Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

چالیس دن نفاس کے بعدپندرہ دن سے پہلے آنے والے خون کا حکم:

سوال:
ایک عورت نفاس کے چالس (40) دن مکمل کرکے پاک ہوگئی، پھر گیارہ(11) دن بعد دوبارہ اس نے خون دیکھا، تو کیا یہ حیض ہوگا یا نفاس؟

جواب:
   واضح رہے کے دو حیضوں کے درمیان یا حیض اور نفاس کے درمیان کم از کم پندرہ دن پاکی کا گزرنا شرط ہے، اور مذکورہ صورت میں چونکہ نفاس کے چالس (40) دن مکمل ہونے کے بعد دوبارہ گیارہ(11) دن بعد خون آیا ہے اس لیے یہ حیض کا خون نہیں بلکہ استحاضہ ہوگا، لہذا اگر اس عورت کا یہ پہلا نفاس تھا تو چالیس دن اس کا نفاس ہے اور باقی استحاضہ اور اگر اس کی کوئی عادت مقرر تھی تو عادت والے دن نکال کر باقی استحاضہ سمجھا جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الاستحاضة 1/37:

   لو رأت الدم بعد أكثر الحيض والنفاس في أقل مدة الطهر، فما رأت بعد الأكثر إن كانت مبتدأة، وبعد العادة إن كانت معتادة، استحاضة.
2. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، باب الحيض والنفاس 1/538:
   وإن زاد الدم على الأربعين، فالزيادة على الأربعين، استحاضة، والأربعون نفاس في المبتدأة، وفي صاحبة العادة معروفتها نفاس، والزيادة عليها استحاضة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:25
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-02




سگریٹ یا نسوار کے استعمال سے وضو کاحکم:

سوال:
حالتِ وضو میں نسوارمنہ میں رکھنے یا سگریٹ پینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟

جواب:
   جو لوگ نسوار یا سگریٹ استعمال کرنے کے عادی ہوں اور ان کے استعمال سے ان کو نشہ نہ چڑھتا ہو، تو نسوار اور سگریٹ کے استعمال سے ان کا وضو نہیں ٹوٹے گا، اور جو لوگ عادی نہ ہوں اور ان کے استعمال سے ان کو نشہ چڑھ جاتا ہو، تو ان کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب نوم الأنبياءغير ناقض 1/284:

   (و) ينقضه (إغماء) ومنه الغشي(وجنون وسكر).
2. البحر الرائق، كتاب الطهارة، نواقض الوضوء 1 /41:
(قوله: وإغماء وجنون) أي وينقضه إغماء وجنون أما الإغماء فهو ضرب من المرض يضعف القوى ولا يزيل الحجا أي العقل بل يستره بخلاف الجنون، فإنه يزيله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:26
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-02




بوقتِ مجبوری کھڑے ہوکر پیشاب کرنا:

سوال:
آج کل ایئرپورٹ، ریلوے سٹیشن اور ہوائی جہاز میں پیشاب کے لیے ایسا فلش سسٹم ہوتا ہے، جہاں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا پڑتا ہے، تو شرعا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:
   عام حالات میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ اور نا پسندیدہ ہے، البتہ اگر مجبوری ہو، تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا درست ہے، لہذا مذکورہ صورت میں اگر فلش سسٹم ایسا ہو جس میں بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن نہ ہو، تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے، تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بدن اور کپڑوں کو پیشاب کی چھینٹیں نہ لگیں۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة، باب الأنجاس 1/ 422:

   ويكره أن يبول قائما، أو مضطجعا، أو متجردا عن ثوبه من غير عذر، فإن كان لعذر فلا بأس؛ لأنه عليه الصلاة والسلام بال قائما لوجع في صلبه.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الاستنجاء 1/ 50:
   ويكره أن يبول قائما، أو مضطجعا، أو متجردا عن ثوبه من غير عذر، فإن كان بعذر، فلا بأس به.


واللہ أعلم بالصواب

ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:53
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




وضو میں مسواک کی جگہ برش یا دنداسہ استعمال کرنا:

سوال:
اگر کوئی شخص وضو میں مسواک کی جگہ ٹوتھ پیسٹ اور برش استعمال کرے، یا کوئی عورت مسواک کی جگہ دنداسہ استعمال کرے، تو اس سے مسواک کی سنیت ادا ہوجائے گی یا نہیں؟
جواب:
   مسواک کرنے میں دو الگ الگ سنتیں ہیں، ایک منہ کی صفائی اور دوسری لکڑی کا استعمال، لہذا اگر کسی کے پاس مسواک دستیاب نہ ہو اور مسواک کی جگہ ٹوتھ برش استعمال کرے، تو اس سے منہ کی صفائی کی سنت ادا ہوجائےگی، البتہ مسواک کی خاص لکڑی کے استعمال کی سنت ادا نہ ہوگی، تاہم اگر کوئی عورت مسواک کی جگہ دنداسہ مسواک کی نیت سے استعمال کرے، تو اس سے دونوں سنتیں ادا ہو جائیں گی، کیونکہ عورت کے حق میں دنداسہ مسواک کے قائم مقام ہے۔

حوالہ جات:
1. المحيط البرهاني لابن ماذه الحنفي، كتاب الطهارة، الفصل الأول في الوضوء 1/174:

   وينبغي أن يكون السواك من أشجار مرة؛ لأنه يطيب نكهة الفم، ويشد الأسنان، ويقوي اللثة، وليكن رطبا في غلظ الخنصر وطول الشبر، ولا يقوم الإصبع مقام الخشب حال وجود الخشب، فإن لم توجد الخشبة، فحينئذ تقوم الإصبع مقامها.
2. الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثاني في سنن الوضوء 1/7:
   (ومنها السواك) وينبغي أن يكون من أشجار مرة؛ لأنه يطيب نكهة الفم ويشد الأسنان ويقوي المعدة، وليكن رطبا في غلظ الخنصر وطول الشبر، ولا يقوم الإصبع مقام الخشبة، فإن لم توجد الخشبة، فحينئذ يقوم الإصبع من يمينه مقام الخشبة، كذا في المحيط، والظهرية، والعلك يقوم مقامه للمرأة، كذا في البحر الرائق.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب في منافع السواك 1/53:
   وعند فقده أو فقد أسنانه، تقوم الخرقة الخشنة أو الأصبع مقامه، كما يقوم العلك مقامه للمرأة مع القدرة عليه.
4. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/43:
   والعلك يقوم مقامه للمرأة؛ لكون المواظبة عليه تضعف أسنانها، فيستحب لها فعله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:28
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03




بدن کے تندرست حصہ پر لگی ہوئی پٹی پر مسح کرنا:

سوال:
ہاتھ پر زخم ہو اور پٹی زخم کے اردگرد تندرست جگہ پر بھی لگی ہو، توتندرست جگہ کے اوپر مسح کرنا کافی ہوگا یا اس جگہ کا دھونا ضروری ہے؟

جواب:
   اگر پٹی کھول کر زخم پر مسح کرنا زخم کے لیے مضر ہو یا پٹی کھول کردوبارہ باندھنے والا کوئی نہ ہو، تو تمام پٹی پر مسح کرنا درست ہے، تندرست جگہ دھونے کے لیے پٹی کھولنا ضروری نہیں، اور اگر بسہولت پٹی ہٹا کر تندرست جگہ کا دھونا ممکن ہو تو اس کا دھونا بھی ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة 1/517:

   (ويمسح) نحو (مفتصد وجريح على كل عصابة) مع فرجتها في الأصح (إن ضره) الماء (أو حلها)، ومنه أنه لا يمكنه ربطها بنفسه، ولا يجد من يربطها.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين 1/155:
   إذا زادت الجبيرة على رأس الجرح إن كان حل الخرقة وغسل ما تحتها يضر بالجراحة، يمسح على الكل تبعا.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، مطلب المسح على الجبائر 1/90:
   إن كان حل الخرقة، وغسل ما تحتها من حوالي الجراحة مما يضر بالجرح، يجوز المسح على الخرقة الزائدة، ويقوم المسح عليها مقام غسل ما تحتها كالمسح على الخرقة التي تلاصق الجراحة، وإن كان ذلك لا يضر بالجرح، علية أن يحل ويغسل حوالي الجراحة، ولا يجوز المسح عليها؛ لأن الجواز لمكان الضرورة، فيقدر بقدر الضرورة.
4. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، فصل: المسح على الخفين، ص: 103:
   (ولو كانت الجراحة في موضع الغسل وليس تحت جميع الجبيرة) ونحوها (جراحة) ويعسر عليه جعل الجبيرة مقدار الجراحة فحسب، (جاز له المسح على كل الجبيرة) ما تحته جراحة وما ليس تحته (تبعا لموضع الجراحة).


واللہ أعلم بالصواب

ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:29
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03




اسلام لانے کے بعد غسل کرنے کا حکم:

سوال:
اگر کوئی کافر مسلمان ہوجائے، تو اس پر غسل واجب ہے یا سنت؟

جواب:
   اسلام لانے کے بعد غسل کرنا مستحب ہے، البتہ اگر کوئی کافر حالتِ جنابت میں مسلمان ہوا ہو، تو اس کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، صفة الغسل 1/145:

   أما المستحب فهو غسل الكافر إذا أسلم، لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر بالغسل من جاءه يريد الإسلام، وأدنى درجات الأمر الندب والاستحباب، هذا إذا لم يعرف أنه جنب فأسلم، وأما إذا علم كونه جنبا، فأسلم قبل الاغتسال، اختلف المشائخ فيه، قال بعضهم: لا يلزمه الاغتسال أيضا … وقال بعضهم يلزمه.
2. المحيط البرهاني لابن ماذة الحنفي، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الغسل 1/228:
   والكافر إذا أجنب، ثم أسلم، ففي وجوب الغسل عليه اختلاف المشايخ: قال بعضهم: يجب، إليه أشار محمد رحمه الله في”السير الكبير”.
3. الفتاوى قاضیخان على هامش الهندية، كتاب الطهارة، فصل في ما يوجب الغسل 1/45:
   الكافر إذا أجنب ثم أسلم، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي: عليه الغسل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:30
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03




بیوی کو چھونے سے  وضو کا حکم:

سوال:
میاں بیوی غسلِ جنابت کے بعد ایک دوسرے کو چھوئیں، یعنی ہاتھ لگائیں  یا بوس وکنار کریں، تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   بیوی کو صرف چھونے یا بوس وکنار کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،چاہے شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے، البتہ  اگر بوس و کنار کرتے وقت شرمگاہ سے مذی خارج ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني،كتاب الطهارة، باب نواقض الوضوء، 1/131:
   ولو لمس امرأته بشهوة، أو غير شهوة فرجها، أو سائر أعضائها من غير حائل، ولم ينشر لها، لاينقض عند عامة العلماء.
2. البحرالرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/85:
   قوله (وامرأة) بالجر عطف على ذكر، أي: مس بشرة المرأة لا ينقض الوضوء مطلقا، سواء كان بشهوة أو لا.
3. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل الثاني مايوجب الوضوء 1/232:
   والمذي ينقض، وهو الماء الرقيق الذي يخرج عن الشهوة، وكذا الودي ينقض الوضوء، وهو الماء الأبيض الذي يخرج بعد البول.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:31
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03




حالتِ حیض میں آیتِ سجدہ کی تلاوت سے سجدۂ تلاوت کا وجوب:

سوال:
عورت حالتِ حیض میں آیتِ سجدہ کی  تلاوت کرے یا کسی اور سے سنے، تو کیا اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہے؟ اور اس عورت کے آیتِ سجدہ پڑھنے سے دوسرے سننے والوں پر سجدۂ تلاوت واجب ہوگا یا نہیں؟ 

جواب:
   حیض والی عورت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر دانستہ یا نا دانستہ طورپر اس نے آیتِ سجدہ پڑھ لی، تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا، البتہ اگر اس سے کسی عاقل بالغ شخص نے آیتِ سجدہ سن لی، تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہو جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى السراجية لعلي بن عثمان الحنفي، كتاب الصلاة، باب سجدة التلاوة 1/91:

   الحائض أو النفساء، أو الصبي، أو المجنون، إذا قرأوا آية السجدة، لم يجب عليهم السجدة، وعلى السامع منهم السجدة، إذا كان أهلا للوجوب.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة 2 /701:

   فلا تجب على كافر، و صبي، و مجنون، وحائض، ونفساء، قرؤوا، أو سمعوا؛ لأنهم ليسو أهلا لها، وتجب بتلاوتهم يعنى: المذكورين خلا المجنون المطبق، فلا تجب بتلاوته لعدم أهليته.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، فصل في شرائط جواز السجدة 1/440:
   حتی لا تجب على الكافر، والصبي، والمجنون، والحائض، والنفساء، قرؤوا أو سمعوا؛ لأن هؤلاء ليسوا من أهل وجوب الصلاة عليهم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:32
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03




مہندی لگے ہوئے بالوں پر مسح کرنا:

سوال:
اگر کسی نے سر پر مہندی لگائی اور وہ جم گئی ہو، تو اس کے اوپر مسح کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
سر پر مہندی کی لیپ لگانے سے چونکہ پانی کی تری بالوں تک نہیں پہنچتی، اس لیے ایسی حالت میں سر پر مسح کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء 1/4:
والخضاب إذا تجسد، ويبس، يمنع تمام الوضوء والغسل، وكذا في “السراج الوهاج” ناقلا عن الوجيز.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/61:
والخضاب إذا تجسد، ويبس، يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في الوجيز.
وفي الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل الأول في الوضوء 1/202:
إذا اختضب ومسح برأسه عند وضوئه على خضابه، لا يجزيه، وإن وصل الماء إلى شعره … وإذا اختلط البلة بالخضاب، وخرجت من حكم الماء المطلق، لا يجوز المسح، وهو بمنزلة الماء الزعفران.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:33
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03




وضو کا بچا ہوا پانی بیٹھ کر پینا چاہیے یا کھڑے ہوکر؟:

سوال:
   وضو کا بچا ہوا پانی بیٹھ کر پینا چاہیے یا کھڑے ہوکر؟
جواب:
   وضوکا بچا  ہوا پانی پینا وضو کے آداب میں سے ہے، خواہ کھڑے ہو کر پیے یا بیٹھ کر، دونوں طرح درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصکفي، کتاب الطھارة، مطلب في مباحث الشرب قائما 1/275:
   أن یشرب بعدہ من فضل وضوئه کماء زمزم مستقبل القبلة قائما أو قاعدًا.
2. بدائع الصنائع للکاساني، کتاب الطهارة، فصل آداب الوضوء 1/117:
   وأما آداب الوضوء (فمنها) … وأن یشرب فضل وضوئه قائماً، إذا لم یکن صائما.
3. الفتاوی الھندیة للجنة العلماء، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في المستحبات 1/8:
  وأن یشرب قطرة من فضل وضوئه مستقبل القبلة قائماً.
4. الفتاوی التاتارخانیة لعالم بن العلاء الهندي، کتاب الطھارة، الفصل الأول في الوضوء 1/228:
   أن یشرب فضل وضوئه أو بعضه مستقبل القبلة، إن شاء قائماً، وإن شاء قاعداً، وذکر الإمام خواھر زاده: أنه یشرب ذلك الماء قائماً، وقال: لا یشرب الماء قائماً إلا في موضعین: أحدھما ھذا، والثاني عند زمزم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:34
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-03