کن کن چیزوں سے استنجاء کرنا درست ہے؟:
سوال:
کن کن چیزوں سے استنجاء اورطہارت حاصل کرنا چاہیے اور کن کن چیزوں سے نہیں ؟
جواب:
واضح رہے کہ استنجا ہر اس چیز سے کرنا جائز ہے، جو ناپاکی کو دور کرنے یا جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو: مثلا: پتھر، مٹی کا ڈھیلا، ریت، اینٹ کے ٹکڑے، روئی اور پرانا کپڑا وغیرہ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال کے بعد پانی کے ساتھ استنجا کیا جائے۔
ہڈی، لید، گوبراور ہر ناپاک چیز اسی طرح پختہ اینٹ، ٹائل، ٹھیکرا، شیشہ، کوئلہ، جانوروں کے گھاس اور چارہ اسی طرح وہ پتھر یا ڈھیلا جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو، اسی طرح ایسا کاغذ جو لکھنے، پڑھنے کے قابل ہو، اس سے استنجا کرنا مکروہ ہے، تاھم آج کل خاص استنجا اور صفائی کی غرض سے ٹائلٹ پیپر بنایا جاتا ہے، اس سے استنجا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة 1/ 147:
یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقة والجلد وماأشبهها، ولا فرق بين أن يكون الخارج معتادا أو غير معتاد في الصحىح، حتى لو خرج من السبيلين دم أو قيح، يطهر بالحجارة ونحوها … والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غىر كشف العورة، وإن احتاج إلى كشف العورة، يستنجي بالحجر، ولا يستنجي بالماء … ويكره الاستنجاء بالعظم والروث والرجيع والطعام وورق الشجر والشعر، هكذا في التبيين.
وفي فتاوى التاتارخانية لعالم بن علاءالهندي، كتاب الطهارة 1/ 211، 212:
ويكره الاستنجاء … بالعظم والروث والطعام والخزف والآجر والفحم … الاستنجاء نوعان: أحدهما: بالماء، والثاني: بالحجر أو المدر أو ما يقوم مقامهما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل، وفي فتاوى الحجة: إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة، وإن لم يكن إلا بكشف العورة يستنجي بالأحجار ولا يستنجي بالماء.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة 1 /101 ،102
وأما بيان ما يستنجى به: فالسنة هو الاستنجاء بالأشياء الطاهرة من الأحجار، والأمدار، والتراب، والخرق البوالي، ويكره بالروث وغيره من الأنجاس … لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الاستنجاء بالروث والرمة، وقال من استنجى بروث أو رمة، فهو بريء مما أنزل على محمد.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:56
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13