Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: December 2023 - Darul Ifta Mardan Month: December 2023 - Darul Ifta Mardan

@123کم سن بیوی کے ساتھ جماع کرنا کیسا ہے؟

سوال:
اگر کسی کی بیوی اس قدر کم سن ہو کہ صحبت سے سخت تکلیف ہوتی ہو، تو شوہر کا اس کے ساتھ جماع کرنا جائز ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں شوہر کے لیے اس وقت تک جماع کرنا جائز نہیں جب تک کہ بیوی جماع کرنے پر قادر نہ ہو، البتہ اس دوران اس کے بدن سے استمتاع کرکے بوس وکنار وغیرہ کرسکتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، وقت الدخول بالصغيرة 1/ 287:
واختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة، فقيل: لا يدخل بها ما لم تبلغ، وقيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق، وأكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب، وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال، ولا يخاف عليها المرض من ذلك، كان للزوج أن يدخل بها، وإن لم تبلغ تسع سنين، وإن كانت نحيفة مهزولة لا تطيق الجماع، ويخاف عليها المرض لا يحل للزوج أن يدخل بها، وإن كبر سنها، وهو الصحيح.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء في النكاح 3/ 128:
واختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة، فقيل لا يدخل بها ما لم تبلغ، وقيل يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، وقيل إن كانت سمينة جسيمة تطيق الجماع يدخل بها وإلا فلا.
وفي فتح القدير لابن همام، كتاب الطلاق، باب النفقة 4/ 383:
وأما حديث جابر فقوله صلى الله عليه وسلم فيه «ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف» فمرجع الضمير فيه النساء اللاتي حلت فروجهن، ونقول: لا يحل فرج من لا تطيق الجماع؛ فإنه إهلاك أو طريقه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:242
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




کوئی چیزہبہ کرکے اس سے رجوع کرنا:

سوال:
   زید کمزور ہے اور اس کی نارینہ اولاد نہیں ہے، اس لیے زید نے اپنے بھتیجے کے نام زمین ہبہ کردی، اس امید پر کہ بھتیجا میری خدمت کرے گا،  اب بھتیجا خدمت نہیں کرتا تو زید اپنا ہبہ واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   اگر زید نے بھتیجے کو زمین ہبہ کرکے مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ بھی دیا ہو، تو یہ زمین بھتیجے کی ملکیت بن چکی ہے اورچونکہ بھتیجا ذی رحم محرم رشتہ دار ہے، اس لیے ہبہ شدہ زمین اب اس سے واپس لینا درست نہیں ہے، لیکن اگر مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ نہ دیا ہو، صرف زبانی کلامی بات ہوئی ہو، تو اس کے لیے اس معاملہ سے رجوع کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 5/ 704:
   (فلو وهب لذي رحم محرم منه) نسبا (ولو ذميا أو مستأمنا لا يرجع) ”شمني“ (ولو وهب لمحرم بلا رحم كأخيه رضاعا) ولو ابن عمه (ولمحرم بالمصاهرة كأمهات النساء والربائب وأخاه وهو عبد لأجنبي أو لعبد أخيه رجع ولو كانا) أي العبد ومولاه (ذا رحم محرم من الواهب فلا رجوع فيها اتفاقا على الأصح)
لأن الهبة لأيهما وقعت تمنع الرجوع ”بحر“.
2. فتح القدير لابن همام، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 9/ 44:
   قال: (وإن وهب هبة لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:241
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




ماں کے کروٹ کے نیچے بچے کا دب کر مرنے کاحکم:

سوال:
   اگر نیند کی حالت میں غلطی سے بچی ماں کے پہلو کے نیچے آکر مرگئی، تو ماں کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:
  اگر نیند کی حالت میں غلطی سے بچی ماں کے پہلو کے نیچے آکر مرجائے تو یہ قتلِ خطاء کے حکم میں ہے، جس کی وجہ سے اس عورت پر دیت لازم ہوگی، البتہ اگر ورثائے مقتول اس کو معاف کردیں، تو دیت معاف ہوجائے گی۔ تاہم ایسی صورت میں اس عورت پر دو مہینے مسلسل روزے رکھنے کا کفارہ واجب ہے، البتہ اگردرمیان میں حیض کا خون آجائے تو حیض سے پاکی کے فورا بعد روزے رکھنا شروع کردے اور اس وقفہ  کی وجہ سے اس کا تسلسل ختم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الجنايات 6/ 531:
   (و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله) ؛ لأنه معذور كالمخطئ (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل، وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة)،والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم؛ لترك العزيمة.
2. فتح القدير لابن همام، كتاب الجنايات 10/ 214:
   قال (وما أجري مجرى الخطأ مثل النائم ينقلب على رجل فيقتله فحكمه حكم الخطأ في الشرع.
3. البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 2/298:
   وكذا في كفارة القتل والظهار للنص على التتابع إلا لعذر الحيض؛ لأنها لا تجد شهرين عادة لا تحيض فيهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:240
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




@123قسم کھا کر بعد میں اس کی خلاف ورزی کرنا

سوال:
   اظہر نے زید کو اپنی زمین کسی کو اجارہ پر دینے کے لیے کہا، ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آپ کو کمیشن ملے گا، پس زید نے زمین تیس ہزار(30000) روپے کے عوض اجارہ پر دے دی، اور دونوں کے مابین سات ہزار(7000) روپے کمیشن پر بات طے ہوئی، اس طرح یہ معاملہ تین مہینے جاری رہا، بعد میں مستاجر نے اظہر کو قسم کھانے پر مجبور کیا، کہ آپ کسی کو کمیشن نہیں دیں گے، اور اظہر نے قسم کھائی، اب پوچھنا یہ ہے کہ اظہر زید کو کمیشن دے سکتا ہے یا نہیں، نیز یہ بھی واضح کردے کہ اگر قسم کے بعد اظہر نے کمیشن دے دی، تو شریعت کی رو سے کیا حکم لاگو ہوگا؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں جب مستاجر نے اظہر کو قسم کھانے پر مجبور کیا کہ آپ کسی کو کمیشن نہیں دیں گے، اور اظہر نے قسم کھائی تو اظہر زید کو کمیشن نہیں دے سکتا، لہٰذا اگر اظہر نے زید کو کمیشن دے دیا تو وہ اپنی قسم میں حانث ہوجائے گا اور اس پر قسم کا کفارہ بھی لازم آئے گا۔

حوالہ جات:
1. قوله تعالیٰ:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ. [المائده: 5/ 89]
2. الاختيار لتعليل المختار لعبد الله بن محمود الموصلي، كتاب الأيمان 4/ 50:
قال: ( اليمين بالله تعالى ثلاثة : غموس: وهي الحلف على أمر ماض أو حال يتعمد فيها الكذب فلا كفارة فيها، ولغو : وهي الحلف على أمر يظنه، كما قال وهو بخلافه، فنرجوأن لا يؤاخذه الله بها، ومنعقدة : وهي الحلف على أمر في المستقبل ليفعله أو يتركه ) فإذاحنث، فيها فعليه الكفاره.
2. مختصر القدوري  لأحمد بن محمد، كتاب الأيمان 1/ 209:
الأيمان على ثلاثة أضرب: يمين غموس، ويمين منعقدة، ويمين لغو، واليمين المنعقدة: هي الحلف على الأمر المستقبل أن يفعله أو لا يفعله فإذا حنث في ذلك لزمته الكفارة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:239
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




@123قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا کیسا ہے؟

سوال:
   آج کل ہمارے عرف میں کسی شخص کو کسی کام کرنے یا نہ کرنے پر قسم کا عہد وپیمان لینے کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ رکھا جاتا ہے، تو کیا قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم لینے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے؟
جواب:
   قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، البتہ اگر قرآن پر ہاتھ رکھے لیکن ساتھ میں قسم نہ کھائے تو اس کا اعتبار نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الأيمان 3/ 712:
   فإن الأيمان مبنية على العرف، فما تعورف الحلف به فيمين وما لا فلا، (لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينا، وأما الحلف بكلام الله فيدور مع العرف، وقال العيني: وعندي أن المصحف يمين لا سيما في زماننا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (وقال العيني إلخ) عبارته: وعندي لو حلف بالمصحف أو وضع يده عليه وقال: وحق هذا فهو يمين، ولا سيما في هذا الزمان الذي كثرت فيه الأيمان الفاجرة، ورغبة العوام في الحلف بالمصحف، وأقره في النهر.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الأيمان، الباب الثاني، الفصل الأول 2/ 53:
   وقال: محمد بن مقاتل الرازي لو حلف بالقرآن قال: يكون يمينا، وبه أخذ جمهور مشايخنا رحمهم الله تعالى، كذا في المضمرات.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:238
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




@123فقیر کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے بعد زکوٰۃ کی نیت کرنا

سوال:
اگر کوئی شخص فقیر کو زکوٰۃ کی رقم دے دے، اور بعد میں زکوٰۃ کی نیت کرے، تو زکوٰۃ ادا ہوگئی؟
جواب:
واضح رہے کہ مستحق زکوٰۃ کو زکوۃ کی رقم دینے کے بعد اگر زکوٰۃ کی نیت کرے، اور وہ مال  ابھی اس کے پاس موجود ہو، تو زکوٰۃ ادا ہوگئی، دوبارہ دینے کی ضروت نہیں اور اگر زکوٰۃ کی نیت کرنے سے پہلے اس نے خرچ کرلی ہو تو زکوۃ ادا نہیں ہوئی، پھر سے ادا کرے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة 1/ 171:
وإذا دفع إلى الفقير بلا نية ثم نواه عن الزكاة فإن كان المال قائما في يد الفقير أجزأه، وإلا فلا.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة 2/ 368:
والحكمية كما إذا دفع بلا نية، ثم حضرته النية، والمال قائم في يد الفقير فإنه يجزئه، وهو بخلاف ما إذا نوى بعد هلاكه.
وفي الفتاوى التاتارخانية، كتاب الزكاة، الفصل السابع في أداء الزكاة، والنية فيه 3/ 195:
وفي الروضة: إذا دفع المزكي المال إلى الفقير، ولم ينو شيأ، ثم حضرته النية عن الزكاة ينظر إن كان المال قائما في يد الفقير صار عن الزكاة، وإن تلف لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:237
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




@123عیدکے موقع پر والدین کی قبر پرحاضری دینا کیسا ہے؟

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عیدین کے دن والدین کی قبر پر جانا شرعا کیسا ہے؟ نیز اپنے والدین یا اولاد کی زیارت قبر کے لیے کب جانا چاہیے؟
جواب:
قبروں کی زیارت اور مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے کسی بھی وقت قبرستان جانا درست ہے، لیکن عید کے دن قبرستان جانے کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی عید کے دن والدین کے قبر پرجانے کو ضروری یا سنت نہ سمجھتے ہوئے چلا جائے تو اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن آج کل لوگوں نے اس کو ضروری سمجھ لیا ہے اور کسی مباح یا مستحب عمل کو لازم سمجھنے سے وہ بدعت کی شکل اختیار کرتا ہے، اس لیے عیدین کے موقع پر قبرستان جانے سے گریز کرنا چاہیے، کسی کی قبر پر حاضری کے لیے جمعہ، ہفتہ، پیر اور جمعرات کے دن بہتر ہیں، پھر ان میں سے جمعہ کے دن جانا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في صحيح البخاري، كتاب الصلح،  باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، الرقم: 2697:
عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد”.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، مطلب في زيارة القبور 2/ 242:
وتزار في كل أسبوع كما في مختارات النوازل، قال في شرح لباب المناسك إلا أن الأفضل يوم الجمعة والسبت والاثنين والخميس، فقد قال محمد بن واسع: الموتى يعلمون بزوارهم يوم الجمعة ويوما قبله ويوما بعده، فتحصل أن يوم الجمعة أفضل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:235
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




@123علاتی بہن کی پوتی سے نکاح کرنے کا حکم

سوال:
زید اپنی علاتی بہن کی پوتی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، تو یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
حقیقی بہن کی طرح علاتی اور اخیافی بہن اور ان کی اولاد بھی محرمات ابدیہ میں داخل ہیں، اس لیے زید کے لیے اپنی علاتی بہن کی پوتی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء،كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات 1/ 373:
(القسم الأول المحرمات بالنسب) وهن الأمهات، والبنات، والأخوات، والعمات،  والخالات، وبنات الأخ، وبنات الأخت فهن محرمات … وأما الأخوات، فالأخت لأب وأم، والأخت لأم، وكذا بنات الأخ والأخت، وإن سفلن.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 2/ 459:
(وفروع أبويه، وإن نزلوا) أي: فتحرم بنات الإخوة والأخوات، وبنات أولاد الإخوة، والأخوات، وإن نزلن.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 3/ 164:
قوله: (وأخته، وبنتها، وبنت أخيه، وعمته، وخالته) للنص الصريح ودخل فيه الأخوات المتفرقات،
وبناتهن، وبنات الإخوة المتفرقين، والعمات، والخالات المتفرقات؛ لأن الإسم يشمل الكل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:234
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




نمازِعشاء رات کے آخری حصہ میں پڑھناکیسا ہے؟

سوال:
   زید نےعشاء کی نماز رات کے آخری حصہ میں پڑھی، تو نماز درست ہے یا نہیں؟ اور رات کے آخری حصہ تک عشاء کو مؤخر کرنا کیسا ہے؟
جواب:
   عشاء کی نماز رات کے آخری حصہ میں پڑھنے سے اگرچہ نماز ادا ہوجاتی ہے، لیکن     بلا عذر اس طرح کرنا مکروہ ہے۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، فصل في شرائط الأركان 1/ 325:
   وأما العشاء: فالمستحب فيها التأخير إلى ثلث الليل في الشتاء، ويجوز التأخير إلى نصف الليل، ويكره التأخير عن النصف.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة 1/ 226:
   ثم قيل تأخيرها إلى نصف الليل مباح، وإلى ما بعده مكروه لما فيه من تقليل الجماعة ،وقيل تأخيرها إلى ما بعد ثلث الليل مكروه، وقيل يستحب تعجيل العشاء في الصيف لقصر الليالي، فيغلب عليهم النوم، فيؤدي إلى تقليل الجماعة.
3. الجوھرة النيرة لأبي بكر الحدادي، كتاب الصلاة، مطلب في الأوقات المستحبة للصلاة 1/ 118:
   قوله: (وتأخير العشاء إلى ماقبل ثلث الليل) والتاخير إلى نصف الليل مباح، وإلى ما بعد النصف مكروه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:233
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26




@123طویل المیعادقرضہ مال زکوٰۃ سے منہا کرنے کا حکم

سوال:
میرے پاس کل پچیس لاکھ روپے تھے، میں نے پچاس لاکھ روپے کی گاڑی خریدلی، اس میں دس لاکھ روپے نقد دیئے اور بقایا چالیس لاکھ روپے ادا کرنے کے لیے میں ہر ماہ پچاس ہزار روپے ادا کروں گا، اب میرے پاس کل سرمایہ پندرہ لاکھ رہ گیا اور بقایا چالیس لاکھ روپے ہیں، تو اب یہ پندرہ لاکھ جو میرے پاس نقد کی شکل میں ہے، اس میں زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا یا نہیں؟
جواب:
جب قرضہ طویل المیعاد ہوتا ہے، تو اس میں صرف ایک سال کی قسطوں کے بقدرِ مال نصاب سے منہا کیا جاتا ہے، باقی قرضہ منہا نہیں کیا جاتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں ایک سال کی ادا طلب قسطوں یعنی چھ لاکھ (600000) کی رقم منہا کرکے باقی پیسوں یعنی نو لاکھ (900000) روپے کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار،كتاب الزكاة 3 /208:
(وسببه) أي: سبب افتراضها(ملك نصاب حولي) نسبه للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب.
أقول: إنه خرج باشتراط الحرية، على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك
بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارع عن دينه له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج، أوللعبد ولو كفالة أو مؤجلا.
قال ابن عابدين تحت قوله:(أو مؤجلا إلخ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي، وقال: وعن أبي حنيفة لايمنع، وقال الصدر الشهيد: لا رواية فيه، ولكل من المنع وعدمه وجه، زاد القهستاني عن الجواهر: والصحيح أنه غير مانع.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي،كتاب الزكاة، الفصل العاشر في بيان مايمنع وجوب الزكاة 2/ 293:
قال اصحابنا رحمهم الله: کل دین له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة، سواء كان الدين للعباد، أو لله تعالى کدین الزکاة.
وفي مجمع الأنهر لداماد أفندي، كتاب الزكاة، باب شرط وجوب الزكاة 1/ 193:
(فارغ) صفة النصاب (عن الدين) والمراد دين له مطالب من جهة العباد سواء كان الدين لهم، أو لله تعالى، وسواء كانت المطالبة بالفعل، أو بعد زمان، فينتظم الدين المؤجل، ولو صداق زوجته المؤجل إلى الطلاق أو الموت وقيل: لا يمنع؛ لأنه غير مطالب به عادة بخلاف المعجل.
وفي الجوهرة النيرة لأبي بكر الحدادي، كتاب الزكاة 1/ 286:
(ومن کان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) … (وإن كان ماله أكثر من الدين زكي الفاضل إذا بلغ نصابا)لفراغه عن الحاجة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:232
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26