Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

وضومیں انگلیوں کے خلال کا وقت:

سوال:
وضو میں انگلیوں کا خلال کس وقت کرنا چاہيے، ابتدا میں، آخر میں یا کہنیاں دھونے کے بعد؟
جواب:
    دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھونے کے بعد وضو میں انگلیوں کا خلال کرنا سنت ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة 1/256:

   إن التخليل إنما يكون بعد التثليث؛ لأنه سنة التثليث.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/46:
   التخلیل إنما یکون بعد التثلیث؛ لأنه سنة التثليث.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:38
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-04




حالتِ جنابت میں قرآن مجیدکو غلاف میں چھونا کیسا ہے؟:

سوال:
حالتِ جنابت میں قرآن مجید کو جزدان(بستہ یا غلاف) میں چھونا کیسا ہے؟

جواب:
   ناپاکی کی حالت میں قرآن مجید کو کسی کپڑے یاغلاف کے ساتھ چھونا جائز ہے،مگر وہ کپڑا یاغلاف ایسا ہونا چاہیے جو قرآن مجید سے الگ ہوسکتا ہو، اگر وه کپڑا یا غلاف قرآن مجید کےساتھ  ایسا پیوست ہو جواس سے بآسانی الگ نہ ہوسکتا ہو، تو ناپاکی کی حالت میں اس کے ساتھ قران کریم چھونا درست نہیں ہوگا، چونکہ جزدان بوقتِ ضرورت قرآن سے علیحدہ ہوسکتا ہے، اس لیے جزدان کے ساتھ قرآن مجید کو چھونا یا اٹھانا جائز ہے۔
حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصکفي مع رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الغسل1/347:

   (و) يحرم (به) أي: بالأكبر (وبالأصغر مس مصحف) أي: ما فيه أية كدرهم وجدار، … (إلابغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة، به يفتى.
   قال ابن عابدين: تحت قوله (غير مشرز أي: غيرمخيط به) … فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً کالخريطة، وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتی يدخل في بيعه بلا ذكر.
2. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة 1/51:
   ولا يجوز لهم أي: للجنب والحائض والنفساء مس المصحف إلا بغلافه … وهذا يعني جواز الأخذ بالغلاف إذا كان الغلاف غير مشرز أي: غير محبوك، مشدود بعضه إلى بعض.
3. فتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الھندي، كتاب الطهارة، باب الغسل1 /291:
   وإن مس المصحف بغلافه، فلا بأس به، والكلام في الغلاف في حق الجنب نظير الكلام فيه في حق المحدث، وإذا مسه بكمه أو ذيله، فهو على الاختلاف الذي ذكرنا في المحدث.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:39
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-05




عذر ختم ہونے کے بعد کیے ہوئے تیمم کا حکم:

سوال:
جنابت کے لیے تیمم کرنےکے بعد وضو ٹوٹ جانے سے دوبارہ جنابت کا تیمم کرنا ہوگا يا نہیں؟
جواب:

   جنابت کے لیے کیا ہوا تیمم اس وقت تک برقرار رہتا ہے، جب تک کہ دوبارہ غسل فرض نہ ہو جائے، لہذا وضو ٹوٹنے کی صورت میں صرف وضو کرنا کافی ہے، دوبارہ تیمم کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/476:
   أنه إذا تيمم الجنب، ثم أحدث لا ينتقض تيممه للجنابة؛ لأن الحدث لا ينقض أصله، وهو الغسل، فلا يصير جنبا، وإنما يصير محدثا بهذا الحدث العارض.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/176:
   لو تيمم الجنب، ثم أحدث بعد ذلك، ومعه من الماء قدر ما يتوضأ به، فإنه يتوضأ، ولا يتيمم؛ لأن التيمم الأول أخرجه من الجنابة إلى أن يجد من الماء ما يكفيه للاغتسال.
3. النهر الفائق لابن نجيم، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/107:
   أنه لو تيمم للجنابة، ثم أحدث حدثا أصغر، انتقض تيمم الوضوء فقط، وبقي تيمم الغسل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:40
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-05




جنبی یا حائضہ کا پانی میں ہاتھ ڈالنے کا حکم:

سوال:
جنبی آدمی، حائضہ عورت یا بے وضو شخص برتن میں پڑے ہوئے پانی میں ہاتھ داخل کردے، تو پانی کا کیا حکم ہے؟ 

جواب:
  اگر جنبی يا حائضہ یا بے وضو شخص برتن میں پڑے ہوئے پانی میں ہاتھ ڈالے اور اس کے ہاتھ پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، تو اس سے پانی ناپاک نہیں ہوتا، تاہم اگر بالٹی سے پانی نکالنے کے لیے کوئی برتن وغیرہ میسر ہو، تو احتیاط اسی میں ہے کہ برتن میں ہاتھ نہ ڈالا جائے، بلکہ اس برتن کے ذریعے سے پانی حاصل کیا جائے۔

حوالہ جات:
1. الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، فصل في الماء المستعمل15/1:
   المحدث والجنب إذا أدخل يده في الإناء للاغتراف، وليس عليها نجاسة، لا يفسد الماء.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، أحكام المياه1/213:
   ولو أدخل جنب، أو حائض، أو محدث يده في الإناء قبل أن يغسلها، وليس عليها قذر، أو شرب الماء منه، ففي الاستحسان لا يفسد.
3. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة 1/90:
   قال: والمذكور في الفتاوى إن إدخال الجنب، أو المحدث يده في الإناء للاغتراف، أو لرفع الكوز، لايصير الماء مستعملا للضرورة، ولم يذكروا اختلافا، وهو الأصح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:41
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-05




پانی کی موجودگی میں زبانی   تلاوت یا دخول مسجدکےلیے تیمم کرنا:

سوال:
اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہونے یا  زبانی تلاوت کرنے کے لیے پانی کی موجودگی میں تیمم کرے، تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
    مسجد ميں داخل ہونے یا زبانی تلاوت کرنے کے لیے  چونکہ وضو ضروری نہیں، اس لیے پانی کے ہوتے ہوئے بھی ان کے لیے تیمم کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق  لابن  نجیم، کتاب الطهارة،  باب التیمم1/263:
   قال: إن ما لیست الطهارة شرطا في فعله وحله، فإنه یجوز التیمم له مع وجود الماء، کدخول  المسجد للمحدث.
2. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب التيمم، ص:118:
   وكذا يتيمم لكل ما لا تشترط له الطهارة، كالنوم والسلام ورده ودخول مسجد لمحدث ولو مع وجود الماء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:42
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-05




وضو میں کہنیوں پرپانی ڈالنے کا طریقہ:

سوال:
وضو میں ہاتھ دھوتے وقت  پانی انگلیوں سے کہنیوں کی طرف لے جانا چاہیے،  یا کہنیوں سے انگلیوں کی طرف؟
جواب:
   وضو میں ہاتھ دھوتے وقت پانی کو انگلیوں سے کہنیوں کی طرف لے جانا سنت ہے، اور کہنیوں سے انگلیوں کی طرف لے جانا بھی جائز ہے، مگر خلافِ سنت ہے۔

حوالہ جات:
1. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارة، الفصل الأول في الوضوء 1/178:
   وكذلك في غسل الیدین یبدأ من رؤوس الأصابع.
2. وفي الفتاوى الهندية، كتاب الطهارة، باب الوضوء 1/8:
   ومن السنن… البداءة من رؤوس الأصابع في اليدين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:18
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-08-25




کافر کا پانی والے برتن میں ہاتھ ڈالنا:

سوال:
اگر کوئی کافر برتن میں ہاتھ ڈالے، تو پانی پاک ہوگا یا ناپاک؟
جواب:
   چونکہ کافر کا ظاہری جسم پاک ہے، اس لیے پانی میں ہاتھ ڈالنے کی صورت  میں وہ پانی پاک ہوگا، بشرطیکہ اس کافرکے ہاتھ پر شراب یا کوئی اور ناپاکی لگی ہوئی نہ ہو۔

حوالہ جات:
1. عمدة القاري، باب عرق الجنب وإن المسلم لا ينجس 237/3:
وقد عقد الباب له، أن المؤمن لا ينجس وأنه طاهر سواء كان جنبا أو محدثا حيا أو ميتا، وكذا سؤره وعرقه ولعابه ودمعه وكذا الكافر في هذه الأحكام.
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الطهارة، فصل في الآسار 1/112:

   (وسؤر الآدمي وما يؤكل لحمه طاهر) …. ويدخل في هذا الجواب الجنب والحائض والكافر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:19
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-08-31




حالتِ جنابت میں کمپیوٹر کے ذریعے قرآن مجید کی کوئی آیت لکھنا:

سوال:
جنابت کی حالت میں قرآنی آیات بذریعہ کمپیوٹر لکھنا کیسا ہے؟ 

جواب:
   اگر کمپوزر کا ہاتھ اور انگلیاں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے اسکرین کے اس حصے کو نہ لگیں جہاں قرآنی آیات نظر آرہی ہیں، تو جنابت کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ کرنا جائز ہے، تا ہم احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں کمپوزنگ نہ کی جائے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة 1/350:

   (و) لا تكره (كتابة قرآن والصحيفة أو اللوح على الأرض عندالثاني) خلافا لمحمد، وينبعي أن يقال: إن وضع على الصحيفة ما يحول بينها وبين يده، يؤخذ بقول الثاني، وإلا فبقول الثالث.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (خلافا لمحمد)… قال في الفتح: والأول أقيس؛ لأنه في هذه الحالة ماس بالقلم، وهو واسطة منفصلة، فكان كثوب منفصل إلا أن يمسه بيده.
2. الفتاوى التاتارخانية لعالم ابن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الغسل 1/292:
   وعن أبي يوسف، أنه لا بأس به إذا كانت الصحيفة على الارض؛ لأنه ليس بحامل القرآن ، والكتابة تو جد حرفا حرفا.
3. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، فروع في بعض مسائل الحائض والنفساء والجنب، ص: 50:
   وذکر في الجامع الصغير المنسوب إلى قاضي خان: لا بأس للجنب أن يكتب القرآن، والصحيفة، أو اللوح على الأرض، أو الوسادة عند أبي يوسف، خلافا لمحمد؛ لأنه ليس فيه من مس القرآن.


واللہ أعلم بالصواب

ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:20
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-08-31




وضو میں کلی رہ جانے کا حکم:

سوال:
وضو کرتے وقت کلی کرنا بھول گیا، تو وضوہوجائے گا یا نہیں؟

جواب:
   وضو میں کلی کرنا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، لہذا وضو کرتے وقت اگر کلی کرنا بھول جائے، تو وضو درست ہے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ قصدا چھوڑنے سے گنہگار ہوگا۔ 

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب في منافع السواك 1/253:

   وهما سنتان مؤكدتان فلو تركهما، أثم على الصحيح، سراج، قال في الحليلة: لعله محمول على ما إذا جعل الترك عادة له من غير عذر.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة، باب الوضوء 1/44:
   وفي السراج: إنهما سنتان مؤكدتان، فإن ترك المضمضة والاستنشاق، أثم على الصحيح.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثاني في سنن الوضوء 1/6:
   إن ترك المضمضة والاستنشاق أثم على الصحيح؛ لإنهما من سنن الهدى، وتركها يوجب الإساءة، بخلاف سنن الزوائد؛ فإن تركها لا يوجب الإساءة، هكذا في السراج الوهاج.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:22
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-01




انجکشن کے ذریعے بدن سے خون نکالنے سے وضو کا حکم:

سوال:
بذریعہ انجکشن بدن سےخون نکالنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، یا نہیں؟

جواب:
   بدن سے اگر اتنی مقدار میں خون نکلے جس میں بہنے کی صلاحیت موجود ہوتو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور انجکشن کے ذریعے بدن سے جو خون نکالا جاتا ہے، وہ چونکہ اتنی مقدار میں ہوتا ہے اس لیے انجکشن کے ذریعے خون نکالنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختارللحصکفي، کتاب الطھارة، باب نواقض الوضوء 1/292:

   وکذا ینقضه علقة مصّت عضوأ وامتلأت من الدم.
2. الفتاوى الولوالجية، كتاب الطهارة، الفصل الثالث 1/47:
   العلقة إذا أخذت بعض جلد إنسان،ومصّت حتى امتلأ من دمه بحيث لو سقط لسال، انتقض الوضوء؛ لأن الدم فيه سائل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:24
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-02