Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

@123تلاوتِ کلام پاک کے اختتام پر تالیاں بجانا

سوال:
بعض اوقات ہمارے سکول میں پروگرام منعقد ہوتا ہے، اس پروگرام میں تلاوتِ کلام پاک بھی ہوتی ہے، جس کے اختتام پر لوگ تالیاں بجاتے ہیں، کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟
جواب:
    تلاوتِ کلام پاک کے بعد تالیاں بجانا درست نہیں کیونکہ تالیاں بجانا کفار اور مشرکین کا شعار ہے، البتہ قاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ”ماشاء اللہ “ یا ”سبحان اللہ “ کہنے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما في سنن أبي داود، كتاب اللباس، باب ما جاء في اللباس، الرقم: 4031:
عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من تشبه بقوم فهو منهم”.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع 6/ 395:
(قوله وكره كل لهو) أي: كل لعب وعبث فالثلاثة بمعنى واحد كما في شرح التأويلات، والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعه كالرقص والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنها كلها مكروهة؛ لأنها زي الكفار.
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة وأركانها، فصل في صفة الأذكار 1/ 319:وأما الرقص، والتصفيق، والصريخ وضرب الأوتار والصنج والبوق الذي يفعله بعض من يدعي التصوف فإنه حرام بالإجماع؛ لأنهازي الكفار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:212
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-21

 




@123پیشہ ور گداگرو اور بھیک مانگنےوالے کو زکوٰۃدینا

سوال:
پیشہ ور گداگرو اور بھیک مانگنے والے لوگوں کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
جواب:
     پیشہ ور گداگر اور بھیک مانگنے والے اگر صاحبِ نصاب نہ ہوں، تو ان کو زکوٰۃ دینا درست ہے، لیکن آج کل اکثر پیشہ ور گداگر اور بھیک مانگنے والے مالدار ہوتے ہیں، اس لیے جب تک یہ اطمینان نہ ہو کہ یہ واقعی محتاج ہے، اس کو زکوٰۃ یا صدقاتِ واجبہ دینا درست نہیں، البتہ اگر کوئی نفلی صدقہ دینا چاہے تو مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما فی البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الزکاة، باب المصرف 2/ 419:
قوله: (هو الفقير والمسكين وهو أسوأ حالا من الفقير) أي المصرف الفقير والمسكين، والمسكين أدنى حالا، وفرق بينهما في الهداية وغيرها بأن الفقير  من له أدنى شيء، والمسكين من لا شيء له … والأولى أن يفسر الفقير بمن له ما دون النصاب كما في النقاية أخذا من قولهم يجوز دفع الزكاة إلى من يملك ما دون النصاب، أو قدر النصاب غير نام، وهو مستغرق في الحاجة.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 189:
ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا، كذا في الزاهدي.
وفي فتح القدير لابن همام، كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة إليه، ومن لايجوز 2/ 260:
(والفقير من له أدنى شيء) وهو ما دون النصاب، أو قدر النصاب، وهو مستغرق في الحاجة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:211
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-18




@123بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا

سوال:
کیا فرماتے ہیں کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ شادی کے بعد شوہر کا نام بیوی اپنے نام کے ساتھ لگا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
     شادی کے بعد بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا پورا نام یا نام کا کچھ حصہ لکھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ قرآنِ کریم اور احادیث میں اسی طرح بہت سے نام آئے ہیں، جن میں بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھا گیا ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالىٰ:[التحريم: 66/10]
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ.
وفي صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب الزكاة على الأقارب، الرقم: 1462:
جاءت زينب، امرأة ابن مسعود، تستأذن عليه، فقيل: يا رسول الله، هذه زينب، فقال: «أي الزيانب؟» فقيل: امرأة ابن مسعود، قال: «نعم، ائذنوا لها» فأذن لها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:210
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-18




@123پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت

سوال:
آج کل جو لوگ گولی مار کر قتل کر دیئے جاتے ہیں، ان کی میت کا ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، جس سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ جسم پر کتنی گولیاں ماری گئیں؟ کہاں کہاں ماری گئیں؟ پوسٹ مارٹم کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ میت کو برہنہ کرکے میز پر ڈال دیتے ہیں، پھر ڈاکٹر آکر اس کا معائنہ کرتا ہے، عورت، مرد دونوں کا پوسٹ مارٹم اسی طرح ہوتا ہے، کیا شریعت میں یہ پوسٹ مارٹم جائز ہے؟ جبکہ میت کے ورثاء منع کرتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم نہیں کرائیں گے، ایک تو ظلم  یہ ہوا کہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا، اور دوسرا یہ کہ قتل کے بعد پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:
     پوسٹ مارٹم کا طریقہ جو آپ نے ذکر کیا ہے شریعت میں اس طرح کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ انسانی بدن مرنے کے بعد بھی اسی طرح قابل تکریم ہے، جس طرح مرنے سے پہلے، تاہم اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے پوسٹ مارٹم کرالیا گیا، تو ورثاء گناہ گار نہ ہوں گے۔

حوالہ جات:
لما في سنن أبي داؤد، كتاب الجنائز، باب في الحفار يجد العظم، هل يتنكب ذلك المكان الرقم: 3207:
عن عائشةرضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:”كسر عظم الميت ككسره حيا”.
وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح لملا علي القاري، كتاب الجنائز، باب دفن الميت، الرقم: 1714:
(وعن عائشة: أن رسول صلى الله عليه وسلم: قال ” «كسر عظم الميت ككسره حيا» ” يعني في الإثم كما في رواية، قال الطيبي: إشارة إلى أنه لا يهان ميتا، كما لا يهان حيا، قال ابن الملك: وإلى أن الميت يتألم، قال ابن حجر: ومن لازمه أنه يستلذ بما يستلذ به الحي، وقد أخرج ابن أبي شيبة عن ابن مسعود قال: أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:209
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-18

 




@123بیٹے کی مزنیہ سے باپ کا نکاح کرنے کا حکم

سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیٹے کی مزنیہ سے باپ کا نکاح کرنا شرعاً کیسا ہے؟
جواب:
     زنا کرنے سے مرد وعورت کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، جس کے تحت زانی اور مزنیہ کے اصول وفروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، لہٰذا مذکورہ صورت میں زانی کے باپ کا اس مزنیہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا حرام وناجائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، فصل الثاني المحرمات بالصهرية 1/ 274:
فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها، وإن علت، وابنتها، وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني، وأجداده، وإن علوا، وأبنائه، وإن سفلوا، كذا في فتح القدير.
وفي فتح القدير لابن همام، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 3/ 210:

(ومن زنی بامرأة حرمت عليه أمها، وبنتها) … وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني، وأجداده، وإن علوا، وأبنائه، وإن سفلوا.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 2/ 107:
من زنى بامرأة حرمت عليه أمها أي: وإن علت، فتدخل الجدات بناء على ما قدمنا من أن الأم هي الأصل لغة، وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني، وأجداده، وإن علوا، وأبنائه، وإن سفلوا هذا إذا لم يفضها الزاني، فلو أفضاها لا تثبت هذه الحرمات لعدم تيقن كونه في الفرج إلا إذا حبلت، وعلم كونه منه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:208
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-18

 




کیاخواب میں بغیر انزال کے جماع کرنے سےغسل واجب ہوگا؟:

سوال:
  زید نے خواب میں کسی عورت کے ساتھ جماع کیا، مگر ابھی انزال نہ ہوا تھا کہ زید بیدار ہوگیا، جب  پیشاب کرنے لگا، تو قبل از پیشاب چند سفید باریک قطرے  شرمگاہ سے خارج ہوگئے، تو اب زید پر غسل کرنا فرض ہے یا نہیں؟
جواب:
  خواب میں جماع  کرنے کی صورت میں غسل اس وقت واجب ہوتا ہے  جب کہ  حقیقت میں انزا ل ہوا ہو، لہذا اگر زید نے صرف خواب دیکھا تھا اور حقیقت میں انزال نہیں ہوا تھا تو اس پر غسل واجب نہیں۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، أحكام الغسل 1/ 147:
   إذا احتلم الرجل، ولم يخرج الماء من إحليله، لا غسل عليه.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، باب الغسل 1/ 14:
   إذا احتلم الرجل، وانفصل المني من موضعه، إلا أنه لم يظهر على رأس الإحليل، لا يلزمه الغسل.
3. فتاوى قاضي خان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الطهارة، باب الغسل 1/ 285:
   فإذا احتلم الرجل، وانفصل المني عن مكانه إلا أنه لم يظهر على رأس الإحليل، فلاغسل عليه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:207
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-15




@123بھائی کی ربیبہ سے نکاح کرنے کا حکم

سوال:
زید اور بکر دونوں بھائی ہیں، ہندہ زید کی منکوحہ ہیں، زینب کو ہمراہ لائی ہیں جو ہندہ کی بیٹی نہیں ہے صرف پرورش میں ہے، بلکہ خالد اور فاطمہ کی بیٹی ہیں، زید کا بھائی (بکر) زینب سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو یہ جائز ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں بکر کا نکاح زینب کے ساتھ جائز ہے، کیونکہ یہ بکر کے محرمات میں سے نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالىٰ: سورة النساء 4/ 24:
وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ إلخ.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 3/ 28:
أسباب التحريم أنواع: قرابة، مصاهرة، رضاع، جمع، ملك، شرك، إدخال أمة على حرة، فهي سبعة: ذكرها المصنف بهذا الترتيب وبقي التطليق ثلاثا، وتعلق حق الغير بنكاح أو عدة ذكرهما في الرجعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:206
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-15




@123نابالغ کا اپنی بیوی کو طلاق دینا

سوال:
بارہ سال کے لڑکے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، اور علامتِ بلوغ انزال وغیرہ بھی ظاہر نہیں، تو طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ طلاق کی صحت کے لیے شوہر کا بالغ ہونا شرط ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الطلاق 3/ 226:
كتاب الطلاق (هو) لغة رفع القید … وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.
قال ابن عابدين تحت قوله: (قوله وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالده الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه 1/ 353:
ولا يقع طلاق الصبي وإن كان يعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمى عليه والمدهوش، هكذا في فتح القدير.
وفي مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر لداماد أفندي، كتاب الطلاق 2/ 10:
لا يقع طلاق صبي ولو مراهقا؛ لفقد أهلية التصرف، ومجنون؛ لقوله عليه الصلاة والسلام كل طلاق جائز إلا طلاق الصبي والمجنون.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:205
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-15

 




@123ایزی پیسہ کے ذریعے رقم حاصل کرنے پر اجرت لینا

سوال:
ہم ایزی پیسہ کا کاروبار کرتے ہیں ہمارے پاس گاہک آتے ہیں، تو ہم منی ٹرانسفر کرتے ہیں، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ گاہک نے اگر ہزار(1000) روپے نکالنے ہو تو کمپنی کی طرف سے بیس (20) روپے سروس چارجز وصول کرتے ہیں، جس میں چار(4) روپے ہمیں ملتے ہیں اور اگر ہم اس ٹرانزیکشن کو اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرلے، تو اس سے وہ بیس (20) روپے پورے کے پورے ہمیں ملتے ہیں، لیکن اگر بعد میں ہمیں ضرورت ہوئی ان پیسوں کی تو اگر وہ ہم نکالیں گے تو بیس (20) روپے ہم نے دینے ہوتے ہیں، اب اس صورت میں یہ بیس (20) روپے جو ہم وصول کرتے ہیں ہمارے لیے اس کا لینا جائز ہے یا نہیں، اور مزید یہ کہ بیس (20) روپے ہم دوسرے طریقے سے بھی استعمال کرسکتے ہیں، مثلا ایزی لوڈ وغیرہ کے ذریعے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں دکاندار کا گاہک کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو اس کے اکاؤنٹ سے نکال کر اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے اور گاہک سے چارجز فیس خود وصول کرنے میں کمپنی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو، تو دکاندار کے لیے اس طرح کرنا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين،كتاب الإجارة، مطلب في أجرة الدلال 6/ 63:
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم.
الفتاوی الھندية للجنة العلماء، كتاب الحدود، الباب السابع في حد القذف والتعزير، فصل في التعزير 2/ 167:
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الوكالة، فصل في بيان حكم التوكيل 6/ 27:
(وأما) الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا، وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا يراعى فيه القيد بالإجماع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:204
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-15




@123اوپر والی منزل بیچنا کیسا ہے؟

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کی دو منزلہ عمارت ہے نیچے منزل میں وہ خود رہائش پذیر ہے اور اوپر والی منزل کو کسی اور پر مالکانہ طور پر بیچنا چاہتا ہے تو شرعا اس طرح کرنا جائز ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں مالکِ مکان کا اوپر والی منزل کسی کو بیچنا شرعا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 5/ 52:
والحاصل أن بيع العلو صحيح قبل سقوطه لا بعده؛ لأن بيعه بعد سقوطه بيع لحق التعلي، وهو ليس بمال.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب البيوع، الفصل الأول فيما يدخل في بيع الدار ونحوها 3/ 29:
وبيع العلو دون السفل جائز إذا كان مبنيا، فإن لم يكن مبنيا لا يجوز، ثم إذا كان مبنيا لا يدخل طريقه في الدار إلا بذكر الحقوق والمرافق ،كذا في السراج الوهاج.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الشفعة، فصل في شرائط وجوب الشفعة 5/ 10:
(وجه) الاستحسان أن العلو في معنى العقار؛ لأن حق البناء على السفل حق لازم لا يحتمل البطلان فأشبه العقار الذي لا يحتمل الهلاك فكان، ملحقا بالعقار، فيعطى حكمه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:203
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-14