Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

123@زکوۃ کی رقم سے خریدی گئی کتابیں صرف استعمال کے لیے دینا

سوال:
زکوۃ کی رقم سے اہلِ مدرسہ کتابیں خرید کر طلباء کو صرف استعمال کے لیے دیتے ہیں اور سال ختم ہونے پر اہلِ مدرسہ ان سے واپس لیتے ہیں اس سے زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ زکوۃ کے روپیہ کے لیے تملیک یعنی مستحقِ زکوۃ کو مالک بنانا شرط ہے، اور کتب خرید کر طلباء کو صرف استعمال کے لیے دینے سے تملیک نہیں پائی جاتی اس  لیے مذکورہ صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی، زکوۃ کی درست ادائیگی کے لیے ان کو باقاعدہ بااختیار مالک بنانا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المختار، كتاب الزكاة، باب المصرف 2 /345،344:
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).
وفيه ايضا، كتاب الزكاة، باب المصرف 2 /271:
وحيلة التكفين بها التصدق على فقير، ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما، وكذا في تعمير المسجد.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 188:
ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر153
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19

 




سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا

سوال:
   ایک مرتبہ فرض نماز کے بعد دعا ہوجائے، تو پھر امام کا نماز کی سنتوں کے بعد دوبارہ اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   امام کو فرض نماز کے بعد دعا کرلینی چاہیے، سنتوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے، بلکہ سنتوں کے بعد دعا انفرادی طورپر کرنی چاہیے کیونکہ فرض نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد سنت اور نفل نماز انفرادی طورپر ادا کی جاتی ہے، لہذا اس کے بعد اجتماعی دعا مانگنا نبی کریمﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا ضروری ہے، تاہم سنت اور لازم نہ سمجھتے ہوئے کبھی کبھار اگر کسی نے سنتوں کے بعد دعا مانگ لی، تو اس کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
1. إعلاء السنن لظفر أحمد العثماني، كتاب الصلاة، بيان ما يقرأ إذا فرغ من الصلاة 3/ 205:
   ورحم الله طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حيث واظبوا على أن الإمام، ومن معه يقومون بعد المكتوبة بعد قرائتهم: (أللهم أنت السلام ومنك السلام إلخ)، ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل يدعو الإمام عقب الفاتحة جهرا بدعاء مرة ثانية، والمقتدون يؤمنون على ذلك، وقد جرى العمل منهم بذلك على سبيل الالتزام والدوام حتى أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومين ضروري واجب…ومن لم يرض بذلك يعزلونه عن الإمامة ويطعنونه، و             لا يصلون خلف من لا يصنع بمثل صنيعهم، وأيم الله! إن هذا أمر محدث في الدين.
2. سنن أبي داود، باب ركعتي المغرب، أين تصليان، الرقم: 1301:
   عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يطيل القراءة في الركعتين بعد المغرب حتى يتفرق أهل المسجد.
3. معارف السنن، بيان الأحاديث الواردة في الدعاء بعد الصلاة وحكمها 3 /124:
    ثم إن ما راج في كثير من بلاد الهند الجنوبية الدعاء بكيفية مخصوصة بعد الرواتب: يستقبل الإمام المقتدين، ويدعون رافعي أيديهم، ثم ينادي الإمام بصوت حال: الفاتحة، فيقرأ هو والمقتديون الفاتحة، ثم يصلون على النبي ﷺ وبعضهم يتفنن فيه فيقول: إلى روح النبي الكريم ﷺ الفاتحة، ويواظبون على هذا طول أعمارهم في جميع صلواتهم، ويلتزمونه التزام واجب، وينكرون على تحقيق معنى الإنصراف عن اليمين واليسار بعد الصلاة الإمام وماموم لا يفعل ذلك، وربما يفضى بهم الإنكار إلى خصام شديد وجدال قبيح، بل يؤدي إلى قبائح وفظائع من الجهالات الفاحشة، ففي مثل هذه يقال إنه بدعة تضمنت بدعات كثيرة، لا أرى لمثل هذا وجهة من السنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر152
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19




123@ولی اقرب کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نکاح کرانا کیسا ہے؟

سوال:
ہندہ کا باپ فوت ہوگیا، اور ہندہ کا چچا اپنے شہر سے مسافت شرعی سے زیادہ فاصلے پر گیا ہے، اب ہندہ کی والدہ نے ہندہ کا نکاح خود کر دیا، چچا کو اطلاع نہ دی، تو کیا یہ شرعا جائز ہے؟
جواب:
شرعا اگرچہ ولایت میں چچا ماں سے مقدم ہے، لیکن اگر چچا اتنا دور ہو کہ اس کے آنے تک انتظار کرنے میں مناسب رشتہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو والدہ کا کیا ہوا نکاح درست ہے، اور اگر اتنا دور نہ ہو، تو ایسی صورت میں والدہ کا کیا ہوا نکاح چچا کی اجازت پر موقوف ہوگا، اگر اس نے اجازت دے دی تو نکاح درست ہے ورنہ درست  نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي 3/ 78،76:
(الوالي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه) وهو من يتصل بالميت حتى المعتقة (بلا توسطة أنثى) بيان لما قبله (على ترتيب الإرث والحجب)… (فإن لم يكن عصبة فالولاية للأم) ثم لأم الأب وفي القنية عكسه…(وللولي الأبعد التزويج بغيبة الأقرب) فلو زوج الأبعد حال قيام الأقرب توقف على إجازته ولو تحولت الولاية إليه لم يجز إلا بإجازته بعد التحول.
وفي التاتارخانية عالم بن العلاء الهندي، كتاب النكاح، الفصل معرفة الأولياء 4/ 91:
وإن زوج الصغيرة أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:150
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-17

 




@123گونگا اپنی بیوی کو کیسے طلاق دےگا؟

سوال:
گونگے آدمی کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کی کیا صورت ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ جو شخص پیدائشی گونگا ہو یا بعد میں گونگا ہوگیا ہو اور اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہو، اور اس کے اشارے جانے پہچانے ہوں اور وہ لکھنے پر قادر نہ ہو، تو اگر اس نے اپنی بیوی کو آواز کے ساتھ ایسے اشارے سے طلاق دی، جسے لوگ طلاق سمجھتے ہوں تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، لیکن اگر وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو، تو اس کی طلاق لکھنے سے ہی پڑے گی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطلاق، مطلب في تعريف السكران وحكمه 3/ 241:
ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس، أو طرأ عليه ذلك، ودام حتى صارت إشارته مفهومة، وإلا لم يعتبر… ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لا يكتب، وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه، أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق وفيه سبعة فصول، الفصل الأول في الطلاق الصريح 1 / 354:
ويقع طلاق الأخرس بالإشارة يريد بالأخرس الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة كذا في المضمرات… وإذا كان الأخرس يكتب كتابا يجوز به طلاقه كذا في الهداية في مسائل شتى.
وفی تبيين الحقائق عثمان بن علي الزيلعي الحنفي، کتاب الطلاق 2/ 196:
وطلاق الأخرس بالإشارة إن كانت تعرف؛ لأنه يحتاج إلى ما يحتاج إليه الناطق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:149
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-17

 




خانہ کعبہ کی تصویر والے جائے نماز پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سوال:
   جس جائے نماز پر خانہ کعبہ کی تصویر ہو اس پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب:
   خانہ کعبہ کی تصویر والی جائے نماز پر اگرچہ نماز پڑھنا جائز ہے تاہم جائے نماز وغیرہ پر نقش ونگار پسندیدہ نہیں؛ کیونکہ اس کی وجہ سے خشوع وخضوع میں خلل واقع ہوتا ہے، نیز جس جائے نماز پر خانہ کعبہ کی تصویرہو اس کا احترام کرنا لازم ہے، لہذا تصویر والی جگہ  پر پاؤں رکھنے، یا بیٹھنے سے اجتناب کیا جائے۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 1/ 283:
    (ولا يكره تمثال غير ذي الروح) ؛ لأنه لا يعبد.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها 1/ 415:
   (ولبس ثوب فيه تصاوير)؛ لأنه يشبه حامل الصنم، فيكره … (إلا أن تكون صغيرة)… (أو مقطوعة الرأس) … (أو لغير ذي روح) أي: أو كانت الصورة صورة غير ذي الروح مثل أن تكون صورة النخل وغيره من الأشجار؛ لأنها لا تعبد عادة.
3. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 1/658:
قوله ( لأنه يلهي المصلي ) أي فيخل بخشوعه من النظر إلى موضع سجوده ونحوه، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاة أنه ينبغي الخشوع فيها، ويكون منتهى بصره إلى موضع سجوده الخ، وكذا صرح في الأشباه أن الخشوع في الصلاة مستحب،والظاهر من هذا أن الكراهة هنا تنزيهية فافهم.

  

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:148
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-02




دورانِ اذان کھانسی کی وجہ سے وقفہ کرنا:

سوال:
   ایک شخص اذان دے رہا تھا اچانک اس کو کھانسی آئی جس کی وجہ سے اذان چھوڑ دیا، اب یہ شخص دوبارہ اذان دے گا یا بنا کرے گا یعنی جہاں سے اذان چھوٹ گئی تھی  وہی سے شروع کرے گا؟
جواب:
اگر اذان دیتے ہوئے  کھانسی کی وجہ سے اس شخص نے اذان میں معمولی سا وقفہ کیا ہو  مثلا ایک آدھ منٹ، تو اذان کو جاری رکھے، اور اگر بیچ میں وقفہ زیادہ آیا ہو مثلا تین چار منٹ ہو، تو ازسر نو اذان دے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الأذان 1/ 459:
   وفي القنية: وقف في الأذان لتنحنح أو سعال لا يعيد، وإن كانت الوقفة كثيرة، يعيد.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الأذان 1/ 61:
   إذا وقف في خلال الأذان يعيده إذا كانت الوقفة بحيث تعد فاصلة، وإن كانت يسيرة، مثل التنحنح والسعال، لا يعيد،
3. الفتاوى التاتارخانية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الأذان 2/ 149:
   سئل عمن یقف فی خلال الأذان: قال: يعيد الأذان، قال رضي الله عنه: هذا إذا كانت الوقفة كثيرة، بحيث تعد فاصلة، فأما إذا كانت يسيرة مثل التنحنح، والسعال، فإنه لا يعيد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:147
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-02




جائے ملازمت میں پندرہ دن سے کم قیام ہو، تو نمازکس طرح پڑھے؟

سوال:
   میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میری ڈیوٹی شانگلہ سوات میں ہے اور گھر مردان میں ہے، ڈیوٹی کی جگہ گھر سے مسافت ِسفر پر ہے، لیکن میں مہینے میں بارہ دن ڈیوٹی پر ہوتا ہوں، اور پھر پانچ (5) چھ(6) دن چھٹی پر گھر آتا ہوں، سوال یہ ہے کہ میں ڈیوٹی کے دنوں میں وہاں قصر کی نماز پڑھوں یا پوری نماز؟ 
جواب:
   مذكوره صورت میں اگرآپ شانگلہ جاکر بارہ دن گزار کر واپس مردان آجاتے ہیں تو آپ شانگلہ میں قصر یعنی سفرانہ نماز پڑھیں گے، البتہ اگر آپ ایک دفعہ بھی شانگلہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرکے وہاں مقیم ہوگئے، تو شانگلہ آپ کا وطن اقامت بن جائے گا، پھر جب تک نوکری کے سلسلے میں وہاں آپ کا آنا جانا رہے گا، اس وقت تک پوری نماز پڑھیں گے، چاہیے تین چار دن کے لیے ٹھہرنا ہو۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن بكر المرغيناني، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 1/ 363:
   ولا یزال علی حكم السفر حتى ينوي الإقامة في قرية أو بلدة خمسة عشر يوما، أو أكثر، وإن نوى الإقامة أقل من ذلك، قصر.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 2/ 729:
   (فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي: في نصف شهر.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، فصل ما يصير المسافر به مقيما 1/268:
   فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة … وهي خمسة عشر يوما.
4. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب صلاۃ المسافر 2/ 233، 239:
   (وقصر إن نوى أقل منها، أو لم ينو، وبقي سنين) أي: أقل من نصف شهر … وقیل: تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا، فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن،  كوطن الإقامة تبقی ببقاء الثقل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:146
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-02

 




ریکاڈ شدہ تلاوت سننے سے سجدۂ تلاوت کا حکم:

سوال:
   ٹی وی کیمرہ یا کیسٹ میں ریکارڈ شدہ تلاوت سنتے وقت اگر آیتِ سجدہ آئے تو اس کے سننے سے سجدۂ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟
جواب:
   ریکارڈ شدہ تلاوت کی آواز کی حیثیت آواز بازگشت اور طوطے کی آواز کی طرح ہے، اور آوازِ باز گشت اور طوطے کی آواز کے سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوتا، اس لیے ریکارڈ شدہ تلاوت میں آیتِ سجدہ  سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. النهر الفائق لعمر بن إبراهيم بن نجيم، كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة 1/ 339:
   (أو ) من (سمع) وعلى من سمع آية السجدة (وكان غير قاصد) للسماع بشرط كون المسموع منه آدميا، وجب عليه الصلاة، أو لا، حتى لو سمعها من طير، لا تجب.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، فصل بيان من تجب عليه 1/ 440:
   فینظر إلى أهلية التالي، وأهليته بالتمييز … فتجب السجدة، بخلاف السماع من الببغاء والصدى، فإن ذلك ليس بتلاوة.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة 1/ 502:
   وکذا لا تجب بقراءة النائم، أو المغمى عليه في رواية، ولو سمعها من طوطي لا تجب على الصحيح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:145
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-19

 




@123مقروض شخص کا حج کے لیے جانا کیسا ہے؟

سوال:
اگر کوئی شخص حج  کو جانا چاہتا ہے اور وہ قرض دار ہو، تو اس کو حج جانے سے پہلے قرض ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں، اور قرض ادا کیے بغیر حج  کو جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ قرضہ کی ادائیگی کے بقدر مال موجود ہو، تو جانے سے پہلے قرض ادا کرے، اور اگر اتنا مال موجود نہ ہو کہ پہلے قرض ادا کرے، اور قرض خواہ مطالبہ کررہا ہو، تو ایسے شخص کے لیے حج پر جانا مکروہ ہے، تاہم اگر قرض خواہ بخوشی اجازت دے، تو پھر مکروہ نہیں ہوگا ۔

حوالہ جات:
لما في الهداية لعلي بن بكر المرغيناني، كتاب الحج 2/ 153:
ولا بد من القدرة على الزاد والراحلة … ويشترط أن يكون فاضلا عن نفقة عياله إلى حين عوده؛ لأن النفقة حق مستحق للمرأة، وحق العبد مقدم على حق الشرع بأمره.
 وفي الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي الحدادي، كتاب الزكاة 1/ 361:
قوله: (فاضلا عن مسكنه وما لا بد منه) كالخادم والأثاث وثيابه وفرسه وسلاحه وقضاء ديونه.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الحج 2/ 332:
ويكره الخروج للغزو والحج لمديون وإن لم يكن له مال يقضي به إلا أن يأذن الغريم.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الحج، الباب الأول في فرضية الحج وشراطه 1/ 221:
ويكره الخروج إلى الغزو والحج لمن عليه الدين وإن لم يكن عنده مال، ما لم يقض دينه إلا بإذن الغرماء، فإن كان بالدين كفيل، إن كفل بإذن الغريم لا يخرج إلا بإذنهما، وإن كفل بغير إذن الغريم لا يخرج إلا بإذن الطالب وحده، وله أن يخرج بغير إذن الكفيل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:144
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-19

 




@123روزہ میں احتلام ہونےکے بعد قصدًا افطار کرنا

سوال:
ایک شخص کو روزہ کی حالت میں احتلام ہوگیا، اور اس نے مسئلہ دریافت کیے بغیر افطار کر لیا، تو اس صورت میں کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اگر اس شخص کو یہ معلوم تھا کہ احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور پھر بھی احتلام کے بعد قصدًا كچھ کھایا پیا، تو اس پر قضاء وکفارہ دونوں لازم ہیں، اور اگر اس کا خیال یہ تھا کہ روزہ کی حالت میں احتلام ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور پھر قصدا کچھ کھایا پیا، تو اس پر صرف قضا ہے، کفارہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الصوم، باب مايفسد الصوم، وما لا يفسد 2/ 406:
(أو أكل) أو جامع (ناسيا) أو احتلم، أو أنزل بنظر، أو ذرعه القيء (فظن أنه أفطر، فأكل عمدا) للشبهة، ولو علم عدم فطره، لزمته الكفارة … (قضى) في الصور كلها (فقط).
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصوم، الفصل التاسع في ما يصير شبهة في إسقاط الكفارة 3/ 367:
وإذا احتلم فظن أن ذلك أفطره، فإن أكل بعد ذلك متعمدا، فلا كفارة عليه؛ لوجود شبهة.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم، وما لا يفسد 1/ 206:
وإذا احتلم فظن أن ذلك أفطره، فأكل بعد ذلك متعمدا، لا كفارة عليه، هكذا في المحيط، وإن علم حكم الاحتلام كفر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:143
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-18