Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: October 2023 - Darul Ifta Mardan Month: October 2023 - Darul Ifta Mardan

سفر سے واپسی پر انسان کب مقیم بنتا ہے؟:

سوال:
   مردان کا کوئی شخص راولپنڈی جائے، اور واپسی میں جب وہ سوات موٹروے پر آکر بخشالی کے قریب والے انٹر چینج پر عصر کی نماز پڑھنا چاہے، تو  قصر پڑھے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟
جواب:
   مسافر آدمی اس وقت مقیم سمجھا جاتا ہے، جب وہ اپنے شہر کے حدود میں داخل ہو جائے، آج کل فقہاء نے حدود شہر کی تعیین کسی شہر کے میونسپل کمیٹی سے کیا ہے اورمذکورہ صورت میں بخشالی انٹر چینج چونکہ مردان کے میونسپل کمیٹی کے حدود سے باہر ہے، اس وجہ سے وہ مسافر ہوگا، اور نماز ِقصر ادا کرے گا، البتہ اگر یہ شخص انٹرچینج کے قریب آبادی کا رہنے والا ہے، تو انٹرچینج سےداخل ہو کر وہ مقیم بن جائے گا اور پوری نماز ادا کرے گا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب: صلاة المسافر 2/ 728:
   (من خرج من عمارة موضع إقامته)… (قاصدا)… (ميسرة ثلاثة أيام ولياليها)…  (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة)… (صلى الفرض الرباعي ركعتين)… (حتى يدخل موضع مقامه) إن سار مدة السفر، وإلا فيتم بمجرد نية العود؛ لعدم استحكام السفر.
قال ابن عابدين تحت قوله: (حتى يدخل موضع مقامه) أي: الذي فارق بيوته سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء حاجته؛ لأن مصره متعين للإقامة فلا يحتاج إلى نية، جوهرة،  ودخل في موضع المقام ما ألحق به كالربض كما أفاده القهستاني.
قوله: (إن سار إلخ) قيد لقوله : ”حتى يدخل“ أي: إنما يدوم على القصر إلى الدخول إن سار ثلاثة أيام.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 1/ 153:
   وكذا إذا عاد من سفره إلى مصره لم يتم حتى يدخل العمران.
3. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 226:
   وکذا إذا عاد من سفره إلى مصر لم يتم حتى يدخل العمران.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:125
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9

 




دوائی سے بے ہوش ہونے کی حالت میں قضا شدہ نمازوں کا حکم:

سوال:
   آج کل بعض بوتلوں میں ایسی ادویات شامل کی جاتی ہیں، جن سے مریض کو بےہوشی ہو جاتی ہے، یا آپریشن کے بعد ایسے انجکشن لگائے جاتے ہیں، جن سے چوبیس(24) گھنٹے یا اس سے زیادہ بے ہوشی ہوتی ہے، اور جب وہ انجکشن آپریشن میں لگائے جاتے ہیں، تو اس میں بے ہوشی اور زیادہ ہوتی ہے، اور چھ نمازوں یا اس سے زیادہ وقت اسی حالت میں گزر جاتا ہے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس بے ہوشی میں جو نمازیں فوت ہوئی ہیں ان کی قضا کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ بے ہوشی دو قسم کی ہے: ایک وہ جو مصنوعی طریقے سے ہو یعنی دوائیوں وغیرہ کے ذریعے سے، اور دوسری وہ جو من جانب اللہ غیر اختیاری ہو، پہلی قسم کی بے ہوشی کا حکم یہ ہے کہ  یہ بے  ہوشی چاہے کتنی ہی لمبی ہو، اس دوران جتنی نمازیں فوت ہو جائیں، ان تمام نمازوں کی قضا کرنا ضروری ہے، چاہے چھ نمازوں سے کم ہوں یا زیادہ، اور دوسری قسم کی بے ہوشی کا حکم یہ ہے جب وہ چوبیس (24) گھنٹوں سے زیادہ ہوجائے، یعنی اس کی وجہ سے کم از کم چھ نمازیں فوت  ہو جائیں، تو ان نمازوں کی قضا لازم نہیں، اور اگر پانچ یا ان سے کم نمازیں فوت ہو ئی ہوں، تو قضا کرنا لازم ہے، مذکورہ صورت میں چونکہ یہ بے ہوشی مصنوعی طریقے سے ہے، اس لیے اس کی وجہ سےفوت شدہ تمام نمازوں کی قضا کرنا لازمی ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب: صلاة المريض 2/ 692:
   (ومن جن أو أغمي عليه) ولو بفزع من سبع، أو آدمي (يوما وليلة، قضى الخمس، وإن زاد وقت صلاة) سادسة (لا) للحرج … (زال عقله ببنج أو خمر) أو دواء (لزمه القضاء وإن طالت)؛ لأنه بصنع العباد كالنوم.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب صلاة المريض 2/ 208:
   قوله: (ومن جن أو أغمي عليه خمس صلوات قضى، ولو أكثر لا) … أطلق في الإغماء والجنون، فشمل ما إذا كان بسبب فزع من سبع، أو خوف من عدو، فلا يجب القضاء إذا امتد إجماعا؛ لأن الخوف بسبب ضعف قلبه، وهو مرض إلا أنه يرد عليه ما إذا زال عقله بالخمر، أو أغمي عليه بسبب شرب البنج، أو الدواء، فإنه لا يسقط عنه القضاء في الأول وإن طال اتفاقا؛ لأنه حصل بما هو معصية، فلا يوجب التخفيف، ولهذا يقع طلاقه، ولا يسقط أيضا في الثاني عند أبي حنيفة؛ لأن النص ورد في إغماء حصل بآفة سماوية، فلا يكون واردا في إغماء حصل بصنع العباد؛ لأن العذر إذا جاء من جهة غير من له الحق، لا يسقط الحق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:124
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9




نماز میں دو سورتوں کے درمیان ایک سورت چھوڑنا:

سوال:
   ایک امام نے مغرب کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۂ ضحیٰ پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۂ والتین پڑھی، درمیان میں سورۂ انشراح چھوڑ دی، تو کیا اس کی نماز ہوگئی یا نہیں؟
جواب:
   فرض نماز كی دو رکعتوں میں پڑھی جانے والی دو سورتوں کے درمیان جان بوجھ کر ایک چھوٹی سورت چھوڑنا مکروہ ہے، اور چھوٹی سورت سے مراد وہ سورت ہے، جس سے دو رکعتيں ادا نہ کی جا سکتی ہوں، البتہ بڑی سورت کا چھوڑنا مکروہ نہیں، لہٰذا مذکورہ صورت میں سورۂ انشراح چونکہ بڑی سورت ہے، اس لیے نمازمیں کوئی کراہت نہیں آئی۔

حوالہ جات:
 1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، فصل في القراءة 2/ 329:
   لا بأس أن يقرأ سورة، ويعيدها في الثانية، وأن يقرأ في الأولى من محل، وفي الثانية من آخر ولو من سورة إن كان بينهما آيتان فأكثر، ويكره الفصل بسورة قصيرة.
2. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الصلاة، فصل يكره للمصلي سبعة وسبعون شيئا 1/ 128:
   (و) يكره (فصله بسورة بين سورتين قرأهما في ركعتين) لما فيه من شبهة التفضيل والهجر، وقال بعضهم: لا يكره إذا كانت السورة طويلة، كما لو كان بينهما سورتان قصيرتان.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:124
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9

 




اذان میں ”حا“ کی جگہ”ھا“ پڑھنا کیسا ہے؟:

سوال:
   ایک بندہ اذان میں تجویدی غلطیاں کرتا ہے، یعنی ”حا“ کی جگہ ”ھا“ پڑھتا ہے، تو کیا اس اذان کا اعادہ واجب ہے، یا نہیں؟
جواب:
   اگر مؤذن اذان میں ایسی غلطی کر رہا ہو کہ جس سے معنی بالکل بدل جائے، تو ایسی صورت میں اذان واجب الاعادہ ہوگی، لیکن اگرغلطی معمولی ہو، جس سے معنی میں بہت فرق نہ آتا ہو، جیسے ”حا“ کی جگہ ”ھا“ پڑھے، تو اس سے اگرچہ اذان ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ، لیکن اس طرح اذان دینا مکروہ ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب الأذان 2/ 66:
   (ولا ترجيع) فإنه مكروه، ”ملتقی“ (ولا لحن فيه) أي: تغني بغير كلماته، فإنه لا يحل فعله وسماعه كالتغني بالقرآن.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الأذان، الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتها 1/ 63:
   ويكره التلحين، وهو التغني بحيث يؤدي إلى تغير كلماته، كذا في شرح المجمع لابن الملك.
3. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الصلاة، باب الأذان 1/ 78:
   (ويكره التلحين) وهو التطريب، والخطأ في الإعراب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:123
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9

 




کیا مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے استنجاء کرنا لازم ہے؟:

سوال:
   کوئی عورت حالتِ استحاضہ میں ہو، اور سفر کرتے ہوئے راستے میں نماز کا وقت آجائے، تو کیا اس پر استنجا کرنا لازم ہے، یا نہیں؟
جواب:
   مستحاضہ پر عام حالات میں استحاضہ کی وجہ سے استنجاء کرنا لازم نہیں، تاہم اگر استحاضہ کا خون اپنے حدود سے تجاوز کر چکا ہو تو اس کو پانی یا ٹشو وغیرہ سے صاف کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 373:
   قوله وتتوضأ المستحاضة ومن به سلس البول… لوقت كل فرض وقيد بالوضوء؛ لأنه لايجب عليها الاستنجاء لوقت كل صلاة، كذا في الظهيرية أيضا.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، المقدار المعفو عنه من النجاسة 1/ 232:
   ولنا ما روي عن عمر رضي الله عنه أنه سئل عن القليل من النجاسة فى الثوب، فقال: إذا كان مثل ظفري هذا، لا يمنع جواز الصلاة؛ ولأن القليل من النجاسة مما لايمكن الإحتراز عنه… ولأنا أجمعنا على جواز الصلاة بدون الاستنجاء بالماء… ولهذا قدرنا بالدرهم على سبيل الكناية عن موضع خروج الحدث.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:122
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6




نا بالغ بچوں کو مقتدی بناکر جماعت کرانا کیسا ہے؟:

سوال:
   اگر کسی جگہ بالغ مقتدی موجود نہ ہوں، تو صرف نا بالغ بچوں کو مقتدی بنا کر جماعت کرانے سے جماعت کا ثواب ملے گا؟  
جواب:
   اگر یہ بچے نا بالغ ہیں، لیکن سمجھ دار ہیں، تو ان کو مقتدی بنا کر نمازپڑھانے سے جماعت کا ثواب مل جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الإمامة 2/ 344:
   (وأقلها اثنان) واحد مع الإمام، ولو مميزا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (وأقلها اثنان)؛ لحديث ”اثنان فما فوقها جماعة“…(ولو مميزا) أي: ولو كان الواحد المقتدي صبيا مميزا.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، صلاة الجماعة وأحكامها 1/ 385:
   وأما بيان من تنعقد به الجماعة، فأقل من تنعقد به الجماعة اثنان، وهو أن يكون مع الإمام واحد؛ لقول النبيﷺ: ”الاثنان فما فوقهما جماعة“… وسواء كان ذلك الواحد رجلاً أو امرأة أو صبيا يعقل؛ لأن النبيﷺ سمى الاثنين مطلقا جماعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:121
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6

 




حائضہ کے لیے قرآن کریم کی تفسیر چھونےکا حکم:

سوال:
   عورت حالتِ حیض میں تفسیر پڑھ سکتی ہے، یا نہیں؟ اور تفسیر کو ہاتھ لگا سکتی ہے، یا نہیں؟ 
جواب:
   عورت کے لیے حالتِ حیض میں ایسی تفسیرکا چُھونا  کہ جس میں تفسیر زیادہ ہو جائز ہے، لیکن آیتِ قرآن کو زبان سے پڑھنا یا اس کو چُھونا جائز نہیں، البتہ جس تفسیر میں تشریح کم ہو اور قرآنی عبارت وترجمہ کی مقدار زیادہ ہو، یا تفسیر اور قرآنی آیات دونوں برابر ہوں، تو اس کو کپڑے وغیرہ کے بغیر چھونا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب: يطلق الدعاء على ما يشتمل الثناء 1/ 353:

   وقد جوز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث، ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا، ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (ولو قيل به) أي: بهذا التفصيل، بأن يقول: إن كان التفسير أكثر لا يكره، وإن كان القرآن أكثر يكره.
2. النهر الفائق لعمر بن إبراهيم بن نجيم، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 134:
   (ومنع الحدث) الأصغر (المس): مس القرآن فقط؛ لإطلاق ما تلونا، قيد به؛ لأن مس كتب الحديث والفقه الأصح أي: أنه لا يكره عند الإمام، ويكره عندهما، كذا في”الخلاصة“ وفي ”شرح الدرر“ ورخص المس باليد في الكتب الشرعية إلا التفسير، ذكره في ”مجمع الفتاوى“ وغيره، ولا يخفي أن مقتضى ما في ”الخلاصة“ عدم الكراهة مطلقا؛ لأن من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، ومن نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، وهذا يعم التفسير أيضا إلا أن يقال: إن القرآن فيه أكثر من غيره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:120
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6

 




پینٹ یا ڈسٹمپر شدہ دیوار پر تیمم کرنا:

سوال:
   جس دیوار پر پینٹ یا ڈسٹمپر وغیرہ لگا ہوا ہوایسی دیوار پر تیمم کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی چیز سے تیمم کے جواز کے لیے اصول یہ ہیں کہ تیمم ان چیزوں سے کرنا درست ہے جو پاک ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی جنس میں سے ہوں، زمین کی جنس سے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ جلانے سے راکھ نہ بنے اور پگھلانے سے پگھلے نہیں، جیسے ریت، اینٹ ، سنگ مرمر، ماربل وغیرہ اور اگر زمین کی جنس سے نہ ہوں یعنی جلانے سے جل کر راکھ ہوجائیں یا پگھلانے سے پگھل جائیں، جیسے سونا، چاندی، لکڑی، کپڑا، شیشہ، لوہا، تانبا، اناج وغیرہ، تو ایسی چیزوں سے تیمم کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ ان پر گرد و غبار موجود ہو، چونکہ پینٹ اور ڈسٹمپر آگ میں جلانے سے جل جاتے ہیں، اس لیے  مذکورہ صورت میں یینٹ یا ڈسٹمپر کی ہوئی دیوار پر گرد وغبار موجود ہو تو اس پر تیمم کرنا درست ہے ورنہ درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختارللحصكفي، كتاب الطهارة، باب التيمم 1/ 451:
   (أو نفساء بمطهر من جنس الأرض وإن لم يكن عليه نقع) أي: غبار.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (من جنس الأرض) الفارق بين جنس الأرض وغيره، أن كل ما يحترق بالنار، فيصير رماداً كالشجر والحشيش،أو ينطبع، ويلين كالحديد والصفر والذهب والزجاج ونحوها، فليس من جنس الأرض.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، بيان ما يتيمم 1/ 182:
   ويجوز التيمم بالغبار بأن ضرب يده على ثوب أو لبد أو صفة سرج، فارتفع غباراً، وكان على الذهب أو الفضة أو على الحنطة أو الشعير أو نحوها غبار فتيمم به أجزأه في قول أبي حنيفة ومحمدؒ.
3. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل الخامس في التيمم 1/ 374:
   ولا يجوز التيمم بما ليس من جنس الأرض نحو الذهب والفضة والرصاص والزجاجة والحنطة والشعير وسائر الحبوب والأطعمة، وفي الخلاصة: والبورق، وفي الظهيرية: والعنبر والكافور والمسك والحناء، وفي السراجية: والنشارة… وقالو أيضا في الحنطة والشعير وسائر الحبوب إذا كان عليه غبار، جاز التيمم، وإنه صحيح أيضا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:119
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-6

 




موزوں پر مسح کی مدت ختم ہونے سے پہلے اتارنے کا حکم:

سوال:
   موزوں پر مسح کرنے کے بعد ان کو اتاردیا، تو  پاؤں دھوئے بغیر ان کو پہن کر مسح کرنا درست ہے؟
جواب:
   موزوں پر مسح کرنے کے بعد اگر با وضو ہونے کی حالت میں ان کو اتار دیا، تو صرف پاؤں دھو کر موزہ پہننا درست ہے، اور اگر بے وضو ہونے کی حالت میں اتاردیا تو دوبارہ وضو کرکے پہننا ضروری ہے، لہذا مذکورہ صورت میں پاؤں دھوئے بغیر موزے پہننا درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، مطلب بيان مدة المسح 1/ 88:
   ومنها: نزع الخفين؛ لأنه إذا نزعها فقد سرى الحدث السابق إلى القدمين، ثم إن كان محدثا يتوضأ بكماله، ويصلي، وإن لم يكن محدثا يغسل قدميه لا غير، ولا يستقبل الوضوء.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين 1/ 39:
   وإذا نزع الخف، وهو طاهر لا يجب عليه، إلا غسل رجليه، وكذا إذا انقضت مدة مسحه، هكذا في الهداية.
3. المبسوط لشمس الدين السرخسي، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين 1/ 102:
   وإن مسح على الخفين، ثم نزع أحدهما، انتقض مسحه في الرجلين، وعليه غسلهما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:118
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-5

 




قربانی کا گوشت امام مسجد کو کھلانا کیسا ہے؟:

سوال:
   ہمارے علاقے میں عام طور پر ائمہ حضرات کو محلے والے جو کھانا کهلاتے ہیں، وہ ”المعروف کالمشروط“ کے قاعدے کے مطابق اجرت کا حصہ ہوتا ہے، صدقہ اور تبرع اس لیے نہیں ہے، کہ اگر باری والے کھانا لانا بھول جائے، یا اچھا کھانا نہ پکائے، تو لوگ بھی برا بھلا کہتے ہیں، اور امام صاحب بھی ناراض ہوتےہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا قربانی کا گوشت ائمہ کو کھلا سکتے ہيں یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ قربانی کا گوشت کسی کو بطور اجرت کھلانا اگرچہ جائز نہیں لیکن محلہ والوں  کا پیش امام کو قربانی کا گوشت  کھلانا اجرت یا تنخوا کی  بنیاد پر نہیں ہوتا،  بلکہ ایک وعدہ کی شکل میں  تبرع اور احسان کے طور پر ہوتا ہے، لہذا محلہ والوں کا  پیش امام کو قربانی کا گوشت کھلانا یا دینا درست ہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار، فروع 329/6:
ولا يعطى أجر الجزار منها «لقوله – عليه الصلاة والسلام – لعلي – رضي الله عنه – تصدق بجلالها وخطامها ولا تعط أجر الجزاز منها شيئا»
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الأضحىة 9/ 532:

   (ویأكل من لحوم الأضحية، ويطعم الأغنياء، ويدخر) لقوله عليه السلام:كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي، فكلو منها، وادخرو، ومتى جاز أكله، وهو غني جاز أن يؤكله غنيا.
3. درر الحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر خواجه أمين أفندي 57/1:
فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:117
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-5