھاڑ پھونک اور تعویذ یعنی عملیات پر پیسے لینا کیسا ہے؟
جواب:
تعویز یا جھاڑ پھونک پر اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ تعویز میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں۔

حوالہ جات:
لما في  صحيح البخاري كتاب الطب، باب رقية العين: الرقم: 2242:
أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم  مروا بماء فيهم لديغ، أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق؟ إن في الماء رجلا لديغا، أو سليما، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك، وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة فقالوا: يا رسول الله: أخذ على كتاب الله أجرا، فقال رسول الله  صلى الله عليه وسلم: إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله.
وفي عمدة القاري لبدر الدين العينى، كتاب الإجارة، باب ما يعطى في الرقية على أحياء العرب بفاتحة الكتاب 12/ 96:
أن الرقية ليست بقربة محضة، فجاز أخذ الأجرة عليها … وقال بعض أصحابنا: ومعنى قوله صلى الله عليه وسلم: (إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله) ، يعني: إذا رقيتم به.
وفي الرد المحتار لابن عابدين، كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة 6/ 57:
لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن، كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:598
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-11

 




@123بغیر اجازت کسی کی کوئی چیز فروخت یا ہبہ کرنا

سوال:
زید نے بکر کی کتاب اس کی اجازت کے بغیرخالد کو فروخت کی، یا ہبہ کی تو یہ بیع اور ہبہ درست ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ کسی کی چیز کو  اس کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا یا ہبہ کرنا درست نہیں ، لہذا مذکورہ دونوں صورتوں میں یہ معاملہ بکر کی اجازت پر موقوف رہےگا، اگر اس نے بخوشی اجازت دے دی تو یہ معاملہ درست ہوجائے گا، ورنہ درست نہیں ہو گا ۔

حوالہ جات:
لما في  سنن الدارقطني، كتاب البيوع، الرقم: 2885:
عن أنس بن مالك , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه».
وفي  البناية شرح الهداية لبدر الدين العينى، كتاب البيوع 8/ 3:
ومنها شرط النفاذ، وهو الملك أو الولاية.
وفي البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب البيوع، فصل في بيع الفضولي 6/ 160:
(ومن باع ملك غيره فللمالك أن يفسخه، ويجيزه إن بقي العاقدان، والمعقود عليه، وله، وبه لو عرضا) يعني أنه صحيح موقوف على الإجازة بالشرائط الأربعة.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الهبة، فصل في شرائط ركن الهبة 6/ 119:
(ومنها) أن يكون مملوكا للواهب فلا تجوز هبة مال الغير بغير إذنه لاستحالة تمليك ما ليس بمملوك وإن شئت رددت هذا الشرط إلى الواهب وكل ذلك صحيح لأن المالك والمملوك من الأسماء الإضافية والعلقة التي تدور عليها الإضافة هي الملك فيجوز رد هذا الشرط إلى الموهوب ويجوز رده إلى الواهب في صناعة الترتيب فافهم وسواء كان المملوك عينا أو دينا فتجوز هبة الدين لمن عليه الدين قياسا واستحسانا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:579
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-11

 




@123بتوں کی خرید و فروخت کا حکم

سوال:
لوہے کا بنا ہوا بت خریدنا یا فروخت کرنا کیسا ہے؟
جواب:
بت چاہے لوہے کا بنا ہوا ہو یا کسی اور دھات کا اس کی خرید وفروخت اور اس سے حاصل شدہ منافع ناجائز اور حرام ہے۔

حوالہ جات:
لمافي سنن أبي داود،  كتاب البيوع،  باب في ثمن الخمر والميتة، الرقم: 3486:
عن جابر بن عبد الله، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عام الفتح وهو بمكة: إن الله عز وجل حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام.
وفي عمدة القاري لبدر الدين العينى، باب بيع الميتة والأصنام 12/ 55:
لا يجوز بيع الميتة والأصنام لأنه لا يحل الانتفاع بها ووضع الثمن فيها إضاعة مال، وقد نهى الشارع عن إضاعته.
وفي مرقاة المفاتيح لملاعلي القاري، كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال 5/ 1895:
(حرم بيع الخمر) … وكذا معنى قوله: والميتة والخنزير والأصنام) : أي وإن كانت من ذهب أو فضة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:578
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-11

 




@123”كلما تزوجت امرأة فهي طالق ”والے الفاظ سے طلاق واقع ہو نے کا حکم


سوال:

 کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک طالب ِ علم  نے طالبِ علمی کے زمانے میں یہ الفاظ ذہن میں گونج رہے تھے کہ جس کا ایک مرتبہ  بلا اختیار منہ سے اظہار ہوگیا ”کلما تزوجت امرأة فهي طالق ” جبکہ قصد وارادہ نہیں تھا تو اس پر کوئی حکمِ شرعی مرتب ہوگا یا نہیں، اگر ہوگا تو چھٹکارہ کیسے ہوگا؟
جواب:
مذکورہ صورت میں جب بھی یہ طالب علم نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو گی، کلما کی طلاق سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک اجنبی شخص اس طالب کے حکم کے بغیر اس کا نکاح کردے اور جب طالب علم کو خبر ہوجائے تو زبان سے کچھ  کہے بغیر وہ اپنے عمل سے  اس نکاح کو نافذ کردے، مثلا مہر کی ادائیگی کرے اس طرح نکاح درست  ہو جائے گا اور طلاق بھی واقع نہ ہو گی۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، ص: 206:
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا … (أو مخطئا) بأن أراد التكلم بغير الطلاق فجرى على لسانه الطلاق أو تلفظ به غير عالم بمعناه أو غافلا أو ساهيا أو بألفاظ مصحفة يقع قضاء فقط، بخلاف الهازل واللاعب فإنه يقع قضاء وديانة، لان الشارع جعل هزله به جدا.
وفي الرد المحتار لابن عابدين، كتاب الأيمان، باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك 3/ 846:
(حلف لا يتزوج فزوجه فضولي فأجاز بالقول حنث وبالفعل) ومنه الكتابة خلافا لابن سماعة (لا) يحنث به يفتى خانية (ولو زوجه فضولي ثم حلف لا يتزوج لا يحنث بالقول أيضا) اتفاقا لاستنادها لوقت العقد (كل امرأة تدخل في نكاحي) أو تصير حلالا لي (فكذا فأجاز نكاح فضولي بالفعل لا يحنث) بخلاف (قوله فأجاز بالقول) كرضيت وقبلت نهر وفي حاوي الزاهدي لو هنأه الناس بنكاح الفضولي فسكت فهو إجازة (قوله حنث) هذا هو المختار كما في التبيين وعليه أكثر المشايخ والفتوى عليه كما في الخانية وبه اندفع ما في جامع الفصولين من أن الأصح عدمه بحر (قوله وبالفعل) كبعث المهر أو بعضه بشرط أن يصل إليها وقيل الوصول ليس بشرط نهر وكتقبيلها بشهوة وجماعها لكن يكره تحريما لقرب نفوذ العقد من المحرم بحر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:577
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-11