Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Year: 2023 - Darul Ifta Mardan Year: 2023 - Darul Ifta Mardan

@123 نانا کی بیوہ سے نکاح کرنےکا حکم

سوال:
شیخ فانی نانا جو جماع پر قادر نہیں ہے اپنی خدمت کے لیے کسی نوجوان عورت سے نکاح کرے تو اس کے فوت ہونے کے بعد اس عورت سے مذکورہ شیخ فانی کا نواسہ نکاح کرسکتا ہے؟
جواب:
مذكوره صورت ميں نواسے کے لیے نانا کی بیوہ کے ساتھ نكاح کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالٰی: سورة النساء 4/ 22:
وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءإلخ.
وفي الفتاوى الهندية  للجنة العلماء، كتاب النكاح، القسم الثاني المحرمات بالصهرية1/ 274:
نساء الآباء والأجداد من جهة الأب أو الأم وإن علوا، فهؤلاء محرمات على التأبيد نكاحا ووطئا.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل أن تكون المرأة محللة 2/ 257:
وتحرم عليه جداته من قبل أبيه وأمه وإن علون بدلالة النص.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:163
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-27

 




@123 تین پتھر بیوی کے ہاتھ میں رکھ کرطلاق دینا

سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کے ہاتھ میں تین پتھر رکھ کر کہا :میں نے تجھے طلاق دی، تو اس سے کون سی طلاق واقع ہوئی ہے؟ اور کتنی؟
جواب:
مذكوره صورت ميں جب اس شخص نے تین پتھر اپنی بیوی کے ہاتھ میں رکھ کر کہا ”تجھے طلاق ہے“ اور تین کا لفظ زبان سے ادا نہیں کیا تو اس کی بیوی پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔

حوالہ جات:
 لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطلاق، مطلب في قول الإمام إيماني كإيمان جبريل 3/ 275:
(قوله: لم يقل هكذا) أي بأن قال: أنت طالق وأشار بثلاث أصابع، ونوى الثلاث، ولم يذكر بلسانه، فإنها تطلق واحدة، خانية. (قوله لفقد التشبيه) أي: بالعدد، قال القهستاني لأنه كما لا يتحقق الطلاق بدون اللفظ، لا يتحقق عدده بدونه.
وفي فتاوى قاضيحان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الطلاق 1/ 228:
إذا قال لامرأته أنت طالق، وأشار إليها بثلاث أصابع، ونوى به الثلاث، ولم يذكر بلسانه، فإنها تطلق واحدة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:162
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-27

 




قرآن شریف بھول جانے کاحکم:

سوال: 
    ایک شخص حافظِ قرآن ہے، کافی عرصہ پہلے اس نے قرآن کوحفظاً یاد کیا تھا، پھر وہ مدرسہ چھوڑ کر گھر آیا، ایک تو قرآن مجید میں پہلے سے  بھی پختگی نہ تھی، اور دوسرا مدرسہ بھی چھوڑا، اس کے بعد تراویح میں بھی التزام نہیں کیا، تو مزید کمزوری آگئی، اب جو کچھ اس نے پہلے کیا ہے، اس سے توبہ تائب ہوا ہے، اور روزانہ کے حساب سے سورۂ یسن، سورۂ ملک، سورۂ واقعہ کے ساتھ کم ازکم ایک پارہ تلاوت ضرور کرتا ہے، اور سردیوں کے موسم میں اس سے بھی زیادہ تلاوت کرتا ہے، اور رمضان المبارک میں روزانہ آٹھ(8) نو(9) پارے تلاوت کرتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قرآن یاد کرکے بھول جانے پر جو وعیدیں آئی ہیں، وہ وعید اس پر آئے گی یا نہیں؟
جواب:
   قرآن مجید یاد کرکے بھول جانا سخت گناہ ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا! مجھ پر میری امت کے گناہ پیش کیے گئے، سو میں نے ان میں کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی شخص کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت عطا کی گئی ہو، پھر اس نے اس کو بھلا دیا ہو، البتہ قرآن یاد کرکے بھلانے کی وعید اس شخص کے لیے ہے  جو کہ سستی کی وجہ سے اس کو بھلا دے، لیکن اگر حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے بھول جائے اور تلاوت کرنے میں کوئی کمی نہ کی ہو، تویہ  اس وعید میں داخل نہ ہو گا۔ نیز حضرت شاہ محمد اسحاقؒ فرمایا کرتے تھے کہ استعداد والے کا بھولنا یہ ہے کہ یاد کئے ہوئے کو بن دیکھے نہ پڑھ سکے اور غیر استعداد کا بھولنا یہ ہے کہ بھولنے ہوئے کو دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے۔

حوالہ جات:
1. سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب في كنس المسجد 1/ 126، تحت الرقم: 461:
    عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت علي ذنوب أمتي، فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل، ثم نسيها».
2. وفيه أيضا: باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه2/ 599:
   عن سعد بن عبادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ما من امرئ يقرأ القرآن، ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم.
3. مرقاة المفاتيح لملا علي القارئ، كتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة 2/ 605، تحت الرقم: 720:
(عرضت علي ذنوب أمتي) …(من القرآن) … فإن قلت: النسيان لا يؤاخذ به، قلت: المراد تركها عمدا إلى أن يفضي إلى النسيان …والنسيان عندنا أن لا يقدر أن يقرأ بالنظر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:161
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-27

 




@123مسجد کی رقم کسی کو قرض دینا

سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے پاس مسجد کے پیسے ہیں اور گاؤں کا ایک آدمی مجھ سے قرض لینا چاہتا ہے، تو کیا میں اس کو مسجد کی رقم قرض دے سکتا ہوں؟

جواب:
مسجد کا فنڈ خزانچی کے پاس امانت ہوتا ہے، جسے صرف مسجد کی ضروریات میں خرچ کیا جاسکتا ہے، کسی کو بطور قرض نہیں دیا جاسکتا، اگر کسی کو بطور قرض دے دیا تو وہ ضامن ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف،  تصرفات الناظر في الوقف 5/ 259:
أن القيم ليس له إقراض مال المسجد، قال في جامع الفصولين: ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله، ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن، وكذا المستقرض.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الوقف، الباب الثالث عشر في الأوقاف التي يستغنى عنها 2/ 480:
رجل جمع مالا من الناس لينفقه في بناء المسجد، فأنفق من تلك الدراهم في حاجته، ثم رد بدلها في نفقة المسجد، لا يسعه أن يفعل ذلك  … أما الضمان فواجب، كذا في الذخيرة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:160
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-27

 




@123 ایڈوانس زکوۃ ادا کرنا

سوال:
میرے پاس گیارہ تولہ سونا ہے، جس کی زکوۃ میں رجب کے مہینے میں ادا کرتا ہوں، پچھلے سال رجب میں نے آئندہ سال کی زکوٰۃ بھی ادا کرلی، تو شرعی لحاظ سے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ جب آدمی نصاب کا مالک ہو جائے، تو زکوۃ اس  کے ذمہ واجب ہوجاتی ہے، اور سال گزرنے پر اس کا ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے، اگرسال پورا ہونے سے پہلے زکوۃ ادا کرے  تب بھی جائز ہے، لہذا مذکورہ صورت میں آپ کی زکوۃ کی ادائیگی درست ہے، البتہ سال مکمل ہونے کے بعد حساب کتاب کر لینا چاہیے، اگر حساب کتاب کے بعد پتہ چلا کہ زکوۃ کم دی گئی تھی تو کمی کو پورا کر لینا چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوی الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة 1/ 176:
وکما یجوز التعجیل بعد ملك النصاب واحد عن نصاب واحد، يجوز عن نصب كثيرة، كذا في فتاوى قاضي خان.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، فصل في الغنم 2/ 390:
(ولو عجل ذو نصاب لسنين، أو لنصب، صح)
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم 2/ 293:
(ولو عجل ذو نصاب) زکاته (لسنين، أو لنصب، صح) لوجود السبب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:159
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-27

 




@123 موبائل کے ذریعے نکاح کرنا

سوال:
ایک لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں ،مگر لڑکی کے والدین اس پر راضی نہیں ہیں،اب یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم موبائل کے ذریعے نکاح  کرلیں گے، اور لڑکے کاکہنا ہے کہ جب لڑکی موبائل پر بات کرے گی،تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہی لڑکی ہے،جس سے نکاح کر رہا ہوں تو اس طرح نکاح کرنا جائز ہے؟
جواب:
چونکہ نکاح کے منعقد  ہونے کے لیے عاقدین یا ان کے وکلاء کا ایجاب وقبول کرتے وقت مجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور موبائل فون کے ذریعے نکاح کرتے ہوئےیہ شرط نہیں پائی جاتی، اس لیے موبائل  پر نکاح منعقد نہیں ہو سکتا ہے، البتہ اگر موبائل  کے ذریعے لڑکی کسی اور کو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کر ے، اور پھر وہ وکیل اور لڑکا مجلس میں دو گواہوں کے سامنےایجاب وقبول کر لیں، تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔

حوالہ جات:
لما  في الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح 3/ 14:
ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس.
قال ابن عابدين تحت قوله: (اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد.
وفيه أيضا: 3 /21، 22:
(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا).
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل شرائط الركن، أنواع منها شرط الانعقاد 2/ 232:
(وأما) الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:158
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-23

 




@123باپ کا کیا ہوا نکاح بلوغت کے بعد ختم کرنا

سوال:
زید نے اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح غیر کفو میں کردیا تو لڑکی بالغ ہونے پر اپنا نکاح فسخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ والد کی شفقت چونکہ اولاد کے لیے کامل ہوتی ہے؛ اس لیے شریعت نے نابالغ لڑکے یا لڑکی کے نکاح کا اختیار اس کو دیا ہے، اور والد کے کئے ہوئے نکاح کو بہر صورت معتبر مانا ہے، اس وجہ سے بیٹا یا بیٹی کو بلوغت کے بعد اس قسم نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها 1 / 294:
ولو زوج ولده الصغير من غير كفء بأن زوج ابنه أمة، أو ابنته عبدا، أو زوج بغبن فاحش بأن زوج البنت، ونقص من مهرها، أو زوج ابنه، وزاد على مهر امرأته جاز.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، فصل في الأكفاء في النكاح 3/ 144:
(قوله ولو زوج طفله غير كفء أو بغبن فاحش صح، ولم يجز ذلك لغير الأب والجد) يعني لو زوج الأب الصاحي ولده الصغير أمة، أو بنته الصغيرة عبدا، أو زوجه، وزاد على مهر المثل زيادة فاحشة، أو زوجها، ونقص عن مهر مثلها نقصانا فاحشا، فهو صحيح من الأب والجد دون غيرهما عند أبي حنيفة، ولم يصح العقد عندهما على الأصح؛ لأن الولاية مقيدة بشرط النظر، فعند فواته يبطل العقد، وله: أن الحكم يدار على دليل النظر، وهو قرب القرابة، وفي النكاح مقاصد تربو على المهر.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب النكاح، باب في الأولياء والأكفاء 1/ 193:
فإن زوجهما الأب، أو الجد يعني الصغير والصغيرة، فلا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:157
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-23

 




@123قرض واپس نہ ملنے کی صورت میں زکاۃ کا حکم

سوال:
ایک عورت کا تین تولہ سونا تھا، اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء میں اس کا شوہر، بیٹا اور دو(2) بیٹیاں اور ماں زندہ ہیں، جب شوہر نے دوسری شادی کی، تو اس دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا ہی زیور حق مہر میں دے دیا، جبکہ بچے اس کے سب نابالغ تھے، صرف اتنا بتایا کہ یہ ٹھیکا بڑی بیٹی کا ہے، یہ واپس کرنا ہے، لیکن اس دوسری بیوی نے کچھ عرصہ بعد بتایا، کہ اس کا اپنا بیٹا جب بیمار ہوا تھا، تو اس نے فروخت کیا ہے، اب اس صورتِ حال میں بڑی بیٹی بالغ ہوچکی ہے، تو کیا اس کو زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں عورت کے وفات ہونے پر اس نے ترکہ میں تین تولہ سونا اور اس کے علاوہ دیگر جتنا کچھ نقد وغیرہ چھوڑا ہے ان سب کو اڑتالیس (48) برابر حصوں میں تقسیم کرکے شوہر کو بارہ(12) حصے، ماں کو آٹھ (8) حصے، بیٹے کو چودہ(14) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کے سات سات(7) حصے بنتے ہیں، لہذا بڑی بیٹی کا صرف سونے میں جو حصہ بنتا ہے، وہ تقریبا25. 5 ماشے سونا ہیں، پس اگر اس لڑکی کے پاس اس کے علاوہ کچھ نقد رقم یا سونا یا چاندی یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو کہ ان  سب کو ملا کر 52.5تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتا ہو، اور جو سونا قرض ہے اس کے ملنے کی قوی امید بھی ہو، تو اس کے لیے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر اس کو اپنا قرض سونا یا اس کی قیمت ملنے کی امید نہ ہو، اور اس کے علاوہ اس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو نصاب کو پہنچتا ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، اور اس كے ليے لينا۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 420:
والذي له دين مؤجل على إنسان إذا احتيج إلى النفقة، يجوز له أن يأخذ من الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، وإن كان الدين غير مؤجل، فإن كان من عليه الدين معسرا يجوز له أخذ الزكاة … وإن كان المديون موسرا معترفا لا يحل له أخذ الزكاة،وليس عنده نصاب فاضل في الفصلين.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز 2/ 268:
(والغارم من لزمه دين) أو له دين على الناس لا يقدر على أخذه، ولیس عندہ نصاب فاضل في الفصلين.
وفي النهر الفائق لعمر بن إبراهيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 1/ 460:
وفي الخانية: أن من له مؤجل إذا احتاج إلى النفقة، يجوز له أخذ الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، ولو كان حالا إلى أن الذي عليه الدين معسر، يجوز له الأخذ في أصح الأقاويل؛ لأنه بمنزلة ابن السبيل، ولو كان موسرا معترفا، لا يحل.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، باب المصارف 1/ 188:
(ومنها الغارم) وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:156
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-23

 




نفلوں کی جماعت کرانا کیسا ہے؟

سوال:
   بعض حفاظ رمضان میں تراویح کے بعد نفل کی جماعت میں ختم قرآن کرتے ہیں، تو  کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
   نفل نماز باجماعت پڑھنا تداعی کے ساتھ ہو یعنی امام کے علاوہ کم از کم چار مقتدی ہوں مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر امام کے علاوہ مقتدی چار سے کم ہوں  تو باجماعت نوافل پڑھنے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الإمامة، فصل في الجماعة 1/ 83:
    التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب الإمامة 2 /342:
    (الجماعة سنة مؤكدة للرجال) … وفي التراويح سنة كفاية، وفي وتر رمضان مستحبة على قول، وفي وتر غيره وتطوع على سبيل التداعي مكروهة.
قال ابن عابدين تحت قوله:(على سبيل التداعي) بأن يقتدي أربعة فأكثر بواحد.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الإمامة  1 /604:
   وأصل هذا أن التطوع على سبيل التداعي يكره في الأصل للصدر الشهيد، أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية االمسجد لا يكره، وقال شمس الأئمة الحلواني: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق، وفي الأربع اختلف المشايخ، والأصح أنه يكره.
4. إعلاء السنن لشيخ ظفر أحمد العثماني، كتاب الصلاة، باب كراهة الجماعة في النوافل سوى التراويح ألخ، تحت الرقم: 1826، 7/ 89:
   عن زيد بن ثابت، أن النبي قال: صلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل الصلاة صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة.
قلت: فثبت أن الجماعة في النوافل خلاف الأصل، والأداء على خلاف الأصل لا يخلو عن الكراهة، فالجماعة في النوفل مكروهة … ومقتضى هذا الدليل أن تكره الجماعة في النفل والوتر مطلقا، إلا أنا قيدناه بالتداعي، وهو أن يدعو بعضهم بعضا، وفسره الفقهاء بالكثرة …وفي ”الأصل“ للصدر الشهيد: أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد، لا يكره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر155
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19




123@غیر مستحق کا کسی سے زکوۃ لے کر بعد میں فقراء میں تقسیم کرنا

سوال:
اگر کوئی مستحقِ زکوۃ نہ ہو، لیکن پھر بھی زکوۃ وصول کرے، لیکن اس کو اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لاتا، بلکہ آگے کسی مستحقِ زکوۃ کو یہ رقم دیتا ہے، گویا یہ وصول کرنے والا بغیر کہے اپنے آپ کو وکیل بناتا ہے، تو کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ مذکورہ شخص چونکہ مالدار ہے اس لیے اس شخص کا مذکورہ طریقے سے زکوۃ لے کر فقیروں میں تقسیم کرنا درست نہیں، البتہ اگر یہ شخص مالک کو بتا دے کہ یہ میں کسی اور کے لیے لے رہا ہوں، اور وہ بخوشی اس کو قبول کر کے اس کو وکیل بنا دے تو ایسی صورت اس کے لیے زکوۃ وصول کرکے فقراء میں تقسیم کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 189:
وكذا لو كان عنده من المصاحف وهو يحتاج إليه وإن كان لا يحتاج إليه وهو يساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه ولا يجوز له أخذها.
وفي الجوهرة النيرة أبو بكر بن علي اليمني الحنفي، كتاب الزكاة، باب شروط وجوب الزكاة 1/ 115:
لا يجوز صرف الزكاة إليه إذا كانت تساوي مائتي درهم وسواء كانت الكتب فقها أو حديثا أو نحوا وفي الخجندي إذا كان له مصحف قيمته مائتا درهم لا تجوز له الزكاة لأنه قد يجد مصحفا يقرأ فيه.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب شروط وجوب الزكاة 2/ 222:
وإنما يفيد ذكر الأهل في حق مصرف الزكاة فإذا كانت له كتب تساوي مائتي درهم، وهو محتاج إليها للتدريس وغيره يجوز صرف الزكاة إليه، وأما إذا كان لا يحتاج إليها، وهي تساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه اهـ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر154
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19