Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

@123بیٹی پر خرچ کی ہوئی رقم کا داماد سے مطالبہ کرنا

سوال:
زید اپنی زوجہ کو سسرال میں رکھتا تھا اور اس کی بیوی کا کل خرچہ بیوی کے والدین اٹھاتے تھے، اب زید کی بیوی پر خرچ کی ہوئی رقم کا مطالبہ سسرال والے زید سے کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ بیوی کا خرچہ اگر پہلے سے میاں بیوی نے باہمی رضامندی سے طے کیا تھا، یا عدالت کی طرف سے متعین کیا گیا تھا، تو ایسی صورت میں گزشتہ ایام کا خرچہ دینا شوہر کے ذمہ قرض ہے، سسرال والے اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں، اور اگر باہمی رضامندی سے یا عدالت کی طرف سے متعین نہ تھا،تو اس خرچے کا شوہر سے مطالبہ کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
لمافي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، باب النفقة 3/ 55:
(ولا تجب نفقة مضت إلا بالقضاء أو الرضا) أي إذا مضت مدة، ولم ينفق عليها الزوج فلا شيء لها من ذلك إلا أن يكون القاضي فرض لها النفقة، أو صالحت الزوج على مقدار منها فيقضي لها بنفقة ما مضى، لأن النفقة صلة فلا تملك إلا بالقبض كرزق القاضي.
وفي رد المحتار لابن عابدین، مطلب في أخذ المرأة كفيلا بالنفقة 3 /582:
ولا تجب نفقة مضت إلا بالقضاء أو الرضا، لكن نقل بعده عن الواقعات لو قالت: إنه يريد الغيبة، وطلبت منه كفيلا ليس لها ذلك؛ لأن النفقة لم تجب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:624
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123نابالغ بچے کو زکوۃ دینا

سوال:
نابالغ بچے کو زکوۃ دینا جائز ہے؟ اور کیا اس سے زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
جواب:
واضح رہے کہ اگر نابالغ بچے کا باپ مالدار صاحب نصاب ہو تو نابالغ بچہ کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے اور اگر باپ غریب مستحق زکوۃ ہو اور نابالغ بچہ اتنا سمجھ دار ہو کہ زکوۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، تو اسے زکوۃ دینا درست ہے، اور اگر نابالغ بچہ اتنا سمجھ دار نہ ہو تو ایسی صورت میں بچے کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر اس کا ولی اس کی طرف سے زکوۃ قبضہ کرلے تو پھر جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع ردالمحتار، كتاب الزكاة، باب فروع في مصرف الزكاة 2/ 356:
دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز. قال ابن عابدين تحت قوله: (إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلا يصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، فصل ما يوضع في بيت المال من الزكاة 1/ 190:
ولو قبض الصغير، وهو مراهق جاز.
وفي التاتارخانية عالم بن العلاء الهندي،  كتاب الزكوة، الفصل الثامن من توضع فيه الزكاة 3/ 211:
سئل عبد الكريم عمن دفع زكاة ماله إلى صبي؟ قال: إن كان مراهقا يعقل الأخذ يجوز، وإلا فلا، وفي الخانية: وكذا لو كان الصبي يعقل القبض بأن كان لا يرمي به ولا يخدع عنه، م: ولو دفع إلى معتوه فهو على هذا التفصيل، وفي الحجة: ولو دفع أب الصبي، أو وصيه فدفعا إليه يجوز.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة 2/ 265:
وإنما منع من الدفع لطفل الغني؛ لأنه يعد غنيا بغناء أبيه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:623
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123قبرستان پر چھت ڈال کر مدرسہ بنانا

سوال:
چند معلوم مالکان کی قبرستان کے لیے زمین ہے، اور تمام مالکان راضی ہیں کہ مذکورہ زمین پر چھت ڈال کر مدرسہ تعمیر کیا جائے، کیا ایسی زمین پر چھت ڈال کر مدرسہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
اگر مذکورہ زمین قبرستان کے لیے وقف کی گئی ہو، تو اس پر چھت ڈال کر مدرسہ وغیرہ بنانا جائز ہے، البتہ چھت ڈال کر مدرسہ بنانے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
1: اگر وہ جگہ کسی کی مملوک ہو تو اس سے جازت لے کر، اور اگر وقف شدہ ہو تو باہمی مشورہ سے اس جگہ پلرز بنا کر چھت ڈالی جائے۔
2: جس جگہ پلرز لگائے جا رہے ہوں، وہاں قبریں نہ ہوں، اگر ہوں، تو وہ اتنی بوسیدہ ہو چکی ہوں کہ میت کے اجزاء وغیرہ باقی نہ رہے ہوں۔

حوالہ جات:
لمافي عمدة القاري لبدر الدين العينى، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية إلخ، 4/ 179 تحت الرقم: 84:
فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت، فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا، وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم، لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها، جاز صرفها إلى المسجد لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد، وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر، ولم يبق حوله جماعة، والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكا لأربابها، فإذا عادت ملكا، يجوز أن يبنى موضع المسجد دارا، وموضع المقبرة مسجدا وغير ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:622
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123وقف شدہ چیز واپس لینا

سوال:
ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کی ایک کرسی تھی، جس پر بیٹھ کر گھر میں نماز پڑھتا تھا، تو ورثاء نے وہ کرسی مسجد میں رکھی اور بعد میں ان کے رشتہ داروں میں ایک شخص کو ضرورت پڑی، تو انہوں نے وہ کرسی مسجد سے اٹھا کر اس رشتہ دار کو دی تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اگر ورثاء نے یہ کرسی مسجد کے لیے وقف کی تھی، تو اس کرسی کو مسجد سے واپس لینا اور اپنے رشتہ دار کو دینا جائز نہیں، اور اگر ویسے ہی استعمال کے لیے رکھی تھی تو مسجد سے اٹھا کر کسی اور کو دینا جائز ہے۔

حوالہ جات:

لما في درر الحكام لملا خسرو، كتاب الوقف 2/ 134:
لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه، لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه (ولا يعار، ولا يرهن) لاقتضائهما الملك.

وفي الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، کتاب الوقف، مطلب: في وقف المرتد والكافر 4/ 351:
فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن. قال ابن عابدين تحت قوله: (لا يملك) أي: لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي: لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:621
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123ذبح کرتے وقت جانور کا سرتن سے جدا کرنا

سوال:
جانور ذبح کرتے وقت اگر جانور کی گردن بھی کٹ جائے اور سر الگ ہو جائے، تو اس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟
حوالہ جات:
بوقتِ ذبح جانور کا سرتن سے جدا کرنا اگرچہ مکروہ ہے، تاہم ذبح شدہ جانور حلال ہوگا۔

حوالہ جات:
و في الدر المختارللحصكفي، كتاب الذبائح 6/ 296:
(و) كره كل تعذيب بلا فائدة مثل (قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد) أي تسكن عن الاضطراب.
وفي  تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الذبائح 5/ 292:
(وكره النخع وقطع الرأس والذبح من القفا) والنخع، هو أن يصل إلى النخاع، وهو خيط أبيض في جوف عظم الرقبة، وإنما كره ذلك.
و في البحر الرائق لزين الدين بابن نجيم، كتاب الذبائح 8/ 194:
(وكره النخع وقطع الرأس والذبح من القفاء) … وفي قطع الرأس زيادة تعذيب، فيكره ويكره أن يجر ما يريد ذبحه، وأن يسلخ قبل أن يبرد، ويؤكل في جميع ذلك، لأن الكراهة لمعنى زائد، وهو زيادة الألم فلا يوجب الحرمة، ويكره.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الذبائح 4/ 350:
ومن بلغ بالسكين النخاع، أو قطع الرأس كره له ذلك، وتؤكل ذبيحته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:620
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123 کام کے دوران مرنے والے مزدور کا ضمان کس پر ہے؟

سوال:
بلوچستان کے علاقوں میں اکثر مزدور لوگ کان کے اندر سے کوئلہ نکالتے ہوئے گیس یا حبس یا زمین تلے دب جانے کی وجہ سے وفات پا جاتے ہیں، تو اس صورت میں ٹھیکدار پر کوئی مالی معاوضہ لازم ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں ٹھیکدار پر کوئی مالی معاوضہ لازم نہیں ہے، اس لیے کہ ٹھیکدار کی طرف سے کوئی تعدی موجود نہیں ہے، اگر ٹھیکدار اپنی خوشی سے میت کے بیوی بچوں کو کچھ رقم دے، تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في عمدة القاري لبدر الدين العينى، كتاب الزكاة، باب في الركاز الخمس 9/ 101:
عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار وفي الركاز الخمس.
قوله: (والبئر جبار) معناه الرجل يحفر بئرا بفلاة أو بحيث يجوز له من العمران فيسقط فيها رجل أو يستأجر من يحفر له بئرا في ملكه فينهار عليه فلا شيى عليه، وكذا المعدن إذا استأجر من يحفره، وكذا في قوله: والبئر جبار، حذف تقديره: وسقوط البئر على الشخص جبار، أو: سقوط الشخص في البئر، وكذا التقدير في المعدن.
و في الأصل لمحمد بن حسن الشيباني، كتاب الصرف، باب الصرف في المعدن والكنز 3/ 36:
عن أبي هريرة قال: كان أهل الجاهلية إذا هلك الرجل في البئر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:619
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




تیمم کرکے نماز پڑھنے کے بعد پانی پر قادر ہونا یا صحت یاب ہونا:

سوال:
   اگر کوئی شخص تیمم کرکے نماز پڑھے، اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے یہ  شخص پانی کے استعمال پر قادر ہوگيا، یعنی اس کو پانی مل گیا، تو کیا اس کے ذمہ وضوبنا کر دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب:
   اگرتیمم کی شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے، کسی نے تیمم کرکے نما ز پڑھ لی اور نماز کا وقت ابھی ختم نہیں ہواتھا کہ پانی مل گیا یا بیمار صحتیاب ہوا تو اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہے، البتہ اگر ابھی نماز نہ پڑھی ہو،  اور پانی مل جائے یا صحتیاب ہوجائے،  تو وضو کرکے نماز پڑھنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/ 440:
   (من عجز) مبتدأ، خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعد)، ولو مقيما في المصر (ميلا) … (تيمم).
2. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، باب التيمم1/ 70:
   ولو صلی بالتیمم، ثم وجد الماء في الوقت، لا يعيد.
3. كتاب الأصل للإمام محمد بن حسن الشيباني، كتاب الصلاة، باب التيمم بالصعيد 1/ 85:
   قلت: أرأيت مسافرا تيمم في أول الوقت، وصلى، ولم ينتظر إلى آخر الوقت، ثم وجد الماء بعد ما سلم، قال:صلاته تامة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:618
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123 طلاق کو دوسری شادی پر معلق کرنا

سوال:
کسی شخص نے اپنی بیوی کو کہا، کہ اگر میں نے دوسری شادی نہیں کی، تو تجھے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے، اور اب تک اس نے دوسری شادی نہیں کی ہے، تو اس سے طلاق واقع ہوگئی یا نہیں ؟
جواب:
مذكوره صورت میں اس شخص کے مرنے تک اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ اس نے دوسری شادی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا اس لیے موت تک دوسری  شادی کرنے کی توقع ہے، البتہ اگر اس نے ساری زندگی دوسرا نکاح نہیں کیا، تو جب شوہر کا انتقال ہو رہا ہو، اس وقت یہ شرط پائے جانے کی صورت میں اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔

حوالہ جات:
ولما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الإعتاق، فصل في شرائط ركن الإعتاق  4/ 83:
إذا قال: لامرأته إن لم أتزوج عليك فأنت طالق، ولم يتزوج حتى مات أنه يقع الطلاق على امرأته مقتصرا على الحال؛ لأن هناك علق الطلاق صريحا بعدم التزوج.
و في المحيط البرهاني برهان الدين محمود بن أحمد، كتاب الطلاق، الفصل السابع والعشرون في المتفرقات 3/ 500:
قال: لامرأته إن لم أتزوج عليك وآتيك بها حتى تنظري إليها فأنت طالق، فأتى بها فلم تنظر إليها قال: لا تطلق؛ لأن النظر ليس بغاية، وكذلك إن قال: لها إن لم آتيك بثوب أو لبسة فأنت طالق، فأتاها غداً فلم تلبسه لم تطلق؛ لأن اللبس ليس بغاية لبسته غداً أو لم تلبسه لم تطلق.
وفي البحر الرائق  زين الدين بن إبراهيم ابن نجيم، كتاب الطلاق، باب طلاق المريض 4/ 52:
و قال: إن لم أتزوج عليك فأنت طالق ثلاثا، فلم يفعل حتى مات ورثته، ولو ماتت هي وبقي الزوج لم يرثها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:617
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




@123 تمباکو کی کھیت پکنےکے بعد فروخت کرنے کاحکم

سوال:
اگر کسی نے تمباکو کی کھیت پکنے کے بعد فروخت کردی، تو عشر خریدنے والے پر ہوگا یا فروخت کرنے والے پر؟
جواب:
فصل پكنے کے بعد فروخت کرنے کی صورت میں اس کا عشر فروخت کرنے والے پر ہوتا ہے، خریدنے والے پر نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ صورت میں فروخت کنندہ پر عشر پر واجب ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في ردالمختار لابن عابدين، كتاب الزكاة، باب العشر3/ 324:
ولو باع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري، ولو بعده فعلى البائع.
وفي الفتاوى الهنديه للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السادس في زكاة الزرع 1/ 206:
وإذا باع الأرض العشرية، وفيها زرع وقد أدرك مع زرعها أو باع الزرع خاصة، فعشره على البائع دون المشتري.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، فصل وأما شرائط المحلية فأنواع 2/ 175:
ولو باع الأرض العشرية وفيها زرع قد زرعها أو باع الزرع خاصة، فعشره على البائع دون المشتري.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 187:
ولو باع العنب أخذ العشر من ثمنه، وكذلك لو اتخذه عصيرا ثم باعه فعليه عشر ثمن العصير … ولا يأكل شيئا من طعام العشر حتى يؤدي عشره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:616
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12




تسبیح میں ریشم کے دھاگے کا استعمال کیسا ہے؟:

سوال:
تسبیح میں ریشم کے دھاگے کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ 
جواب:
جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. مجمع الأنهر عبد الرحمن بن محمد بداماد أفندي،كتاب الكراهية، فصل في اللبس 2/ 534:
   لو صلى على سجادة من الإبريسم لم يكره، فإن الحرام هو اللبس أما الانتفاع بسائر الوجوه، فليس بحرام.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس 6/ 354:
   ولا تكره الصلاة على سجادة من الإبريسم، لأن الحرام هو اللبس، أما الانتفاع بسائر الوجوه، فليس بحرام كما في صلاة الجواهر وأقره القهستاني وغيره قلت: ومنه يعلم حكم ما كثر السؤال عنه من بند السبحة فليحفظ.
3. الاختيار لتعليل المختار لعبد الله بن محمود، كتاب الكراهية 4/ 168:
   (ويحل للنساء لبس الحرير، ولا يحل للرجال إلا مقدار أربع أصابع كالعلم ).

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:615
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12