Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan

کن کن چیزوں سے استنجاء کرنا درست ہے؟:

سوال:
کن کن چیزوں سے استنجاء اورطہارت حاصل کرنا چاہیے اور کن کن چیزوں سے نہیں ؟ 
جواب:
واضح رہے کہ استنجا ہر اس چیز سے کرنا جائز ہے، جو ناپاکی کو دور کرنے یا جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو: مثلا: پتھر، مٹی کا ڈھیلا، ریت، اینٹ کے ٹکڑے، روئی اور پرانا کپڑا وغیرہ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال کے بعد پانی کے ساتھ استنجا کیا جائے۔
 ہڈی، لید، گوبراور ہر ناپاک چیز اسی طرح پختہ اینٹ، ٹائل، ٹھیکرا، شیشہ، کوئلہ، جانوروں کے گھاس اور چارہ اسی طرح وہ پتھر یا ڈھیلا جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو، اسی طرح ایسا کاغذ جو لکھنے، پڑھنے کے قابل ہو، اس سے استنجا کرنا مکروہ ہے، تاھم آج کل خاص استنجا اور صفائی کی غرض سے ٹائلٹ پیپر بنایا جاتا ہے، اس سے استنجا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة 1/ 147:
یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقة والجلد وماأشبهها، ولا فرق بين أن يكون الخارج معتادا أو غير معتاد في الصحىح، حتى لو خرج من السبيلين دم أو قيح، يطهر بالحجارة ونحوها … والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غىر كشف العورة، وإن احتاج إلى كشف العورة، يستنجي بالحجر، ولا يستنجي بالماء … ويكره الاستنجاء بالعظم والروث والرجيع والطعام وورق الشجر والشعر، هكذا في التبيين.
وفي فتاوى التاتارخانية لعالم بن علاءالهندي، كتاب الطهارة 1/ 211، 212:
ويكره الاستنجاء … بالعظم والروث والطعام والخزف والآجر والفحم … الاستنجاء نوعان: أحدهما: بالماء، والثاني: بالحجر أو المدر أو ما يقوم مقامهما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل، وفي فتاوى الحجة: إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة، وإن لم يكن إلا بكشف العورة يستنجي بالأحجار ولا يستنجي بالماء.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة 1 /101 ،102
وأما بيان ما يستنجى به: فالسنة هو الاستنجاء بالأشياء الطاهرة من الأحجار، والأمدار، والتراب، والخرق البوالي، ويكره بالروث وغيره من الأنجاس … لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الاستنجاء بالروث والرمة، وقال من استنجى بروث أو رمة، فهو بريء مما أنزل على محمد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:56
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13

 




جڑواں بچوں کی ولادت میں نفاس کب سے شروع ھوگا؟:

سوال:
   جس عورت کے دو بچے دس دن کے وقفے سے پیدا ہوجائیں، تو عورت کا نفاس پہلے بچے سے شروع ہوگا یا دوسرے سے؟
جواب:
   دو بچوں کی ولادت کی درمیانی مدت اگر چھ (6) ماہ سے کم ہو، تو یہ دونوں بچے توأمين یعنی جڑواں کہلاتے ہیں، جن میں سے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے وہی نفاس ہوتا ہے،  لہذا مذکورہ صورت میں اس عورت کا نفاس پہلے بچے کی ولادت سے شروع ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصکفی، کتاب الطھارة، فصل في الحيض والنفاس 1/ 549:
   (والنفاس لأم توأمين من الأول) هما ولدان، بينهما دون نصف حول.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، فصل في النفاس1/ 161:
   أن المرأة إذا ولدت وفي بطنها ولد آخر فالنفاس من الولد الأول عند أبي حنيفةؒ وأبي يوسفؒ، وعند محمدؒ وزفرؒ من الولد الثاني وانقضاء العدة بالولد الثاني بالإجماع.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 190:
   ونفاس التوأمين من 0الأول) وهذا قول أبي حنيفةؒ وأبي يوسفؒ، وقال محمدؒ وزفرؒمن الولد الثاني.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:14
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13

 




مسوڑھوں سے خون نکلنے سے وضو کا حکم:

سوال:
   وضو کرنے کے بعد اگر مسوڑھوں سے خون نکلے، تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟
جواب:
   وضو کرنے کے بعد اگر مسوڑھوں سے خون نکلے اور تھوک کا رنگ غالب ہو یعنی بالکل سرخ ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر تھوک کا رنگ مغلوب یعنی زرد ہو، تو وضو نہیں ٹوٹےگا اور اگر تھوک اور خون کا رنگ برابر ہو یعنی سرخی مائل ہو تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوی الهندیة للجنة العلماء، کتاب الطهارة، فصل في نواقض الوضوء 1/ 11:
   وإن خرج من نفس الفم، تعتبر الغلبة بينه وبين الريق، فإن تساويا، انتقض الوضوء، ويعتبر ذلك من حيث اللون، فإن كان أحمر انتقض، وإن كان أصفر لا ينتقض.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة، وسننه أي: سنن الوضوء 1/ 69 :
   قوله: (أو دما غلب عليه البصاق): معطوف علی البلغم … قيد بغلبة البزاق؛ لأنه لو كان مغلوبا والدم غالب نقض؛ لأنه سال بقوة نفسه، وإن استويا نقض أيضا؛ لاحتمال سيلان بنفسه، أو أساله غيره فوجد الحدث من وجه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:21
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-11

 




خنثٰی مشکل کی میت کو کون غسل دے گا؟:

سوال:
   خنثٰی مشکل  کا انتقال ہو جائے، تو اس کو کون غسل دے گا؟
جواب:
   خنثٰی مشکل (جس آدمی میں مرد اور عورت دونوں کی علامات موجود ہوں) کو نہ مرد غسل دیں گے اور نہ خواتین، بلکہ اس کو تیمم کرایا جائے گا، البتہ اگر خنثیٰ مشکل چار سال یا اس سے کم عمر کا ہو تو اس کو خواتین بھی غسل دے سکتی ہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة 3/ 111:
   وییمم الخنثی المشكل لو مراهقا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (لو مراهقا) المراد به هنا من بلغ حدّ الشهوة، كما يعلم مما بعده.
2. النهر الفائق لعمر بن إبراهيم بن نجيم، كتاب الصلاة، الجنائز 1/ 385:
   والظاهر في الخنثى المشكل المراهق، أن يمم أيضا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:55
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12

 




وضو کے بعد سر کے بال منڈوانے سے وضو اور مسح کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص وضو کے بعد سر کے بال منڈوائے، تو کیا اس پر دوبارہ وضو یا سر کا مسح کرنا واجب ہے، یا نہیں؟
جواب:
   سر یا جسم کے کسی بھی حصہ کے بال کاٹنے سے چونکہ وضو یا مسح نہیں ٹوٹتا؛ اس لیے سر کے بال منڈوانے کے بعد دوبارہ وضو یا مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب: في معنى الاشتقاق وتقسيمة إلى ثلاثة أقسام 1/ 227:
   (ولا يعاد الوضوء) بل ولا بلّ المحل (بحلق رأسه ولحيته كما لا يعاد) الغسل للمحل، ولا الوضوء (بحلق شاربه وحاجبه وقلم ظفره).
2. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الطهارة، ص: 26:
   ولا يعاد الغسل، ولو من جنابة (ولا المسح) في الوضوء (على موضع الشعر بعد حلقه)؛ لعدم طروء حدث به، (و) كذا لا يعاد (الغسل بقص ظفره وشاربه)؛ لعدم طروء حدث، وإن استحب الغسل.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارة 1/ 38 :
   ولو أمر الماء علىرأسه ولحيته، ثم حلقهما، لا يلزمه إعادة المسح عليها، هكذا روى ابن سماعة في ’’نوادره‘‘ عن محمد رحمه الله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:54
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




ہوا نکلنے کے بعد استنجاء کرنے کا حکم:

سوال:
ہوا خارج ہونے سے استنجا کرنا چاہیے، یا صرف وضو کرنا کافی ہے؟
جواب:
ہوا خارج ہونے سے صرف وضو کرنا کافی ہے، استنجا کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ فقہائے كرام صرف ہوا نکلنے کی وجہ سے استنجا کرنے  کو بدعت  قرار دیا ہے۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصکفي، کتاب الطھارة، فصل الاستنجاء 1/ 599:
   إزالة نجس عن سبيل، فلا يسن من ريح.
   قال ابن عابدین تحت قوله: (فلا يسن من ريح ) لأن عينها طاهرة، وإنما نقضت لانبعاثها عن موضع النجاسة، ولأن بخروج الريح لا يكون على السبيل شيء، فلايسن منه، بل هو بدعة، كما في ”المجتبى“.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الاستنجاء 1/ 50:
   الاستنجاء على خمسة أوجه: … الخامس بدعة، وهو الاستنجاء من الريح، كذا في الاختيار شرح المختار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:52
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




وضومیں کوئی عضو خشک رہ جانے کا حکم:

سوال:
میں نے وضو کیا اور وضو کے بعد میں نے اپنی  ایڑی کو خشک پایا، تو اب دوبارہ وضو کرنا ضروری ہے، یا صرف ایڑی کو دھونا کافی ہے؟
جواب:
   اگر وضو میں کوئی جگہ خشک رہ جائے اور وضو مکمل کرنے کے بعد پتہ چلے تو یا آنے پر صرف اس جگہ کو دھونا کافی ہے، تمام وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

حواله جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الأول في فرائض الوضوء 1 /5:
   ولو بقيت على العضو لمعة لم يصبها الماء، فصرف البلل الذي على ذلك العضو إلى اللمعة جاز، كذا في الخلاصة.
2. الحلبي الكبير لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، باب فرائض الغسل، ص: 44:
   ولو تركها أي: ترك المضمضة أو الاستنشاق، أو لمعة من أي موضع كان من البدن ناسيا فصلى، ثم تذكر ذلك يتمضمض، أو يستنشق، أو يغسل اللمعة، ويعيد ما صلى إن كان فرضا؛ لعدم صحته، وإن كان نفلا فلا؛ لعدم صحة شروعه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:52
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




قرآن مجید سنانے کے لیے  نفلوں کی جماعت کرانا:

سوال:
   قرآن مجید سنانے کے لیے اگر دو حافظِ قرآن نفلوں کی جماعت کرالیں، تو یہ شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   نفل نماز کی جماعت اگر تداعی کی صورت میں ہو(جس  میں چار یا اس سے زیادہ مقتدی شریک ہوں)، تو یہ مکروہ ہے، اور اگر ایک یا دو مقتدی ہوں، تو مکروہ نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں نفلوں کی جماعت کرانا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر الختار، كتاب الصلاة، باب النوافل 2 /604:
   (ولا يصلى الوترو) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي: يكره ذلك، لو على سبيل التداعي؛ بأن يقتدي أربعة بواحد، كما في الدرر.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (أربعة بواحد) أما اقتداء واحد بواحد، أو اثنين بواحد فلا يكره.
2. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصلاة، الفصل التطوع 2/ 292:
   ولاىصلى التطوع بجماعة إلا في شهر رمضان، وعن شمس الأئمة السرخسي: أن التطوع بالجماعة، إنما يكره إذا كان على سبيل التداعي، أما لو اقتدى واحد بواحد أو اثنان بواحد لا ىكره.
3. الفتاوى الهندية للجنه العلماء، كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة 1/ 82:
   التطوع باجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره، وفي الأصل لصدر الشهيد: أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان، وإقامة لا يكره، وقال شمس الأئمة: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالإتفاق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:50
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




بغیر اذان کے جماعت کرانا:

سوال:
اذان کے بغیر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے اذان دینا سنتِ موكدہ ہے، اذان دیے بغیر اگرچہ نماز ادا ہو جاتی ہے، لیکن بلا عذر کے اس طرح کرنا مکروہ ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الأذان 2/ 60:
   (وهو سنة) للرجال في مكان عال (مؤكدة) هي كالواجب في لحوق الإثم، (للفرائض) الخمس (في وقتها، ولو قضاء).
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، فصل في الأذان1/ 378:
   وروي عن أبي حنيفة: في قوم صلوا في المصر في منزل أو في مسجد منزل، فأخبروا بأذان الناس وإقامتهم، أجزأهم، وقد أساءوا بتركها، فقد فرق بين الجماعة والواحد؛ لأن أذان الحي يكون أذانا للأفراد، ولا يكون أذانا للجماعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:49
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




ہاتھ پر ایلفی وغیرہ  لگنے کے صورت میں وضو  کرنےکاحکم:

سوال:
   ہاتھ پر ایلفی یا سلوشن لگاہوا ہو، تو اس کے ساتھ وضو کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   ہاتھ پر ایلفی یا سلوشن لگا ہوا ہو، تو وضو سے پہلے اس کا اتارنا ضروری ہے، اس کے ہوتے ہوئے وضو درست نہیں ہوگا، البتہ وہ اتنا سخت لگا ہوا ہو کہ بآسانی جدا نہ ہورہا ہواور زیادہ رکڑنے کی صورت میں کھال اترنے یا زخمی ہونے کا اندیشہ ہو توہٹائے بغیر بھی وضو درست ہوگا۔

حواله جات:
1. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارة، باب الغسل 226/1:
   وإذا كان على ظاهر بدنه جلد سمك، أو خبز ممضوغ، قد جف، فاغتسل، ولم يصل الماء إلى ما تحته، لا يجوز.
2. الفتاوی الهندية، كتاب الطهارة، الفصل الأول في فرائض الوضوء 3/1:
وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلا عن الجامع الأصغر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:48
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12