Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

123@ کپڑوں پر منی لگی ہو اور احتلام کا وقت معلوم نہ ہو

سوال:
زید کو احتلام ہوا، صبح اٹھ کر غسل کرکے کپڑے دھو ليے، دو دن کے بعد جب کپڑے تبدیل کرنے لگا، تو کپڑوں پر منی کا دھبہ نظر آگیا اب ان کپڑوں میں پڑھی ہوئی نمازوں کا اعادہ کرے گا یا نہیں؟
جواب:
شریعت میں کسی چیز کو حتی الامکان قریبی وقت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،  لہذا دو دن بعد کپڑے تبدیل کرتے وقت منی کا  دھبہ دیکھنے کی صورت میں یوں سمجھا جائے گا کہ یہ نشانات اس گزشتہ آخری رات کے ہیں، تو اس پر دوبارہ غسل کرنا فرض ہوگا اور اس رات کے بعد جتنی نمازیں اس حالت میں پڑھی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری ہے۔ 

حوالہ جات:
وفي الدر المختار للحصكفي  مع رد المحتار،كتاب الطهارة، باب المياه  1/ 420:
(فروع):وجد في ثوبه منيا أو بولا أو دما أعاد من آخر احتلام وبول ورعاف.
قال ابن عابدين، قوله: (أعاد من آخر احتلام إلخ) لف ونشر مرتب وفي بعض النسخ: من آخر نوم، وهو المراد بالاحتلام؛ لأن النوم سببه، كما نقله في «البحر».
وفي الجوهرة النيرة أبو بكر بن علي،  كتاب الطهارة 1/ 60:
ولو وجد في ثوبه منيا أعاد الصلاة من آخر نومة نامها فيه.
لما في البحرالرائق، كتاب الطهارة،1/ 220:
 فروع: ذكر ابن رستم في نوادره عن أبي حنيفة: من وجد في ثوبه منيا أعاد من آخر ما احتلم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:110
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




123@کسی عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنے سے وضو کا حکم

سوال:
 جو شخص با وضو ہو، اور اس کی نظرشہوت سے کسی عورت پر پڑجائے ، تواس سے وضو  ٹوٹ  جاتا ہے یا  نہیں ؟
جواب:
عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنا جائز نہیں ہے، تاہم اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ بد نظری  کرنا چونکہ گناہ ہے، لہٰذا اس کے بعد دوبارہ وضو بنانا بہتر ہے، تاہم اگر دیکھنے کے ساتھ مذی وغیرہ نکلے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

حوالہ جات:
لما في الأصل للإمام محمد بن الحسن الشيباني، كتاب الصلاة، باب الوضوء والغسل من الجنابة 1/ 36:
قلت: أرأيت رجلا توضأ، ثم نظر إلى امرأته من شهوة ولم يمذ، هل يجب عليه الوضوء؟ قال: لا.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، باب نواقض الوضوء 1/ 284:
(وینقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي: من المتوضئ الحي معتادا، أو لا، من السبيلين، أو لا، (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول أي: يلحقه حكم التطهير.
وفيه أيضا، كتاب الطهارة 1/ 206:
ومندوب في نيف وثلاثين موضعا، ذكرتها في (الخزائن) منها بعد كذب وغيبة … وبعد كل خطيئة.
وفي الفتاوى التاتار خانية لعالم بن علاءالهندي، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الغسل 1/ 284:
وليس في المذي والودي غسل، وفيهما الوضوء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:109
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




ہیٹرکےسامنے نماز پڑھنا کیسا ہے؟:

سوال:
   سردیوں کے موسم میں مساجد میں نمازیوں کے سامنے ہیٹر لگے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کے سامنے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب:
   ہیٹر کے سامنے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، کیونکہ اس کی  وجہ سے آگ کا پوجا کرنے والوں کے  ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی؛ اس وجہ سے کہ وہ  لوگ جس آگ کی عبادت کرتے ہیں وہ یا تو آتشدان میں آنگاروں کی صورت میں ہوتی ہے یا تنور میں بھڑکائی جاتی ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ ہیٹر قبلہ کی بجائے شمال یا جنوب کی جانب لگایا جائے تاکہ دل میں وسوسہ سے حفاظت ہو یا ہیٹر کے سامنے لو ہے وغیرہ کی تختی لگائی جائے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 2/ 56:
   (قوله: وإلى مصحف، أو سيف معلق) أي: لا يكره … (قوله: أو شمع أو سراج) ؛لأنهما لا يعبدان، والكراهة باعتبارها، وإنما يعبدها المجوس إذا كانت في الكانون وفيها الجمر، أو في التنور، فلا يكره التوجه إليها على غير هذا الوجه، وذكر في غاية البيان اختلاف المشايخ في التوجه إلى الشمع أو السراج، والمختار أنه لايكره.
2. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني في ما يكره في الصلاة وما لا يكره1/ 108:
   من توجه في صلاته إلى تنور فيه نار تتوقد، أو كانون فيه نار يكره، ولو توجه إلى قنديل، أو إلى سراج لم يكره، كذا في محيط السرخسي وهو الأصح.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 1/ 417:
   (أو شمع أو سراج)؛ لأنهما لا يعبدان والكراهة باعتبارها، وإنما تعبدها المجوس إذا كانت في الكانون وفيها الجمر، أو في التنور، فلا يكره التوجه إليها على غير ذلك الوجه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:4
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




123@غسل خانے میں دعا پڑھنے کا حکم

سوال:
کیا غسل خانے میں وضو کرتے وقت دعاؤں کا پڑھنا درست ہے، یا نہیں؟
جواب:
اگر غسل خانے میں بیت الخلاء (قضائے حاجت) کے لیے بھی جگہ بنائی گئی ہو، یعنی اٹیچ باتھ ہو، تو اس طرح کے غسل خانہ میں وضو کرتے ہوئے زبان سے دعائیں نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ دل میں پڑھ سکتے ہیں اور اگر غسل خانہ میں قضائے حاجت کے لیے جگہ بنی ہوئی نہ ہو اور صاف ستھرا ہو، تو ایسی صورت میں وضو کی دعائیں زبان سے پڑھ لینے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/ 39:
ويسمي قبل الاستنجاء وبعده هو الصحيح إلا مع الانكشاف وفي موضع النجاسة.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب الطهارة1/ 20:
ويسمي قبل الاستنجاء وبعده هو الصحیح.
قال ابن الهمام تحت قوله: (هو الصحيح) احتراز عما قيل: قبله فقط، وما قيل: بعده فقط؛ لأن ما قبله حال الانكشاف، والأصح قبله أيضا لا حال الانكشاف ولا في محل النجاسة.
وفي الدرالمختار للحصكفي مع ردالمحتار،كتاب الطهارة، سنن الوضوء 1/ 241،242:
والبداءة (بالتسمية) قولا … (قبل الاستنجاء) وبعده إلا حال انكشاف وفي محل النجاسة، فيسمي بقلبه.
قال ابن عابدين تحت قوله: (إلا حال انكشاف إلخ) الظاهر أن المراد أنه يسمي قبل رفع ثيابه إن كان في غير المكان المعد لقضاء الحاجة، وإلا فقبل دخوله، فلو نسي فيها سمى بقلبه، ولا يحرك لسانه تعظيما لاسم الله تعالى.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهة، الباب الرابع في الصلاة والتسبيح وقراءة القرآن والذكر والدعاء ورفع الصوت عند قراءة القرآن 5/ 389:
قراءة القرآن في الحمام على وجهين: إن رفع صوته يكره، وإن لم يرفع لايكره، وهو المختار، وأما التسبيح والتهليل لا بأس بذلك وإن رفع صوته، كذا في الفتاوى الكبرى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:107
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




بس کی دیوار پر تیمم کرنے کا حکم:

سوال:
   ایک شخص بس میں سفر کر رہا ہے، نماز کا وقت آگیا، بس میں وضو کا انتظام نہیں ہے اور ڈرائیور بس نہیں روکتا، تو یہ شخص بس کی دیوار پر تیمم کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   بس کی دیوار پر اگر گردوغبار موجود ہو، تو اس پر تیمم کرنا جائز ہے،  لیکن نماز بہر صورت کھڑے ہو کر اور قبلہ رخ  پڑھنا ضروری ہے، تاہم اگر بس ميں کھڑے ہوکر یا قبلہ رخ  پڑھنا ممکن نہ ہواور درائیور بس روکنے کے لیے آمادہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں سیٹ پر بیٹھ کر نماز پڑھ لے اور بعد میں اس  کی قضا کرلے، اور اگر بس کی دیوار پر گردوغبار نہ ہو تو تیمم کیے بغیر سیٹ پر بیٹھ  کر تشبہ بالمصلین کرے یعنی ایسی ہیت احتیار کرے جیسا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو لیکن اس میں نہ نماز کی نیت کرے اور نہ قراءت وغیرہ اور بعد میں اس نماز کا اعادہ کرلے۔

حوالہ جات:
1. الهداية، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/ 671:
   ویجوز التیمم عند أبي حنيفة ومحمدرحمهماالله بكل ما كان من جنس الأرض كالتراب والرمل والحجر والجص … وكذا يجوز بالغبار.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب الرابع في التيمم 1/ 27:
   ويجوز بالغبار مع القدرة على الصعيد، كذا في السراج الوهاج، وهو الصحيح، وصورة التيمم بالغبار: أن يضرب بيده ثوبا أو لبدا أو وسادة أو ما أشبهها من الأعيان الطاهرة التي عليها غبار، فاذا وقع الغبار على يده، تيمم، أو ينفض ثوبه حتى يرتفع غباره، فيرفع يديه في الغبار في الهواء، فاذا وقع الغبار على يديه، تيمم، كذا في المحيط.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة 1/ 472 :
   (والمحصور فاقد) الماء والتراب (الطهورين) بأن حبس في مكان نجس، ولا يمكنه إخراج تراب مطهر، وكذا العاجز عنهما؛ لمرض (يؤخرها عنده، وقالا: يتشبه) بالمصلين وجوبا، فيركع ويسجد، إن وجد مكانا يابسا وإلا يومئ قائما، ثم يعيد كالصوم (به يفتى وإليه صح رجوعه) أي: الإمام۔

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:106
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




فرض کی پہلی دو نوں رکعتوں میں سے کسی ایک میں سورت بھول جانے کا حکم:

سوال:
   امام عصر کی نماز ادا کررہا تھا اور ایک رکعت میں اس سے سورت چھوٹ گئی، تو کیا امام کی نماز درست ہے یا دوبارہ پڑھے؟
جواب:
   فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا بھی واجب ہے اور واجب چھوڑنے سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں اگر امام نے نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کرليا تھا تو اس کی نماز درست ہے، ورنہ وقت کے اندر اندر دوبارہ پڑھنا واجب ہے، اور وقت نکلنے کے بعد دوبارہ پڑھنا مستحب ہوگا۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 405:
   ولو سھا عن الفاتحة فيهما، أو في إحداهما، أو عن السورة فيهما، أو في إحداهما، فعليه السهو.
2. تبيين الحقائق للزيلعي،كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 473:
   ولو قرأ الفاتحة وحدها وترك السورة، يجب عليه سجود السهو.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:108
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




آخری قعدہ کرکےبھولےسے کھڑا ہونا:

سوال:
   کوئی شخص چار رکعت والی نماز میں آخری قعدہ کرکے بھولے سے کھڑا ہوگیا، پھر یاد آنے پربیٹھ گیا، اب یہ شخص    تشہد پڑھ کر سجدۂ سہو کرے گا، یا بیٹھتے ہی سجدہ سہو کرے گا؟
جواب:
    مذكوره صورت میں اس شخص كے ليے دوبارہ تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ بیٹھتے ہی سجدۂ سہو کرے، اور سجدۂ سہو کے بعد التحیات وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 2/ 667:
   (وإن قعد في الرابعة)، مثلا قدر التشهد (ثم قام، عاد، وسلم) ولو سلم قائما صح … (وسجد للسهو) في الصورتين.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (عاد، وسلم)، أي: عاد للجلوس؛ لما مر أن دون الركعة محل الرفض، وفيه إشارة إلى أنه لا يعيد التشهد.
2. أيضا، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 2/ 651:
   (ویجب) … سجدتان، ويجب أيضا (تشهد وسلام)؛ لأن سجود السهو يرفع التشهد دون القعدة لقوتها.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب الثاني عشر في سجود السهو 1/ 129:
   رجل صلى الظهر خمسا، وقعد في الرابعة قدر التشهد، إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة، أنها الخامسة، عاد إلى القعدة وسلم، هكذا في المحيط، ويسجد للسهو، وكذا في السراج الوهاج.
4. الجوهرة النيرة لأبي بكر الحدادي، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 202:
   (وإن قعد في الرابعة قدر التشهد، ثم قام إلى الخامسة، ولم يسلم يظنها القعدة الأولى، عاد إلى القعود ما لم يسجد في الخامسة، ويسلم، ويسجد للسهو)؛ لأن التسليم في حالة القيام غير مشروع في الصلاة المطلقة، فإن سلم قائما، لا تفسد صلاته، ولو عاد لايعيد التشهد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:104
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




دوران غسل پانی کی چھینٹیں بالٹی میں گرنے کا حکم:

سوال:
   کوئی شخص غسل جنابت کررہا ہو،غسل کا پانی بالٹی میں ہو،اور جسم پر پانی ڈالتے وقت چھینٹیں بالٹی میں گرجاتے ہوں، تو کیا بالٹی  کا پانی ناپاک ہوجائے گا یا نہیں؟
جواب:
   غسل جنابت کرتے وقت اگر جسم پر ظاہری گندگی لگی ہوئی نہ ہو، تو ان چھینٹوں کی وجہ سے بالٹی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا، البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ بالٹی ایسی جگہ رکھی جائے کہ اس قسم کی چھینٹیں نہ پڑیں۔

حوالہ جات:
1. المبسوط للسرخسي، باب الوضوء والغسل 1/ 46:
  (جنب) اغتسل فانتضح من غسله في إنائه لم يفسد عليه الماء لقول ابن عباس – رضي الله تعالى عنهما – ومن يملك سيل الماء. ولما سئل الحسن عن هذا فقال إنا لنرجو من رحمة الله ما هو أوسع من هذا، أشار إلى أن ما لا يستطاع الامتناع منه يكون عفوا فإن كان ذلك الماء يسيل في إنائه لم يجز الاغتسال بذلك الماء يريد به أن الكثير يمكن التحرز عنه فلا يجعل عفوا، والحد الفاصل بين القليل، والكثير إن كان يستبين مواقع القطر في الإناء يكون كثيرا..
2. الفتاوى الهندية، الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ 1/ 23:
  جنب اغتسل فانتضح من غسله شيء في إنائه لم يفسد عليه الماء. أما إذا كان يسيل منه سيلانا أفسده، وكذا حوض الحمام على قول محمد – رحمه الله – لا يفسده ما لم يغلب عليه يعني لا يخرجه من الطهورية. كذا في الخلاصة..

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:103
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




سونے یاچاندی کے برتن سےوضو کرنا:

سوال:
   کيا فرماتے ہیں علمائے كرام کہ سونے اور چاندی کے برتن یا لوٹے سے وضو کرنا کیسا ہے؟
جواب:
   سونے اور چاندی کے برتن یا لوٹے سے وضو کرنا مکروہ ہے، تاہم اگر کسی نے ان برتنوں  سے وضو کرکے نماز ادا کر لی، تو نماز ادا ہو جائے گی، دہرانے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوی الهندية للجنة العلماء،كتاب الكراهية، الباب العاشر في استعمال الذهب والفضة 5 /334 :
   يكره الأكل بملعقة الذهب والفضة وعلی خوان الذهب والفضة، والوضوء من طست الذهب والفضة، وكذا الإبريق  من ذلك.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الحضر والإباحة 9/ 564:
   وكره الأكل والشرب والإدهان والتطيب من إناء ذهب وفضة للرجال والمرأة.
   قال ابن عابدين تحت قوله:(وما أشبه ذلك إلخ): ومنه الخوان من الذهب والفضة، والوضوء من طست أو إبريق منهما.
3. فتاوي قاضي خان لحسن بن منصور الأوزالجندي،كتاب الحضروالإباحة، باب ما يكره من الثياب والحلي إلخ 2 /316:
   ويكره أن يتوضأ في طست من الذهب أو الفضة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:102
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




غسلِ جنابت کے لیےپانی کی مقدار:

سوال:
    غسلِ جنابت کے لیے کتنا لیٹر پانی استعمال کرنا چاہیے، تفصیل سے بتائیں اور یہ بھی بتائیں  کہ حضور اکرم ﷺ غسل کے لیے کتنے لیٹر پانی استعمال کیا کرتے تھے، نیز ایک صاع اور مد میں کتنے لیٹر پانی ہوتا ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ شریعت نے غسل اور وضو کے لیے پانی کے استعمال کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں کی ہے، جس سے کم یا زیادہ استعمال کرنا درست نہ ہو، البتہ اسراف سے بچتے ہوئے ہر شخص کے لیے اپنی حالت کے اعتبار سے جتنا پانی بھی کافی ہو جائے، تو درست ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے لیے عموما ایک صاع اور وضو کے لیے ایک مد پانی استعمال کیا کرتےتھے، مروجہ اوزان کے مطابق ایک مد کا وزن اڑسٹھ (68) تولہ تین(3)  ماشہ ہے، جو آج کل کے حساب سے(068 .796 ) گرا م بنتا ہے، جبکہ صاع تقریبا دوسو تہتر  (273) تولہ ہے، جو آج کل کے حساب سے(3.184) گرام بنتا ہے۔

حوالہ جات:
1. ردالمحتار لابن عابدين الشامي، كتاب الطهارة، مطلب: في تحرير الصّاع والمدّ والرطل1/ 324:
   نقل غیر واحد إجماع المسلمين على أن ما يجزئ في الوضوء والغسل غير مقدر بمقدار، وما في الظاهر الرواية من أن أدنى ما يكفي في الغسل صاع، و في الوضوء مد للحديث المتفق عليه: (كانﷺ يتوضأ بالمد، ويغتسل بالصاع إلى خمسة أمداد) ليس بتقدير لازم، بل هو بيان أدنى القدر المسنون.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، صفةالغسل1/ 144:
   أدنى ما يكفي في الغسل من الماء صاع، وفي الوضوء مد؛ لما روي عن جابر رضى الله عنه : (أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتوضأ بالمد، ويغتسل بالصاع، فقيل له: إن  لم يكفينا، فغضب، وقال: لقد كفى من هو خير منكم، وأكثر شعرا)…ثم هذا التقدير الذي ذكره محمد من الصاع والمد في الغسل والوضوء ليس بتقدير لازم بحيث لا يجوز النقصان عنه أو الزيادة عليه، بل هو بيان مقدار أدنى الكفاية عادة، حتى إن من أسبغ الوضوء والغسل بدون ذلك أجزأه، وإن لم يكفه زاد عليه؛ لأن طبائع الناس وأحوالهم تختل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:101
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20