Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

بیرونی ممالک سے کرنسی بھیجنے پر پوائنٹس ملنے کا حکم:

سوال:
   باہر ملکوں میں مقیم پاکستانی جب اپنی محنت کی کمائی پاکستان میں بھیجتے ہیں، تو ان میں زیادہ تر لوگ غیر قانونی ”ھونڈی“ استعمال کرتے ہیں، جسکا ملک کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا، اس لیے پیسے بھیجنے کے طریقے کو قانونی بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے ”سوھنی دھرتی“ کے نام سے ایک پروگرام متعارف کرایا، اس پروگرام کی مدد سے جب باہر ملک میں مقیم پاکستانی اپنے پاسپورٹ سے رجسٹرڈ ہوتا ہے اور پھر وہ قانونی طریقے سے ملک پیسے بھیجتا ہے، تو اسے سو پاکستانی روپے کے برابر پوائنٹس مل جاتے ہیں، تو وہ ان پوائنٹس کو روپیوں میں تبدیل نہیں کرسکتا، بلکہ انہیں یوٹیلٹی سٹورز، ہوائی ٹکٹ وغیرہ کچھ اداروں میں خرچ کرسکتا ہے۔
   کچھ لوگ ان کی خرید وفروخت بھی کرتے ہیں، خرید وفروخت اس طرح ہوتی ہے کہ ایک ہزار پوائنٹس آٹھ سو یا نوسو روپے میں خریدے جاتے ہیں۔
   تو کیا یہ پوائنٹس حاصل کرنا، انہیں خود خرچ کرنا یا ان کی خرید وفروخت کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ ”سوہنی دھرتی“ اپلیکیشن کے ذریعہ جو لوگ پاکستان سے باہر ممالک میں موجود ہیں وہ اپنی رقم بینک یا ایکسچینج کمپنی کے ذریعہ پاکستان بھیجتے ہیں تو اس کے لیے اکاؤنٹ کھولتا ہے، جس میں رقم رکھوانے یا پیسے بھیجنے کے عوض بینک یا ایکسچینج کمپنی پوائنٹس دیتی ہے جو کہ قرض پر فائدہ حاصل کرنے کی ایک صورت ہے اور شرعا قرض سے کسی بھی قسم کا اور کسی بھی عنوان سے مشروط نفع لینا دینا سود ہے، البتہ اگر یہ پوائنٹس حکومتِ پاکستان اپنی طرف سے اس ایپلیکیشن کے استعمال پر دیتی ہو اور اکاونٹ میں پیسے موجود ہونے اور نہ ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، تو یہ حکومت کی طرف سے تبرع ہوگا، جس کا لینا اور استعمال کرنا شرعا جائز ہے، اور چونکہ ان پوائنٹس کو متعین جگہ میں خرچ کرنا حکومت کی پالیسی میں داخل ہے جس کا یہ انعام وصول کرنے والا پابند ہوتا ہے، اس لیے ان کو آگے کسی اور کو نقد رقم کے بدلہ فروخت کرنا درست نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الحوالة 4/ 175:
   قال: (وكره السفاتج) وهو قرض استفاد به المقرض أمن خطر الطريق … وإنما كره لما روي أنه عليه الصلاة والسلام  ”نهى عن قرض جر نفعا“ وقيل إذا لم تكن المنفعة مشروطة، فلا بأس به والله أعلم.
2. رد ا المحتار لابن عابدين، كتاب الربا، مطلب: كل قرض جر نفعا فهو ربا 5/ 166:
   قوله ( كل قرض جر نفعا حرام ) أي: إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض فعلى قول الكرخي لا بأس به.
3. درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، المادة: 58، التصرف على الرغبة منوط 57/1:
فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي. 

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:262
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30

 




عالم دین کا بد کردار عورت کی بیٹی سےنکاح کرنا:

سوال:
   زنا کار، بد کردار عورت کی بیٹی کے ساتھ ایک عالم دین رشتہ دار کا نکاح جائز ہے؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں اگریہ لڑکی بھی ماں کی طرح بے دین ہو، تو ایک عالم دین کے لیے اس کے ساتھ نکاح کرنا مناسب نہیں، لیکن اگر دیندار ہو یا دین پسند ہو اور اس کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے اس کی زندگی محفوظ ہونے اوراس کی والدہ کی زندگی بدلنے کا قوی احتمال ہو، تو ایسی میں ایک عالم دین  کا اس کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ بہتر ہے۔

حوالہ جات:
1. سنن ابن ماجة ، كتاب النكاح، الرقم: 1968:
   عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”تخيروا لنطفكم، وانكحوا الأكفاء، وأنكحوا إليه“.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل التأبيد 2/ 273:
   فإن الله تعالى ذكر أجناسا من المحرمات في أول الآية في النكاح، وأباح ما وراءها بالنكاح بقوله عزوجل: {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24] أي: بالنكاح.
3. فتح الباري لابن حجر العسقلاني، كتاب النكاح، باب الأكفاء 9/ 135، تحت الرقم: 5090، :
   وقد وقع في مرسل يحيى بن جعدة عند سعيد بن منصور على دينها ومالها وعلى حسبها ونسبها وذكر النسب على هذا تأكيد، ويؤخذ منه أن الشريف النسيب يستحب له أن يتزوج نسيبة إلا أن تعارض نسيبة غير دينة وغير نسيبة دينة فتقدم ذات الدين .
4. بذل المجهود لخليل أحمد السهارنفوري، كتاب النكاح 7/ 582، تحت الرقم: 2048:
   ولجمالها ولدينها، فاظفر) أي: فُز (بذات الدين) أي: من الأربع، فإن الدين أحق أن يرغب فيه من أخلاق النساء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:261
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30




بچے کی شرم گاہ کی طرف دیکھنا کیسا ہے؟:

سوال:
   بچوں کی شرم گا ہ کو دیکھنا اسی طرح حرام ہے جس طرح بڑوں کے شرم گاہ کو دیکھنا حرام ہے؟

جواب:
   اگر بچے کی عمر اتنی ہے کہ اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھنے سے شہوت پیدا نہیں ہوتی، تو اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھنے کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس کی عمر اتنی ہو کہ اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھنے سے دل میں شہوت پیدا ہوتی ہو، تو پھر علاج وغیرہ کی مجبوری کے علاوہ اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة 1/ 285:
  وفي الظهيرية الصغيرة جدا لا تكون عورة ولا بأس بالنظر إليها ومنها، وفي السراج الوهاج، وأما فما داما لم يشتهيا فالقبل والدبر، ثم يتغلظ بعد ذلك إلى عشر سنين، ثم يكون كعورة البالغين.
3. الدر المختار مع رد المحتار، باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة 1/ 407:
   وفي السراج: لا عورة للصغير جدا، ثم ما دام لم يشته فقبل ودبرثم تغلظ إلى عشر سنين، ثم كبالغ.
   قال ابن عابدين: (قوله لا عورة للصغير جدا) وكذا الصغيرة كما في السراج، فيباح النظر والمس … أقول: قد يؤخذ مما في جنائز الشرنبلالية ونصه: وإذا لم يبلغ الصغير والصغيرة حد الشهوة يغسلهما الرجال والنساء، وقدره في الأصل بأن يكون قبل أن يتكلم. 

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:260
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30




شریک کاروبارمیں ایک فریق کا کا م نہ کرنے کی شرط لگانا:

سوال:
   زید کے سو(100) روپے ہیں اور بکر کے بیس (20) روپے ہیں، دونوں نے کہا کہ اس رقم سے فلاں تجارت کریں گے، اور جو نفع یا نقصان ہوگا وہ آدھا آدھا ہوگا، اور زید نے یہ بھی کہا کہ میں اس تجارت میں کوئی کام نہیں کروں گا، تو کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
جواب:
   کاروبار کا مذکورہ صورت شرعا درست نہیں ہے، البتہ اگر اس طرح ہو جائے کہ جس نے شرط لگائی ہے، کہ میں کام نہیں کروں گا، اس کا حصہ اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نہ ہو، نیز   نفع ونقصان بھی سرمایہ کے تناسب سے تقسیم ہو، تو پھر درست ہے۔

حوالہ جات:
   تحفة الفقهاء لأبي بكر علاء الدين السمرقندي، كتاب الشركة 3/ 7:
   ثم لا شك أنهما إذا شرطا الربح بينهما نصفين جاز بالإجماع إذا كان رأس مالهما على السواء، سواء شرط العمل عليهما، أو على أحدهما؛ لأن استحقاق الربح بالمال أو بالعمل، وقد وجد التساوي في المال، وإن شرطا الربح بينهما أثلاثا، فإن كان العمل عليهما جاز، سواء كان فضل الربح لمن كان رأس ماله أكثر، أو أقل؛ لأنه يجوز أن يكون له زيادة حذاقة، فيكون الربح بزيادة العمل، وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطا العمل على الذي شرط له فضل الربح، جاز؛ لأنه عامل في ماله، وربحه له، وعامل في مال شريكه ببعض ربحه، والربح يستحق بالعمل، وإن شرطا العمل على أقلهما ربحا خاصة، لا يجوز؛ لأنه شرط للآخر فضل ربح بغير عمل ولا ضمان، والربح لا يستحق إلا بمال أو عمل أو ضمان، ولا نعني بقولنا العمل وجوده، بل نعني به شرط العمل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:259
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30




پہلی بیوی کی حیات میں دوسری شادی کرنے پر طلاق کو معلق کرنا:

سوال:
   زید نے کہا ”پہلی بیوی کی حیات میں دوسری شادی کروں تو اس دوسری بیوی کو تین طلاق” اب پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کر لیا، تو اس پر طلاقِ ثلاثہ واقع ہوگی یا نہیں؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں چونکہ عرف میں ان الفاظ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تک یہ بیوی زندہ ہے میں دوسری شادی نہیں کروں گا، لہٰذا مذکورہ شخص نے اگر پہلی بیوی کی حیات میں دوسری شادی کرلی، تو اس دوسری بیوی پر تین طلاق واقع ہو جائی گی، اگرچہ پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہو۔ 

حوالہ جات:
1. البحر الرائق، كتاب الطلاق 4/ 323:
   وفي الحاوي الحصيري والمعتبر في الأيمان الألفاظ دون الأغراض.
2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الأيمان 3/ 845:
   وعلى هذا لو قال لامرأته: كل امرأة أتزوجها بغير إذنك فطالق، فطلق امرأته طلاقا بائنا أو ثلاثا، ثم تزوج بغير إذنها طلقت لأنه لم تتقيد يمينه ببقاء النكاح لأنها إنما تتقيد به لو كانت المرأة تستفيد ولاية الإذن والمنع بعقد النكاح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:258
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30




اجنبیہ عورت کو سلام کا جواب دینے کا حکم:

سوال:
   اگر اجنبیہ عورت کسی کو سلام کرے، تو اس کے سلام کا جواب دینا چاہیے یا نہیں؟
جواب:
   اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو اجنبیہ کے سلام کا جواب دینا جائز ہے، لیکن اگر فتنہ کا خوف ہو، تو زبان سے سلام کا جواب نہ دیا جائے، بلکہ دل میں سلام کا جواب دے دینا چاہیے ۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس 6/ 369:
   وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الكراهية 6/ 369:
   ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست، أو سلمت، فيشمتها، لا يرد السلام عليها وإلا لا.
3. الجوهرة النيرة لأبي بكر الحدادي، كتاب الحظر والإباحة 2/ 284:
   وإن عطست امرأة إن كانت عجوزا شمتها، وإلا فلا، وكذا رد السلام عليها على هذا.
4. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الكراهية 8/ 236:
   فإذا التقى الرجل بالمرأة يبدأ الرجل بالسلام، وإن بدأت فيرد عليها السلام، إن كانت عجوزا فبلسانه، وإن كانت شابة فبالإشارة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:257
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30




@123مسجد کی زمین پر امام مسجد کے لیے گھر بنانا

سوال:
مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں امامِ مسجد کے لیے گھر بنانا کیسا ہے؟
جواب:
مسجد کا وہ حصہ جو نماز پڑھنے اور عبادات ادا کرنے کے لیے مختص کیا گیا ہو، اس میں امام کے لیے گھر بنانا جائز نہیں ہے، البتہ مسجد کی زمین کا وہ حصہ جو مسجد کے مصالح کے لیے ہو اس پر امام مسجد کے لیے گھر بنانا درست ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي،كتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا4/ 366:
(ويبدأ من غلته بعمارته)، ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد، ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف، فصل في أحكام المساجد 5/ 271:
وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجدا؛ لأنه من المصالح.
وفي  لسان الحكام لأحمد بن محمد الحلبي، الفصل العاشر في الوقف، ص 301:
شرط الواقف يجب مراعاته، ولا يتجاوز عما شرطه، وإن لم يشترط ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:256
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-27




@123نئے نوٹ زیادہ قیمت پرخریدنا کیسا ہے؟

سوال:
آج کل لوگ نئے نوٹ خریدتے ہیں زیادہ پیسوں سے، یعنی گیارہ سو(1100) پرانے نوٹوں کے بدلے ہزار(1000) روپے نئے نوٹ خریدتے ہیں، تو کیا یہ جائز ہے؟ اور اس کی جواز کی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ خریدنا یا فروخت کرنا سود ہے، تاہم اگر مجبوری ہو توجواز کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ نئے نوٹ دینے والا شخص ان نوٹوں کے ساتھ ایک اضافی چیز ملاکر ایک ہی عقد میں فروخت کردے، مثلا ایک قلم ساتھ رکھ دے، چنانچہ ایک ہزار روپے ایک ہزار کے بدلے میں ہوجائیں گے اور اضافی رقم قلم کے عوض ہوجائے گی۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب البيوع، باب الربا 5/ 257:
(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا.
قال ابن عابدين تحت(قوله: وإن اختلفا جودة وصياغة) قيد إسقاط الصفقة بالأثمان؛ لأنه لو باع إناء نحاس بمثله وأحدهما أثقل من الآخر جاز مع أن النحاس وغيره مما يوزن من الأموال الربوية أيضا؛ لأن صفة الوزن في النقدين منصوص عليها، فلا تتغير بالصنعة ولا يخرج عن كونه موزونا بتعارف جعله عدديا لو تعورف ذلك بخلاف غيرهما، فإن الوزن فيه بالعرف فيخرج عن كونه موزونا بتعارف عدديته إذا صيغ وصنع، كذا في الفتح، حتى لو تعارفوا بيع هذه الأواني بالوزن لا بالعدد لا يجوز بيعها بجنسها إلا متساويا، كذا في الذخيرة نهر.
وفي الهداية  لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب البيوع، باب الربا 3/ 63:
ويجوز بيع الفلس بالفلسين بأعيانهما” عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد: لا يجوز لأن الثمنية تثبت باصطلاح الكل فلا تبطل باصطلاحهما، وإذا بقيت أثمانا لا تتعين، فصار كما إذا كانا بغير أعيانهما، وكبيع الدرهم بالدرهمين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:255
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-27




نماز میں رونے کا حکم:

سوال:
   نماز کی حالت میں جہنم کا تذکرہ سننے سے رونے کی آواز نکلے، تو اس سے نماز فاسد ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی تکلیف یا مصیبت کی وجہ سے نماز میں آواز نکال کر رونے سے اگرچہ نماز فاسد ہوجاتی ہے، لیکن جنت کے شوق یا جہنم کے خوف سےاگر رویا جائے، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ 

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها 2/ 456:
   (يفسدها التكلم) … (والبكاء بصوت) يحصل به حروف (لوجع أو مصيبة) … (لا لذكر جنة أو نار).
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب السابع في ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها 1/ 100:
   ولو أن في صلاته، أو تأوّه، أو بكى فارتفع بكاؤه، فحصل له حروف، فإن كان من ذكر الجنة، أو النار، فصلاته تامة، وإن كان من وجع، أو مصيبة، فسدت صلاته.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها 2/ 6:
   وقوله: (لا من ذكر الجنة، أو نار) عائد إلى الكل أيضا، فالحاصل أنها إن كانت من ذكر الجنة أو النار، فهو دال على زيادة الخشوع، ولو صرح بهما فقال: اللهم إني أسألك الجنة، وأعوذ بك من النار، لم تفسد صلاته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:254
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-27




نظر بدسے بچنے کے لیے سیاہ داغ لگانے کا حکم:

سوال:
   کیا بچوں کے چہرے پرسیاہ داغ نظر بد سے حفاظت کے لیے لگانا جائز ہے؟
جواب:
   نظر بد سے بچنے کے لیے مختلف تدابير اختيار كی جاتی ہیں، جن میں سے ایک سیاہ داغ لگانا بھی ہے، لیکن یہ داغ چہرے کی بجائے ٹھوڑی کے نیچے لگانی چاہیے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے بچہ کے بارے میں جس کو اکثر نظر لگ جاتی تھی فرمایا کہ اس کی ٹھوڑی کے نیچے داغ لگاؤ۔

حوالہ جات:
1. شرح السنة الحسين بن مسعود البغوي، كتاب فضائل الصحابة، باب فضل الأنصار رضي الله عنهم، الرقم: 3976:
   روي عن عثمان، رأى صبيا تأخذه العين، فقال: دسموا نونته، النونة: النقرة في الذقن.

2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية،  الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات 5/356:
   لا بأس بوضع الجماجم في الزروع والمبطخة لدفع ضرر العين عرف ذلك بالآثار، كذا في فتاوى قاضيخان.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:253
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-27