امام کا رکوع یا سجدے میں تین مرتبہ سے زیادہ تسبیحات پڑھنا:
سوال:
ایک امام رکوع اور سجدہ میں تسبیحات تین مرتبہ سے زیادہ پڑھتا ہے، جبکہ بعض مقتدی امام صاحب کے اس فعل کو مکروہ سمجھتے ہیں، شرعا اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
انفرادی نماز میں اگر کوئی شخص رکوع یا سجدہ میں تسبیحات زیادہ مقدار میں پڑھے، تو مضائقہ نہیں، لیکن چونکہ باجماعت نماز میں بیمار اور کمزور افراد بھی ہوتے ہیں اس لیے امام کو چاہیے کہ نماز ہلکی اور مختصر پڑھائےاور رکوع، سجدہ اور قراءت وغیرہ میں سنت مقدار کا اہتمام کرے، تاکہ مقتدیوں کی رعایت ہوسکے، کیونکہ نماز میں مقتدیوں کی رعایت نہ رکھنا مکروہ ہے۔
حوالہ جات:
1. صحیح البخاری، كتاب العلم، باب الغضب في الموعظة والتعليم، الرقم: 90:
«أيها الناس، إنكم منفرون، فمن صلى بالناس فليخفف، فإن فيهم المريض، والضعيف، وذا الحاجة».
2. رد المحتار لابن عابدين،كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب في إطالة الركوع للجائي 1/ 494:
وصرحوا بأنه يكره أن ينقص عن الثلاث، وأن الزيادة مستحبة بعد أن يختم على وتر خمس أو سبع أو تسع مالم يكن إماما، فلا يطول.
3. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصلاة، فصل في كيفية الصلاة 2/ 168:
وفي الزاد: الأدنى هو الثلاث، والأوسط خمس مرات، والأكمل سبع مرات، قال الشيخ الإمام خواهر زاده: هذا في حق المنفرد، وأما الإمام، فلا ينبغي أن يطول على وجه يمل القوم؛ لأنه يصير سببا للتنفير، وذلك مكروه.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:202
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-14