Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: November 2023 - Darul Ifta Mardan Month: November 2023 - Darul Ifta Mardan

@123 ایڈوانس زکوۃ ادا کرنا

سوال:
میرے پاس گیارہ تولہ سونا ہے، جس کی زکوۃ میں رجب کے مہینے میں ادا کرتا ہوں، پچھلے سال رجب میں نے آئندہ سال کی زکوٰۃ بھی ادا کرلی، تو شرعی لحاظ سے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ جب آدمی نصاب کا مالک ہو جائے، تو زکوۃ اس  کے ذمہ واجب ہوجاتی ہے، اور سال گزرنے پر اس کا ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے، اگرسال پورا ہونے سے پہلے زکوۃ ادا کرے  تب بھی جائز ہے، لہذا مذکورہ صورت میں آپ کی زکوۃ کی ادائیگی درست ہے، البتہ سال مکمل ہونے کے بعد حساب کتاب کر لینا چاہیے، اگر حساب کتاب کے بعد پتہ چلا کہ زکوۃ کم دی گئی تھی تو کمی کو پورا کر لینا چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوی الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة 1/ 176:
وکما یجوز التعجیل بعد ملك النصاب واحد عن نصاب واحد، يجوز عن نصب كثيرة، كذا في فتاوى قاضي خان.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، فصل في الغنم 2/ 390:
(ولو عجل ذو نصاب لسنين، أو لنصب، صح)
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم 2/ 293:
(ولو عجل ذو نصاب) زکاته (لسنين، أو لنصب، صح) لوجود السبب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:159
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-27

 




@123 موبائل کے ذریعے نکاح کرنا

سوال:
ایک لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں ،مگر لڑکی کے والدین اس پر راضی نہیں ہیں،اب یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم موبائل کے ذریعے نکاح  کرلیں گے، اور لڑکے کاکہنا ہے کہ جب لڑکی موبائل پر بات کرے گی،تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہی لڑکی ہے،جس سے نکاح کر رہا ہوں تو اس طرح نکاح کرنا جائز ہے؟
جواب:
چونکہ نکاح کے منعقد  ہونے کے لیے عاقدین یا ان کے وکلاء کا ایجاب وقبول کرتے وقت مجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور موبائل فون کے ذریعے نکاح کرتے ہوئےیہ شرط نہیں پائی جاتی، اس لیے موبائل  پر نکاح منعقد نہیں ہو سکتا ہے، البتہ اگر موبائل  کے ذریعے لڑکی کسی اور کو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کر ے، اور پھر وہ وکیل اور لڑکا مجلس میں دو گواہوں کے سامنےایجاب وقبول کر لیں، تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔

حوالہ جات:
لما  في الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح 3/ 14:
ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس.
قال ابن عابدين تحت قوله: (اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد.
وفيه أيضا: 3 /21، 22:
(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا).
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب النكاح، فصل شرائط الركن، أنواع منها شرط الانعقاد 2/ 232:
(وأما) الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:158
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-23

 




@123باپ کا کیا ہوا نکاح بلوغت کے بعد ختم کرنا

سوال:
زید نے اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح غیر کفو میں کردیا تو لڑکی بالغ ہونے پر اپنا نکاح فسخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ والد کی شفقت چونکہ اولاد کے لیے کامل ہوتی ہے؛ اس لیے شریعت نے نابالغ لڑکے یا لڑکی کے نکاح کا اختیار اس کو دیا ہے، اور والد کے کئے ہوئے نکاح کو بہر صورت معتبر مانا ہے، اس وجہ سے بیٹا یا بیٹی کو بلوغت کے بعد اس قسم نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها 1 / 294:
ولو زوج ولده الصغير من غير كفء بأن زوج ابنه أمة، أو ابنته عبدا، أو زوج بغبن فاحش بأن زوج البنت، ونقص من مهرها، أو زوج ابنه، وزاد على مهر امرأته جاز.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، فصل في الأكفاء في النكاح 3/ 144:
(قوله ولو زوج طفله غير كفء أو بغبن فاحش صح، ولم يجز ذلك لغير الأب والجد) يعني لو زوج الأب الصاحي ولده الصغير أمة، أو بنته الصغيرة عبدا، أو زوجه، وزاد على مهر المثل زيادة فاحشة، أو زوجها، ونقص عن مهر مثلها نقصانا فاحشا، فهو صحيح من الأب والجد دون غيرهما عند أبي حنيفة، ولم يصح العقد عندهما على الأصح؛ لأن الولاية مقيدة بشرط النظر، فعند فواته يبطل العقد، وله: أن الحكم يدار على دليل النظر، وهو قرب القرابة، وفي النكاح مقاصد تربو على المهر.
وفي الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب النكاح، باب في الأولياء والأكفاء 1/ 193:
فإن زوجهما الأب، أو الجد يعني الصغير والصغيرة، فلا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:157
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-23

 




@123قرض واپس نہ ملنے کی صورت میں زکاۃ کا حکم

سوال:
ایک عورت کا تین تولہ سونا تھا، اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء میں اس کا شوہر، بیٹا اور دو(2) بیٹیاں اور ماں زندہ ہیں، جب شوہر نے دوسری شادی کی، تو اس دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا ہی زیور حق مہر میں دے دیا، جبکہ بچے اس کے سب نابالغ تھے، صرف اتنا بتایا کہ یہ ٹھیکا بڑی بیٹی کا ہے، یہ واپس کرنا ہے، لیکن اس دوسری بیوی نے کچھ عرصہ بعد بتایا، کہ اس کا اپنا بیٹا جب بیمار ہوا تھا، تو اس نے فروخت کیا ہے، اب اس صورتِ حال میں بڑی بیٹی بالغ ہوچکی ہے، تو کیا اس کو زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں عورت کے وفات ہونے پر اس نے ترکہ میں تین تولہ سونا اور اس کے علاوہ دیگر جتنا کچھ نقد وغیرہ چھوڑا ہے ان سب کو اڑتالیس (48) برابر حصوں میں تقسیم کرکے شوہر کو بارہ(12) حصے، ماں کو آٹھ (8) حصے، بیٹے کو چودہ(14) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کے سات سات(7) حصے بنتے ہیں، لہذا بڑی بیٹی کا صرف سونے میں جو حصہ بنتا ہے، وہ تقریبا25. 5 ماشے سونا ہیں، پس اگر اس لڑکی کے پاس اس کے علاوہ کچھ نقد رقم یا سونا یا چاندی یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو کہ ان  سب کو ملا کر 52.5تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتا ہو، اور جو سونا قرض ہے اس کے ملنے کی قوی امید بھی ہو، تو اس کے لیے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر اس کو اپنا قرض سونا یا اس کی قیمت ملنے کی امید نہ ہو، اور اس کے علاوہ اس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو نصاب کو پہنچتا ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، اور اس كے ليے لينا۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 420:
والذي له دين مؤجل على إنسان إذا احتيج إلى النفقة، يجوز له أن يأخذ من الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، وإن كان الدين غير مؤجل، فإن كان من عليه الدين معسرا يجوز له أخذ الزكاة … وإن كان المديون موسرا معترفا لا يحل له أخذ الزكاة،وليس عنده نصاب فاضل في الفصلين.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز 2/ 268:
(والغارم من لزمه دين) أو له دين على الناس لا يقدر على أخذه، ولیس عندہ نصاب فاضل في الفصلين.
وفي النهر الفائق لعمر بن إبراهيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 1/ 460:
وفي الخانية: أن من له مؤجل إذا احتاج إلى النفقة، يجوز له أخذ الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، ولو كان حالا إلى أن الذي عليه الدين معسر، يجوز له الأخذ في أصح الأقاويل؛ لأنه بمنزلة ابن السبيل، ولو كان موسرا معترفا، لا يحل.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، باب المصارف 1/ 188:
(ومنها الغارم) وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:156
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-23

 




نفلوں کی جماعت کرانا کیسا ہے؟

سوال:
   بعض حفاظ رمضان میں تراویح کے بعد نفل کی جماعت میں ختم قرآن کرتے ہیں، تو  کیا یہ جائز ہے؟
جواب:
   نفل نماز باجماعت پڑھنا تداعی کے ساتھ ہو یعنی امام کے علاوہ کم از کم چار مقتدی ہوں مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر امام کے علاوہ مقتدی چار سے کم ہوں  تو باجماعت نوافل پڑھنے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الإمامة، فصل في الجماعة 1/ 83:
    التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب الإمامة 2 /342:
    (الجماعة سنة مؤكدة للرجال) … وفي التراويح سنة كفاية، وفي وتر رمضان مستحبة على قول، وفي وتر غيره وتطوع على سبيل التداعي مكروهة.
قال ابن عابدين تحت قوله:(على سبيل التداعي) بأن يقتدي أربعة فأكثر بواحد.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الإمامة  1 /604:
   وأصل هذا أن التطوع على سبيل التداعي يكره في الأصل للصدر الشهيد، أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية االمسجد لا يكره، وقال شمس الأئمة الحلواني: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق، وفي الأربع اختلف المشايخ، والأصح أنه يكره.
4. إعلاء السنن لشيخ ظفر أحمد العثماني، كتاب الصلاة، باب كراهة الجماعة في النوافل سوى التراويح ألخ، تحت الرقم: 1826، 7/ 89:
   عن زيد بن ثابت، أن النبي قال: صلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل الصلاة صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة.
قلت: فثبت أن الجماعة في النوافل خلاف الأصل، والأداء على خلاف الأصل لا يخلو عن الكراهة، فالجماعة في النوفل مكروهة … ومقتضى هذا الدليل أن تكره الجماعة في النفل والوتر مطلقا، إلا أنا قيدناه بالتداعي، وهو أن يدعو بعضهم بعضا، وفسره الفقهاء بالكثرة …وفي ”الأصل“ للصدر الشهيد: أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد، لا يكره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر155
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19




123@غیر مستحق کا کسی سے زکوۃ لے کر بعد میں فقراء میں تقسیم کرنا

سوال:
اگر کوئی مستحقِ زکوۃ نہ ہو، لیکن پھر بھی زکوۃ وصول کرے، لیکن اس کو اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لاتا، بلکہ آگے کسی مستحقِ زکوۃ کو یہ رقم دیتا ہے، گویا یہ وصول کرنے والا بغیر کہے اپنے آپ کو وکیل بناتا ہے، تو کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ مذکورہ شخص چونکہ مالدار ہے اس لیے اس شخص کا مذکورہ طریقے سے زکوۃ لے کر فقیروں میں تقسیم کرنا درست نہیں، البتہ اگر یہ شخص مالک کو بتا دے کہ یہ میں کسی اور کے لیے لے رہا ہوں، اور وہ بخوشی اس کو قبول کر کے اس کو وکیل بنا دے تو ایسی صورت اس کے لیے زکوۃ وصول کرکے فقراء میں تقسیم کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 189:
وكذا لو كان عنده من المصاحف وهو يحتاج إليه وإن كان لا يحتاج إليه وهو يساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه ولا يجوز له أخذها.
وفي الجوهرة النيرة أبو بكر بن علي اليمني الحنفي، كتاب الزكاة، باب شروط وجوب الزكاة 1/ 115:
لا يجوز صرف الزكاة إليه إذا كانت تساوي مائتي درهم وسواء كانت الكتب فقها أو حديثا أو نحوا وفي الخجندي إذا كان له مصحف قيمته مائتا درهم لا تجوز له الزكاة لأنه قد يجد مصحفا يقرأ فيه.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب شروط وجوب الزكاة 2/ 222:
وإنما يفيد ذكر الأهل في حق مصرف الزكاة فإذا كانت له كتب تساوي مائتي درهم، وهو محتاج إليها للتدريس وغيره يجوز صرف الزكاة إليه، وأما إذا كان لا يحتاج إليها، وهي تساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه اهـ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر154
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19

 




123@زکوۃ کی رقم سے خریدی گئی کتابیں صرف استعمال کے لیے دینا

سوال:
زکوۃ کی رقم سے اہلِ مدرسہ کتابیں خرید کر طلباء کو صرف استعمال کے لیے دیتے ہیں اور سال ختم ہونے پر اہلِ مدرسہ ان سے واپس لیتے ہیں اس سے زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ زکوۃ کے روپیہ کے لیے تملیک یعنی مستحقِ زکوۃ کو مالک بنانا شرط ہے، اور کتب خرید کر طلباء کو صرف استعمال کے لیے دینے سے تملیک نہیں پائی جاتی اس  لیے مذکورہ صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی، زکوۃ کی درست ادائیگی کے لیے ان کو باقاعدہ بااختیار مالک بنانا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المختار، كتاب الزكاة، باب المصرف 2 /345،344:
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).
وفيه ايضا، كتاب الزكاة، باب المصرف 2 /271:
وحيلة التكفين بها التصدق على فقير، ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما، وكذا في تعمير المسجد.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف 1/ 188:
ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر153
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19

 




سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا

سوال:
   ایک مرتبہ فرض نماز کے بعد دعا ہوجائے، تو پھر امام کا نماز کی سنتوں کے بعد دوبارہ اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   امام کو فرض نماز کے بعد دعا کرلینی چاہیے، سنتوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے، بلکہ سنتوں کے بعد دعا انفرادی طورپر کرنی چاہیے کیونکہ فرض نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد سنت اور نفل نماز انفرادی طورپر ادا کی جاتی ہے، لہذا اس کے بعد اجتماعی دعا مانگنا نبی کریمﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا ضروری ہے، تاہم سنت اور لازم نہ سمجھتے ہوئے کبھی کبھار اگر کسی نے سنتوں کے بعد دعا مانگ لی، تو اس کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
1. إعلاء السنن لظفر أحمد العثماني، كتاب الصلاة، بيان ما يقرأ إذا فرغ من الصلاة 3/ 205:
   ورحم الله طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حيث واظبوا على أن الإمام، ومن معه يقومون بعد المكتوبة بعد قرائتهم: (أللهم أنت السلام ومنك السلام إلخ)، ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل يدعو الإمام عقب الفاتحة جهرا بدعاء مرة ثانية، والمقتدون يؤمنون على ذلك، وقد جرى العمل منهم بذلك على سبيل الالتزام والدوام حتى أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومين ضروري واجب…ومن لم يرض بذلك يعزلونه عن الإمامة ويطعنونه، و             لا يصلون خلف من لا يصنع بمثل صنيعهم، وأيم الله! إن هذا أمر محدث في الدين.
2. سنن أبي داود، باب ركعتي المغرب، أين تصليان، الرقم: 1301:
   عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يطيل القراءة في الركعتين بعد المغرب حتى يتفرق أهل المسجد.
3. معارف السنن، بيان الأحاديث الواردة في الدعاء بعد الصلاة وحكمها 3 /124:
    ثم إن ما راج في كثير من بلاد الهند الجنوبية الدعاء بكيفية مخصوصة بعد الرواتب: يستقبل الإمام المقتدين، ويدعون رافعي أيديهم، ثم ينادي الإمام بصوت حال: الفاتحة، فيقرأ هو والمقتديون الفاتحة، ثم يصلون على النبي ﷺ وبعضهم يتفنن فيه فيقول: إلى روح النبي الكريم ﷺ الفاتحة، ويواظبون على هذا طول أعمارهم في جميع صلواتهم، ويلتزمونه التزام واجب، وينكرون على تحقيق معنى الإنصراف عن اليمين واليسار بعد الصلاة الإمام وماموم لا يفعل ذلك، وربما يفضى بهم الإنكار إلى خصام شديد وجدال قبيح، بل يؤدي إلى قبائح وفظائع من الجهالات الفاحشة، ففي مثل هذه يقال إنه بدعة تضمنت بدعات كثيرة، لا أرى لمثل هذا وجهة من السنة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر152
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19




123@ولی اقرب کی غیر موجودگی میں ولی ابعد کا نکاح کرانا کیسا ہے؟

سوال:
ہندہ کا باپ فوت ہوگیا، اور ہندہ کا چچا اپنے شہر سے مسافت شرعی سے زیادہ فاصلے پر گیا ہے، اب ہندہ کی والدہ نے ہندہ کا نکاح خود کر دیا، چچا کو اطلاع نہ دی، تو کیا یہ شرعا جائز ہے؟
جواب:
شرعا اگرچہ ولایت میں چچا ماں سے مقدم ہے، لیکن اگر چچا اتنا دور ہو کہ اس کے آنے تک انتظار کرنے میں مناسب رشتہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو والدہ کا کیا ہوا نکاح درست ہے، اور اگر اتنا دور نہ ہو، تو ایسی صورت میں والدہ کا کیا ہوا نکاح چچا کی اجازت پر موقوف ہوگا، اگر اس نے اجازت دے دی تو نکاح درست ہے ورنہ درست  نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب الولي 3/ 78،76:
(الوالي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه) وهو من يتصل بالميت حتى المعتقة (بلا توسطة أنثى) بيان لما قبله (على ترتيب الإرث والحجب)… (فإن لم يكن عصبة فالولاية للأم) ثم لأم الأب وفي القنية عكسه…(وللولي الأبعد التزويج بغيبة الأقرب) فلو زوج الأبعد حال قيام الأقرب توقف على إجازته ولو تحولت الولاية إليه لم يجز إلا بإجازته بعد التحول.
وفي التاتارخانية عالم بن العلاء الهندي، كتاب النكاح، الفصل معرفة الأولياء 4/ 91:
وإن زوج الصغيرة أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:150
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-17

 




@123گونگا اپنی بیوی کو کیسے طلاق دےگا؟

سوال:
گونگے آدمی کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کی کیا صورت ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ جو شخص پیدائشی گونگا ہو یا بعد میں گونگا ہوگیا ہو اور اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہو، اور اس کے اشارے جانے پہچانے ہوں اور وہ لکھنے پر قادر نہ ہو، تو اگر اس نے اپنی بیوی کو آواز کے ساتھ ایسے اشارے سے طلاق دی، جسے لوگ طلاق سمجھتے ہوں تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، لیکن اگر وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو، تو اس کی طلاق لکھنے سے ہی پڑے گی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطلاق، مطلب في تعريف السكران وحكمه 3/ 241:
ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس، أو طرأ عليه ذلك، ودام حتى صارت إشارته مفهومة، وإلا لم يعتبر… ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لا يكتب، وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه، أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق وفيه سبعة فصول، الفصل الأول في الطلاق الصريح 1 / 354:
ويقع طلاق الأخرس بالإشارة يريد بالأخرس الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة كذا في المضمرات… وإذا كان الأخرس يكتب كتابا يجوز به طلاقه كذا في الهداية في مسائل شتى.
وفی تبيين الحقائق عثمان بن علي الزيلعي الحنفي، کتاب الطلاق 2/ 196:
وطلاق الأخرس بالإشارة إن كانت تعرف؛ لأنه يحتاج إلى ما يحتاج إليه الناطق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:149
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-17