Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

اذان میں ”حا“ کی جگہ”ھا“ پڑھنا کیسا ہے؟:

سوال:
   ایک بندہ اذان میں تجویدی غلطیاں کرتا ہے، یعنی ”حا“ کی جگہ ”ھا“ پڑھتا ہے، تو کیا اس اذان کا اعادہ واجب ہے، یا نہیں؟
جواب:
   اگر مؤذن اذان میں ایسی غلطی کر رہا ہو کہ جس سے معنی بالکل بدل جائے، تو ایسی صورت میں اذان واجب الاعادہ ہوگی، لیکن اگرغلطی معمولی ہو، جس سے معنی میں بہت فرق نہ آتا ہو، جیسے ”حا“ کی جگہ ”ھا“ پڑھے، تو اس سے اگرچہ اذان ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ، لیکن اس طرح اذان دینا مکروہ ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب الأذان 2/ 66:
   (ولا ترجيع) فإنه مكروه، ”ملتقی“ (ولا لحن فيه) أي: تغني بغير كلماته، فإنه لا يحل فعله وسماعه كالتغني بالقرآن.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الأذان، الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتها 1/ 63:
   ويكره التلحين، وهو التغني بحيث يؤدي إلى تغير كلماته، كذا في شرح المجمع لابن الملك.
3. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الصلاة، باب الأذان 1/ 78:
   (ويكره التلحين) وهو التطريب، والخطأ في الإعراب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:123
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9

 




کیا مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے استنجاء کرنا لازم ہے؟:

سوال:
   کوئی عورت حالتِ استحاضہ میں ہو، اور سفر کرتے ہوئے راستے میں نماز کا وقت آجائے، تو کیا اس پر استنجا کرنا لازم ہے، یا نہیں؟
جواب:
   مستحاضہ پر عام حالات میں استحاضہ کی وجہ سے استنجاء کرنا لازم نہیں، تاہم اگر استحاضہ کا خون اپنے حدود سے تجاوز کر چکا ہو تو اس کو پانی یا ٹشو وغیرہ سے صاف کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 373:
   قوله وتتوضأ المستحاضة ومن به سلس البول… لوقت كل فرض وقيد بالوضوء؛ لأنه لايجب عليها الاستنجاء لوقت كل صلاة، كذا في الظهيرية أيضا.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، المقدار المعفو عنه من النجاسة 1/ 232:
   ولنا ما روي عن عمر رضي الله عنه أنه سئل عن القليل من النجاسة فى الثوب، فقال: إذا كان مثل ظفري هذا، لا يمنع جواز الصلاة؛ ولأن القليل من النجاسة مما لايمكن الإحتراز عنه… ولأنا أجمعنا على جواز الصلاة بدون الاستنجاء بالماء… ولهذا قدرنا بالدرهم على سبيل الكناية عن موضع خروج الحدث.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:122
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6




نا بالغ بچوں کو مقتدی بناکر جماعت کرانا کیسا ہے؟:

سوال:
   اگر کسی جگہ بالغ مقتدی موجود نہ ہوں، تو صرف نا بالغ بچوں کو مقتدی بنا کر جماعت کرانے سے جماعت کا ثواب ملے گا؟  
جواب:
   اگر یہ بچے نا بالغ ہیں، لیکن سمجھ دار ہیں، تو ان کو مقتدی بنا کر نمازپڑھانے سے جماعت کا ثواب مل جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الإمامة 2/ 344:
   (وأقلها اثنان) واحد مع الإمام، ولو مميزا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (وأقلها اثنان)؛ لحديث ”اثنان فما فوقها جماعة“…(ولو مميزا) أي: ولو كان الواحد المقتدي صبيا مميزا.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، صلاة الجماعة وأحكامها 1/ 385:
   وأما بيان من تنعقد به الجماعة، فأقل من تنعقد به الجماعة اثنان، وهو أن يكون مع الإمام واحد؛ لقول النبيﷺ: ”الاثنان فما فوقهما جماعة“… وسواء كان ذلك الواحد رجلاً أو امرأة أو صبيا يعقل؛ لأن النبيﷺ سمى الاثنين مطلقا جماعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:121
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6

 




حائضہ کے لیے قرآن کریم کی تفسیر چھونےکا حکم:

سوال:
   عورت حالتِ حیض میں تفسیر پڑھ سکتی ہے، یا نہیں؟ اور تفسیر کو ہاتھ لگا سکتی ہے، یا نہیں؟ 
جواب:
   عورت کے لیے حالتِ حیض میں ایسی تفسیرکا چُھونا  کہ جس میں تفسیر زیادہ ہو جائز ہے، لیکن آیتِ قرآن کو زبان سے پڑھنا یا اس کو چُھونا جائز نہیں، البتہ جس تفسیر میں تشریح کم ہو اور قرآنی عبارت وترجمہ کی مقدار زیادہ ہو، یا تفسیر اور قرآنی آیات دونوں برابر ہوں، تو اس کو کپڑے وغیرہ کے بغیر چھونا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب: يطلق الدعاء على ما يشتمل الثناء 1/ 353:

   وقد جوز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث، ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا، ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (ولو قيل به) أي: بهذا التفصيل، بأن يقول: إن كان التفسير أكثر لا يكره، وإن كان القرآن أكثر يكره.
2. النهر الفائق لعمر بن إبراهيم بن نجيم، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 134:
   (ومنع الحدث) الأصغر (المس): مس القرآن فقط؛ لإطلاق ما تلونا، قيد به؛ لأن مس كتب الحديث والفقه الأصح أي: أنه لا يكره عند الإمام، ويكره عندهما، كذا في”الخلاصة“ وفي ”شرح الدرر“ ورخص المس باليد في الكتب الشرعية إلا التفسير، ذكره في ”مجمع الفتاوى“ وغيره، ولا يخفي أن مقتضى ما في ”الخلاصة“ عدم الكراهة مطلقا؛ لأن من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، ومن نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، وهذا يعم التفسير أيضا إلا أن يقال: إن القرآن فيه أكثر من غيره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:120
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6

 




پینٹ یا ڈسٹمپر شدہ دیوار پر تیمم کرنا:

سوال:
   جس دیوار پر پینٹ یا ڈسٹمپر وغیرہ لگا ہوا ہوایسی دیوار پر تیمم کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی چیز سے تیمم کے جواز کے لیے اصول یہ ہیں کہ تیمم ان چیزوں سے کرنا درست ہے جو پاک ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی جنس میں سے ہوں، زمین کی جنس سے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ جلانے سے راکھ نہ بنے اور پگھلانے سے پگھلے نہیں، جیسے ریت، اینٹ ، سنگ مرمر، ماربل وغیرہ اور اگر زمین کی جنس سے نہ ہوں یعنی جلانے سے جل کر راکھ ہوجائیں یا پگھلانے سے پگھل جائیں، جیسے سونا، چاندی، لکڑی، کپڑا، شیشہ، لوہا، تانبا، اناج وغیرہ، تو ایسی چیزوں سے تیمم کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ ان پر گرد و غبار موجود ہو، چونکہ پینٹ اور ڈسٹمپر آگ میں جلانے سے جل جاتے ہیں، اس لیے  مذکورہ صورت میں یینٹ یا ڈسٹمپر کی ہوئی دیوار پر گرد وغبار موجود ہو تو اس پر تیمم کرنا درست ہے ورنہ درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختارللحصكفي، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/ 451:
   (أو نفساء بمطهر من جنس الأرض وإن لم يكن عليه نقع) أي: غبار.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (من جنس الأرض) الفارق بين جنس الأرض وغيره، أن كل ما يحترق بالنار، فيصير رماداً كالشجر والحشيش،أو ينطبع، ويلين كالحديد والصفر والذهب والزجاج ونحوها، فليس من جنس الأرض.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، بيان ما يتيمم 1/ 182:
   ويجوز التيمم بالغبار بأن ضرب يده على ثوب أو لبد أو صفة سرج، فارتفع غباراً، وكان على الذهب أو الفضة أو على الحنطة أو الشعير أو نحوها غبار فتيمم به أجزأه في قول أبي حنيفة ومحمدؒ.
3. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل الخامس في التيمم 1/ 374:
   ولا يجوز التيمم بما ليس من جنس الأرض نحو الذهب والفضة والرصاص والزجاجة والحنطة والشعير وسائر الحبوب والأطعمة، وفي الخلاصة: والبورق، وفي الظهيرية: والعنبر والكافور والمسك والحناء، وفي السراجية: والنشارة… وقالو أيضا في الحنطة والشعير وسائر الحبوب إذا كان عليه غبار، جاز التيمم، وإنه صحيح أيضا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:119
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6

 




موزوں پر مسح کی مدت ختم ہونے سے پہلے اتارنے کا حکم:

سوال:
   موزوں پر مسح کرنے کے بعد ان کو اتاردیا، تو  پاؤں دھوئے بغیر ان کو پہن کر مسح کرنا درست ہے؟
جواب:
   موزوں پر مسح کرنے کے بعد اگر با وضو ہونے کی حالت میں ان کو اتار دیا، تو صرف پاؤں دھو کر موزہ پہننا درست ہے، اور اگر بے وضو ہونے کی حالت میں اتاردیا تو دوبارہ وضو کرکے پہننا ضروری ہے، لہذا مذکورہ صورت میں پاؤں دھوئے بغیر موزے پہننا درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، مطلب بيان مدة المسح 1/ 88:
   ومنها: نزع الخفين؛ لأنه إذا نزعها فقد سرى الحدث السابق إلى القدمين، ثم إن كان محدثا يتوضأ بكماله، ويصلي، وإن لم يكن محدثا يغسل قدميه لا غير، ولا يستقبل الوضوء.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين 1/ 39:
   وإذا نزع الخف، وهو طاهر لا يجب عليه، إلا غسل رجليه، وكذا إذا انقضت مدة مسحه، هكذا في الهداية.
3. المبسوط لشمس الدين السرخسي، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين 1/ 102:
   وإن مسح على الخفين، ثم نزع أحدهما، انتقض مسحه في الرجلين، وعليه غسلهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:118
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-5

 




قربانی کا گوشت امام مسجد کو کھلانا کیسا ہے؟:

سوال:
   ہمارے علاقے میں عام طور پر ائمہ حضرات کو محلے والے جو کھانا کهلاتے ہیں، وہ ”المعروف کالمشروط“ کے قاعدے کے مطابق اجرت کا حصہ ہوتا ہے، صدقہ اور تبرع اس لیے نہیں ہے، کہ اگر باری والے کھانا لانا بھول جائے، یا اچھا کھانا نہ پکائے، تو لوگ بھی برا بھلا کہتے ہیں، اور امام صاحب بھی ناراض ہوتےہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا قربانی کا گوشت ائمہ کو کھلا سکتے ہيں یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ قربانی کا گوشت کسی کو بطور اجرت کھلانا اگرچہ جائز نہیں لیکن محلہ والوں  کا پیش امام کو قربانی کا گوشت  کھلانا اجرت یا تنخوا کی  بنیاد پر نہیں ہوتا،  بلکہ ایک وعدہ کی شکل میں  تبرع اور احسان کے طور پر ہوتا ہے، لہذا محلہ والوں کا  پیش امام کو قربانی کا گوشت کھلانا یا دینا درست ہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار، فروع 329/6:
ولا يعطى أجر الجزار منها «لقوله – عليه الصلاة والسلام – لعلي – رضي الله عنه – تصدق بجلالها وخطامها ولا تعط أجر الجزاز منها شيئا»
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الأضحىة 9/ 532:

   (ویأكل من لحوم الأضحية، ويطعم الأغنياء، ويدخر) لقوله عليه السلام:كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي، فكلو منها، وادخرو، ومتى جاز أكله، وهو غني جاز أن يؤكله غنيا.
3. درر الحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر خواجه أمين أفندي 57/1:
فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:117
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-5




غسل خانہ میں پیشاب کرنے کا حکم:

سوال:
   غسل خانہ میں پیشاب کرنا جائز ہے یا نا جائز؟
جواب:
   غسل خانہ میں پیشاب کرنا مکروہ ہے؛ کیونکہ اس سے وسوسوں کی بیماری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، البتہ اگر غسل خانہ کے ساتھ کموڈ کا انتظام موجود ہو تو کموڈ میں قضائے حاجت کرکے غسل کرے تو مکروہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي،كتاب الطهارة، فصل الاستنجاء 1/ 611:
   (وكذا يكره (… أو يبول في (موضع) و(يتوضأ) بـ هو أو (يغتسل فيه) لحديث: لا يبولن أحدكم في مستحمه؛ فإن عامة الوسواس منه.
    قال ابن عابدين: تحت قوله (لحديث إلخ) …  وإنما نهي عن ذلك إذا لم يكن له مسلك يذهب فيه البول، أو كان المكان صلبا، فيوهم المغتسل أنه أصابه منه شيء، فيحصل به الوسواس، كما في نهاية ابن الأثير.
2. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الاستنجاء 1/ 89:
   قوله: ويكره في محل التوضؤ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: لا يبولن أحدكم في مستحمه، ثم يغتسل فيه، أو يتوضأ فيه، فإن عامة الوسواس منه، قال ابن الملك: لأن  ذلك الموضع يصير نجسا، فيقع في قلبه وسوسة بأنه هل أصابه منه رشاش أم لا، حتى لو كان بحيث لا يعود منه رشاش، أو كان فيه منفذ بحيث لا يثبت شيء من البول لم يكره البول فيه، إذ لا يجره إلى الوسوسة حينئذ لأمنه من عود الرشاش إليه في الأول، ولطهر أرضه في الثاني بأدنى ماء طهور يمر عليها، كذا في شرح المشكاة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:116
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-4

 




محلہ کی مسجدچھوڑ کر دوسری مسجد ختم قرآ ن کے لیے جانا کیسا ہے؟:

سوال:
  اگر کسی محلے کی مسجد میں تراویح میں ختم قرآن نہ ہوتا ہو، تو دوسری مسجد جہاں پر ختم قرآن ہورہا ہو جانا اور تراویح میں قرآن کریم سننا جائز ہے؟ 
جواب:
   واضح رہے کہ رمضان المبارک میں تراویح میں ایک مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا مسنون ہے، چاہے اپنے محلہ کی مسجد میں ہو یا دوسرے محلہ کی مسجد میں، اس لیےمذکورہ صورت  میں جب اپنے محلہ کی مسجد میں ختم قرآن نہ ہوتا ہو، تودوسرے محلہ کی مسجد جا کر تراویح میں قرآن کریم سننا بلا کراہت جائز ہے، بشرطیکہ  دوسری مسجد میں ختم قرآن شریعت کے اصولوں کے مطابق ہورہا ہو ورنہ اپنے محلے کی مسجد میں تراویح چھوٹی سورتوں  کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح 1/ 116، 117:
   قال الإمام: إذا كان إمامه لحانا، لا بأس بأن يترك مسجده، ويطوف، وكذلك إذا كان غيره أخف قراءة وأحسن صوتا، وبهذا تبين أنه إذا كان لا يختم في مسجد حيه، له أن يترك مسجد حيه، ويطوف، كذا في المحيط … السنة في التراويح إنما هو الختم مرة.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل 2/ 121:
   وإذا كان إمام مسجد حيه لا يختم، فله أن يترك إلى غيره.
 

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:115
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-4

 




قبرستان میں جوتے پہن کر چلنا:

سوال:
   کیا قبرستان میں جوتے پہن کر چلنا شرعا جائز ہے؟
جواب:
   قبرستان میں بنے ہوئے راستوں میں جوتیاں پہن کر چلنا جائز ہے، البتہ اگر یہ ظن غالب ہو کہ یہ راستے قبروں کے اوپر بنائے گئے ہیں، جن میں مردے موجود ہوں گے، اور ننگے پیرچلنے ميں زیادہ دشواری نہ ہو تو ایسی صورت میں جوتیوں سمیت قبرستان میں چلنا قبروں کی بے احترامی کی وجہ سے مکروہ ہوگا، لیکن اگر ان راستوں کے نیچے قبریں موجود نہ ہوں تو ایسی صورت میں جوتوں سمیت چلنے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، فصل في زيارة القبور، ص: 623:
   (و) کرہ (وطؤھا) بالأقدام؛ لما فيه من عدم الاحترام، وأخبرني شيخي العلامة محمد بن أحمد الحموي الحنفي رحمه الله: بأنهم يتأذون بخفق النعال … ولو وجد طريقا في المقبرة، وهو يظن أنه طريق أحدثوا، لا يمشي في ذلك، وإن لم يقع ذلك في ضميره، لا بأس بأن يمشي فيه.
   قال الطحطاوي: تحت (قوله: أنه طريق أحدثوا) أي: وتحته الأموات، كما قيد به بعضهم.
2. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الصلاة، باب في غسل الميت إلخ 1/ 172:
   ولو وجد طريقا في المقبرة، وهو يظن أنه طريق أحدثوا، لا يمشي في ذلك، وإن لم يقع ذلك في ضميره، لا بأس بأن يمشي فيه.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الصلاة الجنازة 3/ 183:
   يكره المشي في طريق ظن أنه محدث، حتى إذا لم يصل إلى قبره إلا بوطء قبر، تركه.
4. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الفصل السادس في المقبرة والدفن والنقل من مكان إلى آخر 1/ 167:
   والمشی فی المقابرة بنعلين لا يكره عندنا، كذا في السراج الوهاج.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:114
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-3