Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan Month: February 2024 - Darul Ifta Mardan

پانی کی باری فروخت کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   اگر کسی زمین کا صرف حق شرب یعنی پانی کی باری فروخت کی جائے، اور زمین فروخت نہ کی جائے، تو یہ جائز ہے؟ 
جواب:
   واضح رہے کہ جس زمین کو کسی نہر کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہو، اس نہر سے زمین کو سیراب کرنے کا یہ حق کسی اور کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اپنے اس حق سے دستبرداری کے عوض کچھ رقم وصول کرنا چاہے، تو اس کی گنجائش ہے ۔

حوالہ جات:
1. فقه البيوع محمد تقي العثماني، المبحث الثالث في أحكام المبيع والثمن، الشراط الرابع أن يكون المبيع مملوكا 1/ 137:
   وظاهر الرواية في مذهب الأحناف، أن بيع الشرب فاسد، وعلّلوه بأنه من حقوق المبيع، فلا يُفرد بالبيع، وبأنه مجهول.
2. الدر المختار للحصكفي،كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 5/ 78:
   ولا يجوز بيع مسيل الماء وهبته، ولا بيع الطريق بدون الأرض، وكذلك بيع الشرب.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلح 5/ 638:
   وصح الصلح عن دعوى حق الشرب، وحق الشفعة وحق وضع الجذوع على الأصح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:634
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




نمازِ تہجد کے دوران صبح صادق ہونے پر وہ نماز تہجد کی شمار ہوگی یا نہیں ؟:

سوال:
   کوئی نمازِ تہجد پڑھ رہا ہو، اس دوران فجر کی اذانیں شروع ہوجائیں، نماز سے فارغ ہوکر معلوم ہوا کہ دورانِ تہجد فجر طلوع ہوچکی تھی، تو یہ دو رکعت نفل نماز شمار ہوگی یا فجر کی سنتیں؟
جواب:
   تہجد پڑھتے وقت اگر فجر کی اذان شروع ہوجائے تو نماز کو ختم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نماز کو جاری رکھے، البتہ نماز ختم ہونے کے بعد دیکھا جائے کہ فجر کا وقت داخل ہوچکا ہے یا نہیں؟ اگر ابھی تک داخل نہیں ہوا تھا بلکہ اذان وقت سے پہلے ہوئی تھی تو تہجد ادا ہوگئی اور اگر واقعی وقت داخل ہوچکا تھا تو یہ دو رکعت ویسے ہی نفل ہوگئیں، فجر کی سنتیں الگ سے پڑھنی چاہیے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، مطلب يشترط العلم بدخول الوقت 2/ 45،44:
   لو صلى تطوعا في آخر الليل، فلما صلى ركعة طلع الفجر، فإن الأفضل إتمامها؛ لأن وقوعه في التطوع بعد الفجر لا عن قصد، ولا ينوبان عن سنة الفجر على الأصح.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لاتجوز فيها الصلاة، وتكره فيها 1/ 52:
   ومن صلی تطوعًا في آخر الليل، فلما صلى ركعة، طلع الفجر، كان الإتمام أفضل؛ لأن وقوعه في التطوع بعد الفجر لا عن قصد، ولا تنوبان عن سنة الفجر على الأصح، هكذا في السراج الوهاج والتبيين.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة 1/ 234:
   ولو شرع في النفل قبل طلوع الفجر، ثم طلع، فالأصح أنه لا يقوم عن سنة الفجر ولايقطعه؛ لأن الشروع فيه كان لا عن قصد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:633
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




حضور ﷺ کا سلسلۂ نسب حضرت آدم ؑ تک بیان کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ بعض لوگ حضورﷺ کا سلسلۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام تک بیان کرتے ہیں، کیا حضور ﷺ کا نسب حضرت آدم علیہ السلام تک صحیح روایات  سے ثابت ہے؟ 
جواب:
   واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ کا شجرۂ نسب معد بن عدنان تک صحیح روایات سے ثابت ہے، اور اس سے آگے شجرۂ نسب میں علماء اور مؤرخین  کا اختلاف  ہے، بعض نے حضرت اسماعیل علیہ السلام تک اور بعض نے حضرت آدم علیہ السلام تک بیان کیا ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب اپنے نسب کو بیان فرماتے تھے، تو عدنان سے تجاوزنہ فرماتے، عدنان تک پہنچ کر رُک جاتے اور یہ فرماتے: ”كَذَبَ النسَّابُونَ“ نسب دان غلط کہتے ہیں، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ عدنان کے بعد والا نسب نامہ بیان نہ کیا جائے۔

حوالہ جات:
1. صحىیح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب ما لقي النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه من المشركين بمكة، الرقم: 1637:
   محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصى بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر ابن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان.
2. جمع الجوامع للسيوطي، الرقم: 420:
   عن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا انتهى إلى معد بن عدنان أمسك؛ وقال: كذب النسابون، قال: الله تعالى: {وقرونا بين ذلك كثيرا} قال: ابن عباس: لو شاء رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يعلمه لعلمه.
3. عمدة القاري لبدر الدين العينى، كتاب المناقب، باب مبعث النبي صلى الله عليه وسلم 16/ 303:
   واقتصر البخاري في ذكر نسبه الشريف على هذا، ولم يذكره إلى آدم عليه السلام؛ لأن أهل النسب أجمعوا عليه إلى هنا، وما وراء ذلك فيه اختلاف كثير جدا، واختلفوا فيما بين عدنان وإسماعيل عليه السلام، من الآباء، فقيل: سبعة آباء بينهما، وقيل: تسعة، وقيل: خمسة عشر أبا، وقيل: أربعون.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:632
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




جو کا آٹا دے کر اس کے بدلے میں زیادہ مقدار میں جو واپس لینے کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   زید نے بکر سے جو کا آٹا قرض لیا ، تو اب زید کہتا ہے، کہ اس جو کے آٹے کے بدلے میں  تمہیں جو دیتا ہوں، لیکن بکر کہتا ہے کہ جو کے آٹے کے بدلے میں جودینے کی صورت میں چار کلو جو تمہیں زیادہ دینا ہوگا، کیونکہ آٹا پیسنے پر خرچہ آتا ہے، شرعا یہ مطالبہ کرنا کیسا ہے؟  
جواب:
  مذکورہ صورت میں زید نے بکر سے جتنی مقدار میں جو کا آٹا قرض لیا تھا، اتنی ہی مقدار میں جو کا آٹا واپس کرنا ضروری ہے، اس کے بدلے میں زیادہ مقدار میں جو واپس کرنا جائز نہیں، ورنہ سود ہوجائےگا۔

حوالہ جات:
1. سنن أبي داود، كتاب البيوع، باب في الصرف، الرقم: 3349:
عن عبادة بن الصامت: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ قال الذهب بالذهب تبرها وعينها، والفضة بالفضة تبرها وعينها، والبر بالبر مدي بمدي، والشعير بالشعير مدي بمدي، والتمر بالتمر مدي بمدي، والملح بالملح مدي بمدي، فمن زاد أو ازداد فقد أربى، ولا بأس ببيع الذهب بالفضة والفضة أكثرهما يدا بيد، وأما نسيئة فلا، ولا بأس ببيع البر بالشعير والشعير أكثرهما يدا بيد، وأما النسيئة فلا.
2. الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب البيوع، الفصل الأول في تفسير السلم وركنه وشرائطه وحكمه 3/ 180:
   (العاشر) أن لا يشمل البدلين أحد وصفي علة ربا الفضل وهو القدر أو الجنس.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب البيع، فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل قبضه 6/ 133:
ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل، والموزون والعددي المتقارب كالبيض، والجوز؛ لأن القرض مضمون بالمثل.

وفي رد المحتارلابن عابدين، كتاب البيوع، مطلب كل قرض جر نفعا حرام 5/ 167:
(قوله: استقراض العجين وزنا يجوز) هو المختار، مختار الفتاوى، واحترز بالوزن عن المجازفة، فلا يجوز، بحر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:631
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13

 




غسلِ جمعہ کا مسنون وقت:

سوال:
   جمعہ کے دن کس وقت غسل کرنا مسنون ہے؟ صبح کی نماز سے پہلے یا جمعہ کی نماز سے پہلے؟ 
جواب:
   جمعہ کے دن غسل کرنا مسنون ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے پہلے غسل کیا جائے کیونکہ غسلِ جمعہ سے مقصود یہ کہ اس کے ذریعہ سے پسینہ وغیرہ کی بدبو ختم ہوجائے اور اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو، لیکن اگر کسی نے شبِ جمعہ کو غسل کرلیا تو بھی سنت کا ثواب مل جائے گا، البتہ یہ ثواب نمازِ جمعہ کے بعد غسل کرنے سے حاصل نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع ردالحتار، كتاب الطهارة، سنن الغسل 1/ 339 :
   وسن لصلاة جمعة (و) لصلاة (عيد) هو الصحيح.
  قال ابن عابدين تحت قوله: (هو الصحيح) أي: كونه للصلاة هو الصحيح، وهو ظاهر الرواية، ابن كمال، وهو قول أبي يوسف، وقال الحسن بن زياد: إنه لليوم، ونسب إلى محمد، والخلاف المذكور جار في غسل العيد أيضا … لأن سبب مشروعيته دفع حصول الأذي من الرائحة عند الاجتماع، والحسن وإن قال هو لليوم، لكن بشرط تقدمه على الصلاة، ولا يضر تخلل الحدث بينه وبين الغسل.
2. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، باب فرائض الغسل1/ 48:
   الاغتسال على أحد عشر وجها… وأربعه منها  سنة: أحدهما غسل يوم الجمعه … ثم غسل الجمعة للصلاة عند أبي يوسفؒ، وهو الأصح، ولليوم عند الحسن بن زياد حتى لو لم يصل به ينال ثواب الغسل إذا وجد في اليوم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:630
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




قبرستان سے سبز گھاس وغیرہ کاٹنا:

سوال:
   قبرستان کی خود رو گھاس کاٹنا اور جانوروں کو کھلانا شرعا کیسا ہے؟:
جواب:
   قبرستان سے خشک گھاس اور خشک شاخیں کاٹنا درست ہے، لیکن سبز گھاس اور شاخیں کاٹنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ گھاس تسبیح کرتی ہے اور اس کی وجہ سے مرحومین پر رحمت نازل ہوتی ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السابع في الشهيد 1/ 167:
   ويكره قطع الحطب والحشيش من المقبرة فإن كان يابسا لا بأس به.
2. مراقي الفلاح الشرنبلالي، كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في زيارة القبور، ص: 230:
   “و” كره “قلع الحشيش” الرطب “و” كذا “الشجر من المقبرة” لأنه ما دام رطبا يسبح الله تعالى، فيؤنس الميت، وتنزل بذكر الله تعالى الرحمة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:629
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




سلام کے جواب میں ”ومغفرتہ“ کا اضافہ کرنا:

سوال:
   بعض لوگ سلام کا جواب دینے میں “وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته” کے بعد ”ومغفرته“ وغیرہ کا اضافہ کرتے ہیں، تو کیا ان الفاظ کا اضافہ کرنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ سلام کرنے یا اس کا جواب دینے میں ”ومغفرته“ کے الفاظ روایات سے ثابت نہیں، اس لیے سلام کرتے ہوئے یا جواب دیتے ہوئے ”ومغفرته“ کے الفاظ نہیں کہنے چاہیے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب السابع في السلام وتشميت العاطس 5/ 325:
   والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله، وبركاته، والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء، قال ابن عباس – رضي الله عنهما – لكل شيء منتهى، ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط.
2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره 6/ 414:
   والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء اهـ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:628
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123 بھنوؤں کے درمیان بالوں کاٹنا کیسا ہے؟

سوال:
اگر کسی مرد یا عورت کی بھنوویں ملی ہوئی ہوں، تو اس کو الگ کرنے کے لیے درمیان میں سے بال صاف کرنا جائز ہے؟
جواب:
دونوں بھنوؤں کے درمیان بال منڈانا یا کتروانا بغرض حصول زینت جائز نہیں، احادیث میں ایسے لوگوں پر لعنت کی گئی ہے، البتہ بھنوؤں کے بال اس قدر لمبے اور گھنے ہوں کہ معتاد بناوٹ سے تجاوز کرگئے ہوں یا دونوں بھنوؤں کے درمیان کا فاصلہ ختم ہو چکا ہو، تو بقدر ضرورت کچھ خراش تراش کرکے معتاد طریقے کے مطابق بنانے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
لما في صحیح المسلم، کتاب اللباس والزینة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة، الرقم 2125:
عن عبد الله، قال: «لعن الله الواشمات والمستوشمات، والنامصات والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله».
وفي الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس 6/ 372،373:
ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها لقوله – صلى الله عليه وسلم – «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». قال ابن عابدين تحت قوله (والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه  بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:627
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123مہرِ شرعی کی مقدار

سوال:
مہرِ شرعی کی مقدار آج کل کے حساب سے کتنی ہے؟
جواب:
مہرِ شرعی کی مقدار کم سے کم دس درہم (2 تولے ساڑھے سات ماشے چاندی) یا ان کی قیمت ہے، اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں، البتہ مہر اتنی مقرر کرنی چاہیے کہ اس کی ادائیگی ممکن ہو۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب المهر 3/ 101:
(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره «لا مهر أقل من عشرة دراهم» ورواية الأقل تحمل على المعجل (فضة وزن سبعة) مثاقيل كما في الزكاة (مضروبة كانت أو لا) ولو دينا أو عرضا قيمته عشرة وقت العقد.
وفي اللباب في شرح الكتاب عبد الغني بن طالب الحنفي، كتاب النكاح 3/ 14:
(وأقل المهر عشرة دراهم) وزن سبعة مثاقيل؛ سواء كانت مضروبة أو غير مضروبة، أو ما قيمته عشرة دراهم يوم العقد.
وفي  الهداية علي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب النكاح، باب المهر 1/ 198:
وأقل المهر عشرة دراهم.
وفي تبيين الحقائق عثمان بن علي الحنفي، كتاب النكاح، باب المهر 2/ 136:
أقل المهر عشرة دراهم، سواء كانت مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:626
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13




@123لے پالک بچی کو باپ کے بجائے اپنی طرف منسوب کرنا

سوال:
ایک بچی کا والد افغان جہاد میں شہید ہو گیاتھا، اور جلد ہی ان کی والدہ فوت ہوگئی، اس بچی کو میری بہن نے گود میں لے لیا، اس بچی کے والد اور والدہ کا نام معلوم نہیں، جس کی وجہ سے میری بہن اور بہنوئی نے اس بچی کو اپنا نام دیا ہے، اس بچی کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کیا اور شناختی کارڈ میں بھی اپنا نام والد کی جگہ درج کروایا، اسلامی نقطہ نظر سے رہنمائی درکار ہے۔
جواب:
چونکہ مذکورہ شخص اس بچی کا حقیقی والد نہیں ہے اس لیے بطور والد اس بچی کے کاغذات میں اپنا نام لکھنا درست نہیں، البتہ اس بچی کا شناختی کارڈ وغیرہ بناتے وقت اپنا نام اس کے کاغذات میں بطور سرپرست لکھوانا درست ہے۔

حوالہ جات:
قال الله تعالى: الأحزاب، سورة نمبر 33، آية نمبر 5:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.
وفي التفسيرالمظهري، الأحزاب، سورة نمبر 33، آية نمبر 5، 7/ 284:
فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آباءَهُمْ حتى تنسبوا اليه فَإِخْوانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوالِيكُمْ اى فهم إخوانكم فى الدين وأولياءكم فقولوا هذا أخي فى الدين.
وفي صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب غزوة الطائف، الرقم: 4326:
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن عاصم، قال: سمعت أبا عثمان، قال: سمعت سعدا، وهو أول من رمى بسهم في سبيل الله، وأبا بكرة، وكان تسور حصن الطائف في أناس فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالا: سمعنا النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم فالجنة عليه حرام».

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:625
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13