Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: December 2023 - Darul Ifta Mardan Month: December 2023 - Darul Ifta Mardan

@123غیر معتکف کے لیے مسجد میں کھانا پینا شرعاً کیسا ہے؟

سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غیر معتکف کے لیے مسجد میں کھانا پینا شرعاً کیسا ہے؟
جواب:
غیر معتکف کے لیے مسجد میں کھانا پینا مکروہ ہے، البتہ اگر کسی عذر سے غیر معتکف کو مسجد میں کھانے پینے کی نوبت پیش آجائے تو اعتکاف کی نیت کر لینی چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، باب الاعتكاف 2/ 448:
يكره النوم والأكل في المسجد لغير المعتكف، وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل، فيذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي، ثم يفعل ما شاء.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد 5/ 321:
ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك، ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه، ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي، ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:193
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123 قرآن کریم کو سر، آنکھ ، پیشانی پر رکھنایا چومنا

سوال:
بعض لوگ قرآن کو تلاوت کے لیے اٹھاتے ہیں اور اس کو سر آنکھ  اور پیشانی پر رکھتے ہیں اور قرآن کو چومتے ہیں تو یہ عمل جائز ہے؟
جواب:
تلاوت سے پہلے یا تلاوت کے بعدقرآن مجید کو چومنا یا اس کو چہرہ سے لگانا جا ئز ہے کیونکہ یہ عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره 6/ 384:
روي عن عمر – رضي الله عنه – أنه كان يأخذ المصحف كل غداة، ويقبله ويقول: عهد ربي ومنشور ربي عز وجل، وكان عثمان – رضي الله عنه – يقبل المصحف، ويمسحه على وجهه.
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، فصل في صفة الأذكار1/ 320:
وكان عمر يأخذ المصحف كل غداة ويقبله، وكان عثمان يقبله، ويمسحه على وجهه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:192
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123ڈرائیور حضرات کا ہوٹلوں میں مفت کھانا کھانا

سوال:
   کیا فرماتے ہیں علمائے  کرام اس بارے میں کہ ڈرائیور حضرات راستہ پر  آنے والے ہوٹل کے سامنے گاڑی کھڑی کر کے سواریاں ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں ، اور ہوٹل والے ڈرائیور کو مفت کھانا کھلاتے ہیں ،تو ڈرائیور کے لیے یہ مفت کھانا شرعا ًدرست ہے یا  نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ ڈرائیور حضرات سفر کے دوران  کسی ہوٹل پر کھانے کے لیے رک جا تے ہیں  تو ہو ٹل والے اگر بس کے عملہ کو مفت  کھانا اس بنیاد پر کھلاتے ہیں  تاکہ مسافروں پر مہنگی قیمت میں چیزیں بیچ کر اس کھانے کا خرچہ وصول کریں تو ہوٹل والوں کی طرف سے فراہم کردہ کھانا رشوت کے زمرہ میں داخل ہو کر نا جائز ہو گا، اور اگر ہو ٹل والے بس کے عملہ کو مفت کھانا کھلانے کی وجہ سے مسافروں پر عام ما رکیٹ کی قیمت سے زیادہ قیمت پر چیزیں نہ بھیجتے ہوں، بلکہ عام قیمت پر فروخت کرتے ہوں، تو یہ ہوٹل والوں کی طرف سے تبرع اور احسان کی بناء پر جائز ہو گا، لیکن چونکہ عام طور پر سواریاں لانے کی بنیاد پر ہی ان کو کھلا یا پلایا جا تا ہے ،اس لیے ڈرائیور حضرات کے لیے ہو ٹل کا کھانا نہ کھانے میں احتیاط ہے۔

حوالہ جات:
1. سنن ابن ما جه، باب الحاكم يجتهد فيصيب الحق 3/ 411، تحت الرقم 2313:
   عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعنة الله على الراشي والمرتشي.
2. رد المختار لابن عابدين،  كتاب الإجارة، مطلب في استئجار الماءإلخ 6/ 63:
   وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدا؛ لكثرة التعامل.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز إلخ 7/ 485:
   وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن من كل عشرة دنانير كذا، فذلك حرام عليهم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:191
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123 اپنے نام کے ساتھ دیوبندی ، بر یلوی وغیرہ لکھنا

سوال:
   کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اپنے نام کے ساتھ دیوبندی، بریلوی، سلفی، چشتی، قادری، نعمانی، وغیرہ لکھنا کیسا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے آیا یہ فرقہ واریت ہیں ؟
جواب:
   اس قسم کے الفاظ لکھنے سے گروہ بندی اور فرقہ واریت کو پذیرائی ملتی ہے ، جبکہ اسلام میں گروہ بندی سے  منع کیا گیا ہے ، اس لیے ان الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. قوله تعالى: ( الحجرات 13/ 49).
   يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ.
2. سنن أبي داود لسليمان بن الأشعث السجستاني، كتاب الأدب، باب في العصبيه، 7/ 441، تحت الرقم: 5121:
   عن جبير بن مطعم، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: ليس منا من دعا إلى عصبية، وليس منا من قاتل على عصبية، وليس منا من مات على عصبية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:190
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123کیا حدود اسلامی نظام کا حصہ ہے؟

سوال:
   ایک مولوی صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ حدود اسلامی نظام کا حصہ نہیں ہے، یہ اسلامی نظام کے چلانے کے لیے قائم کی گئی ہے اور مثال بھی دی کہ جیسا کسی سکول میں سزا وغیرہ سکول کے نصاب کا حصہ نہیں ہوتا ہے، اسی طرح یہ حدود بھی ہیں، کیا یہ بات درست ہے یا نہیں؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ حدود باقاعدہ اسلامی نظام کا حصہ ہے، جیسا کہ اعتقادات، معاملات اور عبادات اسلام کا حصہ ہے، البتہ حدود وقصاص کو نافذ کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، عوام کو از خود نافذ کرنے کی اجازت نہیں۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة 1/ 79:
   اعلم أن مدار أمور الدين على الاعتقادات، والآداب، والعبادات، والمعاملات، والعقوبات … والعقوبات خمسة: القصاص، وحد السرقة، والزنا، والقذف، والردة.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/ 19:
   اعلم أن مدار أمور الدين متعلق بالاعتقادات، والعبادات، والمعاملات، والمزاجر، والآداب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:189
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123 حرام مال والے سے قرض لینا

سوال:
ایک غریب شخص جس کے پاس پیسے بالکل نہیں ہے، اور اپنا مختصر سا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے، مگر کوئی اس کو قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور ایک شخص جس کا سارا مال حرام ہے، وہ قرضہ دینے کے لیے تیار ہے، تو یہ شخص اس سے قرض لے سکتا ہے؟ یا کوئی اور طریقہ ہے جس کے ذریعے غریب شخص حرام مال والے کے مال کو استعمال کرسکے؟
جواب:
جس شخص کی آمدنی یقینی طور پر حرام ہو اور قرض لینے والے کو معلوم بھی ہو کہ اس کی آمدنی حرام ہے تو اس کو چاہیے کہ حتی الوسع حلال قرض لینے کا بندوبست کرے، تاہم شدید ضرورت ہو، اور حلال آمدنی والے سے قرض نہ مل رہا ہو تو مجبوری میں اس سے قرض لینے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
لما في الأشباه والنظائر للسيوطي، القاعدة الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها  1/ 84:
الضروريات تبيح المحظورات بشرط عدم نقصانها عنها ،ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة، وإساغة اللقمة بالخمر، والتلفظ بكلمة الكفر للإكراه، وكذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع من أداء الدين بغير إذنه، ودفع الصائل، ولو أدى إلى قتله.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة 3/ 532:
الضرورات تبيح المحظورات.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:188
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123آپﷺ کی پسندیدہ خوشبو اور خوشبو لگانے کا سنت طریقہ

سوال:
آپﷺ کو سب سے زیادہ کون سا عطر اور خوشبو پسند تھی ؟آجکل کے بہت تیز خوشبو جو بعض لوگوں کو بہت بری لگتی ہے،اور ان کے درد ِسر کا باعث بنتی ہے  اس کا استعمال کیسا ہے، اور خوشبو لگانے کا سنت طریقہ کیا ہے؟
جواب:
الف:  آپﷺکی پسندیدہ خوشبو  مشک، عنبر اور عود تھی۔
ب:   جس خوشبو سے  دوسرے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو ، اس کا استعمال درست نہیں ہے۔
ج:  خوشبو لگانے کا مسنون طریقہ کوئی نہیں  تاہم  عام طور پر آپﷺ ہراچھے کام میں داہنےطرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے اس لیے اگر
داہنی طرف لگائی جائے تو بہتر ہے۔

حوالہ جات:
ما في سنن النسائي،  كتاب الزينة، باب العنبر8/ 150، تحت الرقم 5116:
عن محمد بن علي، قال: سألت عائشة: أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتطيب، قالت: نعم، بذكارة الطيب المسك، والعنبر.
وفي صحيح البخاري، كتاب الوضوء، باب التيمن في الوضوء والغسل 1/ 45، تحت الرقم 168:
عن عائشة، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن، في تنعله، وترجله، وطهوره، وفي شأنه كله.
وفي سنن أبي داود، كتاب الجهاد، باب في الهجرة هل انقطعت 4/ 138، تحت الرقم2482:
عبد الله بن عمرو … يقول: المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:187
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123مشترکہ خاندان میں ذاتی پیسوں سے خریدی ہوئی جائیدا د کا حکم

سوال:
گوہر علی پہلے اپنے والد کے گھر رہتا تھا، پھر سعودی چلا گیا، اور اپنے پیسوں سے پلاٹ خرید لی، پھر واپس آکر والدین کے ساتھ رہنے لگا، اب اس کے والد جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے، تو گوہرعلی نے اپنے پیسوں سے جو پلاٹ خریدی ہے، اس کو گوہر کے بہن بھائیوں میں تقسیم کرے گا، یا پلاٹ صرف گوہرعلی کا ہے؟
جواب:
بیٹا اگر محنت مزدوری کرکے مال کمائے تو اس میں والدین یا بہن بھائیوں کا حصہ نہیں ہوتا، لہٰذا اگر گوہرعلی نے اپنی کمائی سے خود یہ پلاٹ خریدا تھا، تو یہ اس کا ہے، اس میں کسی اور کا حق نہیں، اور اگر سعودی عرب سے والد کو پیسے گھر کے اجتماعی خرچہ کے لیے بھیجے تھے لیکن والد نے اپنے صوابدید پر اس سے پلاٹ خریدا تھا، تو یہ پلاٹ شریک ہوگا، اور والد کے انتقال کے بعد اس میں سب کا حصہ ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في مسندالإمام لأحمد بن حنبل، حديث عم أبي حرة الرقاشي 34/ 299، تحت الرقم 20695:
لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه.
وفي السنن الكبری للبیھقی ، كتاب النفقات، باب نفقة الأبوين7/ 790، تحت الرقم 15753:
ويروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: كل أحد أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين.
و في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة 4/ 325:
يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها، اجتمعا في دار واحدة، وأخذ كل منهما يكتسب على حدة، ويجمعان كسبهما، ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز، فأجاب بأنه بينهما سوية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:186
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123لفظ تلاق سے طلاق کے وقوع کا حکم

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین دفعہ لفظ “تا” (یعنی لفظ تلاق) کے ساتھ طلاق دے دی، تو اب یہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ لفظ طلاق کی طرح لفظ تلاق کے ساتھ بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں اس عورت پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب الصريح 1/ 207:
(ويقع بها) أي بهذه الالفاظ، وما بمعناها من الصريح، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو ط ل ق، أو طلاق باش بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله، وبه يفتى.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الفصل الأول في الطلاق الصريح 1/ 357:
رجل قال لامرأته ترا تلاق، هاهنا خمسة ألفاظ تلاق وتلاغ وطلاغ وطلاك وتلاك عن الشيخ الإمام الجليل أبي بكر محمد بن الفضل – رحمه الله تعالى – أنه يقع.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق 3/ 271:
ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة: تلاق وتلاغ وطلاغ وطلاك وتلاك فيقع قضاء، ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم، بأن قال امرأتي تطلب مني الطلاق، وأنا لا أطلق، فأقول: هذا ولا فرق بين العالم والجاهل، وعليه الفتوى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:185
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 




@123 کاروباری غرض کے لیے کیے گئے قرض کو زکوۃ سے منھا کرنا

سوال:
ایک شخص کا تیس لاکھ روپے کا کاروبار ہے اور ایک ٹرک کا مالک بھی ہے، جس کی قیمت ساٹھ لاکھ (6000000) روپے ہے، اس نے اس ٹرک میں دس لاکھ (100000) ادا کیے ہے اور پچاس لاکھ (5000000) اس کے ذمہ باقی ہے، اور وہ یہ قسط وار پندرہ (15) مہینوں میں ادا کرے گا، اس شخص کی ملکیت میں ایک موٹر کار بھی ہے، جو اپنے استعمال کے لیے ہے، اب یہ شخص زکوۃ ادا کرے گا یا نہیں، آپ حضرات نے تو واجب نہ ہونے کا فتوی دیا ہے، لیکن مفتی تقی عثمانی صاحب نے اصلاحی خطبات جلد نمبر نو (9) بعنوان ” آپ زکوۃ کس طرح ادا کریں؟ “ کے ذیل میں جو قرضوں کی تقسیم کی ہے، اس کی وجہ سے میرے خیال میں اس شخص پر زکوۃ واجب ہے، آپ حضرات دوبارہ نظر ثانی کرکے جواب عنایت فرمائیں۔
تنقیخ: مذکورہ ٹرک تجارت کے لیے نہیں خریدا ہے، بلکہ اس کے ذریعے سے اپنی دکان کے لیے سامان لاہور وغیرہ سے لاتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کا سامان بھی کرایہ پر ادھر ادھر لے جاتے ہیں۔
جواب:
واضح رہے کہ قسطوں کا قرضہ دین مؤجل ہے، اور دین مؤجل زکوۃ واجب ہونے سے مانع نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں ایک سال کی ادا طلب قسطوں کی رقم منھا کرکے حساب لگایا جائے، اگر بقایا رقم تنہا یا دیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے مقدار کو پہنچتی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الزكاة 2/ 259:
(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) … (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة … وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا.
قال ابن عابدين تحت قوله: (أو مؤجلا إلخ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي، وقال: وعن أبي حنيفة لا يمنع، وقال الصدر الشهيد: لا رواية فيه، ولكل من المنع وعدمه وجه، زاد القهستاني عن الجواهر، والصحيح أنه غير مانع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:184
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-12