Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

@123تجارتی مارکہ(Trade Mark)کی خرید وفروخت کی شرعی حیثیت

سوال:
آج کل تجارتی مارکہ کی خریدو فروخت شروع  ہوئی ہے، کیا  تو یہ جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ تجارتی مارکہ (Trade  Mark) آج کل تاجروں کے ہاں ایک قیمتی مال بن چکا ہے، کیونکہ کمپنی والے یا کوئی ادارہ جو مال تیار کرتے ہیں، اس پر اپنا ایک مارکہ لگاتے ہیں، جو اس کمپنی کی پہچان ہوتی ہے اور حکومتی سطح پر اس کی رجسٹریشن ہوتی ہے، جس میں کافی محنت لگتی ہے اور پھر کسی دوسرے شخص یا کمپنی کے لیے اس مارکہ کا استعمال قانونا جرم ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی مارکہ ایسا ہو جو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، تو اس کی خرید و فروخت جائز ہے،  لیکن یہ ضروری ہے کہ خریدار اعلان کرے کہ اب اس چیز کے بنانے والے ہم  ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ پہلے والے معیار کو بھی بر قرار رکھے اور لوگوں کو نام سے دھوکہ دے کر غیر معیاری چیز فروخت نہ کرے۔

حوالہ جات:
لما في فقه البيوع محمد تقي العثماني،المبحث الثالث في أحكام المبيع والثمن، الشرط الأول مالية البيع 1/ 276:
ويبدو لهذ ا العبد الضعيف عفاالله عنه أنّ حق الاسم التجاري؛ والعلامات التجارية، وان كان في الأصل حقا مجردا غير ثابت في عين قائمة، ولكنه بعد التسجيل الحكوميّ، الّذي يتطلب جُهدا كبيرا وبذل أموال جمة، والذي تحصل له بعد ذلك صفة قانونية تمثلها شهادت  مكتوبة بيد الحامل، و في دفاتر الحكومة، أشبه الحق المستقر في العين، والتحق في عرف التجار بالأعيان، فينبغي أن يجور الاعتياض عنه على وجه البيع أيضا، ولاشك أن للعرف العام مجالا في إدراج بعض الأشياء في الأعيان لأالمالية، كما يقول: ابن عابدين رحمه الله تثبت بتمول الناس، وهذا مثل القوة الكهر بائية، أو الغاز التى لم تكن في الأزمان السالفة تُعد من الأموال؛ والأعيان المتقوّمة، لأنها ليست عينا قائمة بذاتها، ولم يكن إحرازُها في الوسعة البشرية، ولكنها صارت الآن من أعزّ الأموال المتقومة التى لاشبهة في جوازها بيعها وشراءها، وذلك لنفعها البالغ ولإمكان إحرارها ولتعارف الناس بماليتها وتقومها، فكذلك الاسم التجاري أو العلامة التجارية أصبحت بعد التسجيل الحكومىّ ذات قيمة بالغة في عرف التجّار، ويصدق  عليها أنها تحرز بإحراز شهادتها المكتوبة من قبل الحكومة، وإحراز كل شيء بما يلائمة، ويصدق عليها أيضا أنها تدخر لوقت الحاجة، فالعناصر اللازمة التى تمنع الشيء صفة المالية متوفرة فيها، سوى أنها ليست عينا قائمة بنفسها، فيبدو أنه لامانع شرعا من أن يسلك بها مسلك الأموال في جواز بيعها وشراءها.
و في الدر المختار للحصكفي، كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية 4/ 518:
لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف، وفيها في آخر بحث تعارض العرف مع اللغة، المذهب عدم اعتبار العرف الخاص لكن أفتى كثير باعتباره.
و فيه أيضا، كتاب البيوع، مطلب في تعريف المال والملك والمتقوم 4/ 501:
والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:614
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123بیوی کے مطالبہ پر طلاق دینے سے کون سی طلاق واقع ہوگی؟

سوال:
میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا تھا، بیوی بار بار مطالبہ کررہی تھی کہ مجھے طلاق دے دے، شوہر غصہ میں آکر بیوی سے کہتا ہے کہ دے دی، تو اس صورت میں کتنی طلاقیں اور کون سی طلاق واقع ہوئی ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں بیوی کی طرف سے طلاق کے مطالبہ پر شوہر کا یہ کہنا ”دے دی“ ان الفاظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر چاہے، تو رجوع کرسکتا ہے، چاہے زبان سے کہہ دے، کہ میں نے تجھ کو دوبارہ اپنی بیوی بنالیا، یا  زبان سے کچھ کہے بغیر عملی طور پر ہمبستر ہو یا شہوت کے ساتھ بوس و کنار کرلیں، تو اس سے دوبارہ عقد نکاح خود بخود قائم ہو جائے گا۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، فصل في الطلاق قبل الدخول 3/ 315:
ولو قالت: طلقني طلقني طلقني، فقال: طلقت فواحدة، إن لم ينو الثلاث، ولو قالت: بحرف العطف طلقت ثلاثا.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب طلاق غير المدخول بها 3/ 294:
ولو قالت: طلقني طلقني طلقني، فقال: طلقت فواحدة إن لم ينو الثلاث، ولو عطفت بالواو فثلاث.
وفی البناية لبدر الدين العينى، كتاب الطلاق، باب تفويض الطلاق 5/ 409:
ولو قالت: طلقني طلقني طلقني،  بغير واو فطلق الزوج، فإن نوى واحدة فواحدة، وإن نوى ثلاثا فثلاثا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:613
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123بیوی کی سوتیلی ماں کو ایک نکاح میں جمع کرنا

سوال:
زید نے ہندہ سے نکاح کرنے کے بعد صحبت بھی کرلی،  اب زید سسر کی  وفات کے بعد  ہندہ  کی سوتیلی ماں یعنی سسر  کی دوسری  بیوی سے بھی  نکاح  کرنا چاہتا ہے، تو یہ جائز  ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں زید کا نکاح ہندہ کی سوتیلی ماں سے  درست ہے؛ کیونکہ ان دونوں کے درمیان حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في شرح مختصر الطحاوي لأبي بكر الجصاص، كتاب النكاح، باب ما يحرم نكاحه، وما يحرم الجمع بنسب 4/ 333:
(ولا بأس بالجمع بين امرأة وبين زوجة أبيها).
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 3/ 162:
وقيد بقوله: أية فرضت لأنه لو جاز نكاح إحداهما على تقدير مثل المرأة وبنت زوجها، أو امرأة ابنها، فإنه يجوز الجمع بينهما عند الأئمة الأربعة، وقد جمع عبد الله بن جعفر بين زوجة علي وبنته، ولم ينكر عليه أحد، وبيانه أنه لو فرضت بنت الزوج ذكرا بأن كان ابن الزوج لم يجز له أن يتزوج بها؛ لأنها موطوءة أبيه، ولو فرضت المرأة ذكرا لجاز له أن يتزوج ببنت الزوج؛ لأنها بنت رجل أجنبي.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 4/ 180:
فجاز الجمع بين امرأة وبنت زوجها أو امرأة ابنها، أو أمة، ثم سيدتها، لانه لو فرضت المرأة أو امرأة الابن أو السيدة ذكرا لم يحرم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:612
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12

 




@123بالغہ لڑکی کا نکاح ا س کی رضامندی کے بغیر کسی سےکرنا کیسا ہے؟

سوال:
زید نے اپنی نابالغ  بیٹی کی منگنی خالد کے ساتھ کی تھی، جس میں نکاح کا مجلس باقاعدہ منعقد نہیں ہوا تھا، اب بیٹی بالغ ہوگئی ہے، اور خالد کے ساتھ رشتہ پر راضی نہیں ہے، اب اس کا حل کیا ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ منگنی کی شرعی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہے، حقیقی نکاح نہیں، لہٰذا مذکورہ صورت میں زید کی بیٹی اگر اس رشتہ پر راضی نہ ہو، تواس  کا نکاح خالد سے نہیں کرانا چاہیے، بلکہ کسی اور مناسب مرد سے  کرلینا چاہیے،  چنانچہ اگر اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح خالد سے کیا گیا، اور حسب سابق لڑکی اس پر رضامند نہ ہو، تو یہ نکاح شرعا معتبر نہیں ہوگا ۔

حوالہ جات:
لما في تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء 2 / 118:
ولا تجبر بكر بالغة على النكاح) يريد به أنه لا يزوجها بغير رضاها، فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها عندنا.
وفي البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء في النكاح 3/ 118:
(قوله ولا تجبر بكر بالغة على النكاح) أي: لا ينفذ عقد الولي عليها بغير رضاها عندنا.
وفي  النهر الفائق لسراج الدين عمر بن إبراهيم لابن نجيم، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء 2/ 202:
(ولا تجبر بكر بالغة على النكاح) لأنها حرة مخاطبة فلا يكون لغيرها عليها ولاية، وإنما ملك الأب قبض الصداق برضاها دلالة.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي 3/ 58:
(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ، (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:611
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123درخت کے پتوں اور ہڈی کے ساتھ استنجا کرنا

سوال:
ہری گھاس، درخت کے پتوں اور ہڈی کے ساتھ استنجا کرنا کیسا ہے؟
جواب:
ہری گھاس اور درخت کے پتوں سے استنجا کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔

حوالہ جات:
لما في تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب الطھارة 1/ 78:
قال: (لا بعظم وروث وطعام ويمين) أي: لا يستنجي بهذه الأشياء «لنهيه – عليه الصلاة والسلام – عن الاستنجاء بعظم وروث ويمينه … وقال في الغاية: يكره الاستنجاء بعشرة أشياء العظم والرجيع والروث والطعام واللحم والزجاج والورق والخزف وورق الشجر والشعر.
وفي درر الحكام لملا خسرو، كتاب الطهارة، فصل في الاستنجاء 1/ 49:
(ويكره بعظم)؛ لأنه زاد الجن كما ورد في الحديث (وطعام) للإنسان؛ لما فيه من تحقير المال المحترم شرعا، وللبهائم كالحشيش؛ لما فيه من تنجيس الطعام بلا ضرورة (وروث)؛ لأنه نجس، فينافي التنقية … ولو استنجى بالأشياء المذكورة جاز؛ لأن النهي لمعنى في غيره، فلا ينافي الشرعية في الجملة.
وفي مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالی، كتاب الطهارة، فصل في ما يجوز به الاستنجاء إلخ 1/ 26:
ويكره الاستنجاء بعظم وروث؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: “لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام؛ فإنهما زاد إخوانكم من الجن” فإذا وجدوهما صار العظم كأن لم يؤكل، فيأكلونه وصار الروث شعيرا وتبنا لدوابهم معجزة للنبي صلى الله عليه وسلم، والنهي يقتضي التحريم “وطعام لآدمي أو بهيمة” للإهانة والإسراف.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:610
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




کرسی پر بیٹھ کر کھانے کے لیے میز اور ٹیبل استعمال کرنا:

سوال:
   کرسی پر بیٹھ کر میز پر کھانا کھانا خلافِ سنت ہے یا نہیں؟ اس طرح چارپائی کا کیا حکم ہے۔
جواب:
   اگرچہ نبی کریم ﷺ کی عادت شریفہ یہی تھی کہ آپ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے لیکن چونکہ آپ ﷺکا اس طرح کھانا کھانا بطورعادت کے تھا، بطور عبادت کے نہیں تھا، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے باقاعدہ نہ اس کا حکم فرمایا اور نہ اس کے خلاف کرنے والے پر کوئی نکیر فرمائی، لہذا میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا جائز ہے، نیز ایک زمانہ میں یہ کفار کے ساتھ مخصوص تھا، جس کی وجہ سے اس وقت کے علماء نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا تھا، لیکن چونکہ اس کا استعمال بالکل عام ہوچکا ہے اور کفار کے ساتھ مخصوص نہ رہا، اس لیے اب اس ممانعت کی بھی وجہ نہ رہی۔ تاہم آپ ﷺ کی عادت شریفہ کی بنیاد پر کوئی آپ ﷺ کی اتباع میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھائے تو موجب ثواب اور باعث برکت ہے۔ 

حوالہ جات:
1. صحيح البخاري، كتاب الأطعمة، باب الخبز المرقق والأكل على الخوان والسفرة، الرقم: 5386:
عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه، قال: «ما علمت النبي صلى الله عليه وسلم أكل على سكرجة قط، ولا خبز له مرقق قط، ولا أكل على خوان قط» قيل لقتادة: فعلام كانوا يأكلون؟ قال: «على السفر».
2. مرقاة المفاتيح، كتاب الأطعمة، الرقم: 4169:
قال التوربشتي: الخوان الذي يؤكل عليه معرب، والأكل عليه لم يزل من دأب المترفين وصنيع الجبارين لئلا يفتقروا إلى التطاطؤ عند الأكل.
3. الترغيب والترهيب لزكي الدين المنذري،كتاب الطعام وغيره، باب الترغيب في غسل اليد قبل الطعام وبعده 3/ 152:
   كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى بطعام وضعه على الأرض، فهذا أقرب للتواضع.
4. الكوكب الدري لرشيد أحمد الكنكوهي، أبواب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 3/ 4:
   والحاصل أن الأكل عليه بحسب نفس ذاته لا يربو على ترك الأولوية، فأما إذا لزم فيه التشبه باليهود أو النصارى كما هو في ديارنا كان مكروهًا تحريميًا، وأما إذا لم يكن على دأبهم فلا يخلو أيضًا عن تفويت منافع…وقال المناوي: يعتاد المتكبرون من العجم الأكل عليه؛ لئلا تنخفض رؤوسهم فالأكل عليه بدعة، لكنه جائز إن خلا عن قصد التكبر، انتهى.
5. الموسوعة الفقهية الكويتية، حرف السين، سنة 25/ 265:
فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان:
سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.

   سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك.

.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:609
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




مالک کی اجازت کے بغیر کھیت یا باغ سے کسی کوکچھ دینا:

سوال:
   کسی نواب یا امیر کے باغ کے مالی نے اپنی طرف سے کسی کو سبزی دے دی تو اس کا لینا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی کا مال اس کی صراحتا یا دلالۃ اجازت کے بغیر کسی اور کو دینا درست نہیں، لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر مالی کو مالک نے اجازت دی ہو کہ تم کسی کو یہاں سے سبزی دے سکتےہو، یا اس کو یقین ہو کہ اگر میں مالک کی اجازت کے بغیر کسی کو سبزی دے دوں، تو بھی وہ ناراض نہیں ہوگا، بلکہ خوش ہوگا، تو دونوں صورتوں میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر ایسی صورتِ حال نہ ہو، تو مالک کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دینا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. سنن الدارقطني لعلي بن عمر البغدادي، كتاب البيوع الرقم: 2885:
   عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه.
2. رد المختار لمحمد أمين ابن عابدين، كتاب الديات، باب ما یحدثه الرجل إلخ 6/ 593:
   لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه.
3. الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي الزَّبِيدِي، كتاب الشركة،  باب الشركة على ضربين إلخ 2/ 285:
   (قوله: ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه، وكل واحد منهما في نصيب صاحبه كالأجنبي)؛ لأن تصرف الإنسان في مال غيره لا يجوز إلا بإذن أو ولاية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:608
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




فحش تصاویر والے موبائل کے ساتھ نماز پڑھنا:

سوال:
   جس موبائل فون میں فحش تصاویر ہوں اس کو مسجد لے جانا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ موبائل فون میں محفوظ تصاویر کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے کہ اس میں یہ تصاویر صرف ڈیٹا کی شکل میں موجود ہوتی ہیں، سکرین پر نمایاں نہیں ہوتیں، لہذا ایسا موبائل مسجد لے جانا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 2/ 29:
   رجل في يديه تصاوير، وهو يؤم الناس لا تكره إمامته؛ لأنها مستورة بالثياب فصار كصورة في نقش خاتم، وهو غير مستبين اهـ . وهو يفيد أن المستبين في الخاتم تكره الصلاة معه، ويفيد أنه لا يكره أن يصلي، ومعه صرة أو كيس فيه دنانير أو دراهم فيها صور صغار؛ لاستتارها، ويفيد أنه لو كان فوق الثوب الذي فيه صورة ثوب ساتر له، فإنه لا يكره أن يصلي فيه؛ لاستتارها بالثوب الآخر، والله سبحانه أعلم.
3. الدر المختار للحصكفي مع ردالمحتار، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 1/ 648:
   لا يكره (لو كانت تحت قدميه) أو محل جلوسه، لأنها مهانة (أو في يده) عبارة الشمني بدنه؛ لأنها مستورة بثيابه (أو على خاتمه) بنقش غير مستبين، قال في البحر: ومفاده كراهة المستبين لا المستتر بكيس أو صرة أو ثوب آخر.
   وقال ابن عابدين تحت قوله: (لا المستتر بكيس أو صرة) بأن صلى ومعه صرة أو كيس فيه دنانير أو دراهم فيها صور صغار فلا تكره؛ لاستتارها، بحر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:607
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123وضع حمل کے وقت آسانی کے لیے پیٹ یا ران پر تعویذ باندھنا

سوال:
بچے کی پیدائش میں آسانی کے لیے عورت کے پیٹ یا ران میں تعویذ باندھنا کیسا ہے یعنی بے ادبی تو نہیں ہے؟
جواب:
شرعا تعویذ صرف وہ جائز ہے جو قران وحدیث سے اخذ شدہ آیات پر مشتمل ہو اور ایسی تعویذ ران یا پیٹ پر باندھنا بے ادبی ہے، اس لیے بوقت ضرورت کپڑوں میں کسی مناسب جگہ میں لگایا جائے تو کافی ہے، اگر اللہ تعالی نے اس سے حاجت پوری کرانی ہو تو جہاں بھی ہو اس کا اثر ظاہر ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في المصنف لأبي بكر بن أبي شيبة، كتاب الطب، في الرخصة في القرآن يكتب لمن يسقاه، الرقم: 23508:
عن ابن عباس، قال: إذا عسر على المرأة ولدها، فيكتب هاتين الآيتين والكلمات في صحفة، ثم تغسل، فتسقى منها ”بسم الله لا إله إلا هو الحليم الكريم، سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش العظيم“ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات 79/46] { كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ } [الأحقاف 46/35]
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الحظر والإباحة، باب التدوي والمعالجات 5/ 397:
ولا بأس بتعليق التعويذ ولكن ينزعه عند الخلاء، والقربان كذا في الغرائب.
وفي  فتح الباري ابن حجر العسقلاني، باب الرقى، 10/ 195:
أجمع العلماء على جواز الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:606
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123 یوم عاشوراء میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کا مصداق

سوال:
عاشوراء کے دن اپنے اہل پر خرچ کرنے میں ان کے لیے کپڑے خرید لینا بھی شامل ہے یا نہیں ؟
جواب:
واضح رہے کہ عاشوراء یعنی دس محرم کے روز اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے، لیکن کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ضرورت زندگی کے تمام اشیاء کو شامل ہے، لھٰذا اس لیے کپڑے بھی شامل ہے۔

حوالہ جات:
لما في المعجم الكبير للطبراني، الرقم: 10007:
عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من وسع على عياله يوم عاشوراء لم يزل في سعة سائر سنته.
و في در المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء 6/ 430:
بقوله «من وسع على عياله في يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته» فأخذ الناس منه أن وسعوا باستعمال أنواع من الحبوب، وهو مما يصدق عليه التوسعة. وقد رأيت لبعض العلماء كلاما حسنا محصله: أنه لا يقتصر فيه على التوسعة بنوع واحد بل يعمها في المآكل والملابس وغير ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:605
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12