کرایہ پر دیے ہوئےگھرمیں زکوٰۃ کا حکم:
سوال:
ایک شخص ایک گھر میں رہتا تھا، پھر اس نے دوسرا گھر بنایا اور اس میں منتقل ہوگیا، پہلا والا گھر اب حوائج اصلیہ سے فارغ ہے، اور اس کو کرایہ پر دیا ہے، اب مالک کبھی کہتا ہے، اس پر مارکیٹ بناؤں گا اور کبھی کہتا ہے کہ اس کو بیچوں گا، اب اس گھر کی قیمت تقریبا ایک کروڑ روپے ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس گھر پر زکوٰۃ آئے گی یا نہیں؟
جواب:
چونکہ اس گھرکو خریدتے وقت اس میں تجارت کی نیت نہیں تھی، اس لیے اس کی مالیت پر زکوٰۃ فرض نہیں، البتہ اس کا کرایہ جمع ہو کر یا دیگر اموال زکوٰۃ کے ساتھ ملکر اگر بقدر نصاب بنتا ہو تو اس میں زکوٰۃ فرض ہوگی۔
حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة 2/ 364:
ولو آجر عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة، لا تجب ما لم يحل الحول بعد القبض.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزکاة 3/ 214:
(فلا زكاة على مكاتب)… (ولافي ثياب البدن) … (وأثاث المنزل و دور السكنى ونحوها) وكذا الكتب و إن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.
قال: ابن عابدين تحت قوله: (ونحوها) أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها وكالحوانيت والعقارات.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:686
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16