@123ڈاکخانہ کے ذریعہ دینی کتب بھیجنا کیسا ہے؟
سوال:
ڈاکخانہ کے ذریعے جو دینی کتب بھیجے جاتے ہیں اس بھیجنے کے دوران ان دینی کتب پر لوگ بیٹھتے ہیں اور ادھر ادھر باقی سامان کی طرح پھینکتے رہتے ہیں، ڈاکخانہ والے کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اس کی بے ادبی ہوگی، مگر پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ہماری کتابی بھیج دے، تو اب اس صورت میں کو ن گناہ گار ہوگا، ڈاکخانہ والے یا کتابیں منگوانے والے، یا وہ لوگ جو اس کے اوپر بیٹھتے ہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ دینی کتب کا ادب واحترام ہر ایک پر لازم ہے، دینی کتب پر بیٹھنا ان کو ادھر ادھر پھینکنا اور بے حرمتی کرنا بڑا گناہ ہے، تاہم بوقتِ ضرورت ڈاکخانہ کے ذریعے دینی کتابیں بھیجنا جائز ہے، لہٰذا پوری احتیاط کے ساتھ کتابیں کاٹن میں پیک کرکے ان پر لکھ دیا جائے، کہ یہ دینی کتابیں ہیں، اس کے باوجود بھی اگر کوئی لاپرواہی کرکے بے ادبی کرے گا، تو وہ گناہ گار ہوگا۔
حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/ 212:
من التعظيم أن لا يمد رجله إلى الكتاب وفي التجنيس المصحف إذا صار كهنا أي عتيقا وصار بحال لا يقرأ فيه وخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن … بساط أو غيره كتب عليه الملك لله يكره بسطه واستعماله إلا إذا علق للزينة ينبغي أن لا يكره.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة، كتاب الاستحسان 5/ 321:
وإذا حمل المصحف أو شيء من كتب الشريعة على دابة في جوالق، وركب صاحب الجوالق على الجوالق، لا يكره.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة 1/ 655:
(كره) تحريما (استقبال القبلة بالفرج) ولو (في الخلاء) بالمد: بيت التغوط، وكذا استدبارها (في الأصح،(أو إلى مصحف أو شيء من الكتب الشرعية إلا أن يكون على موضع مرتفع عن المحاذاة).
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:272
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30