لے پالک بیٹے کو غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنا:
سوال:
اولاد کسی کو دینا کیسا ہے، اور حقیقی والد کی جگہ سوتیلا باپ کا نام ڈومیسائل وغیرہ میں درج کرنا کیسا ہے؟
جواب:
کسی بچے کو لے پالک بنانا درست ہے، تاہم شریعت کی رو سے حقیقت میں وہ اس شخص کا بیٹا اور وہ شخص اس کا باپ نہیں بنتا، بلکہ اس بچے کا حقیقی باپ وہی ہے جس کے نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے اور بچے کا نسب بھی اس حقیقی باپ سے ثابت ہوگا، لہٰذا ڈومیسائل وغیرہ میں حقیقی باپ کی جگہ پرورش کرنے والے شخص کا نام لکھنا جائز نہیں، ایک روایت کے مطابق ایسے پر شخص پر جنت کو حرام کیا گیا ہے جس کی نسبت غیر باپ کی طرف کیا جاتی ہواور اس کو یہ بات معلوم بھی ہو۔
حوالہ جات:
قال الله تعالى:
{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ * ادْعُوهُمْ لأًّبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُواْءَابَاءَهُمْ فَإِخوَانُكُمْ فِى الدِّينِ وَمَوَلِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَآ أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً *} [الأحزاب: 4،5] .
2. صحيح البخاري، باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان، الرقم: 1804:
عن عاصم قال: سمعت أبا عثمان قال: سمعت سعدا وهو أول من رمى بسهم في سبيل الله وأبا بكرة وكان تسور حصن الطائف في أناس فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالا: سمعنا النبي صلى الله عليه وسلم يقول: “من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم؛ فالجنة عليه حرام”.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:401
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19